بابا

سعد احمد تاریخ و سیرت

اگر میں یہ کہوں کہ بابا، میرے والد، میرے ابو میری زندگی میں تمام تر اضطراب کا سبب ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اب ایک باپ نے اپنے بیٹے کو دنیا کے فریب اور دھوکہ سے نمٹنے کے گُر نہ سکھائے ہوں اور ہمیشہ اعلی اخلاق کی تبلیغ میں زندگی کو ہلکان کرنے کی روایت باقی رکھنے کی حکمت کو عین فرض انسانی بتایا ہو تو کوئی کیوں نہ رو پڑے گا۔ وہ باپ جس کے روز و شب عمدگی کا مثالیہ تلاش کرنے میں اور علم وعمل کے دیے گئے اصولوں کے مطابق زندگی گذارنے کا واحد معیار سمجھنے سمجھانے میں فرو ہوتے ہوں ان کی تعلیم و تربیت پہ دنیاگیری میں دھکیلا ہوا شخص کیوں سوال نہ اُٹھائے گا۔ بابا یہ سمجھتے ہیں کہ علم سے بڑی کوئی چیز نہیں۔ علم سے بڑی کوئی فضیلت نہیں۔
جب میں نے شعور کے دیدے نچانے شروع کیے تو اپنے آپ کو دنیا بھر کے علوم و فنون پہ مبنی کتابوں سے گِھرا ہوا پایا۔ یہ کتابیں بابا کی تھیں۔ کتابوں سے بھرے دو کمرے اور تیسرا کمرہ بھی بھرتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ایک الماری میں ہر قسم کی کیسٹیں جن میں تقریریں، ڈرامے، ادبی نشستوں کی یادداشتیں، نیپالی ٹیپ رکارڈر، دادا محترم کی آخری یادگار، بڑی نب والا شیفر پین۔ تو دوسری جانب اسی کمرے میں امی کی کل کائنات ان کی الماری، ان کی کتابیں، قرآن شریف، اسلامی وظائف، بارہ سورہ، ایک بڑا آئینہ، کچھ یادگار تصویریں، کوکر، فِرج اور دوسری الیکٹرانک چیزوں کی رسیدیں ایک عجب قسم کا نطق لیے ہوئے ہوتیں۔ بابا کی کتابیں اسلامی نشأة ثانیہ کی ترکیب کے لیے یا غالبا تجدیدی نسخہ تیار کرنے کی خاطر منتخب کی گئی لگتی تھیں۔ نادر ترین اور تازہ ترین کتابیں۔ کتابوں کے باغباں اور حروف کے قیدی صرف بابا نہیں تھے بلکہ دو نسل اوپر تک کے ہمارے اجداد بھی لفظ کے قیدی اور رمز کے جنونی اپنی تحریکِ فہم و بود اور دین ولابود کو بر سر پیکار رکھنے کے لیے جانے جاتے تھے۔ دادا ایک طرف تو عبرت کی اسکرین کو نص متین کے ذریعے سمجھاتے اور بُجھاتے، عبائر اسلامی ان کے موضوعات میں سے تھے۔ ان کا لگاؤ عوام سے تھا اور وہ عوام کے آدمی تھے۔ دیہات میں رہ کر دیہاتیوں کو علم و عمل کی باتوں پر غور کرنے کی ترغیب دینا ان کا اہم مشغلہ تھا۔ دہلی شہر کے مدرسہ سے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اسلامی روشن خیالی اور اصلاحِ معاشرہ کے علمبردار بھی تھے۔ میں دادا جان سے متعلق یہ معلومات بابا اور امی کی زبانی گاہے بگاہے سنتا رہتا۔

