ہٹلر کے اور ہمارے فاشزم میں فرق

سعیدالرحمن سنابلی

آج کافی لوگ بھارت کی موجودہ سرکار کو ہٹلر کی طرز پر چلنے والی فاشسٹ حکومت کا نام دیتے ہیں۔ اور پھر ایک بڑی تعداد یہ سوچ کر اطمینان سے بیٹھ جاتی ہے کہ ہٹلر کے فاشزم کی طرح اس کا بھی ایک دن خاتمہ ہوجائے گا۔ ہٹلر کی نازی پارٹی کی طرح بھارت کی فاشسٹ پارٹی بھی اپنی موت آپ مر جائے گی۔ یہ ایک خام خیالی بھی ہو سکتی ہے۔ ہاں ہٹلر کے فاشزم اور بھارت کی موجودہ سرکار کے رویوں میں بڑی حد تک مماثلتیں موجود ہیں۔ لیکن جو بنیادی فرق ہے وہ نظرانداز کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ فرق ہمارے ملک میں فاشزم کو وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جو جرمنی میں فاشزم کو نہ مل سکی۔

جرمنی میں ایک دائیں بازو کی بے وقعت سی پارٹی ہوا کرتی تھی۔ 1919 میں تیس سالہ سابق فوجی ایڈولف ہٹلر نے اس پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ آگے چل کر اس پارٹی کا نام نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی (نازی) پڑا۔ 1928 تک نازی بہت بڑی پارٹی نہیں تھی۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب جرمنی معاشی بحران سے گزر رہا تھا۔ بے روزگاری عام تھی۔ عوام موجودہ حکمرانوں سے مایوس ہو چکے تھے۔ ہٹلر بلا کا خطیب تھا۔ اس نے صورتحال کا فائدہ اٹھایا۔ اس نے پارٹی میں وہ روح پھونکی کہ یہی بے وقعت پارٹی چند سالوں کے اندر اندر جرمنی کی مقبول ترین پارٹی بن گئی۔ اور ہٹلر اس پارٹی کا اکیلا روح رواں تھا۔ وہ اپنی مقبولیت کی بنا پر 1933 میں جرمنی کا چانسلر بن گیا۔ اس نے چانسلر بنتے ہی اپوزیشن کو بالکل مفلوج کر کے رکھ دیا۔ اپوزیشن لیڈران کو یا تو قتل کروا دیا یا ان کی آواز بالکل دبا دی۔ قتل کے لیے عدالت جانے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی تھی۔ اس کے باوجود جرمنی میں اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے جرمنی کو معاشی بحران سے کافی حد تک باہر نکال دیا تھا۔ اور جرمنی سے بے روزگاری کا خاتمہ کر دیا تھا جس سے جرمن عوام اس کے دیوانے ہو گئے۔ اس نے جو بات کہی سب نے من وعن تسلیم کر لی۔ ہٹلر ایک متشدد قسم کا نسل پرست تھا۔ اس نے سامی النسل اقوام کی نسل کشی شروع کر دی۔ خصوصاً یہودیوں کی۔ یہود کے علاوہ اس نے روسیوں اور ادیواسیوں کا بھی قتل عام کروایا۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ نسل کشی دوسری عالمی جنگ میں بے ساختہ سرزد ہوگئی تھی۔ بلکہ نسل کشی کا باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا تھا۔ لوگوں کو قتل کرنے کے مراکز قائم کیے گئے تھے۔ قتل کیے جانے والوں کی لسٹ تیار کی جاتی تھی۔ ان کی لاشوں کو صابن وغیرہ بنانے کے لیے استعمال بھی کیا جاتا تھا۔ مرنے والوں کے قیمتی سامان، زیورات وغیرہ منظم انداز میں جمع کیے جاتے تھے۔ اس نسل کشی کی منصوبہ بندی کا آپ اس سے اندازہ کریں کہ دوسری عالمی جنگ کے اواخر میں جب نازی فوج ہولناک نقصانات اٹھانے کے بعد پسپا ہو رہی تھی، پورا جرمنی معاشی تنگی سے جوجھ رہا تھا۔ ان دنوں میں بھی ہٹلر کی نسل کشی باقاعدہ جاری تھی۔ بیل گاڑیوں اور چھکڑوں پر لاد لاد کے لوگ مقتل کی طرف لائے جاتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ نسل کشی اور ممالک کے ہتھیانے کے حق میں جواز بھی گھڑ لیا کرتا تھا۔ اس کی ہر ظالمانہ کارروائی کا اس کے پاس کوئی نہ کوئی جواز ہوتا تھا۔ اور جواز نہ گھڑ پاتا تو دھمکیاں دیتا تھا لیکن دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست فاش اور ہٹلر کی خودکشی کے ساتھ ہی ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی کا جرمنی سے صفایا ہو گیا۔

