ریاض الدین مبارک

روبرو

کسی نئی چیز سے متعلق اصحاب نظر کا مختلف الرائے ہونا عام سی بات ہے مگر استحسانی تواتر کے باوجود ایفیل ٹاور کی طرف آبجیکٹیو نظر سے دیکھنا بڑی خصوصیت ہے – یہ خصوصیت ریاض صاحب کے اندر پوری جرات کے ساتھ موجود ہے – انٹرویو میں عام طور پر ایک شخص کے کئی سوال اور کسی ایک شخصیت کی طرف سے ان سوالوں کے جواب ہوتے ہیں – مگر زیر نظر انٹرویو ذرا الگ ہے سوال ایک واٹس گروپ “دبستان اردو” کے کئی ممبرس کے ہیں اور جواب اسی گروپ کے ایک متحرک رکن جناب ریاض مبارک کے – انٹرویو میں مختلف موضوعات پر تجرباتی نظریات مذکورہ شخصیت کو کب ایک صحت مند نقطہ نظر میں تبدیل کردیتے ہیں اندازہ نہیں ہوپاتا – یہ آدھی ملاقات ہر قاری کے دل میں پوری زیارت کی حسرت جگائے گی – اللہ ایسی انسپائرنگ شخصیات ہمیں اور نصیب کرے – آمین (ایڈیٹر)



س: ریاض بھائی! سب سے پہلے اپنا تعارف کرائیں، آپ کا نام کس نے رکھا اور اس کی کوئی خاص وجہ؟

ج: میرا نام ریاض الدین بن مبارک حسین ہے، عموماً اختصار کی غرض سے میں ریاض مبارک ہی لکھا کرتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے نہیں پتہ یہ نام کس نے رکھا، والدین جب تک با حیات تھے تب تک یہ سوال کبھی میرے ذہن میں بھی نہیں آیا اور نہ میں پوچھ سکا اس لیے اس سلسلے میں کچھ بتانے سے قاصر ہوں۔
نوگڑھ سے شمال کی طرف برڈ پور سے پچھم پہلا گاؤں جو بسالت پور کے نام سے موسوم ہے، یہی میرا گاؤں ہے۔ ہمارے علاقے میں خریف کی فصل بہت اچھی ہوتی ہے اس کے علاوہ ربیع کی فصل بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ ہمارے یہاں ایک خاص قسم کا چاول ہوتا ہے جس کا دھان کالا کالا ہوتا ہے اور چاول سفید سرخی مائل اور خوشبودار جسے ہم لوگ ‘کالا نمک’ کہتے ہیں ویسے ہمارا پورا علاقہ جسے ‘مٹکا’ کے نام سے جانا جاتا ہے چاول کے لیے مشہور ہے۔ سینچائی کا بھی اچھا نظم ہے جس کی وجہ سے زراعت اچھی ہوجاتی ہے اور پورا علاقہ بہت حد تک بحمد اللہ خوشحال ہے۔

س: آپ کے بچے کتنے ہیں؟ آپ کے بچّے اب اسکول میں پڑھتے ہوں گے، آپ نے گاؤں کے مکتب میں تعلیم حاصل کی ۔ دونوں میں کیسا فرق محسوس کرتے ہیں؟

ج: الحمد للّٰہ میرے پانچ بچے ہیں تین بیٹیاں اور دو بیٹے۔ میرے بچوں کو گاؤں کا ماحول نہ مل سکا جس کی تھوڑی سی کسک ہے، بہت مختصر عرصے کے لیے جاتے ہیں اور گاؤں کے رنگ وآہنگ سے آشنا ہونے سے پہلے چلے آتے ہیں۔ ہم جس ماحول میں اور شہر کی جس لوکالیٹی میں رہتے ہیں سچ کہیں تو آج گاوں کی تعلیم شہر سے قدرے بہتر ہے، چونکہ غم روزگار ہم پرعفریت کی طرح سایہ فگن ہے اس لیے ہم کو فرق تو بہت کچھ نظر آئے گا ورنہ فی زمانہ گاؤں اور شہر میں اگر آمدنی محدود ہے تو کوئی فرق نہیں!

س: ریاض بھائی! اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیں!!!
ج : زمینداری کے ملبے پہ پڑا میرا خاندان کئی گاؤں پر محیط ہے اور کچھ افراد نیپال میں بھی سکونت پزیر ہیں، علمی اعتبار سے کوئی خاص بات نہیں ہے پورے خاندان میں دو انجینئر، دو وکیل ایک ڈاکٹر اور دو عالم دین ہیں جن میں سے ایک میں خود ہوں اور بفضل رب کریم دو پوسٹ گریجویٹ بھی ہیں اور ان میں میرا نام پہلے نمبر پہ آتا ہے۔ مجموعی طور پر ہمارا پورا خاندان زراعت پیشہ ہے۔ والدین میں سے کوئی بھی بقید حیات نہیں ہے۔ اللہ تعالی دونوں پہ رحم فرمائے اور جنت الفردوس نصیب کرے۔ والد صاحب لکھے پڑھے نہیں تھے البتہ دادا جان کی تعلیم اس دور کے حساب سے کافی اچھی تھی۔ ان کے بڑے بھائی انگریزی دور اقتدار میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی پوسٹ پہ تھے اور پورے علاقے پہ ان کا دبدبہ تھا۔

س: ابتدائی تعلیم مکتب کی ہے یا گھر کی؟
باقاعدہ مدرسہ سے پہلے کہاں تک تعلیم حاصل کی تھی؟
ج: ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی اور اپنے مکتب کا پہلا فارغ کہلانے کا حقدار ہوں۔ درجہ پانچ کے بعد سراج العلوم جھنڈا نگر کا قصد کیا اور پورے چار سال وہاں مولانا عبدالروف جھنڈا نگری رحمہ اللہ کے زیر سایہ رہا۔ میں بہت چھوٹا تھا شاید ہاسٹل میں سب سے چھوٹا۔ وہاں کے اساتذہ بہت مشفق تھے اور ہمارا بڑا خیال رکھتے تھے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے پہلی بار انگریزی کی تعلیم جھنڈا نگر میں نصیب ہوئی تھی میں بالکل ناواقف تھا اور ششماہی امتحان میں ناکام رہا تھا لیکن بعد میں محنت کی اور سالانہ امتحان میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے بعد بفضل رب کریم کبھی فیل نہیں ہوا۔ سراج العلوم کے میرے ایک ہم سبق اور دیرینہ دوست جناب الطاف الرحمن ہیں جو اب دکتور ہوگئے ہیں اور مدینہ منورہ کے جامعہ اسلامیہ میں پروفیسر ہیں۔ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی خاطر کئی کتابیں مکمل ازبر کر لیتے تھے۔ وہ بھی کیا دن تھے! سراج العلوم کے دن بہت بھلے اور خوشگوار تھے۔ اساتذہ میں سے بیشتر اب نہیں ہیں۔ اللہ ان سب کو غریق رحمت کرے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے!
عربی کی تیسری جماعت کے بعد 1985 میں دلی کا رخ کیا اور پڑاؤ معھد التعلیم الاسلامی میں ڈالا جو آج جامعہ اسلامیہ سنابل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک بات قابل ذکر یہ ہے کہ معھد میں عموماً اونچی درجات کے طلبہ کو ان کی مطلوبہ جماعت میں داخلہ نہیں ملتا تھا اور بحمد اللہ میرا داخلہ میری مطلوبہ جماعت رابعہ میں ہوجانے کی وجہ سے پورے معھد میں سب کی نظر میں آ گیا تھا۔ یہ صرف اللہ کی توفیق تھی وللّٰہ الحمد! معھد میں ہم نے بہت محنت کی اور بہت کچھ حاصل کیا۔ وہاں کے اساتذہ اور مؤسس ادارہ مولانا عبدالحمید رحمانی سے درسیات کے علاوہ اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

س: جامعہ سراج العلوم کو کیوں الوداع کہا تھا؟ اس وقت اتنی ہی تعلیم تھی یا اور اسباب تھے؟
ج: جامعہ سراج العلوم کافی پرانا ادارہ ہے اس وقت بھی وہاں مکمل فراغت تک کی تعلیم ہوتی تھی۔ میں نے چونکہ دلی میں معھد کا نام بہت سنا تھا کچھ لوگ بار بار اکسا رہے تھے ندوہ چلو یا معھد، پر میں نے دلی کی مناسبت سے معھد کو فوقیت دی اور چلا گیا اس کے علاوہ کوئی اور خاص وجہ نہیں تھی۔

س: مولانا جھنڈانگری کی بابت کچھ دلچسپ باتیں یاد ہوں تو شیئر کیجیے؟
ج: مولانا عبدالروف خطیب الہند ایک بحر بیکراں تھے ان پر لکھنے کے لیے وقت چاہیے۔ بہر کیف وہ ایک بزرگ تھے اور ہم نادان بچے۔ بسا اوقات ان سے شرارت کر بیٹھتے تھے، مار بھی کھاتے تھے اور پیار بھی پاتے تھے۔
مولانا کی پیرانہ سالی کی عمر تھی، ان کا بیشتر وقت مدرسے میں ہی گزرتا تھا یہاں تک کہ وہ اپنے آبائی وطن کدربٹوا بھی بہت کم جاتے تھے۔ مدرسے کی نظامت کوئی چھوٹا کام تو تھا نہیں سو ہمہ وقت اسی میں مشغول رہتے۔ وہ دور ہمارے لڑکپن کا تھا اور اس وقت ہمارے شعور میں پختگی بالکل نہیں تھی اس لئے جی بھر شرارت کرتے تھے۔ اب وہ شرارتیں یاد کرکے صرف ہنسی آتی ہے، یقین مانئے انہیں ذکر کرنے میں انقباض محسوس ہورہا ہے۔ مولانا سے متعلق بہت سارے واقعات ہیں جنہیں ذکر کرنا مناسب نہیں۔ مولانا نے دانستہ اور نادانستہ اپنی خوش مزاجی سے ہم طلبہ کو سدا شادمان رکھا۔ ان سب کے باوجود ہم لوگ ان سے اپنی بساط بھر دل لگی کرتے اور کافی محظوظ ہوتے تھے۔ میری دانست میں مولانا بہت شریف اور نیک طینت تھے، بڑھاپے کے باوصف نمازیں مسجد جا کر اور بحالت قیام ہی ادا کرتے تھے۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے!

س: جامعہ سراج العلوم سے متعلق اپنی یادیں شیئر کریں، اس وقت کا ماحول، اساتذہ اور دیگر سرگرمیاں؟
ج: اس وقت کے سراج العلوم میں کچھ اہم کردار تھے:
مولانا عبد الودود دفتری اور ان کی کھنکتی ہوئی آواز۔
منشی حشم اللہ کافی منکسر المزاج اور مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک اور طلبہ کے ہمنوا
منگرا باورچی اور بھیکو واچ مین
ان سب کی اپنی اپنی مخصوص شناخت تھی۔
مولانا عبدالودود اور ناظم صاحب میں آئے دن تکرار ہوجاتی تھی اور بالآخر دفتری صاحب اپنی گھن گرج آواز میں مدرسے سے چلے جانے کی دھمکی دیتے تو ناظم صاحب ہار مان کر خاموش ہوجاتے تھے۔ یہ سب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں اللہ انھیں جنت نصیب کرے!

س: جامعہ سراج العلوم سے جب معھد منتقل ہوئے تو اوّل وھلہ میں آپ کو دونوں اداروں میں کیا فرق نظر آیا ؟

ج: مختصراً یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جامعہ سراج العلوم پر ایک گاوں کی چھاپ تھی اور معھد التعلیم الاسلامی جو مولانا آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر کے بینر تلے چلتا تھا اس کو شہر کی دمک اور چمک حاصل تھی۔ معھد کو مولانا عبدالحمید رحمانی صاحب نے بڑی آرزووں سے بنایا تھا اور وہ بالکل ابتدائی مراحل میں تھا اس لیے تعلیم پر نسبتاً زیادہ زور تھا اور دہلی کا ایڈوانٹیج بہر حال تھا۔

س: سنا ہے کہ جھنڈا نگر پر مختلف ادوار میں تحریکیوں کا کالا سایہ منڈلاتا رہا ہے . آپ کے دور میں کیا معاملہ تھا؟
ج: ہمارے دور میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا وہاں ہم نے کبھی کسی تحریکی کو اتنا فعال نہیں دیکھا جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ ان کا سایہ تھا۔ برعکس اس کے ان تحریکیوں کو ہم بہت کم جانتے تھے۔ مولانا رحمانی کا ہی جلوہ اتنا بکھرا ہوا تھا کہ کوئی دوسرا ان کے مقابل میں کہاں آتا۔

س: جھنڈا نگر کی تعلیم اور سنابل کی تعلیم میں کس طرح کا فرق محسوس کیا؟
ج: دونوں اداروں کا نہج ذرا ذرا مختلف تھا۔ سراج العلوم میں روایت پسندی زیادہ تھی جبکہ معھد نئے آہنگ سے آراستہ تھا۔ نصاب تعلیم معھد کا بہت مختلف تھا، چونکہ ادارہ نیا تھا اور ہمارے جانے سے صرف ایک سال پہلے بڑے پیمانے پر وہاں اسٹرائیک ہوچکی تھی اس لیے رحمانی صاحب بہت محتاط ہوگئے تھے اور اساتذہ سے لے کر طلبہ تک ہر کسی پر سخت توجہ دیتے تھے۔ معھد میں عربی کی جدید کتابیں، انگلش کا اچھا خاصا لٹریچر، سائنس اور ریاضیات کا بھی پیریڈ ہوتا تھا جو سراج العلوم میں نہ کے برابر تھا۔ مزید بر آں معھد میں تعلیمی سرگرمیاں زیادہ تھیں، طلبہ کی انجمن کافی فعال اور متحرک تھی۔ طرح طرح کے مسابقات میں شرکت کا موقعہ ملتا تھا۔