بابا کے ملنے والوں میں وہ لوگ جن کی شخصیتوں نے میرے سماجی شعور کو نکھارا ہے ان میں ماموں شاد عباسی اور ان کا پورا خانوادہ، بڑے ابا ڈاکٹر خالد شفاء اللہ رحمانی، مرحومہ پھوپھی جان، مرحوم حافظ جی حافظ عبد الحکیم، بابا کے خاص دوست مولانا عزیز الرحمان جون پوری، ڈاکٹر چکرورتی، چاچا عیتق، چاچا محمد، حبیبہ باجی اور ان کے گھرانے تھے۔ ہمارے بابا دو بھائی ہیں۔ دونوں بابصیرت ہیں اور بصیرت کے دکھوں کو بھی جھیلا ہے۔ جب میری آنکھیں کھلیں تو کانوں کو ایک طرف ادب کا شہد پلایا گیا تو دوسری جانب دین و شریعت پر کاربند رہنے کا گھول بھی حلق میں انڈیلا گیا۔ شریانوں میں توحیدی رمز صدیوں سے گردش کررہا تھا مگر جوش کم ہی مارتا۔ غالب، مومن اور میر کے ساتھ ساتھ اقبال کا شکوہ، کیف بھوپالی کا منظوم قرآن، حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسلام اور حالی کی مسدس حالی ہمارے جذبات کے لیے مرہم ٹھہرا۔ ان کے علاوہ جو لوگ میری زندگی میں دستنبو ثابت ہوئے وہ ہیں دلجُو بڑے بھائی قبلہ ڈاکٹر احمد سعید، سیمابی صفت بڑے بھائی ڈاکٹر فارقلیط ربانی، ذہین بہن زرگل، دوست اور بہی خواہ ڈاکٹر معین الدین، شیخ عبد المعید بڑے بھائی اور استاد پروفیسر ایم ایچ الیاس، گُرو پروفیسر راما کرشنن، استاد عدنان اور میرا دوست ویگنر جو کہ نیتشے کا جگری بھی تھا۔ میرا ویگنر اقبال اجنبی تھا؛ وہ میرا جگری تھا مگر میں نیتشے نہیں تھا۔ اس کے علاوہ، ایک عدد مدرسہ کی دنیا، وہاں کی کتابیں، کتابوں کے شوقین افراد جن میں میرا باغی دوست نصیر الحق نمایاں تھا، پھر دہلی کے جامعات میں لائبریریوں میں علمی مخازن، کلچرل سنٹرس اور علمی اداروں نے وہ رنگ نکھارے کہ یورپ اور عرب کے اہم علمی اداروں میں جا پڑا۔ کشکہ کھینچنے اور دیر میں بیٹھنے والی کہانی شاید میرے لیے تھی ہی نہیں۔ ہاں، اُس اسلام کو اپنانے کی کبھی جرات نہ کرسکا جس کی واحد شناخت زرق برق لبادے ہیں یا فصیح و بلیغ لہجے اور کوئنٹل بھر بچکانہ فتاوے۔

شہر کی حیثیت سے دہلی ہندوستان کے خواب کی تعبیر تھا۔ شنہشاہیت اور ملوکیت کو چاہے جتنا برا کہا جائے مگر عوام کی یادداشتوں میں اس کے کیے گئے احسانات نسلوں تک باقی رہتے ہیں۔ کئی نسل اوپر کے شہنشاہوں کے درباریوں نے کئی نسل بعد کے ہندوستان کی بھی تعمیر کی تھی۔ سارے جہاں سے اچھا جو تھا وہ انہی معزز درباریوں کی دین ہے۔ بابا میرے لیے سراپا خضر تھے۔ دہلی آنے کے بعد مجھے بابا کی یاد کبھی نہیں آئی مطلب میں بابا کو بھولا ہی نہیں۔ ان تمام چَپوں اور کونوں کو جہاں ہمارے تاریخی شہنشاہوں اور حاکموں کے کتبے سجے تھے میں بابا کی آنکھوں سے دیکھتا رہتا، وہ آنکھیں جو لائبریریوں کی کتابوں اور نادر خیالوں کو پی پی کر متورم ہو گئیں تھیں، میری دید کے لیے سرمایہ علم کا بڑا تودہ ثابت ہوئیں۔ بابا فطرتا مؤرخ ہیں مگر اپنے قلم پر بڑی بڑی تاریخوں کے بوجھ ڈالنے کے قائل نہیں۔ وہ تو ڈوبتی آنکھوں اور بوڑھی لاٹھیوں کے پاس بیٹھ کر چھوٹی تاریخیں، فرد کی محسوس کی ہوئی تاریکی اور دیکھی ہوئی روشنی کی شہادت دیتے ہیں۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ بابا سے میری پہلی عقلی گفتگو ایک انتہائی غیر عقلی موضوع پہ ہوئی تھی۔ بابا کی کتاب قبر سے حشر تک جس کی ماہیت اور بصارت نصی دینیت پہ مبنی تھی مجھے عمدہ لگی اور پہلی مرتبہ میں نص میں مکنون کونیت اور معرفت کی شکل میں خداوند کی مانگ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں اپنی عمر سے زیاده اپنی فکر اور نگاہوں کے تقاضوں کا دھیانی تھا۔مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ غیر عقلی شئی کی عادت مجھے ایسی دنیا میں دھکیل دے گی جہاں میں خود کسی طلسم کا قیدی ہو جاؤں گا یا شاید میں ہوچکا تھا نص کے طلسم کا قیدی۔