اب ہم جرمنی کے عوام کی طرف آتے ہیں جن کو ہٹلر نے گمراہ کر رکھا تھا، جو دوسری عالمی جنگ میں جنونی ہٹلر کے دست و بازو بنے رہے، جنھوں نے جرمنی میں ہورہی سامی النسل قوموں کی نسل کشی کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی۔ جن کے سپورٹ نے ہٹلر کو ایک بے لگام تانا شاہ بنا دیا۔ جن کے غلط فیصلوں نے جرمنی کی جمہوریت پر ایک بدنما دھبہ لگا دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا جرمن قوم پہلے سے اسی ذہنیت کی حامل تھی؟ کیا ہٹلر سے پہلے کبھی جرمنی کے عوام نے اس جیسے کسی جنونی قاتل کو اپنا سربراہ بنانے کا سوچا تھا جو اقلیتوں کی نسل کشی کرے اور اپنے جارحانہ اقدام سے سارے یورپ کو جنگ کی آگ میں جھونک دے؟ تو اس کا جواب ہے ‘نہیں’۔
مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب “سو عظیم آدمی” میں ہٹلر کے تذکرہ کے دوران لکھا ہے کہ “اس بات کے شواہد موجود نہیں ہیں کہ 1920ء یا 1930ء کی دہائیوں میں جرمنیوں کی خواہش یہی رہی کہ ان کی حکومت ایسی شدید حکمت عملیاں اختیار کرے، جیسی ہٹلر نے اپنائیں۔ نہ ایسا ہی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دوسرے جرمن سربراہ بھی ایسی سوچ کا مظاہر کرتے۔ نہ ہی ہٹلر کے دور کے واقعات سے متعلق کوئی بیرونی مبصر صحیح پیشین گوئی کر سکتا تھا ۔” مطلب واضح ہے کہ جرمن عوام کی نیت وہ نہ تھی جو کچھ ہٹلر نے انجام دیا۔ بلکہ یہ ہٹلر کی اثر انگیزی تھی جس نے جرمن عوام کو ایک عرصے تک اندھا بنا رکھا تھا۔ جرمن عوام ہٹلر سے پہلے اور ہٹلر کے بعد بھی جمہوریت میں یقین رکھتے تھے۔ اور ہٹلر کی موت کے بعد سے جرمنی میں پہلے سے مزید مستحکم جمہوریت قائم ہے۔