س: جامعہ دار الہدی یوسف پور سے بھی کچھ علمی استفادہ کا موقع ملا ہے؟
ج: گھر سے قریب اور ہمارے خاندان کے لوگوں کی کافی وابستگی ہونے کے باوجود وہاں تعلیم حاصل کرنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوسکا۔

س: کس قسم کے طلبہ میں شمار ہوتا تھا آپ کا؟
ج: بفضل رب کریم سراج العلوم اور معھد التعلیم الاسلامی کے ساتھ ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی یونیورسٹی ہر جگہ ممتاز طلبہ میں ہی شمار تھا اور یہ صرف اللہ کا کرم ہی ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔

س: اساتذہ میں آپ کس کس سے زیادہ متاثر ہوئے اور کیوں؟
ج: جھنڈا نگر میں مولانا سعید احمد ندوی کی ذات سے کافی متأثر تھا ان کا طرز تعلیم کافی مؤثر تھا، عربی زبان پہ ان کی گرفت اچھی تھی اور پہلی بار مجھ میں یہ احساس پیدا ہوا کہ عربی اچھی زبان ہے اس سے شغف مزید ہونا چاہیے۔ مولانا عبدالحنان فیضی صاحب کی شخصیت کافی پرکشش تھی ہمیں تفسیر اور منطق کے علاوہ اور بھی کچھ کتابیں پڑھاتے تھے۔ مولانا پان کے رسیا تھے، ان کے حجرے میں پان کا پٹارا ہمہ وقت رہتا تھا اور وہ کبھی پان کھائے بنا درس نہیں دیتے تھے۔ علمی صلاحیت بہت بلند تھی، تفسیر جلالین کا درس بہت ہی خوش اسلوبی سے پیش کرتے اور طلبہ کو اپنی علمی صلاحیتوں سے پورا فیض پہنچاتے۔ مولانا فضل حق مدنی بہت خوش مزاج اور ملنسار تھے ان کی شخصیت سے نرم خوئی اور انکساری کا درس ملا۔ مولانا رحمت اللہ اثری اور مولانا خورشید احمد صاحبان بھی غضب کی صلاحیت رکھتے تھے اور علمی طور پر سراج العلوم کی جان سمجھے جاتے تھے۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را!
معھد میں کئی اساتذہ تھے چونکہ اب ہمارے ذہن میں بھی تھوڑی بہت بالیدگی آ چکی تھی اس لیے اثر بھی زیادہ لینے لگے تھے۔ مولانا عبدالحمید رحمانی سے کافی متاثر تھا ان کی اردو یا عربی کی تقریر سنتا تو دل کہتا کاش میں بھی ایک شعلہ بیان مقرر ہوتا اور تاریخ کو نوک زبان پر رکھتا۔ مولانا شہاب اللہ مدنی کی شخصیت بھی کافی موثر تھی انھوں نے تعمیری تنقید کا ذوق پیدا کیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ڈاکٹر زبیر احمد فاروقی اور سر رفیع العماد فینان کافی موثر رہے زبیر فاروقی صاحب کے عربی انگریزی ترجمے کی مہارت رشک پیدا کرتی تھی ان کے ساتھ کئی ایک انٹرنیشنل کانفرنسوں میں مجھے کام کرنے کا موقعہ ملا اور بہت کچھ سیکھا۔ فینان صاحب کا لیکچر بہت امپریسیو ہوتا اور اپنے پیریڈ میں طلبہ کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے ۔ جبیب اللہ صاحب کا نام بھی کافی اہم ہے انھوں نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور جدید عربی طرز تحریر کو مد نظر رکھ کر اسے پڑھنے اور اسی طرز تحریر کو اپنانے کا ذوق پیدا کیا۔ ویسے ہر استاذ ایک اہم استاذ ہوتا ہے اور اس سے استفادہ کرنا طلبہ کا فریضہ ہے سو ہم کرتے رہے لیکن متاثر ہونا الگ بات ہے۔

س: ریاض بھائی آپ تو اپنے علاقے ہی کے نکلے. آپ سے کچھ ہی دور کونڈرا گرانٹ سے میرا تعلق ہے. بسالت پور کی اتنی گوناگوں شخصیت کے احوال پر واقفیت سے بڑی خوشی ہوئی ۔ ریاض بھائی یہ بتائیں کہ اردو عربی اور انگلش میں آپ کی استعداد اور صلاحیت کا راز کیا ہے اور اس کے لیے آپ کا نسخہ کیمیا کیا ہے؟
ج: مجھے بھی بڑی خوشی ہوئی! تھوڑی بہت جو استعداد ہے وہ سب رب کریم کا فضل ہے، بہت سارے مخلص اساتذہ کی یہ مرہون منت ہے اور کچھ اپنا بھی جذبہ شوق اور کوشش ناتمام اس میں شامل ہے۔

س: درسی کتابوں میں کس کتاب سے آپ متاثر ہوئے؟
ج: درسی کتابوں میں ازھار العرب اور البلاغة الواضحة سے کافی اثر لیا۔ اس کے علاوہ بلوغ المرام مجھے بہت عزیز تھی، اسی کتاب سے میں نے حدیث نبوی میں دلچسپی لینی شروع کی اور کچھ حدیثیں بھی یاد کی تھیں۔ جامعہ ملیہ میں میرا ایک سبجیکٹ انگلش لٹریچر تھا وہاں میکسیم گورکی کی ناول ماں The Mother شامل نصاب تھی اس کتاب نے بھی مجھے متاثر کیا چونکہ یہ کتاب سرمایہ داری نظام میں مزدوروں پر ظلم اور قہر پہ مبنی ہے اور اس سرمایہ دارانہ جبر سے نجات کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ تفسیر و تاریخ کی کتابیں مجھے بہت متاثر کرتی تھیں!

س: زندگی میں کس کتاب اور کس مصنف کی تحریروں نے آپ کے اندر انقلابی تبدیلی پیدا کی؟
ج: بد قسمتی سے اب تک کوئی انقلابی تبدیلی آئی ہی نہیں اس لیے یہ بتانا مشکل ہے کہ کس کتاب نے انقلابی اثر ڈالا ہاں مصنف کے بارے میں یہ ضرور ہے کہ مولانا آزاد، محمد اسحق بھٹی، مولانا ابوالاعلی مودودی اور مشتاق احمد یوسفی کی تحریریں کافی پسند آئیں۔

س: طالب علمی کے زمانہ میں کن موضوعات سے دلچسپی تھی؟
ج: ادبیات کے ساتھ ساتھ تاریخ سے بھی لگاؤ تھا، علم حدیث بھی کافی پسند تھا۔ منطق کا موضوع بالکل نہیں پسند آیا، زبانیں مجھے اکثر پسند آتی ہیں اس لیے عربی اردو اور انگریزی تینوں زبانوں میں خاصی دلچسپی تھی۔ مختصر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ادب کا موضوع میرا پسندیدہ موضوع تھا۔

س: آپ کے پسندیدہ شعراء، مصنفین اور مصلحین کون ہیں؟
ج: پسندیدہ شعراء:
عربی میں
زھیر بن ابی سلمی، امرؤ القیس، عمرو بن کلثوم، کعب بن زھیر، متنبی، ابوالعلاء المعری، جبران خلیل جبران، ابوالقاسم الشابی، حافظ ابراہیم، احمد شوقی اور نزار قبانی وغیرہ

اردو شعراء
میر تقی میر، مرزا محمد رفیع سودا، مرزا اسد اللہ خاں غالب، مومن خاں مومن، الطاف حسین حالی، سر محمد اقبال، حفیظ جالندھری، اسرار الحق مجاز، جوش، فیض احمد فیض، فراق، احمد فراز، شورش کاشمیری، جگن ناتھ آزاد، کرشن بہاری نور، احسان دانش، حمایت علی شاعر، خمار بارہ بنکوی اور سرور بارہ بنکوی وغیرہ۔

س: آپ نے دو یونیورسٹیوں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی یونیورسٹی سے استفادہ کیا۔ دونوں یونیورسٹیوں کے درمیان بالعموم تقابل اور عربی شعبوں کے درمیان بالخصوص تقابل کرتے ہوئے کیا کہنا چاہیں گے؟

ج: دونوں یونیورسٹیاں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں، جامعہ کی کل کائنات اس کا اپنا ایک کیمپس ہے اور کچھ اطراف میں موجود اس کی دیگرعمارتیں جبکہ دہلی یونیورسٹی کئی کالجز اور کئی کیمپس پر محیط ہے، دہلی یونیورسٹی میں تقریباً تمام شعبہ جات موجود ہیں اور طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بیرونی طلبہ بھی کافی تعداد میں ہوتے ہیں۔ اس کے بالمقابل جامعہ میں نسبتاً شعبہ جات کم ہیں، کوئی دوسرا کالج جامعہ کے زیر نگیں بالکل نہیں ہے، جامعہ کی اپنی ایک مخصوص شناخت ہے، بیشتر شعبوں میں مسلم اساتذہ اور طلبہ کی اکثریت نے جامعہ کو ایک اسلامی رنگ دے رکھا ہے جو ہر جگہ نظر آتا ہے، کیمپس میں ایک بہت شاندار اور خوبصورت مسجد نے اس اسلامی چھاپ کو مزید نکھارا ہے۔ مسلم طلبہ عموماً جامعہ میں زیادہ آزادی محسوس کرتے ہیں۔
رہی بات عربی شعبے کی تو جامعہ اس معاملے میں دہلی یونیورسٹی سے کہیں زیادہ آگے ہے، اساتذہ کافی باصلاحیت اور فن تدریس میں کافی شہرت رکھتے تھے، طلبہ کی تعداد کافی ہوتی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جامعہ میں ہر سال مدارس کے طلبہ کی ایک بڑی کھیپ آتی ہے جو دہلی یونیورسٹی کو میسر نہیں۔ جامعہ کا عربی شعبہ بحیثیت مجموعی بہت بہتر ہے، ڈاکٹر نثار احمد فاروقی صاحب جب تک باحیات تھے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ عربی کو ایک وقار حاصل تھا گرچہ ان کی زیادہ تحریریں اردو ہی میں ہیں۔ چونکہ مدارس کے طلبہ کا بیک گراونڈ عربی ہوتا ہے اور کئی سالوں تک عربی کی ماتھاپچی کرکے آتے ہیں اس لیے جامعہ کے طلبہ کے ساتھ ساتھ ڈپارٹمنٹ کو بھی مہمیز ملتا ہے اور شعبہ دوسروں سے فوقیت لے جاتا ہے، ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ دہلی یونیورسٹی اور جے این یو کے عربی شعبے کو جامعہ بہت حد تک افراد فراہم کرتا ہے۔ ہندوستان میں منعقدہ انٹرنیشنل کانفرنسوں میں مترجمین اور عربی ڈیسک سے متعلق اس وقت ساری ضرورتیں جامعہ سے ہی پوری ہوتی تھیں، جامعہ میں یوننگِ کورسیز میں ڈپلوما کے کلاسیز کافی شہرت رکھتے تھے جہاں عربی سیکھنے کے لیے دوسرے شعبوں کے طلبہ بکثرت آتے اور بہرہ مند ہوتے۔

س: موجودہ تعلیمی نظام میں اس طرح کے اسکولوں کا چلن عام ہو رہا ہے جہاں عصری علوم کے ساتھ دینی علوم کو بھی شامل کیا جارہا ہے اور عربک لنگویج، قرآنک اسٹڈیز اور اسلامک اسٹڈیز جیسے سبجیکٹ انگلش میڈیم میں پڑھائے جارہے ہیں. ان اسکولوں کا مستقبل آپ کیسا دیکھتے ہیں اور کس حد تک یہ مدارس کی ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہیں؟
ج: دراصل اس قسم کے اسکولوں سے اب تک میرا سابقہ نہیں پڑا ہے اس لیے اس ضمن میں کوئی بات وثوق سے کہنا آسان نہیں۔ اب ان مدرسوں کا سلیبس کس معیار کا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کتنا ڈیلیور کر رہے ہیں اس کا معائنہ کرنے کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا مستقبل کتنا تابناک ہے اور یہ مدارس کا نعم البدل بن سکتے ہیں یا نہیں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ اگر مناھج کو ڈھنگ سے ترتیب دیا گیا ہے اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ انتظامیہ میں بھی شرح اخلاص مقبول درجے کا موجود ہے تو انھیں کامیابی ضرور ملے گی۔

س: کوئی دو خوبیاں جو مدرسہ کے ماحول میں دیکھیں مگر یونیورسٹی میں نہیں؟ اور کوئی دو خوبیاں جو یونیورسٹی کے ماحول میں دیکھیں مگر مدرسہ میں نہیں؟ یہی سوال خامیوں سے متعلق بھی؟
ج: مجموعی طور پر میں نے جو محسوس کیا وہ یہ کہ مدرسوں میں بے راہروی بہت کم ہے اور ساتھ ساتھ خوش اخلاقی زیادہ پائی جاتی ہے۔ دوسری چیز اکثر طلبہ تعلیم پر دھیان دیتے ہیں اوباشی یا گستاخی عموماً نہیں کرتے۔ یہ دونوں خوبیاں آپ کو یونیورسٹیوں میں کم ملیں گی۔ یونیورسٹی کا ماحول آزادانہ ہوتا ہے جہاں طلبہ میں استاذ کا خوف و ہراس بالکل نہیں ہوتا بلکہ مکمل آزادی ہوتی ہے۔ دوسری چیز یہ کہ یونیورسٹی میں طلبہ کے اندر خود اعتمادی زیادہ پائی جاتی ہے اور طالب علم اپنے اندرجرات اور حوصلہ پاتا ہے جس کی وجہ سے وہ بزدل یا ڈرپوک نہیں ہوتا وہاں کا طالب علم جرات مند اور بولڈ ہوتا ہے۔ یہ صفات مدرسوں کے طلبہ میں بالعموم بہت حد تک مفقود ہیں۔