یہ نص کا طلسم آخر کہاں سے آیا؟ یہ سوال فلسفے کی دنیا کے فرد کے لیے بھی خاصہ داخلی اور لازمی سوال ہے۔ میں نے ایک بار ابن عربی کے بارے میں بھی بابا سے پوچھا۔ بابا نے کہا تجدیدی روح میں بہت وسعت ہوتی ہے۔ آپ جس قدر وحشتیں اپنے اندر انڈیلیں گے اتنی زیادہ رشک آمیز لہلہاتی کھیتی کے مالک ہوں گے۔ پھر کیا تھا، آگ لگی تھی، عمر کچی تھی اور ارادہ صنم اکبر کی گردن میں کلہاڑی لٹکانے کا تھا۔ عبد الرحمان عبد الخالق کی ”الفکر الصوفی“ ہاتھ لگی اور میں نے مان لیا چلو میں نے کر دکھایا کہ“وہ مارا“۔ مگر صنم بھی نص کے طلسم میں مبتلا تھا اور اجتہادِ گفتگو کی جسارت کر بیٹھا تھا۔ میرا مجتہد ابن عربی تھا اور وہ گفتگو کرچکا تھا۔ تفہیم شئی کے اس سفر میں تقریبا بارہ سال کا عرصہ لگا۔ کچے سے پکے کا فرق سمجھ آیا۔

میں نے شاید بابا کی باتیں غور سے نہیں سنی تھیں۔ بابا نے روح کی وسعت کے بارے میں کہا تھا جس کا صیغہ وجود نہ مذکر ہے اور نہ مونث اور نہ کسی تیسرے صیغے کی بانہیں اسے درکار ہوتی ہیں۔ بلکہ وہ وجود کے تمام صیغوں کو ہست کے مواقع سے نوازتی ہے۔ ہاں، روح ہست ہے۔ ہاں، روح بود ہے۔ ہاں، روح وجہِ ہست و بود ہے۔ بابا کی عقیدت کو ملحوظ رکھتے ہوئے قبلہ و کعبہ امام غزالی سے میری شناسائی ہوئی جو تفہیم دنیا کا غیر عقلی سے تعلق، تفہیم دین اور تفہیم ما بعد الممات پہ خاصہ ید طولی رکھتے ہیں۔ پھر کیا تھا بابا نے علماء وَجد و اجتہاد کا اگر ایک طرف تعارف کرایا تو دوسری جانب ضبط و تقلید کی اہمیتوں پہ روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا ابن تیمیہ فکر اسلامی کے جد امجد ضرور ہیں مگر اجداد کو سمجھنے میں ذرا سی غلطی حال میں خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔ میں نے مانا یعنی آج وہی ہم دیکھ رہے ہیں۔ تفمہیم نص کے بجائے نص پہ مبنی جبریت کے ہم وارث ہورہے ہیں۔ روحانیت کی وسعت کو ناپنے کے بجائے میں اپنی روحانیت میں جل رہا تھا؛ میں باباوں سے تفہیمی رشتہ جوڑ رہا تھا۔