اب اپنے دیش بھارت کی طرف آتے ہیں۔ ہم اگر ماضی میں زیادہ پیچھے نہ جائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے دیش میں بھی ایک دائیں بازو کی کمزور سی پارٹی ہوا کرتی تھی۔ اسے عوام میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل نہیں تھی۔ لیکن اچانک ایک ہوشیار لیڈر نے پورے ملک میں رتھ یاترا نکال کر اس بے جان پارٹی میں روح پھونک دی۔ دیش کا سارا متشدد دایاں بازو اس کی طرف کھنچا چلا آیا۔ اور وہ مردہ پارٹی زندہ ہو گئی۔ اس نے حکومت بھی حاصل کر لی۔ لیکن پھر بھی اسے وہ اکثریت حاصل نہ ہوئی جو ہٹلر کو حاصل تھی۔ ایک عرصہ حکومت کرنے کے بعد یہ پارٹی حکومت سے بے دخل کر دی گئی۔ لیکن اس کے حکومت سے بے دخل ہونے کے بعد نہ تو وہ پارٹی مری۔ نہ ہی اس کے لیڈران میدان سیاست سے بے دخل ہوئے۔ نہ تو متشدد دائیں بازو سے دیش کو نجات ملی۔ بلکہ دیش میں فرقہ واریت بڑھتی گئی۔ اقلیتوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی رہیں۔ خصوصاً مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات بھڑکائے جاتے رہے۔ جن میں انھیں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات اٹھانے پڑے۔ دایاں بازو اندر اندر کام کرتا رہا۔ حکومتیں ان کی ریشہ دوانیوں کو نظر انداز کرتی رہیں۔ کیونکہ خود حکومتوں اور تمام تر سرکاری اداروں میں ان کی پشت پناہی کرنے والے افراد موجود تھے۔ ملک ایک طرف معاشی ترقی کے راستے پر تیزی کے ساتھ گامزن تھا تو دوسری طرف کرپشن نے عوام کی کمر توڑ رکھی تھی۔ مہنگائی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ عوام موجودہ حکومت سے بیزار ہو چکے تھے۔ اسی بیچ دائیں بازو کی پارٹی کو پھر موقع مل گیا۔ عوام کے مذہبی جنون اور بلاؤ کی خواہش نے پھر حکومت ان کے ہاتھ میں تھما دی۔ ملک کا بھائی چارہ جو آزادی بعد سے ہی شدت پسند اکثریت کی نفرت کا شکار ہوتا چلا آیا تھا اپنی آخری سانسیں لینے لگا۔ ملک کی معاشی حالت بہتر ہونے کے بجائے بد سے بدتر ہونے لگی۔ اور ہوتی جا رہی ہے۔ بینک ڈوبتے جا رہے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیوں کا دیوالیہ نکلتا جا رہا ہے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف مذہبی جنون بھی اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ ملک کی اکثریت کے دلوں میں اقلیتوں کے خلاف، خصوصاً مسلمانوں کے تئیں اتنی نفرت بھر دی گئی ہے کہ مسلمانوں کو دنیا میں کہیں بھی تکلیف پہنچ جائے ان کے دن باغ باغ ہو جاتے ہیں۔ ان کے دل نفرت سے اتنے بھرے ہوئے ہیں کہ تھوڑا سا اشارہ پا کر یہ اپنی نفرت کا عملی طور پر اظہار شروع کر دیتے ہیں۔ اکثریتی فرقے میں بھی ایک بہت بڑی تعدا ہے جو اس ماحول کو پسند نہیں کر رہی ہے لیکن وہ اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اور کچھ ہیں جو آواز اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ باقی دو چند بولتے تو ہیں لیکن ان کی باتوں کو ہلکا کرنے کے لیے مختلف القاب تیار ہیں۔ اپوزیشن بالکل ختم ہو چکی ہے۔ عدالتیں حکومت کے دباؤ سے باہر نہیں نکل پا رہی ہیں۔ پورا پولس ڈیپارٹمنٹ فرقہ پرستوں کے اشارے پر ناچ رہا ہے۔ حکومت ایسے قوانیں بنا رہی ہے جو عموماً تمام اقلیتوں کو اور براہ راست مسلمانوں کے وجود کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اور آئندہ کے لیے بھی اقلیتوں کے تئیں حکومت کے ارادے نیک معلوم نہیں ہوتے۔ اور عوام کی یہ حالت ہے کہ وہ یا تو حکومت کے اقدامات کا کھل کر سپورٹ کر رہے ہیں یا غافل ہیں یا ڈر کے مارے خاموش بیٹھے ہیں۔ ملک کے انہی حالات کی وجہ سے ملک مسلسل تباہی کی طرف جا رہا ہے۔