س: مدارس میں عربی زبان وادب کی تدریس اور یونیورسٹیوں میں عربی زبان و ادب کی تدریس کے طریقۂ کار، نصاب اور متعلق پہلوؤں کے سلسلے میں اپنے خیالات سے آگاہ کریں، نیز دونوں جگہوں پر بہتری لانے کے لیے تجاویز پیش کریں؟
ج: باختصار شدید یہی کہہ سکتا ہوں کہ مدارس میں عربی زبان پر زور نہیں دیا جاتا ہے، پوری توجہ دینی تعلیم پر ہوتی ہے، عربی ہو یا اردو مدارس میں ان زبانوں کو صرف ٹولس (اوزار) کے بطور استعمال کیا جاتا ہے اب اسی دوران کوئی محنت کرکے آگے نکل جائے تو اس کا ادبی ذوق پروان چڑھنے لگتا ہے اور وہ عربی زبان کا یک گونہ طالب علم بن جاتا ہے، یہ اس کی اپنی پرسنل اور اسپیشل اپروچ ہے۔ اس کے برعکس یونیورسٹیوں میں عربی زبان مکمل زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے ان کی توجہ کا مرکز زبان ہوتا ہے اس لیے یہاں پر طلبہ اگر سچ مچ ادبی ذوق رکھتے ہوں تو وہ کافی آگے بڑھتے ہیں۔
نصاب تعلیم اور تجاویز کا معاملہ تھوڑا وقت طلب ہے اور اس کے لیے عرق ریزی کرنی پڑے گی۔ دونوں جگہوں پر سدھار کی بہت اشد ضرورت ہے اور ذمہ داروں نے اگر اس طرف محنت نہ کی تو مزید گراوٹ آئے گی۔ اس بابت بہت کچھ کہنے کو ہے لیکن یہ قصہ پھر کبھی!

س: اردو ادب سے دلچسپی کیسے پیدا ہوئی؟
ج: اردو ادب سے دلچسپی کیسے پیدا ہوئی، یہ بتانا ذرا مشکل ہے پر اتنی بات ضرور ہے کہ ہمارا بیشتر علمی سرمایہ اردو ہی میں ہے اور ہماری تحریر وتقریر کا پورا سینٹر پوائنٹ زبان اردو ہی ہے اس لیے اس کی طرف ذہن کا میلان طبعی امر تھا۔ میری تعلیم کا ہر دور تقریباً اردو میڈیم سے ہی رہا ہے، اس لیے بھی اردو زبان سے خاصی دلچسپی رہی، اردو ناولوں اور افسانوں کے مطالعے نے بھی مہمیز کا کام کیا۔ اس کے علاوہ اردو زبان سے دلچسپی اس وقت فزوں تر ہوگئی جب میں نے مختلف ادبی مجلات پڑھنا شروع کیا۔ غالب، حالی، مومن، جوش اور فیض وغیرہ کی شاعری نے بھی اکسایا اور میری اردو کو اُجلا کرنے کی جوت جگائی۔ نتیجتاً جب بھی اردو کی کوئی کتاب اس کی شگفتگی کے ساتھ میری نظر سے گزرتی اسے پڑھنے کی پوری کوشش کرتا۔ غرضیکہ اردو سے ایک فطری والہانہ شغف پیدا ہوگیا جو مرور ایام کے ساتھ اب بھی بدستور قائم ہے۔ جہاں مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب (آب حیات) نے اچھا لسانی اثر ڈالا وہیں مولانا ابوالکلام آزاد کی شستہ بیانی نے میری اپنی زبان کو صیقل کیا اور میں ان قلمکاروں کے رو میں بہتا چلا گیا۔

س: کیا آپ نے دوران تعلیم مقصد اور منزل کا کوئی خاکہ تیار کیا تھا؟ وہ خاکہ کتنا پورا ہوا اور کتنی اس پر خاک اڑی؟
ج: جی ہاں یونیورسٹی جانے کے بعد میرے من میں بھی ایک پروفیسر بننے کی حسرت پیدا ہوئی تھی اور چونکہ ایک ہونہار طالب علم تھا اساتذہ کی بہت قدر کرتا تھا اس لیے بہت حد تک مقبول بھی تھا۔ اس طرح میرے دل میں یہ امنگ پیدا ہوئی کہ یونیورسٹی میں ہی اپنا مستقبل تلاش کروں لیکن غم روزگار نے ایسی پٹخنی دی کہ میرا خاکہ نہ صرف خاک میں ملا بلکہ تباہ ہوگیا۔

س: مثالی استاذ کی خوبیوں کی ایک نظریاتی فہرست ہے، اس سے صرف نظر، آپ اپنے تجربے کی روشنی میں بالعموم آپ کے اساتذہ کی خوبیوں میں سے نمایاں پر روشنی ڈالیں؟
ج: میرے خیال سے استاد صرف تعلیم نہیں بانٹتا بلکہ من جملہ وہ ایک ایسے انسان کی نشو و نما کرتا ہے جس پر آنے والی نسلیں رشک کر سکیں اور استاد بطور مثال پیش کیا جائے۔ گویا استاد تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی ہمہ جہات تربیت کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ ایسی صورت میں کسی بھی استاد کا گوناگوں صفات سے متصف ہونا از حد ضروری ہے۔ سراج العلوم میں مولانا خورشید احمد صاحب اور مولانا سعید احمد ندوی صاحب اور مولانا عبدالحنان فیضی مرحوم صاحب اور مولانا فضل حق صاحب (میں صرف ان اساتذہ کا نام ذکر کر رہا ہوں جن سے میں فیضیاب رہا) علمی شہسوار کے ساتھ ساتھ بلند اخلاق کے بھی حامل تھے، کسی کی علمی لیاقت اگر کم تھی تو اخلاقی اعتبار سے اتنا ہی بلند تھا کہ وہ علم والوں پر بھاری تھا۔ اسی طرح معھد میں شیخ عطاء الرحمن مدنی، مولانا عاشق علی اثری، مولانا محمد مستقیم، ماسٹر ابوذر مرحوم، ماسٹر ثروت وغیرہ اور ابھی چند روز قبل وفات پا گئے ہمارے محترم اور نہایت پروقار شخصیت کے مالک جناب خلیل الرحمن راز صاحب بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے۔ موخر الذکر بے شمار صلاحیتوں کے حامل تھے جن کا عربی اردو ادبی ذوق بلا کا تھا۔ البلاغة الواضحة پڑھاتے اور تمثیلی شعروں کو بالعموم اردو شعروں میں ڈھال کر پیش کرتے اور بہت ہی خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ وہ جب بھی سامنے آتے یوں لگتا کوئی علمی ادارہ متحرک ہے۔ چونکہ محترم استاد کا انتقال ابھی ہوا اس لیے ان کا پورا حلیہ اور ان کی ذات گرامی نگاہ میں پھر گئی اور یوں لگا ابھی ابھی اس راہ سے گزرا ہے کوئی!
جامعہ میں زبیر احمد فاروقی صاحب کے ساتھ ساتھ رفیع العماد فینان صاحب اور حبیب اللہ صاحب بہت ساری خوبیوں کے حامل تھے۔ درس دیتے تو یوں محسوس ہوتا کہ احباب کی مجلس لگی ہے اور کسی ایک مسئلے پہ گفت وشنید ہورہی ہے بالآخر ایک قادر الکلام، صاحب قرار اور محکم فیصلہ رکھنے والا اپنی بات پورے وثوق کے ساتھ پیش کرکے رخصت ہوجاتا، طلبہ کو اس میں مکمل تشفی مل جاتی اور یوں ان کی تشنگی بھی بجھ جاتی۔ جامعہ میں انگلش پوئٹری کے ایک استاد خاص طور پر ڈاکٹر انیس الرحمن صاحب قابل ذکر ہیں؛ وہ اشعار کی تشریح کچھ اس انداز سے کرتے گویا شاعر ابھی ابھی شعر کہہ کر اٹھ کے گیا ہے اور اس کے اشعار کی گرمی کا احساس تا حال باقی ہے۔ طلبہ کو سوالات کرنے کے لیے اکساتے اور ان کی پوری کوشش ہوتی کہ ان طلبہ کی بے مائیگی حتی الامکان دور کر سکیں ۔ جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں!

س: بھارت میں مدارس کا جال بچھا ہوا ہے، جن کی بنیادی زبان عربی ہے۔ اسی طرح بہت سی یونیورسٹیوں میں عربی پڑھائی جاتی ہے، جس سے ہزاروں لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود موجودہ دور میں کوئی بھی ایسا بھارتی ادیب نظر نہیں آتا ہے، جو خاص ادبی اصناف سخن جیسے ناول، افسانہ وغیرہ لکھے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس کمی کی وجہ سے بھارت میں عربی زبان و ادب میں اتنی دلچسپی پیدا نہیں ہو پا رہی ہے جتنی ہونی چاہیے اور عرب ممالک میں بھی بھارتی عربی ادب جیسی کوئی چیز نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے قلمکاروں کو شناخت اور وسیع مارکیٹ سے فیضیابی دونوں نہیں مل پارہی ہیں؟

ج: آپ کی بات درست ہے کہ ان اداروں کی زبان عربی ہے لیکن جیسا کہ میں نے ابھی اوپر ذکر کیا کہ مدارس میں فوکس زبان پر نہیں صرف دینی علوم پر ہوتا ہے اس کی وجہ کئی ایک ہوسکتی ہے لیکن عربی زبان پر بحیثیت زبان فوکس نہیں ہوتا، عربی ادباء میں جن کا مزاج دینی نہیں، علمانی یعنی سیکولر ہے انھیں بھی بالعموم بنظر استحسان نہیں دیکھا جاتا، اس لیے مدارس میں ادب پر کام نہیں ہوتا جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ صرف دینی موضوعات ہوتے ہیں۔ ناول افسانہ لکھنا تو دور کی بات ہے پڑھنے پر بھی بندشیں ہوتی ہیں۔ مجھے یاد ہے رحمانی صاحب نے کچھ دن ہمیں عربی ادب پڑھایا تھا اور اس مختصر وقفے میں انھوں نے طٰہ حسین کی یہ کہہ کر دھجیاں اڑائیں کہ وہ بہت زیادہ لبرل تھے اور ان کی لبرٹی ہی کی وجہ سے کچھ دوسرے اسلامی مزاج کے لکھاریوں نے انھیں (هو من المجددينات) كا خطاب دے رکھا تھا۔ اب اگر طٰہ حسین جیسے پایے کے ادیب کو ہندوستان کا ایک استاد اپنے طلبہ کو اس خطاب سے روشناس کرائے گا تو وہ کہاں سے ادبی ذوق پیدا کرے گا۔ ہاں یونیورسٹیوں میں ماحول دگر ہے، لیکن مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ وہاں عربی کی آبرو انہی مدارس کے طلبہ کے دم سے ہی باقی ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ان بیچاروں کا پہلا سال یونیورسٹی کی پر شکوہ اور پر ہیبت آزادی کو سمیٹنے میں نکل جاتا ہے، دوسرا سال مدرسے کی پیدا کردہ جھجک اور لجاجت دور کرنے میں چلا جاتا ہے، کچھ ہمت جٹاتے جٹاتے جب وہ نئی جرأتوں اور بلند حوصلوں سے معمور ہوتا ہے جب بیباکی اور خود اعتمادی اس کا وصف بنتی ہے جب وہ اپنے ما فی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے بیتاب ہونے لگتا ہے تب آخری سال آ جاتا ہے اور یوں کام تمام ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی !
ایک بات اور ہے وہ یہ کہ چاہے مدارس ہوں یا یونیورسٹیاں دونوں جگہوں پر عربی تعلیم عملی یعنی پریکٹیکل بالکل نہیں ہے، زبان کسی حد تک آجاتی ہے پر اس میں نکھار نہیں آتا۔ بولنے کی مشق بہت کم یا نہ کے برابر ہے، تحریری ذوق پیدا ہی نہیں ہو پاتا اس لیے اس میدان میں کوئی آگے نہیں بڑھتا۔
دوسری ایک بات اور ہے وہ حقیقت بھی ہے وہ یہ کہ اہل عرب بھاشا کتنی ہی خراب اور مسخ کیوں نہ بولیں لکھتے فصیح ہیں ۔ تحریر میں اگر لوچ ہے تو عربی قاری اسے پذیرائی نہیں دے سکتا۔
مارکیٹ بلا شک بہت وسیع ہے لیکن اس مارکیٹ میں خلیج اور یمن کے علاوہ مصر، سوریا، لبنان، عراق، فلسطین، اردن، تیونس اور سوڈان وغیرہ سب شامل ہیں جہاں ایک سے بڑھ کر ایک قلمکار موجود ہے۔ حالیہ تناظر میں ایسی مارکیٹ میں اپنا بھارتی پروڈکٹ کہاں سجے گا بھائی!