میرے خیال میں ابن حزم کی تحریکِ ظاہریت اسی لیے ناکام ہوئی کہ نص کی باطنیت سے اعتزال اختیار کیا جانا دین کی صحت کے لیے قطعی نفع بخش نہیں۔ جب کہ ابن تیمیہ اور ابن حزم کے درمیان زمان و مکان کی دوری تھی تو مشرق و مغرب کی معرفتی کاروائیوں نے بھی اچھا کردار ادا کیا تھا۔ ابن تیمیہ ابن حزم کے بہت بعد میں آئے تھے، ابن حزم یورپ کے نور اندلس کے باسی تھے جبکہ ابن تیمیہ شام ومصر کو جیتے تھے۔ اور پھر دوسرے ابن حزم ہوئے بھی تو نہیں۔ ابن تیمیہ کی خوش قسمتی تھی کہ وہ عقل کے پارچہ بافوں اور مخمل بافوں کے زمانے میں کچھ حادثہ برپا ہی نہ کرسکے یعنی وہ اس دور میں تھے ہی نہیں۔ خدائے تعالی نے انھیں اس وقت پیدا کیا تھا جب عقل محض، عقل مقفل، عقل مجرد اور عقل دینی پہ بڑے پیمانہ پر بڑے دماغوں نے سوچ لیا تھا۔ یونانی فلسفے کی عرب شکل اس لائق ہو چکی تھی کہ صحرا میں ریت کے دانے گننے کا دعوی کرسکے، امام غزالی ریت کے دانے کی شئییت میں ہی خداوندا کی قوت کو اول محرک مانتے جسے خاتون سائنس داں کیرین ہارڈنگ نے خوب پہچانا اور کوانٹم مینکانکس کو غزالی کی علت و معلول کے نظریے کی تائید کرتے ہوئے پایا اور ابن رشد ان دانوں کی معرفتی تفہیم سے ارسطاطالیسی نظام اور دینی تصور دونوں کو بچانے کا انتظام کر سکے۔ موجودہ عہد کے سب سے ذہین ماہر غزالیات بابا ابراہیم موسی کے بقول ابن تیمیہ تاریخ کے اسمارٹ ترین دماغ میں سے ہیں۔ میرے خیال میں ابن تیمیہ اگر ایک طرف اجتہاد اور تجدید کی تفہیم میں ہی ناقابل شکست ہیں اور یونانی فلسفہ کو گر کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کرایا ہے تو دوسری طرف فسلفہ نص اور فلسفہ ’عقل عام‘ کو بھی جینے کی وجہ فراہم کی ہے۔ گو کہ اس سے پہلے عقل عام کی محفل کبھی سجی ہی نہیں۔

مغربی فلسفہ میں دریدا کو وہ مقام حاصل ہے جس نے نص کے طلسم پر اپنے تعقلاتی مکاشفات کا حال بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی سائنس، فلسفہ، دینیات اور ذہن حتی کہ خدا سے ہمارا مرئی اور عقلی تعلق جوڑنے کی جرات کر سکتا ہے تو وہ سترہویں صدی کا فارسی دماغ ملّا صدرا ہے۔ اس نے بو علی سینا، سہراوردی اور یونانی فلسفوں کو لے کر وہ کام کیا ہے کہ سماوی، فلکیاتی اور کائناتی مسائل سے لے کر طبی اور مابعد مماتی مسائل کا حل نکالا جاسکے۔ اس نے بھی نص قرآنی سے فائدہ اٹھایا اور وجود کے تعین کے لیے ”اتحاد العاقل و المعقول“ جیسے اصول بنائے۔

