”علم کا تعلق صرف مولوی سے ہوتا تو شاید علم کی نعمت سے ہر کوئی فائدہ نہیں اٹھا پاتا“۔ اس طرح کے جملے سن سن کر ایک مولوی یا مولوی الذہن مزاج کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ مولوی پہ طعن و تشنیع کرنے کا عمل اب زبان زد عام ہو چکا ہے۔ نہ جانے اول مطعون مولوی نے کیا غلطی کی ہوگی کہ تمام مولوی قوم پہ لعنت، حقارت، تذلیل اور تھو تھو کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔
ڈاکٹر فواز کا نام میرے حافظے میں اس لیے محفوظ ہوگیا تھا کہ وہ ہمارے بچپن سے جڑے تھے۔ مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہم انھیں احترام سے دیکھ دیکھ کر خاموشی سے نکل جایا کرتے۔ ایک پہلی جماعت والے کو آخری جماعت والے سے جو تعلق ہوتا ہے میرا بھی ان سے ویسا ہی تعلق تھا۔ تراث اور روایتوں کو سمجھنے کے لیے—— تہذیبی اور فکری میراث کے ہونے کی وجہ جاننے کے لیے ایک قدر داں کو پہلے ان کے ارد گرد شناسائی، عقیدت اور والہانہ محبت کے اظہار کی چادریں ڈالنی پڑتی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہم ڈاکٹر فواز کی شخصیت سے شناسائی حاصل کرنے کے لیے ان کے قریب جایا کرتے اور کچھ ہاتھ نہ آنے کا شکوہ کیے بغیر واپس آجایا کرتے۔ ان کا معصوم مگر تمتماتا ہوا چہرہ، سر پہ نہرو ٹوپی اور براق جیسے سپید کرتا پائجامے پہ ہم نے کبھی ایک داغ تک نہ دیکھا۔ ہمارے مساموں میں کثرت سے پسینے آنے شروع ہوئے تو علم ہوا کہ ہم اکیسویں صدی میں اپنے قدموں پہ کھڑے ہیں۔ دور دور تک تمام اشیاء اور ان کے وجود کے معانی بتانے والا کوئی نہیں، مگر پھر بھی نہ جانے وہ کن سطروں کا رمز تھا جو ہمیں روشنیوں کی طرف برابر دھکیلتا رہتا۔ علامتیت کی طرف اپنے دوستوں کی وجہ سے مائل ہوئے تھے جو ہر شئی میں ایک سازش اور ہر سازش میں ایک مکنون حکمت کو تعبیر کی شکل میں پیش کرتے۔ ایک طور کی ثقیل صوفیت کا چسکہ بھی کبھی اتنا گہرا ہوا کہ ہم گھنٹوں موم بتیوں کی جلتی ہوئی لو کو دیکھ کر شام گذارتے مگر قسم لے لیں ہمیں آج تک نہ ہیولی نظر آیا اور نہ ہالُوسنیشن کے گرداب میں ہم فنا ہوئے۔ ہاں، نشانے کے پکے ضرور ہوگئے، غلیلیں چلانے اور بندوق بازی میں مقام بھی بنانے لگے۔ اس کے بعد ہم دہلی وارد ہوئے اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے لگے تو اس احساس کے ساتھ ہم شروع ہوئے گویا پچھلی صدیوں کا بوجھ ہم ہی پر ہے؛ یہ احساس بھی ہماری تعلیمی دنیا اور تفکراتی کارروائیوں کی دین تھا۔ ہم علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ان طلبہ مفکرین سے بھی ربط رکھتے جو دنیا کے تمام علمی کامیابیوں میں اپنا حصہ مانتے ہی تھے حتی کہ اپنی تہذیبی روایت کو کریڈٹ دے دے کر منہ سے جھاگ نکال دیتے، ساتھ ہی ہمیں تمام مدارس کو ایک خاص علمی نہج پہ بھی لے جانا تھا، لہذا، مجددانہ زبان بولنے والا ہماری مجلس کا چشم و چراغ ہوتا۔