س: آخری پیراگراف پر صرف اتنا تبصرہ کرنا چاہوں گا کہ “بھارتی پروڈکٹ کہاں سجے گا” یہ سوچ کر کوشش ترک نہیں کرنی چاہیے۔ پہلے اس قسم کی سوچ تو پیدا ہو اور اس سلسلے میں اقدامات تو ہوں، بعد کے مراحل بھی کسی نہ کسی طرح طے پا جائیں گے، ان شاء اللہ۔
ج: میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ کوشش ترک کردیں میں صرف حال کا منظر بتا رہا ہوں جس کا انکار بالکل نہیں کیا جاسکتا۔ کوشش ضرور کرنی چاہیے اور ان شاء اللہ اگر محنت کی گئی اور لگن سے کام لیا گیا تو ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!

س: وہ لوگ جو عربی و انگریزی جانتے ہیں مگر انھیں بولنے کے مواقع ہاتھ نہیں آتے، ایسے لوگ اپنے لسانی عبور کو برقرار رکھنے کے لیے کیا کریں؟
ج: عربی ہو یا انگریزی یا کوئی اور زبان، بولنے کا تعلق پریکٹس سے ہے، لٹریچر جو بھی پڑھیں بآواز بلند پڑھیں تاکہ نطق میں سلاست آسکے، ہوسکے تو کچھ پیراگراف سیلیکٹ کرلیں اور بار بار پڑھیں، اس سے ایک تو پڑھنے میں روانی آئے گی اور دوسرے الفاظ کا ترنم ذہن میں نقش ہو جائے گا جو بولنے میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔ انگریزی بولنے کے خواہش مندوں کے لیے تو ہندوستان میں ماحول بھی سازگار ہے، اگر شہر میں ہیں تو بولنے کی جگہیں بھی میسر ہیں، بس اپنے آپ کو تھوڑا سا بے خوف اور بلا جھجھک بے تکلف بنانا ضروری ہے، لوگ ہنسیں گے اور پھبتی بھی کسیں گے کہ بڑی انگریزی جھاڑ رہا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن آپ کے سامنے آپ کا اپنا سیٹ ٹارگیٹ اور نصب العین ہونا چاہیے، حتی الامکان کوشش ہو کہ اگر مخاطب انگریزی بولتا ہے یا انگریزی سے واقف ہے تو آپ صرف انگلش بولیں اور یہ احساس دور کرنے کی پوری سعی کریں کہ آپ بولنے میں کوتاہ ہیں بلکہ یہ احساس پیدا کریں کہ آپ کا مخاطب آپ کو صرف انگلش بولتا دیکھنا پسند کرتا ہے۔ پھر ایک دن آئے گا کہ لوگ ہنستے رہ جائیں گے اور آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر سرخرو ہوجائیں گے۔ یقین نہ آئے اگر تو آزما کے دیکھ !

س: انگریزی کی حد تک یہ ممکن ہے۔ اگر یہی پریکٹس عربی کی لیے کرنا چاہیں تو کیا کریں اس طرف بھی رہنمائی کریں؟
ج: بات تو صحیح ہے کہ یہ عناصر عربی کے لیے متوفر نہیں ہیں نہ ہمارا ماحول عربی کا ہے۔ یہ مسئلہ تو سچ مچ قابل غور ہے۔ زیادہ کچھ نہ کہتے ہوئے میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ممبئی میں کوئی عربی زبان بولنے کے لیے سازگار ماحول کا متلاشی ہے تو مجھ سے ملے میں ان شاء اللہ اس کے لیے ماحول سازگار بنادوں گا ۔ اسی طرح دوسرے احباب جو عربی بولنے پر قادر ہیں اپنی بساط بھر یہ کار نمایاں انجام دے کر ان بچوں کی پیاس بجھا سکتے ہیں ۔

س: طالب علمی کے زمانے کی کوئی اہم علمی نتیجہ خیز شرارت بتانے کا کرم کریں؟
ج: جی بالکل! معھد میں طالب علمی کے دور کا ایک واقعہ کافی دلچسپ ہے، معھد کے شروع شروع دور میں دلی کی انجمنوں کی طرف سے منعقدہ پروگراموں میں شرکت مدرسے کی انتظامیہ کی طرف سے جائز تھا پر بعد میں اچانک ان پروگراموں میں حصہ لینا شجر ممنوعہ قرار پایا، وجہ یہ بتائی گئی کہ وہاں شراکت مخلوط ہوتی ہے اور نتائج میں تعصب پایا جاتا ہے جو انتظامیہ کو منظور نہ تھا۔ ہوا یوں کہ اسی ممنوعاتی دور میں دلی کے کسی سوشل سوسائٹی کی طرف سے ایک آل انڈیا تحریری مقابلہ منعقد کرایا گیا۔ ہم نے ٹھان لی کہ اس میں ضرور حصہ لیں گے، میں نادی الطلبہ کا سیکریٹری تھا سارے رسمی اوراق میرے ہاتھ میں تھے ہم چار لوگ اس محاذ پر نکل گئے ۔
شام چراغ جلے غالب اکیڈمی میں پروگرام تھا۔ کچھ موضوعات پہلے سے طے تھے اور لوگ ان پر مقالات لکھ کر لائے تھے وہ پیش کیے گئے اور پھر فوری موضوعات پر برجستہ مقالہ لکھنا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے عنوان تھا “اسلام کا نظام جمہوریت اور موجودہ مسلم حکومتیں”
میں اور میرے ایک ہم سبق وصی اللہ نے حصہ لیا اور اپنی بساط بھر قلم توڑ ڈالا، خوب لکھا اور مقالہ جمع ہوگیا۔ رات دیر سے پہنچے ہوسٹل کا دروازہ بند تھا کسی طرح ایک نچلی دیوار پھلانگ کر اندر گئے اور رام ہوگئے۔ دوسرے دن شام کو دلی گیٹ کے پاس “ایوان غالب” میں نتائج کا پروگرام منعقد ہوا ہم پہنچے اور قصہ مختصر مجھے فوری عنوان کے تحریری مقابلے کا پہلا انعام ملا۔ ایک بہت بڑی شیلڈ، بہت ساری کتابیں اور نقدی ملی۔ فطری طور پر اتنے بڑے مجمع میں اس اعزاز سے ہم بہت خوش تھے، ادارے کا نام بھی روشن کیا لیکن اہل ادارہ لاعلم تھے۔ پروگرام کافی تاخیر سے ختم ہوا پر اس روز ہم نے دروازہ کھلوانے کا انتظام کر لیا تھا۔ معھد پہنچے اور اپنے طے شدہ ترکیب سے اندر گئے ۔ شیلڈ انجمن کی لائبریری میں رکھ دی اور خاموش ہوگئے، صبح پو پھٹتے ہی طلبہ میں خبر پھیل گئی اور کچھ اساتذہ کو بھی بھنک لگ گئی۔ اتفاق سے اسی روز سعودی سے کچھ مہمان آئے تھے رحمانی صاحب ادارے کی عمارتیں دکھاتے ہوئے ہماری لائبریری تک پہنچ گئے اور سامنے شیلڈ دیکھ کر عربی شیخ سے بول پڑے کہ ہمارے طلبہ نے اسے کسی مقابلے میں حاصل کیا ہے، مولانا عاشق علی اثری سیکریٹری موجود تھے ذرا چیں بہ جبیں ہوئے پر کیا کرتے خاموش ہوگئے ۔ اور ہماری جان میں جان آئی۔

س: غیر مادری زبان کی تعلیم کے لیے لغت کی کتنی اہمیت ہے؟ عربی اور انگریزی کے لیے کن لغات سے استفادہ کرتے ہیں؟
ج: لغت کی اہمیت وافادیت سے کوئی انکاری ہو ہی نہیں سکتا۔ بسا اوقات اساتذہ کو بھی لغت کی مدد لینی پڑتی ہے۔ میں زمانہ طالب علمی سے ہی ڈکشنری کا استعمال کرتا ہوں پہلے انگریزی کی آکسفورڈ اور عربی کی المنجد میرے پاس ہوا کرتی تھی۔ حال میں تو نٹ کی مدد سے کام چل رہا ہے۔ ڈکشنری عام طور پر سبھی اچھی ہیں۔ نیٹ پر المعاني جو مختلف زبانوں میں ہے کافی کارآمد ہے۔

س: مدارس میں عربی زبان وادب کی تدریس کے لیے موجودہ حالات میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے جس سے مدارس اسلامیہ کے فارغین اعتماد کے ساتھ عربی لکھ بول سکیں؟
ج: زبان وادب کے تعلق سے مدارس میں کسی قسم کی تبدیلی لانا بڑا کٹھن مسئلہ ہے، ہاں اگر آپ خود کسی ادارے کے روح رواں ہوں تو پھر آسان ہے، اس سلسلے میں مجھے ایک بات یہ سمجھ میں آئی کہ وقتاً فوقتاً اساتذہ اور طلبہ کی الگ الگ نششتیں رکھنی چاہیے اور پھر ایک نششت مشترکہ بھی ہونی چاہیے جہاں زبان وادب پر ہر ایک کو اپنی بات رکھنے کی مکمل آزادی ہو، طلبہ کے اندر سے جھجک کلی طور پر دور ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنا ما فی الضمیر برملا ظاہر کرسکیں۔ استاد اور طلبہ کا احترام یہ نہیں کہ استاد کو دیکھ کر طالب علم کی گھگھی بندھ جائے اور اس کی فطری ودیعت دفن ہوجائے۔ تقریری اور تحریری مقابلوں کا انعقاد بھی ضروری ہے تاکہ بچوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا جذبہ پیدا ہوسکے۔ عربی ادب کے دروس پر دینیات کا رعب نہیں ہونا چاہیے۔ بچہ کچھ بھی لکھنا چاہے اسے یہی سوچ کر موقعہ دیا جائے کہ کم از کم وہ لکھ تو رہا ہے، حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کی سراہنا ہونی چاہیے اور یہی اس کے لیے مہمیز کا کام کرے گا ۔ چھوٹے افسانے یا روزمرہ پیش آنے والے واقعات کو صفحہ قرطاس پر اتارنے کے لیے ترغیب دینا لازمی ہے تاکہ طلبہ میں ایک ماحول پیدا ہو اور وہ بڑے موضوعات پر لکھنے کے لیے خود کو تیار کرسکیں اور گھبرائیں نہیں۔ عربی ادب پر زور دیا جائے اور ہوسکے تو کسی عربی ادیب کی شخصیت پر کئی سمپوزیم رکھا جائے اور اس شخص سے متعلق کوئی مقالہ پیش کرے اور سوالات و جوابات کا سیشن بھی ہو تاکہ اس ادیب کے تمام پہلو اجاگر ہوسکیں۔ عربی ادب پڑھاتے وقت اساتذہ کو کلاسیز میں صرف عربی ہی بولنے پر آمادہ کیا جائے اور اس کے لیے انھیں تیار بھی کیا جائے، کلاسیز جب عربی زبان میں ہی ہوں گی تو عربی بول چال کا ماحول سازگار ہوگا اور طلبہ بولنے کی مشق آسانی سے کریں گے۔ جو عربی زبان بولنے پر قادر ہوں ان کو اپنا دامن وسیع کرکے تعاون کا ہاتھ بڑھانا ہوگا تاکہ دوسرے ان سے کما حقہ مستفید ہوسکیں۔

س: آپ نے اوپر کہا کہ آپ شعبۂ تدریس سے منسلک ہونا چاہتے تھے۔ شعبہ عربی ممبئی یونیورسٹی سے کلی نہ سہی جزوی طور پر ہی جڑنے سے آپ کی اس خواہش کو کتنی تشفی ملی؟

ج: اچھا سوال ہے! ابھی اسی سال ممبئی یونیورسٹی میں ایک گیسٹ ٹیچر کے طور پر مجھے یہ شرف حاصل ہوا کہ میں بھی کچھ لوگوں کو عربی زبان کی تعلیم دوں اور پڑھاؤں، میرے لیے یہ نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا، دراصل اس کے پیچھے کچھ ایسے لوگوں کا دخل ہے جن سے میری شناسائی کوئی پرانی نہیں لیکن وہ اتنے مخلص ہیں کہ بس آگے کچھ کہنا موزوں نہ ہوگا۔ اللہ انھیں جزاء خیر دے اور ترقی کی وہ منزلیں عطا کرے جس کی انھیں خبر تک نہیں۔ میں چونکہ ممبئی یونیورسٹی کے عربی شعبے سے جڑا ہوں اس لیے کچھ باتیں عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ میں صرف اتوار کے روز چار گھنٹے کی کلاسیں لیتا ہوں، ایڈوانس ڈپلوما ان عربک کی کلاسیں میرے ذمے ہیں۔ تقریباً 35 طلبہ ہیں جو عمر کے مختلف ادوار میں ہیں کچھ تو پیرانہ سالی کے بھی شکار ہیں کچھ بالکل نوخیز ہیں اور بیشتر مجھ جیسے ہی ہیں۔ ان میں زیادہ تر نوکری پیشہ ہیں کچھ انجینئر کچھ ڈاکٹر اور کچھ ٹیچر اور کچھ مختلف کام کرنے والے۔ بچے کھچے چند طالب علم بھی ہیں جو مختلف شعبوں میں زیر تعلیم ہیں۔ عربی زبان سیکھنے کے لیے ان لوگوں کی تڑپ دید کے قابل ہے، ایک روز چھٹی ملتی ہے اسے بھی وہ قربان کر رہے ہیں، یہ ان کے شوق کی دلیل ہے۔ ممبئی یونیورسٹی عربی کے لحاظ سے ابھی منت پذیر شانہ ہے، عربی شعبہ کافی پرانا ہے مگر بہت کسمپرسی کا شکار ہے، میری اپنی دانست میں یہاں کا عربی شعبہ اب تھوڑا بہت جو سرگرمی دکھا رہا ہے وہ بھی ناکافی ہے، انتظامیہ کو مزید توجہ دینی پڑےگی، تب جاکر دیدہ وری آئے گی۔ یہاں کا حال جامعہ یا دہلی کے دیگر یونیورسٹیوں سے مختلف ہے، یہاں میری کلاس میں صرف ایک بچہ عربک بیک گراونڈ کا ہے اور باقی سب دوسرے بیک گراونڈ کے ہیں۔ یہ سب اپنی نوکریوں میں منہمک رہتے ہیں، صرف ہفتے میں ایک دن موقعہ پاتے ہیں اور عربی زبان کا شوق انھیں یہاں لے آتا ہے۔ یہ بڑا کٹھن مسئلہ ہے کہ ان میں عربی کی ترویج کیسے کی جائے، کونسا طریقہ اپنایا جائے کہ ان میں عربی کی جوت جگے اور ان کی تشنگی دور ہو۔ میری سمجھ میں ایک بات یہ آتی ہے کہ یہاں کا عربی شعبہ گاہے بگاہے اگر کچھ سیمینار منعقد کرے، اس میں عرب دنیا کے بیرونی اسکالرز کو دعوت دے کر بلایا جائے اور اس کی خوب ایڈورٹائزنگ ہو تاکہ لوگ خصوصاً طلبہ زیادہ تعداد میں شریک ہو سکیں اور وہاں زبان کے تعلق سے بھی بات رکھی جائے تو کارآمد ہوسکتا ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ کلاسیز ایک دن میں چار گھنٹے کے بجائے ہفتے میں کم از کم دو دن ہوں اور ہر روز صرف تین گھنٹے ہوں، وقت کا تعین ایک مسئلہ ہوگا لیکن سہولت کے حساب سے طے کر لیا جائے۔ اس سے کافی بہتری آئے گی اور طلبہ بھولنے سے پہلے نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوں گے۔ فی الحال یہاں ڈپارٹمنٹ نے پڑھنے پڑھانے کے لیے طلبہ اور اساتذہ کا انتظام کردیا ہے باقی سائنٹیفک اپروچ کہیں بھی کسی قسم کا نہیں نظر آرہا جو بے حد ضروری ہے۔ آج کا دور روایتی کنوینشنل تعلیم کا متحمل نہیں۔ اور جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا!