اب ہم دیکھیں کہ کس طرح ہماری فاشسٹ حکومت ہٹلر کی فاشسٹ حکومت سے مختلف ہے۔ ہٹلر کی فاشسٹ حکومت وقتی تھی جو ہٹلر کے ساتھ فنا ہو گئی۔ لیکن ہمارے ملک کی جو سیاسی صورتحال ہے وہ کوئی آٹھ دس سال کی پیداوار نہیں ہے۔ اس کے پیچھے صرف دو چار لوگوں کا ہاتھ نہیں ہے۔ بلکہ اس کے پس منظر میں لگ بھگ سو سال پرانی تاریخ ہے۔ اور جہاں تک بھارتی عوام کا تعلق ہے یہ جرمن عوام سے بہت مختلف ہیں۔ جرمن قوم بہر حال سیاسی اور سماجی شعور کے حوالے سے آج کے بھارتیوں سے درجہا بہتر تھے۔ جہاں تک بھارتی عوام کا تعلق ہے، یہ سیاسی طور پر بالکل کورے اور سماجی شعور سے بالکل عاری ہیں۔ بے حسی کا عالم یہ ہے کہ جب تک خود کے سر پر مصیبت نہ سوار ہو جائے ہوش میں نہیں آتے۔ اور مصیبت ٹل جانے کے بعد بہت جلدی اسے بھول بھی جاتے ہیں۔ جمہوریت کی ناکامی کے جتنے پہلو ہوسکے ہیں وہ سب کے سب ہمارے ہاں موجود ہیں۔ ایسے میں ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں پاؤں پسارتا فاشزم آسانی سے ختم ہو سکے گا۔

بلکہ ہمارے دیش کے فاشزم کے پس منظر میں جو تاریخ ہے اس پر نگاہ ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے لیے اصل چیلنج تو وہ نظریہ ہے جو ملک کی آزادی کے پہلے سے ہی ملک میں پاؤں پسار رہا ہے۔ ملک کی تقسیم کا سانحہ اسی نظریہ کی نتائج میں سے ایک تھا۔ پھر تقسیم کے بعد سے اب تک کے مسلم کش فسادات، دلتوں پر ہونے والے مظالم، عیسائی مشنریوں پر حملے، ملک کے انتظامی اداروں میں فرقہ پرستوں کا دخل، میڈیا ہاؤسز کا جانبدارانہ رویہ، دائیں بازو کا برسراقتدار آنا، اپوزیشن کا مفلوج کر دیا جانا، ہر مخالفت میں اٹھنے والی آواز کو دبانے کی کوشش کرنا اور پھر حکومت کا اقلیتوں کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرنا سب کے سب اسی نظریہ کی کرم فرمائیاں ہیں۔ بلکہ اگر انہی کی مانیں تو یہ سب کچھ ہندو راشٹر کی طرف بڑھتے قدم ہیں۔ لہذا ہمارے دیش میں یہ سوچ کر خاموش بیٹھے رہنا کہ یہ فاشسٹ سرکار ہٹلر کی سرکار کی طرح خود بخود ختم ہو جائے گی اور ملک کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ ہماری غلط فہمی ہوگی۔ ممکن ہے یہ فاشسٹ پارٹی اقتدار سے بے دخل کر دی جائے اور کوئی دوسری پارٹی حکومت میں آ جائے۔ جیسا کہ اس سے پہلے تھی۔ لیکن وہ نظریہ جو اصل چیلنج ہے، جو موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھی موجود تھا، جوں کا توں برقرار رہے گا۔

آپ کے تبصرے

3000