بعض علماء کا سلوک ہی مجددانہ ہوتا ہے۔ بعض علماء کی تعبیرات اور دلیلیں تجدیدی ہوتی ہیں اور بعض علمی روایتیں خود کو سب سے زیادہ صحیح اس لیے مانتی ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک صرف وہی حق کو اس کی اصل شرطوں کے ساتھ پہچاننے والے ہیں، لہذا جو بھی وہ بولیں اسے ایک مجدد کی زبان مانی جائے چاہے وہ مجدد ہوں یا نہ ہوں۔ اب مزعومہ مجدد سے کوئی دوسرا شخص اسی زبان میں بات کردے تو آداب مجلس کی حرمت کے پامال ہونے کی شکایت کیوں کی جائے! معاف کیجیے گا اس طرح کی فکرمندی اکیسویں صدی میں ہونی عام بات ہے۔ بہرحال، یہ الگ قضیہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی مجدد کی زبان اگر کہیں ہےتو تقریبا مقتدی ہی کی طرح ہے۔
ڈاکٹر فواز کا تعارف:
مجلسی آداب و شعور سے واقف، باوقار لہجوں میں بات کرنے والے، بڑے بڑے شیوخ اور علماء کے قدردانوں سے ربط رکھنے والے، ہائی فائی بیروکریٹ کے ساتھ اول درجے کا پروفیشنل تعلق نبھانے والے، قند نظر، تنگ نظر اور چور نظر کو ایک جھلک میں بھانپ جانے میں ماہر ڈاکٹر فواز رحمانی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے گریجویٹ اور جامعہ سلفیہ بنارس کے پروردہ ہیں۔ علم کی کئی دنیاوں سے تعلق رکھنے کے باوجود انھوں نے اپنے توازن کو برقرار رکھا ہے۔ اپنی دیوار کو نہ اتنا اونچا اٹھایا کہ دوسری طرف دیکھا نہ جاسکے اور نہ ہی اتنا نیچا رکھا ہے کہ کوئی بھی آکر ان کے وقار اور اصولوں کو مسل دے۔ ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت خیر و برکت والی سرزمین ام القری یعنی مکہ میں ہوئی۔ ان کے عرب اور غیر عرب احباب آج بھی ان سے یاری نبھاتے ہیں جبکہ ہندوستانی دوستوں میں اعلی دماغ اور اعلی درجے کے لوگوں کا جمگھٹا ان کے ارد گرد لگا رہتا ہے۔ ہمیں اس بات کا علم آج تک نہیں ہوسکا کہ وہ کون سا مادہ ہے جو لوگوں کو ان کی طرف کھینچ کھینچ کر لاتا ہے، لہذا ہم نے ڈاکٹر فواز سے سوال کیا۔ میرا سوال تھا آپ جیسے لوگ کہاں ملتے ہیں؟ انھوں نے کہا، بزرگوں کی دعاوں، خلوص، محبت، قربانی، دین کے تیئں استحصالی نہیں بلکہ خالص توجہ، دین کی خدمت کے نام پہ دین کی ہی خدمت کرنا، صلہ رحمی کے معاملے میں اس حد پہ کھڑے رہنا جس پہ اولیاء اللہ ہی قائم رہتے ہیں۔ ایسے اہتمام انسان کو ایک ایسے ماحول میں کھڑا کر دیتے ہیں جہاں سے رضائے الہی کے لیے وہ پے در پے بآسانی راستہ طے کرنے لگتا ہے۔ اس طرح کے ماحول سے نکلے ہوئے لوگ خالص اور اصلی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر فواز علم الحدیث، فقہ الحدیث، ہندوستانی علماء کی تاریخ، مخطوطاتی تفہیم، علمی استنباط، اہل حدیث علماء کی موجودہ کارکردگی، علماء اہل حدیث کا برصغیر میں اثر جیسے مضامین میں ید طولی رکھتے ہیں، وہیں دیوبند کے علماء کی قدر و منزلت، ندوہ کی فکری تربیت اور بریلوی علماء کی توقیر میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ ڈاکٹر فواز ایسے منجھے ہوئے انسان ہیں جو اپنی بات اس طرح سے کہتے ہیں جیسے ایک مومن انصاف کے پل صراط پہ چاک و چوبند طریقے سے چل کر دکھاتا ہے۔ وہ علمی معاملوں میں ایک ہی چشمہ لگاکر بات کرتے ہیں، ان کا چشمہ انصاف کا چشمہ ہے۔
ڈاکٹر فواز کا تصور دین اور دنیا:
ڈاکٹر فواز سے ملاقات اور گفتگو کا ایک لمبا سلسلہ میرے جرمنی سے واپسی کے بعد شروع ہوا۔ ان کی میری ملاقات کی تجدید جے این یو میں گنگا ڈھابہ کی بیٹھکوں میں ہوئی۔ مگر پھر بھی میں ان کی تمام تر تفہیمِ مسائلِ دنیا کے تعلق کو ماوراءِ دنیا کے تناظر میں سمجھنے کے قابل نہ ہوسکا تھا۔ مجھے ایلوے کھا کر شکر قند کی لذت محسوس کرنے کی عادت تھی لہذا میں خود کو اس فن میں یکتائے روزگار ہی سمجھتا مگر یہ کیا، میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا جب میں نے ڈاکٹر فواز کی زندگی اور ان کے دینی تصور سے متعلق تجربات ان کی زبانی سنے۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ میں دین اور دین کی عملی ترکیبوں کے سمجھنے میں کس قدر بونا واقع ہوا ہوں۔
ڈاکٹر فواز کی زبانی، ’مسائلِ دنیا کا واقع ہونا اور ان کا دین کے اصولوں سے تدارک کرنا ایک بہت بڑا کارنامہ‘ آج بھی ہے۔ ان سے گفتگو کے دوران بارہا مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ دراصل اپنے دادا (اجداد) کی زبان بول رہے ہیں۔ مشہور فلسفی جان پال سارتر نے کبھی کہا تھا کہ ایک انسان جب حکمت کی باتیں کہنے کے مقام پر آتا ہے تو جو وہ بول رہا ہوتا ہے وہ دراصل اپنے دادا کی زبان بول رہا ہوتا ہے(مفہومی)۔ میں ان کے دادا سے صرف رمزِ خیر اور دینی سوچ کے حامل انسان کے طور سے واقف تھا۔ ڈاکٹر فواز ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو دھوپ میں جل جائیں اور ٹھنڈ میں پگھل جائیں، اور ایسے بھی نہیں تھے کہ وہ جلے نہ ہوں۔ ہاں، سچ ہے وہ جلے تو تھے مگر شعلوں سے نہیں بلکہ نور سے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ نور کے جلے تھے۔ ان کو نورانی پیکروں نے وہ جُل دیا تھا کہ اللہ کی پناہ۔ مگر مومن کی عادت خاصہ یہ ہے کہ وہ جھیل جاتا ہے وہ بھی جو اسے اپنے دیں اور وہ بھی جو اسے غیر سے ملے۔ یہاں یونانی فلسفی اور مفکر مارکَس اریلیس کا ذکر ضروری محسوس ہوتا ہے۔ اس کا ماننا تھا کہ خیر اور شر جو بھی انسان کو ملے اس پر ذبح ہوتے ہوئے (مارکَس کے الفاظ نہ ہوتے تو ذکر نہ کیا جاتا) سور کی طرح بلبلانا نہیں چاہیے۔ یہ تو فطرت کا پلان ہے۔ دھیان رکھیں مارکس یہ بات خدا پر عقیدے کی وجہ سے نہیں کہہ رہا بلکہ اپنی مادی تفہیم دنیا کے نتائج اس طرح سے نکال رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اسلام میں بھی صبر کی اہمیت کے نتیجے میں درجات کے اوپر ہونے کی خاصی اہمیت ہے، جس پر قائم وہی رہ سکتا ہے جو مومن ہے۔ مارکس کا دنیا کے پلان سے راضی ہوجانا اسلام میں خدا کے فرمان کے مطابق صبر کر لینے کے مترادف ہے۔
ڈاکٹر فواز کی زبان پہ بھی تقلید اور اجتہاد سے متعلق شذرات تھرکتے ہیں۔ تراث اور زمین سے جڑے رہنے کا مطلب انھیں خوب معلوم ہے۔ انھیں گلی گلی چیختے چلاتے ہوئے آپ نہیں پائیں گے۔ ان کے گھرانے سے فیض اٹھانے کے خواہش مند عرب بھی رہے ہیں۔ ان کے علاقے کے دیگر خاندانی ولولوں میں وہ بات ہی نہیں جو ان کے گھرانے نے ایک محدود ماحول میں رہ کر دنیا کو دیا۔ وہ حاشیہ میں رہ کر متن پہ سوار لوگوں کو اس طرح سے دیکھتے ہیں جیسے ایک بے نیاز علم والا انسان چائے پینے کے دوران طوفان سے کھیل رہا ہوتا ہے اور چائے ختم ہوتے ہی وہ خود متن کا باسی اور نص کا عامل ہوجاتا ہے۔
ان سے بہت ساری گفتگو کے دوران دو نکتے ایسے تھے جس کا ذکر ہمارے اور آپ کے لیے شاید کچھ اہمیت کا حامل ہو۔ اول یہ کہ ہم مولوی قوم کو کیا کرنا چاہیے؟ انھوں نے کہا ”رتی بھر تحمل، بات کہنے میں ہمت کے ساتھ ساتھ کچھ سیکھ لینے کی کوشش اور اپنے علاوہ دوسروں کی باتوں کو رکگنائز کرنے کا جگرا“ بنیادی چیزیں ہو سکتی ہیں“۔ دوم، ہمیں غالبا اس بات کا گمان ہے کہ ہماری حرکتوں پہ دوسروں کی نظر نہیں لہذا ہم فہم و فراست کے کمرے میں اپنی ضد اور اکھڑپن کا ہاتھی باندھ لائیں گے تو کام بن جائے گا۔ ہمیں ڈگریاں اس لیے تو نہیں ملتیں کہ ہم دوسروں کو جاہل کہیں۔ ایک مولوی کا کام مستند علماء پہ آوازیں کسنا تو نہیں ہوسکتا، آوازیں تو اوباشوں میں پلے بڑھے لوگ کستے ہیں۔ مولوی کا کام یہ بھی نہیں کہ وہ سوچ لے ”اپنا کام بن رہا تو بنالیں، اپنی دستار سج رہی ہے تو سجالیں، اپنے مفاد کی تلوار چمک رہی ہےتو چمکالیں چاہےکسی بھی قیمت پر۔ ہم مولوی قوم کے پاس ایک طرف ان کی عزت، عقیدت اور احترام کے نظریاتی اور تاریخی سیاق کا خزانہ ہے تو دوسری طرف لعنت، حقارت، تذلیل اور تھو تھو کا سلسلہ بھی جاری ہے تو اس کے ذمہ دار بھی شاید ہم ہی ہیں۔
گفتگو ادھوری ہے شاید اسے آپ (قاری) پوری کریں گے یا گفتگو خود مکمل ہونے کے لیے دو انسانوں کی قید سے آزاد ہوجائے اور مختلف خانوادوں میں پروئی اور سنواری جانےلگے…!
آپ کے تبصرے