س: آپ نے مدارس نیز قومی جامعات سے بھی تعلیم حاصل کی ہے ۔ بدیہی امر ہے کہ آپ اس چیز کو بہتر سمجھتے ہیں کہ مدارس سے فارغین طلبہ کے لیے ترقی کی راہیں کیا ہوسکتی ہیں؟ اور اس سلسلے میں پیش آمدہ مسائل کس طرح حل کیے جاسکتے ہیں؟
ج: مدارس کے فارغین کے لیے سب سے مفید بات یہ ہوگی کہ فراغت کے بعد سب سے پہلے وہ اپنا ٹارگیٹ طے کریں کہ انھیں اب میدان عمل میں کسب معاش کے لیے کچھ کرنا ہے یا تعلیمی سلسلہ مزید آگے بڑھانا ہے۔ اگر روزگار ہی اختیار کرنا پڑا تو کوشش کریں کہ کوئی بزنس کریں چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، اللہ اس میں برکت بھی دے گا اور ترقی بھی۔ بصورت دیگر تعلیمی سلسلہ اگر بڑھانا ہے تو جہاں بھی جائیں پوری توجہ تعلیم پر دیں، مطالعہ کی رفتار تیز تر کردیں اور جو بھی سبجیکٹ آپ نے چنا ہے اسے اس کا پورا حق دیں، آپ کے ذہن میں یہ ہدف ہونا چاہیے کہ تعلیم سے فارغ ہوکر آپ کیا کرنا پسند کریں گے اسی حساب سے آپ اپنے مقصد کے حصول کے لیے پوری تندہی سے کام کریں، سبجیکٹ پر فوکس کریں، نگاہ کھلی رکھیں اور سب سے بڑھ کر اللہ پر توکل رکھیں، کامیابی ضرور قدم چومے گی۔ اور مسائل کا حل تو مسئلے کی نوعیت دیکھ کر ہی بتایا جا سکتا ہے۔ ویسے زیادہ مسائل آنے کا امکان کم ہے اور اگر کچھ ہے تو اللہ ضرور حل کرے گا۔

س: مدارس سے یونیورسیٹی کی طرف رخ کرنے والے اکثر طلبہ اپنا تشخص کیوں کھو دیتے ہیں؟ اپنے اساتذہ اور مدارس سے کیوں بدگمان ہوجاتے ہیں؟ اس میں طلبہ کے ساتھ ساتھ مدارس کے منتظمین کا کتنا دخل ہے؟

ج: وہ طلبہ جو یونیورسٹی پہنچ کر اپنا تشخص کھو دیتے ہیں وہ عموماً تنگ نظری اور احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ دراصل وہ اس قدر فرسٹریٹیڈ ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنا تشخص مٹا کر از سرنو جنم لیں اور نئے سرے سے اپنی دنیا آباد کریں یہ اور بات کہ وہ اس میں کامیاب ہوپائیں یا ناکام رہیں۔ اساتذہ اور مدارس سے بدگمان ہونا بالکل غلط اور وفا کی تقصیر ہے۔ اس کے باوصف اس کی چند وجوہات میری سمجھ میں آتی ہیں وہ یہ کہ مدرسوں میں طلبہ ایک گھٹن کی زندگی جیتے ہیں وہاں انھیں کئی طرح کی بندشوں کا سامنا ہوتا ہے، اپنی رائے کا اظہار کرنے میں خوف کا سامنا کرتے ہیں اور اس طرح وہ ایک ڈر اور تناؤ کے ماحول میں جیتے ہیں اس لیے جب وہ یونیورسٹی پہنچتے ہیں تو انھیں کھلے آسمان تلے سانس لینے کی مکمل آزادی نصیب ہوتی ہے جہاں کوئی روک ٹوک نہیں، کسی طرح کی کوئی بندش نہیں، کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں۔ بھلا بتائیں ایسے موسم بہار میں کون ہوگا جو نہ جھومے گا یہ سوچ کر کہ پھر یہ موسم یہ بہار آئے نہ آئے! طلبہ کا تو یہ رد عمل ہے، البتہ جہاں تک منتظمین کی بات ہے تو میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے مدرسے والو، مدارس سے گھٹن دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، طلبہ کو آزادی فراہم کرنی چاہیے اور بے جا بندشیں بالکل ختم ہونی چاہئیں تاکہ وہ اس طرح کی مایوسی کا شکار نہ ہوں اور وہاں سے باہر نکل کر کم ظرفی کا ثبوت نہ دیں۔

س: مدرسہ کے نصاب اور نظام تعلیم میں کسی طرح کی تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟
ج: مدرسوں کا نصاب اور نظام تعلیم بہت اہم موضوع ہے اور اس میں فی الفور تبدیلی لانا وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنا آسان مرحلہ ہرگز نہیں، یہ کام جوئے شیر لانے جیسا ہے۔ جو بھی ہو اس موضوع کو پیچیدہ سمجھ کر اس پر توجہ نہ دینا ایک جرم ہے جس کی گرفت میں اہل ظرف ضرور آئیں گے۔ نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ ہاسٹل کا نظام بدلنا بے حد ضروری ہے، طلبہ کی ٹھیک تربیت نہ کرکے ان پر بے وجہ کی بندشیں لگانا بالکل درست نہیں، طلبہ کو ایک آزاد اور فری ماحول دینا اہل مدرسہ کا اولین فرض ہے جو اس دور جدید میں بھی ناپید ہے۔

س: ایک عرصہ سے ملک کی عصری جامعات کے اردو، عربی و دیگر شعبہ جات کے صدر یا مسئول دیگر مسالک و مکاتب فکر کے مدارس کے فارغین فائز ہیں۔ ہمارے اداروں کے فارغین باوجود صلاحیت کے کیوں محروم یا پیچھے ہیں؟ اسباب کیا ہیں اور اس کا علاج آپ کی نظر میں کیا ہے؟
ج: اس کا ایک عام جواب تو یہ ہے کہ ہمارے لوگ اس مقابلے میں ہیں ہی نہیں تو وہاں تک رسائی کیسے ہوسکتی ہے۔ اس کے باوصف ہمارے سلفی مسلک کے لوگ بھی جا بجا نظر آ ہی جاتے ہیں لیکن بہت کم۔ اب دیکھیے جموں یونیورسٹی میں عربی شعبے کے رواں صدر ڈاکٹر شمس کمال انجم سلفی ابن سلفی ہیں، دوسرے ممبئی یونیورسٹی میں عربی ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ ڈاکٹر محمد شاہد بھی سلفی ہیں۔ ان کے علاوہ مجھے نام نہیں یاد آرہا کچھ عرصہ پہلے جامعہ ملیہ میں کچھ شعبوں کے صدر سلفی ہی تھے۔ تو ایسی بات نہیں ہے کہ بالکل نہیں ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے لوگوں کا رجحان اکیڈمک نہیں ہے اسی لیے ان کی ایپروچ بھی اس زاویے کو نہیں ہوتی ہے۔ اکیڈمک نظریے کو ڈیویلوپ کرنا اور پھر اس مقصد کے حصول کے لیے کوشاں رہنا ضروری ہے۔ میرا خیال ہے یونیورسٹیوں میں عموماً شعبوں کے صدر کا انتخاب سینیارٹی کے حساب سے ہوتا ہے اس لیے پہلے پیدا تو کرے ویسا کوئی قلب سلیم !

س: مسلم طلباء کو خصوصاً اور مسلم امت کو عموماً کیا نصیحت کرنا چاہیں گے؟
ج: مسلم طلباء کے نام میرا سدا یہی پیغام ہے کہ امت کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے اسے تابندگی عطا کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ داری اسی وقت پوری ہوسکتی ہے جب آپ پورے انہماک سے علم حاصل کریں گے جس کے لیے لگن، محنت اور مصائب سے نبرد آزما ہونا سب امر طبیعی ہے۔ طلبہ کو ہمیشہ ذہن کھلا رکھنا چاہیے، جھجک اور خوف کو کبھی راہ کا روڑا نہیں بننے دینا چاہیے ۔ سوچ مثبت اپنائیں، رویہ مثبت ہو اور تنقید کا دامن اس پہلو سے تھامے رکھو کہ اس میں تعمیر مضمر ہو، کسی کی ذات کو کبھی نشانہ نہ بناؤ ۔ تعلیم کے تعلق سے صرف محنت کافی نہیں مخلص ہونا بھی ضروری ہے۔ اپنے مقاصد بلند رکھیں اور ہمیشہ ایک سچا ٹارگیٹ سامنے رہے پھر اس کے حصول کے لیے ثابت قدم رہیں اپنے قدموں کو لڑکھڑانے سے روکیں کیونکہ یہ وہ منزل ہے جو بہت کٹھن ہے لیکن ناممکن نہیں اور اپنے ان سیٹ کیے ہوئے اہداف کو پانے کے لیے اللہ پر توکل رکھتے ہوئے سب کچھ برداشت کریں۔ اللہ سے بڑا کوئی کارساز نہیں، اگر ہمارا یقین محکم ہے اور عزم پختہ ہے تو راہ میں جو بھی سنگ گراں حائل ہوں گے سب پاش پاش ہوجائیں گے۔ رہی بات امت مسلمہ کی تو یہ مسئلہ ذرا مشکل ہے اس امت کے ارباب حل وعقد تو اس درجہ بصیرت افروز ہیں کہ اس ضمن میں اگر ان سے کچھ بات کی جائے تو وہ برا مان جاتے ہیں در اصل وہ سمجھتے ہیں ان سے خطاؤں کا صدور بعید از قیاس ہے۔ ویسے میری اس کوچے سے نسبت پرانی ہے پر مدت گزر چکی ہے اس لیے سب ملگجا نظر آ رہا ہے۔
پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوے

س: کیا تصنیف و تالیف میں آپ کی دلچسپی ہے؟ اگر توفیق الہی شامل حال رہی، تو مستقبل میں کس موضوع/ موضوعات پر کتاب/کتابیں لکھنا چاہیں گے؟
ج: دلچسپی تو بہت ہے پر اب تک کچھ کر نہ سکا غالب کا قول کتنا سچا ہے کہ

جانتا ہوں ثواب طاعتِ و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ایسا ہی کچھ میرا حال ہے ہاں مستقبل میں اگر اللہ کی توفیق شامل حال رہی تو میرا پسندیدہ موضوع ہوگا “گاؤں اور وہاں کی بے مائیگی” مجھے گاؤں سے انس بھی ہے اور وہاں کی کسمپرسی پر رنج بھی!
س: ترجمہ کے فیلڈ میں آپ کو اچھا خاصا تجربہ ہے اس پہلو پر کچھ روشنی ڈالیں ۔ اس میدان کے نا تجربہ کار نوجوانوں کو کیا ہدایات دینا چاہیں گے؟
ج: ترجمہ کا کام کافی جوجھارو ہے۔ یہ فیلڈ دراصل مکمل پروفیشنل بن گیا ہے ۔ ترجمہ کرتے وقت مترجم کو لفظوں کی رعایت سے زیادہ معانی اور مفاہیم کی مقصدیت لازم ہوتی ہے۔ بسا اوقات مشاہدے میں آتا ہے کہ اردو یا انگریزی کا متن زیادہ طویل ہے مگر عربی زبان میں ان معانی کو کم اور مختصر لفظوں میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ حرف بہ حرف ترجمے کی کوشش کرتے ہیں اب اگر وہ معانی کی رعایت کرتے ہوئے زبان میں سلاست بھی برقرار رکھنے کی استطاعت رکھتے ہیں تو بہت اچھا ورنہ کوشش یہی ہونی چاہیے کہ مفہوم ذہن میں رکھیں اور الفاظ اپنی صوابدید سے استعمال کریں۔ کبھی کبھی متن حرفی ترجمے کا بھی متقاضی ہوتا ہے اب اگر ایسا کرنا لازم ہے پھر تو کوئی چارہ ہی نہیں۔ جس فیلڈ میں آپ ترجمے کی کوشش کریں یا جس زبان میں ترجمہ کرنا ہے اس زبان میں اس موضوع سے متعلق زیادہ سے زیادہ پڑھا کریں کافی مدد ملے گی۔

س: چنندہ ہم سبق، ہم پیشہ و ہم خیال احباب کے نام بتائیں؟
ج: سراج العلوم کے ہم سبق میں تین نام قابل ذکر ہیں: ایک ڈاکٹر الطاف الرحمن مدنی جو مدینہ یونیورسٹی میں ہیں۔ دوسرا نام ہے مولانا محمد اجمل ندوی کا جو ممبئی میں ایک عصری علوم کا اسکول چلا رہے ہیں۔ تیسرا نام ہے ڈاکٹر شمیم احمد کا جو لکھنو میں پریکٹس کر رہے ہیں۔
معھد کے رفقاء میں میرے ہم سبق جناب وسیم احمد جمیل احمد ہیں جو اس وقت سنابل میں تعلیمی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ میرٹھ کے جناب حافظ سعود مصطفی ندوی جو معہد میں جونیئر لیکن جامعہ ملیہ کے ہم سبق اور نیپال کے حافظ شوکت گو کہ میرے ہم سبق نہیں مگر معھد میں میرے بہت قریب تھے اور اچھی فکر کے حامل اور ہردلعزیز۔ ان کے علاوہ اور بہت سے احباب ہیں جو فی الحال میرے راڈار کے مدار میں نہیں۔
جامعہ کے احباب میں ایک نام پرشکوہ ہے وہ ہے ڈاکٹر شمس کمال انجم کا جو جموں یونیورسٹی میں عربی شعبے کے ہیڈ ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ ڈاکٹر نعیم الحسن جو دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ جناب صلاح الدین ہیں جو فی الحال بی بی سی BBC لندن میں بر سر روزگار ہیں۔ ہم پیشہ تو سات سمندر پار دبئی میں رہ گئے، ان کا ذکر کرنے بیٹھوں گا تو پھر موبائل لاچار ہوجائے گا۔

س: ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب کے یہاں کیسے پہنچے؟ ان کے یہاں کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟
ان کی شخصیت اور افکار کے بارے میں کیا رائے ہے؟
ج: ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب کے پاس ایک دوست کی معرفت سے پہنچا۔ ان دنوں میں جامعہ میں گریجویشن کر رہا تھا اور پارٹ ٹائم جاب کی تلاش میں تھا، ڈاکٹر صاحب بھی اسی قبیل کا شخص ڈھونڈھ رہے تھے اور یوں میرا ہاتھ ان کے ہاتھ آگیا اور چراغ راہ میں جل گئے۔ ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے بہت اچھا لگتا تھا۔ کوئی بے جا دخل اندازی نہیں، کوئی بے وجہ سوال نہیں صرف کام سے کام اور وقت پہ اجرت۔ وہ کافی سلجھے ہوئے اور نرم طبیعت کے آدمی ہیں، بہت زیادہ لوگوں میں میل جول بڑھانا انھیں پسند نہ تھا وہ اپنی دنیا میں مست رہا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کسی خاص فکر کے حامل انفرادی شخص نہیں ہیں۔ وہ ایک پیشہ ور اور آزاد صحافی ہیں جو اس وقت لندن سے شائع ہونے والے مختلف عربی اور انگلش جرائد میں بکثرت لکھتے رہتے تھے۔ ان کی تحریریں اکثر (الحیاة) اور (الشرق الاوسط) میں نشر ہوتی تھیں، ان کی تحریر کا محورعموماً کچھ تحقیقی اور کچھ واقعاتی حقائق پر ہوتا تھا جو وہ اپنے ڈاٹا بیس کلیکشن سے اخذ کرتے اور پھر انھیں اپنے الفاظ کا جامہ عطا کردیتے۔ مجھے کبھی بھی ان کے مضامین میں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی جسے ہم ان کی اپنی فکر کہہ سکیں یا ان کی فکری ارتقا کا کا نام دے سکیں۔

س: وحید الدین خان صاحب سے ان کا تعلق فکری اور تنظیمی حوالہ سے کس نوعیت کا ہے؟
ج: جیسا کہ میں نے ذکر کیا ڈاکٹر صاحب کی اپنی دنیا ہے نہ وہ کسی کے فالوور ہیں اور نہ ہی کسی کو اپنا متبع بنانا چاہتے ہیں۔ چونکہ مولانا وحیدالدین خان کے ساتھ وہ رہتے نہیں اور نہ ہی ان کے کام میں عمل دخل ہے اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ فکری اور تنظیمی دونوں اعتبار سے وہ بالکل الگ ہیں۔

س: آپ نے کن بیرونی ممالک کا سفر کیا ہے؟ انتہائی اختصار کے ساتھ ان اسفار کے تجربات ہمارے ساتھ ساجھا کریں؟
ج: بیرون ملک کا پہلا سفر دمشق کا تھا۔ میں بالکل نیا نیا انٹرگلوب ائیر ٹرانسپورٹ کمپنی میں کام پر لگا تھا، اسی دوران کچھ انٹرنیشنل ائیر لائنز کے کونسورٹئم سے دمشق میں ایک ورکشاپ لگایا گیا جہاں مختلف ممالک کے ٹریول ایجنٹوں کو شرکت کا موقعہ ملا خاص طور پر ان ایجنٹوں کو جو سیرین ائیرلائنز سے وابستہ تھے۔ میں نو آموز تھا لیکن عربی زبان جاننے والا تنہا تھا اس لیے میرا انتخاب عمل میں آیا اور پہلی بار عربی زبان کا ایڈوانٹیج ملا۔ دمشق پہنچا۔ سیرین ائیر لائنز کے ذمہ داران نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔ تقریباً چار دن قیام رہا، دو روز کا ورکشاپ تھا اس سے فراغت ملتے ہی شامی دوستوں نے ضیافت شروع کردی اور دمشق کا سیر کرایا۔ اگلا پڑاؤ تھا قاسیون کی پہاڑی کا۔ اس سے پہلے کبھی میں نے پہاڑی سفر نہیں کیا تھا اس لیے مجھے بہت تھرِل ہورہا تھا کافی ایکسائٹیڈ تھا۔ جبل قاسیون جس کی آغوش میں دمشق شہر آباد ہے، اس کی بل کھاتی لہراتی اور مختلف نشیب وفراز کے ساتھ بلندی کی مسافت طے کرتی ہوئی قدرے تنگ سڑک سے گزرتے ہوئے ہم قاسیون کی چوٹی پر پہنچے۔ گاڑی سے نیچے اترے اور شہر کی طرف نگاہ دوڑائی تو یوں لگا کہ قاسیون کے نیچے ایک شامیانہ ڈال دیا گیا ہے اور اس پر بڑے قرینے سے قمقمے ٹانک دئیے گئے ہیں پورا شہر روشنی میں نہایا ہوا ستاروں کی مانند جگمگا رہا تھا۔ رات کے سناٹے میں ہم وہاں کافی دیر رکے، دھیرے دھیرے ہوا میں خنکی تیز ہونے لگی، شام کی یخ بستہ ہوائیں بڑی قاتل ہوتی ہیں، انھیں آسانی سے جھیلنا ہمارے بس کی بات نہ تھی اور یوں وہاں سے فوراً ہم نے کوچ کا ارادہ کرلیا، سنا تھا کہساروں کا نظارہ بے شک بہت سہانا اور نشاط انگیز منظر ہوتا ہے اس کی پہلی جھلک ہمیں یہاں دکھائی دی۔ رات دیر سے اپنی آرامگاہ پہنچے اور دراز ہوگئے۔ دوسری صبح طے شدہ پروگرام کے تحت ائیر لائنز کے ہیڈ کوارٹر پہنچے وہاں کچھ معزز ممبران سے ملاقات ہوئی اور پھر ظہرانے کے لیے وسط شہر میں ہمیں ایک تنگ گلی سے نکال کر نہایت پرشکوہ اور کافی کشادہ اورعالیشان ریستوران (مطعم دمشق القديمة) لے جایا گیا جہاں اندر داخل ہوتے ہی روایتی انداز میں ٹرکش کافی سے ضیافت کی گئی اور پھر انواع واقسام کے اتنے لذیذ کھانوں سے ہماری ضیافت ہوئی کہ وہ ذائقہ تا دم تحریر میری زبان کے مسام پر ثبت ہے ۔اسی روز مغرب بعد (سوق الحمیدیة) جو ترکی طرز تعمیر کا قدیم بازار ہے وہاں (بوظہ) آئس کریم کھانے کے لیے گئے میں نے سوچا آئس کریم کے لیے اسپیشل طور پر اس بازار میں لانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے لیکن جب ہم نے بوظہ کا قدح اٹھایا تو بات سمجھ میں آ گئی اور تازہ تازہ ٹھنڈا آئس کریم کھایا تو بس مزہ آگیا۔
الجامع الاموی اور قصر الاعظم گھومے اور دمشق شہر میں پہلی بار شاورما کھایا بہت پسند آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جتنا خوبصورت شہر ہے اس سے کہیں زیادہ خوبصورت اس شہر کے لوگ ہیں اور جو دمشق کی طرف اپنی نسبت باعث عز و افتخار سمجھتے ہیں۔ ویسے بلاد الشام تو سیریا، لبنان، اردن اور فلسطین کے سارے علاقے کو کہا جاتا ہے لیکن اہل دمشق کا امتیازی وصف خاص یہ ہے کہ اس شہر کے لوگوں کو شامی اور (جمع) شوام کہا جاتا ہے جو کافی اعزاز کا مقام ہے۔
بعد ازاں جولائی 1997 میں نوکری کی غرض سے امارات عربیہ متحدہ میں دبئی کا قصد کیا۔ وہاں ایک لمبا عرصہ گزرا ہے اس لیے وہاں کی باتیں یہاں جلد بازی میں لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنا ہے۔
پھر کچھ سالوں بعد مصر میں قاہرہ گیا اور فراعنہ کے احفاد کا اپنے اجداد کی عظیم تاریخ پر فخر کرتے ہوئے دیکھا، جہاں آج بھی رمسیس اسکوائر فرعون کی عظمت کا ثبوت پیش کررہا ہے۔ مصریوں کو فراعنہ سے نسبت جوڑنے میں زیادہ شان و شوکت ملتی ہے۔ اہرامات اور ابوالہول کا پر ہیبت مجسمہ دیکھا ۔ دنیا کی سب سے بڑی میوزیم جو تحریر اسکوائر پہ ہے اس کی زیارت کی اور اندر بے شمار ممیز یعنی مومیاء اور فراعنہ کے باقیات کا مشاہدہ عمل میں آیا۔ دریائے نیل کے پانی کا لمس لیا اور بہت سرور محسوس کیا۔
کچھ عرصے بعد یوروپ جانے کا اتفاق ہوا۔ شنگھن ویزا حاصل کیا۔ پہلا مقام تھا جرمنی کا شہر فرانکفرٹ، صنعتی شہر ہے لیکن صاف ستھرا اور ایک نہر وسط شہر سے گزرتی ہے جو دو رو آبادی کو کافی خوبصورت بنا دیتی ہے۔ یہاں مجھے کوئی خاص چیز نظر نہ آئی اور میں دوسرے روز جرمن شہر بون اور کولون کے راستے رائن ندی کی ہوا کھاتے ہوئے ہالینڈ کے لیے بذریعہ ٹرین روانہ ہوگیا۔ رات آٹھ بجے امسٹرڈام پہنچا۔ اسی روز شہر میں میراتھن تھا کچھ اورایوینٹس تھے کہ شہر کے تمام ہوٹل پیک ہوگئے تھے۔ میں نے بہت ہاتھ پاؤں مارا مگر کسی جگہ کوئی بھی ٹھکانہ نہ ملا۔ امسٹرڈم رات کو کافی خوفناک ہوجاتا ہے طرح طرح کے وسوسے جنم لینے لگے۔ ستم تو یہ کہ ہوٹل والے پوچھ تاچھ کے لیے اندر تک نہیں آنے دیتے باہر سے ہی ٹرخا دیتے ہیں۔ میں امسٹرڈم کی سڑکوں پر رات دس بجے تک ناشاد و ناکام آوارہ پھرتا رہا کہ دور چہل قدمی کرتے ہوئے دو سکھ گُرو سیوک نظر آگئے۔ ان سے ملا اورعلیک سلیک کے بعد بطیب خاطر میری پریشانی سن کر مجھے انھوں نے اپنے ہمراہ لے لیا اور گرودوارہ لے گئے۔ کھانا (لنگر) کھلایا اور میرے سونے کا انتظام کرنے کے لیے کچھ لڑکوں کو ہدایت دے کر وہ چلے گئے۔ اصلی ماجرا تو اب شروع ہوا۔ وہاں جو لڑکے تھے ان کے علاوہ بھی چند اور آگئے اور میرے گرد ہالہ بنا کر بیٹھ گئے۔ ایسے ایسے سوالات کی بوچھار کہ بس اللہ کی پناہ؛ کیسے آیا کس راستے سے آیا کتنے کا ویزا طے کیا؟ کیا کیا پریشانی جھیلی؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ ایک منڈا آگے آیا اور بولا اچھا چل تو اپنا پاسپورٹ دکھا ہم سمجھ جائیں گے تو کیسے آیا ہے۔ چونکہ وہ میری بات کا یقین نہیں کر رہے تھے اس لیے انھوں نے ویزا دیکھنے کے لیے پاسپورٹ مانگا تھا۔ ویزا دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیونکہ وہاں کوئی نوجوان ویزا حاصل کر کے نہیں پہنچتا وہ ایجنٹوں کے رحم وکرم پر نہ جانے کہاں کہاں گھومتا ہوا پہنچتا ہے۔ صبح اٹھتے ہی جب میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور روانگی کی رخصت مانگی تو وہ سب مبہوت ہوگئے کہ یہ تو چنگا بھلا یہاں آ گیا ہے اب جا کیوں رہا ہے۔ بہر حال میں نے انھیں سمجھایا تو وہ مان گئے۔
وہاں سے بلجیم گیا۔ بروکسیل شہر پہنچا۔ یہ شہر مجھے بہت خوبصورت لگا بہت ہی پرسکون اور جا بجا نشیب وفراز سے آشنا شہر جو یوروپین اتحاد کا مرکز بھی ہے۔ ترکی اور الجزائر کے کافی لوگ رہتے ہیں۔ کافی اچھا لگا اور شہر سے انس بھی رہا۔
اب آیا روشنیوں کا شہر، فرانس کا ناز شہر پیرس۔ ساین ندی پہ آباد یہ شہر دنیا کے لیے رشک جنان ہے ۔ ایفیل ٹاور کافی اہم شاہکار ہے۔ دنیا بھر کے سیاح اسے دیکھنے کے لیے یہاں جمع رہتے ہیں۔ میں نے بھی دیکھا مگر مجھے اس کی کاریگری میں کوئی عظمت دکھی نہیں۔ ہزاروں ٹن کا لوہا ایک جگہ مینار کی شکل میں کھڑا کردیا گیا ہے۔ بالکل بیچ سے ایک لفٹ اوپری حصے تک لے جاتی ہے جہاں سے پورا شہر پیرس رقص کرتا دھندلا دھندلا دکھائی دیتا ہے۔ الغرض پیرس اچھا شہر ہے۔ دیدہ وروں کے لیے بہت کچھ ہے اور عیش وطرب کی دنیا کا مرکز بھی بس نظر کو ذوق تماشا چاہیے۔ قصہ مختصر سفر تمام ہوا مگر روداد سفر باقی ہے!

س: اپنے تجربات کی روشنی میں یہ بتائیں کہ انسانی زندگی پر سفر و سیاحت کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور لسانی اعتبار سے اس کے کیا فوائد ہوسکتے ہیں؟
ج: یہ بات سب پرعیاں ہے کہ سفر و سیاحت انسانی سماج کا ایک اہم حصہ ہے۔ کتنے ملک ہیں جن کی شرح آمدنی کا بیشتر حصہ اسی سیاحت پر منحصر ہے۔ مصر اس کا جیتا جاگتا مثال ہے۔ دنیا کی مختلف اقوام سے انٹرایکٹ کرکے بہت کچھ انسان سیکھتا ہے اور اسی طرح مقابل پر اثرانداز ہوتا ہے۔ عادات واطوار، رہن سہن، تجارت وملازمت ہر طرح کے اثرات رونما ہوتے ہیں۔ لسانی اعتبار سے ایک سیاح دوسروں کی بہ نسبت کافی کچھ سیکھتا ہے۔ اہل زبان کا لہجہ، وہاں کا رائج تمدن اور وہاں کے آداب سے اسے واقفیت حاصل ہوتی ہے، ان معرفتوں کو بروئے کار لاکر وہ اوروں سے ممتاز ہوتا ہے۔ لسانی اعتبار سے بہت ساری چیزیں اہل زبان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے ہی حاصل ہوتی ہیں، ان کے روزمرہ کے معمولات اور طور طریقے دیکھ کر ہی سمجھے جا سکتے ہیں۔

س: آپ شامی قونصلیٹ میں کام بھی کرچکے ہیں ۔ شام کا سفر بھی کیا ہے ۔ شام کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
ج: شام یعنی سیریا سے میرا گہرا تعلق ہے۔ میں نے عملی زندگی میں پہلا قدم ہی اسی شام سے وابستہ دفتر سے کیا۔ الحمد للّٰہ میرے روابط بھی اہل شام سے بہت گہرے ہیں۔ وہاں کے علماء، ائمہ اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے بہت لوگوں سے میرا ربط ضبط ہے۔ ان تعلقات کے پس پردہ یادوں میں رطب و یابس سب ہیں، اوپر اسفار کے تذکرے میں میں نے بتایا تھا کہ شامی دراصل دمشقیوں کو ہی بولتے ہیں اس لیے میں جب شامی لکھوں تو دمشقی ہی سمجھیں اور سیریا کے دوسرے خطے کے لوگ اپنے اپنے علاقوں سے منسوب ہیں۔ مختصراً یہ کہ شامی حلبی ادلبی حمصی حموی لاذقانی دیری درعاوی رقاوی اور اور کردی غرضیکہ سب میرے حلقہ یاراں میں ہیں۔ بہت ہی اچھے لوگ ہیں ملنسار، باوقار، نرم خو، با اخلاق، نفاست پسند اور اطاعت شعار۔ اس ضمن میں شامیوں کا عربی لہجہ بھی دوسروں سے کچھ الگ ہے اور شوام اپنے لوگوں کو لہجے کے نطق سے پہچان بھی لیتے ہیں۔ حافظ الاسد کے جور واستبداد سے وہ اتنے نالاں نہیں تھے جتنے بشار سے۔ بشار نے تو ساری حدیں پار کردیں اور ان پر قیامت ہی ڈھا رکھی ہے۔ میرے کچھ احباب بشار کے قریبی ہیں وہ اس کے خلاف سننا پسند نہیں کرتے لیکن ان کا یہ رویہ صرف اس ڈر سے ہے کہ کہیں دھر نہ لیے جائیں اور وہاں پہنچا دیے جائیں جہاں سے لوٹ کر آنا ممکن نہیں ہوتا۔ وہاں کے حالات سب پر عیاں ہیں کوئی مزید کیا کہے اور کیا سنائے۔
کیا دن تھے جب نظر میں خزاں بھی بہار تھی
یوں اپنا گھر بہار میں ویراں نہ تھا کبھی
بے کیف و بے نشاط نہ تھی اس قدر حیات
جینا اگرچہ عشق میں آساں نہ تھا کبھی

س: آپ کا ربط و ضبط سیریا کے علاوہ سعودی عرب کے لوگوں کے ساتھ بھی رہا۔ سعودیوں کے تعلق سے بھی اپنے تجربات بتائیں؟
ج: سعودی عرب صرف ایک بار گیا اور وہ بھی دیار مقدسہ تک۔ تقریباً دس دنوں تک وہاں قیام رہا۔ زیادہ تر وقت حرم مکی اور حرم مدنی ہی میں گزرا۔ دل تو چاہتا تھا کہ اور بھی مقامات کی زیارت نصیب ہو لیکن ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں ! اور یہ حسرت اب تک حسرت ہی رہی تجري الرياح بما لا تشتهي السفن!
بہر کیف وہاں میرا لوگوں سے ربط ضبط نہ کے برابر تھا اس لیے وہاں کے لوگوں کے بارے میں کچھ کہنا موزوں نہیں ہوگا۔ البتہ حرمین کے تعلق سے سعودی حکومت نے جو کار نمایاں انجام دیا ہے وہ قابل ستائش بھی ہے اور عند اللہ مأجور بھی۔ یہاں ہندوستان میں جن سعودیوں سے سابقہ پڑا وہ سب ایک خاص اسکول آف تھاٹس کے ہیں جو انھیں ازبر کرایا جاتا ہے وہ ہے ویانا کنونشن کے اسباق۔ یہ جتنے ڈپلومیٹس ہوتے ہیں وہ کہیں کے بھی ہوں ان سب کی نگاہیں ویانا کنونشن کے حصول پر ہوتی ہیں ۔ اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے پہنچاتے ہر ڈپلومیٹ کو نقل مکانی کا پروانہ آجاتا ہے اور وہ دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، نتیجتاً وہ کچھ حاصل نہیں کرپاتا ۔ یہ لوگ اپنے ویانا کنونشن کے وضع کردہ مراعات کو لینے کے لیے دوسری اشیاء کی مراعات بھول جاتے ہیں۔
یہ تو ہوا ایک عمومی اور سرسری نظر کا جائزہ ویسے میرا تعلق جن لوگوں سے رہا میں نے ان میں کئی خوبیاں دیکھیں۔ ایک تو یہ کہ ان کے یہاں فرق مراتب کا خمار بہت زیادہ نہیں ہوتا اور اگر کہیں ہوتا بھی ہے تو وہ وقتی اور حالات کی نزاکت کے تحت ہوتا ہے، یہ لوگ ہم ہندوستانیوں کی طرح اعلی مناصب پر فائز افراد کو عفریت کی طرح اپنے اعصاب پر سوار نہیں کرتے۔ ان کو اگر بات پوری طرح سمجھ میں آ جائے تو وہ معاملے کو حل کردینے میں دیر نہیں لگاتے اور اگر نہ سمجھ میں آئے تو پھر معاملہ ختم کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ آپس میں اجتماعیت کا عنصر کافی ہوتا ہے پر دوسروں کے ساتھ گھل مل کر رہنا انھوں نے اب تک جانا ہی نہیں۔ برتری کا احساس خوب سے خوب تر ہے اور اسی احساس کو لے کر کبھی کبھی وہ غیر اختیاری طور پر احساس کمتری کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ شاید ان کا قبائلی سسٹم اتنا مضبوط ہے کہ وہ اس کی گرفت سے باہر نہیں نکل پاتے۔ کل ملا جلا کر یہ لوگ اچھے ہیں اور خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔ نیک کام کا جذبہ بھی خوب رکھتے ہیں اور دین توحید پہ قائم ہیں!

س: ایک سوال ذرا ہٹ کر۔۔ مناسب سمجھیں تو جواب دیں۔۔ کئی سفارت خانوں کا تجربہ ہے اس تناظر میں یہ بتائیں کہ رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے سلسلے میں سفارت خانے جو کچھ کرتے ہیں کیا آپ بالعموم روشنی ڈال سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں عام قارئین کو کیا مشورہ دیں گے بالخصوص اس پہلو سے کہ بین الاقوامی سیاست کے سلسلے میں ملکی مبصروں کا دارومدار انہی ذرائع پر ہوتا ہے؟
ج: ایک سفارتخانہ اور ایک قونصلیٹ کل ملا کر دو فارین مشنز foreign missions کا تجربہ ہے جو اس طرح کے اداروں کو سمجھنے کے لیے نا کافی ہے۔
پہلا تجربہ اس وقت کا ہے جب میں دہلی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ سیرین ایمبیسی میں میرا سیلیکشن ہوا، ان دنوں وہاں سفیر نہیں تھے بلکہ ان کی جگہ قائم مقام سفیر تھے جسے سفارتی دنیا میں chargé d’affaires کہا جاتا ہے۔ ان کا نام تھا احمد منصور؛ بہت خوش مزاج، کوآپریٹیو، نہایت ملنسار اور علم دوست۔ انھوں نے مجھے بہت سپورٹ دیا اور جب تک میں وہاں رہا کبھی مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ سفارتخانے عموماً کسی بھی ملک کی راجدھانی میں ہوتے ہیں جبکہ قونصلیٹ راجدھانی کے علاوہ دوسرے شہروں میں ہوا کرتے ہیں، قونصلیٹ کا کام بہت محدود ہوتا ہے بلکہ یوں کہیں کہ یہاں صرف ویزا سے متعلق کارروائیاں ہوتی ہیں یا کچھ دوسرے ملحقات یعنی attaché ہوتے ہیں پر ان سب کا دائرہ کار کافی محدود ہوتا ہے۔ البتہ سفارتخانوں کا کام وسیع ہوتا ہے۔ اب یہ ملکوں کے اوپر انحصار ہے کہ اس کا عمل دخل کتنا ہے۔ بالعموم عرب سفارتی تعلقات بڑھانے میں کوتاہ دست ہیں اور ان کی بساط کافی محدود ہے۔ ایمبیسی میں رہتے ہوئے ایک دوسری ایمبیسی والوں سے تعلقات استوار ہوجاتے ہیں اور وہیں سے پتہ چلا کہ رائے عامہ ہموار کرنے کی غرض سے ڈپلومیٹس میزبان ملک کی مختلف تنظیموں سے ربط قائم کرتے ہیں وہاں کی میڈیا کو حتی الامکان اپنا ہمنوا بنا کر اپنے فیور favour میں لانے کے لیے طرح طرح سے رجھاتے ہیں۔ ان کی انٹلیجنس ایجنسیاں خاموشی سے کام کرتی ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔ میرے اندازے کے مطابق بین الاقوامی سیاست میں مبصرین کا دارومدار صرف سفارتخانوں پر نہیں ہوتا ان کے علاوہ اور بھی ذرائع ہوتے ہیں، یقینی طور پر میڈیا بہت اہم رول ادا کرتا ہے، مختلف این جی اوز NGOs اپنی فعال سرگرمیوں کے ذریعے ان کی کٹھ پتلی بن جاتی ہیں اور تاجر برادری بھی اپنا حصہ بکھرا ان سے شیئر کرتی ہے۔ یہاں ایک بات قابل ذکر یہ بھی ہے ان اداروں میں دو طرح کے سٹاف ہوتے ہیں ایک سوپر کلاس جسے ڈپلومیٹس کہا جاتا ہے جو یقیناً قابل رشک نوکری ہے، ان کو اس قدر مراعات حاصل ہوتی ہیں کہ آدمی عش عش کرتا رہے۔ دوسرا ورسٹ کلاس جسے لوکل سٹاف کہا جاتا ہے، باہر ان کی چمک دمک ہوتی ہے پر اندر ان کی اوقات کیا ہوتی ہے وہ ڈپلومیٹس جانتے ہیں یا وہ خود۔ یہ امر واقعہ ہر جگہ کی ایمبیسیوں میں ہوتا ہے بالخصوص خلیجی عرب ملکوں کی ایمبیسیوں میں۔ اس لیے میں اپنے ابھرتے ہوئے احباب میں کبھی بھی کسی کو لوکل سٹاف کے طور پر کام کرنے کا مشورہ نہیں دوں گا۔

س: آپ نے زندگی کی کئی بہاریں دیکھی ہیں، زندگی کی بھاگ دوڑ میں آپ “تعلقات” کو کس قدر اہم سمجھتے ہیں اور کس قسم کے تعلقات کو زندگی کی ضرورت سمجھتے ہیں؟
ج: زندگی میں تعلقات بنانا بے حد ضروری ہے اور اس سے بھی زیادہ ضروری ہے ان تعلقات کو برتنا اور ان کی حفاظت کرنا۔ تعلقات استوار کرنے سے پہلے لوگوں کو پرکھنا ایک اہم کام ہے اس لیے چھانٹ پھٹک کراحباب کا انتخاب کرنا چاہیے۔ قدرشناس لوگ کم ہیں اس لیے اگر آپ کو میسر آجائیں تو انھیں سنبھال کے رکھیں۔ پر دوسروں کو انگیز کرنا اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا بھی لازم ہے۔ اس تعلق سے امام شافعی کے دو شعر پیش کرنا چاہوں گا
اذا المرء لا يرعاك الا تكلفا فدعه ولا تكثر عليه التاسفا
سلام على الدنيا إذا لم يكن بها صديق صدوق صادق الوعد منصفا

س: کیا آپ اپنی زندگی سےخوش ہیں؟ ہاں تو کیوں؟ نہیں تو کیوں نہیں؟ آپ کی خوشی کا معیار خود آپ نے طے کیا ہے یا آپ کے سماج نے یا آپ کے گھر والوں نے یا میڈیا نے؟
ج: زندگی خوشی اور غم کا دو آتشہ ہے۔ میں اگر یہ کہوں کہ میں زندگی سے خوش ہوں میری زندگی میں غم نام کی کوئی چیز نہیں تو یہ بات حق سے بالکل پرے ہوگی۔ نشور واحدی کا بہت عمدہ شعر ہے:
یہ راز و نیاز غم کچھ وہ بھی سمجھتے ہیں
جب چوٹ پڑی دل پر پلکوں کو سلام آیا
غم اور خوشی دونوں ہر روز کے مہماں ہیں
*یہ صبح بہ صبح آئی وہ شام بہ شام آیا *
بالعموم میں خوش ہوں اور غموں کو گرد کی طرح جھاڑ دیا کرتا ہوں، یہ اور بات کہ گرد میں چھپے اکثر قافلے بھی ہوتے ہیں پھر بھی اس شغل میں بہت حد تک کامیابی مل ہی جاتی ہے۔
خوشی کا معیار خود ہی بناتا ہوں اور اپنی ہی کسوٹی پر اپنے شب وروز کو پرکھتا ہوں۔ سماج ہو کہ گھر والے وقتی طور پر اثرانداز ہوتے ہیں، انھیں آسیب کی شکل میں مسلط ہونے کا موقعہ بالکل نہیں دیتا۔ خلاصہ یہ کہ دائمی سکون پانے کے لیے ہمیں اپنی راہ خود ہی بنانی پڑتی ہے۔
س: سوشل میڈیا اور اس کے سماج پر اثرات سے متعلق آپ کیا سوچتے ہیں بالخصوص یہ پہلو کہ اس چیز نے ہر کسی کو زبان دے دی اور ہر موضوع پر بولنے کا حق بھی؟
ج: سوشل میڈیا ایک اچھا اور برق رفتار ذریعہ ابلاغ ہے۔ آج ہماری سوسائٹی میں اس کا اثر بے پناہ ہے۔ اس سے ہمیں بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ کام اگر کسی ادارے کے تحت ہو رہا ہے تو اس کے لیے متحرک اور باصلاحیت افراد کا تعین ہونا چاہیے تاکہ وہ آئے دن بقدر ضرورت فالوورز کو اپڈیٹ کرسکیں، اپنی بات ڈھنگ سے پیش کرسکیں اور جو بھی وقت کی ڈیمانڈ ہو اسے عصری اسلوب میں جانچ پرکھ کر لوگوں کو روشناس کرنے کا فریضہ انجام دے سکیں ۔ بصورت دیگر اگر یہ عمل انفرادی ہے تو پھر احتیاط بہت ضروری ہے، مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا کو ہتھیار بناتے ہیں اور خود شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کا سب سے مضر پہلو یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم پر وقت کا ضیاع بہت ہوتا ہے اور لایعنی بحث مباحثے میں الجھ کر آدمی اپنا مقصد بھول جاتا ہے۔ اسے کارآمد بنانے کے لیے اس کے دائرے کو محدود کرنا اور بے وجہ وبے مقصد باتوں سے دور رہنا بہت اہم ہے۔
سوشل میڈیا کے جو مخالف ہیں ان کو یہی چیز اچھی نہیں لگتی کہ یہاں تو ہر کوئی اپنی بانسری بجا کر سب کو سنا دیتا ہے اور دوسروں کے پھٹے بانس کی بے سری آواز کو پست کردیتا ہے۔ اب یہاں ہر موضوع پہ بولنے والے ملیں گے لیکن ان پر کان دھرنے والے کم ہی ہوں گے۔ آپ اچھا اور مقصدیت سے آشنا موضوع پیش کریں لوگ ساتھ دیں گے اور فائدہ عام ہوگا۔ اس لیے احتیاطی تدابیر اپنا کر اس کا فائدہ ضرور اٹھانا چاہیے۔

س: ملک میں سلفی تنظیم کو بین المسالک بڑے پیمانے پر اثر انداز ہونے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کیا کرنا چاہیے؟ آپ کا مطالعہ اور آبزرویشن کیا کہتا ہے؟
ج: اس موضوع پہ میرا لب کشا ہونا چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔ یہاں اسی موضوع سے وابستہ کئی شخصیتیں ہیں ان کے سامنے کچھ عرض کرنا خطرے سے خالی نہیں لیکن اب آپ نے سوال اٹھایا ہے تو کچھ کہنا لازم ہے۔
ملک میں بین المسالک پیمانے پر سلفیت کوعام کرنا اور دوسروں پر اپنا اثر ڈالنا بہت کٹھن کام ہے لیکن ناممکن نہیں۔ سب سے پہلے تو ہمارے سلفی داعیوں کو مثبت رویہ اپنانا ازحد لازم ہے، آپ کو اگر دوسرے مسالک کا رد کرنا امر لازمی ہو تو بھی ایسا طریقہ اپنایا جائے کہ انھیں تکلیف نہ ہو بقول انیس ع انیس ٹیس نہ لگ جائے آبگینوں کو ! دوسرے مسلک والوں کو اپنا حریف نہ سمجھیں ان کو اپنا مخاطب تصور کریں انھیں اپنے قریب لائیں زیادہ سے زیادہ باہمی ربط پیدا کریں۔ مجالس منعقد کرتے وقت دوسرے مسالک کے علماء کو شامل کریں، ہٹ دھرمی، ضد اور انا الحق کا بھونڈا اعلان بالکل نہیں ہونا چاہیے جو آج مفقود ہے۔ غیروں کی مانند سلفی مسجدوں کے ممبر سے اور جلسوں کے اسٹیج سے گلا پھاڑ کر دوسرے مسالک کو سب وشتم کی حد تک مطعون کرنا انھیں متنفر کردیتا ہے۔ میرے تعلقات بہتوں سے ہیں اور میرا مشاہدہ ہے کہ وہ بھی ہماری حقانیت کا دم بھرتے ہیں لیکن جب منفی باتیں ان تک پہنچتی ہیں تو سارا اثر نکال پھینک دیتے ہیں۔ یہ باتیں اگر صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ اپنائی گئیں تو دوسرے مسالک کے لوگ قریب آئیں گے اور ہم ان پر اثرانداز بھی ہوں گے۔

س: اردو شاعری پڑھنے والے اکثر بہت جلد ہی شاعری کرنا شروع کردیتے ہیں۔
آپ نے شاعری نہیں کی؟
ج: الحمد للّٰہ شاعری کافی پڑھتا ہوں اور مجھے اس صنف سے کافی لگاؤ بھی ہے لیکن اس میدان میں کبھی زورآزمائی نہیں کی۔ شاعری ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے اس لیے میں نے نہ کوشش کی اور نہ ہی مجھے شعر کہنے کا فن آیا، میری نظر میں شعر گوئی کسبی نہیں وہبی شیئ ہے اسی لیے اشعار میں جب آمد ہوتی ہے تو شعر خوبصورت ہوتا ہے اور اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے اس کے برعکس جب شعر میں آورد ہوتا ہے تو شعر پھسپھسا دکھائی دیتا ہے اور قبیح شکل اختیار کرلیتا ہے۔

س: ناول نگاروں میں آپ کس کو پسند کرتے ہیں؟
ج: ناول اور افسانے بہت تو نہیں پڑھا لیکن جو پڑھا ہے اس کی رو سے ناول نگاروں کے چند اہم نام ہیں: ڈپٹی نذیر احمد، منشی پریم چند، نسیم حجازی، ابن صفی، عنایت اللہ التمش، قرة العین حیدر وغیرہ۔
اور افسانہ نویسوں میں سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور کچھ ادھر ادھر سے پڑھ لیا۔

س: دبستان اردو میں شامل ہوکر کیسا محسوس کرتے ہیں اور انٹرویو کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے پر آپ کی کیا رائے ہے؟
ج: دبستان میں میرا اندراج پرانا نہیں ہے ۔ ابھی چند ماہ پہلے میں یہاں وارد ہوا ہوں۔ مجھے یہ پلیٹ فارم کافی اچھا لگا ۔ کچھ پرانے بچھڑے دوستوں سے یہیں ملاقات ہوئی تو کچھ نئے لوگوں سے بھی شناسائی کا موقعہ میسر آیا اور اسی دبستان میں کچھ لوگ تو ایسے بھی ملے جن سے یارانہ ہوا، وہ ہم مشرب تو تھے ہی آجکل ہم پیالہ بھی ہوگئے ہیں، یہ وضاحت کردوں کہ ہم پیالہ وقدح چائے اور کافی کا ہے کسی اور شیئ کا نہیں۔اس کا سہرا اسی دبستان کو ہی جاتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم اچھا ہے کہ لوگ آئیں جام لڑھائیں، مست ہوجائیں اور پھر اپنی مستی سے دوسروں کو بھی سرشار کریں۔ میں چونکہ اس اسٹیج پر نیا ہوں اس لیے ماضی کی روش پر روشنی نہیں ڈال سکتا لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ یہ سلسلہ اچھا ہے۔ دوستوں کے بیچ اپنی بات رکھنے کا اچھا وسیلہ ہے!

س: اہل دبستاں تو آپ سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں تو ان کے لیے آپ کا کوئی پیغام؟
ج: اقبال نے جو پیغام نوجوانوں کو دیا تھا وہی پیغام میرا اپنی قوم کے جوانوں کو ہے اور دبستان کے فلک پہ آویزاں ماہ و انجم کو بھی:
نہ ہو نومید، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
اُمید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

اور یہ بھی
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

اور آخر میں
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارہ
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری

س: آپ کو خود اپنی کون سی صفت سب سے زیادہ پسند ہے؟ اور چاہیں تو ناپسندیدہ بھی بتا دیں؟
ج: اپنے بارے میں کچھ کہنا خودستائی ہے لیکن سوال آیا ہے تو کچھ کہنا ہی ہے ۔ میں نے اپنے بارے میں سوچا تو مجھے جو صفت کسی لائق نظر آئی وہ ہے عفو اور درگزر کی صفت ! ناپسندیدہ صفت یہ ہے کہ میں زوداعتبار ہوں اور دوسروں پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے زیاں کار بنا پھرتا ہوں!

آپ سب کی بے پناہ محبتوں عنایتوں کو سلام!
استودعکم اللہ

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
اسحاق ابراہیم

ما شاء اللہ، انٹرویو کافی دلچسپ اور شاندار ہے، روایتی قسم کے سوالات سے ہٹ کر بہت سی اہم باتیں پوچھی اور بتائی گئیں “حسُن السائل والمسؤول” جناب ریاض مبارک صاحب سے تعارف کروانے کا شکریہ، فری لانسر کا یہ میرا پہلا تجربہ ہے، مزید تحاریر کا منتظر، جزاکم اللہ
اسحاق ابراہیم

اظہار اظہر

ریاض بھائی کی ادب عالیہ میں ڈوبی ہوئی پر مغز گرہ کشا شایان شان مسئولات کے جوابات کیا کہنا !
۔۔ باندھا کوئی مضمون تو واللہ بندھا خوب
ویسےذاتی طور پر جہاں تک میں نے جانا ہے موصوف کی سادگی و تعلقات کے برتنے کا جو انداز ہے ایک عامی یہ اندازہ ہی نہیں لگا سکتا کہ یہ بوریہ نشین زمانے کی آبرو و اتالیق الزماں ہے
اللہ ممدوح کو سلامت رکھے اور ان کی علمی نگارشات کو وافر فرما کر اجر دے۔۔۔
ابھی کچھ لوگ ایسے ہیں جہاں میں؎