بلاشبہ بابا کی باتیں میرے لیے وہ حکمتیں تھیں جن تک پہنچنے کے لیے مجھے ہمیشہ کبھی عقلی، کبھی جذباتی اور کبھی غیر عقلی جست لگانی پڑتی مگر انسان چاہے جتنی جست لگالے خدا سے ایک بالشت دور تو رہتا ہی ہے۔ بابا کا بہترین انداز یہ تھا کہ وہ مجھے مارکس کو اپنا بابا بنانے سے روکتے اور نہ نیتشے کو، نہ انھیں ہندو فلسفوں سے مسئلہ تھا اور نہ ہی مغربی علوم سے۔ انھیں روایتوں اور زمین سی نکلی ہوئی کونپلوں کی زیادہ فکر تھی۔ دماغ کے شور سے وہ بالکل پریشان نہیں ہوتے مگر دل کا شور ان کی پیشانی پہ شکنیں ضرور لادیتا۔ میں کئی صدیوں کے برابر بڑے سے کمرے کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا چھوٹا سا بچہ تھا جو اشیاء کو دیکھنا اور پہچاننا سیکھ رہا تھا۔ میں زمین پر رینگنے کو آسمان پر اڑنا سمجھ رہا تھا۔ بابا کا ذہن ان کی خالص نظریاتی مگر تجدیدی تجربات کی پیداوار تھا۔ بابا اسرار دین و دنیا کو غالبا اپنے بابا کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور ان کے بابا نے ان اسرار کو دہلی کے اساتذہ اور باباوں کی آنکھوں سے دیکھا ہوگا۔ وہ جانتے تھے کہ تجدیدی محلول تیار کرنے کے لیے خطرناک کیمیاوی مواد کی ضرورت پڑتی ہے اب چاہے وہ ابن عربی سے لیے جائیں یا ملا صدرا سے۔ میری ترقی پسندانہ جہتیں اگر آپ کے ذہن پہ بار نہ ہوں تو مجھے معرفتوں کے شہید شیخ نور الانوار شہاب الدین سہروردی اور مدرسہ اشراق کے بانی کو بھی اس لسٹ میں شامل کر لینے دیجیے۔

بابا شاہ ولی اللہ کے افکار و نظریات کے حامی اور موید ہیں۔ گوکہ ہم بھی انہی پروانوں میں شامل ہونے والے تھے جو لڑکپن کے دنوں سے ہی اُس چراغ کے ارد گرد گھومتا رہتا جسے حجة اللہ البالغہ کہتے ہیں۔ مگر اس کتاب کے رموز تک پہنچنے کی توفیق مدرسہ دیوبند کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے علماء کی وجہ سے ہوئی۔ بابا شاہ ولی اللہ کو مجدد اور مجتہد مانتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کی کتاب حجة اللہ البالغہ دراصل اسرار دین کی تفہیم اور اسلامی معنویت کو حقیقت میں لانے کا نسخہ ہے۔ یہ کتاب نص کے طلسم میں مقید نظر آتی ہے اور نہ ہی کسی طلسم میں نص کو بیان کرنے کے افادات پہ غور کرتی ہے بلکہ دین کے مفاہیم عقل عام تک پہنچانے کے لیے ایک مومنانہ لائحہ عمل ہے۔ مگرخبردار! یہ کتاب صرف مجدادانہ خصائص والوں کے لیے ہے عوام الناس کے لیے نہیں۔

بابا کی تفہیمی کاروائیوں کا میں قائل بھی ہوں اور ان پر عمل پیرا رہنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ مگر بابا کا یہ حسن ظن کہ لکھنا پڑھنا اچھی چیز ہے اسے میں آج تک ہضم کرنے کی ہمت نہ جٹاسکا۔ میرے حساب سے لکھنا خود ہی تصور ذات کی تشکیل میں بڑی خیانت ہے۔ لکھنا تصور ذات کو خراب کر دینے کے مترادف ہے۔ مگر کیا کیا جائے اگر لکھنے سے منہ موڑ لیا جائے گا تو افلاطونی روایتوں کو باقی کون رکھے گا۔ جسم، مادہ اور شکل کے بجائے خیال، تصور اور وعدے کو باقی رکھنے کی ذمہ داری کس کے سر ہوگی۔ چھولینے کی لذت کے بجائے محسوس کرلینے کی لذت پر کون آمنا اور صدقنا کہے گا۔ بابا جانتے ہیں کہ گمان کا سرمایہ چاہے بہت بڑا ہو یقین کی دمڑی کے برابر نہیں ہو سکتا۔ بابا کا علم، تجربہ اور ملاحظہ گرچہ سلطنت روما کا ایمپیتھیٹر ہے مگر وہ ہمیشہ اس بات کی وکالت کرتے رہے ہیں کہ انسان کا مرحلہ ہست و بود اس کی آخری سانس تک چلتا رہتا ہے، لہذا ان لوگوں کے قدموں میں کبھی نہ گرنا جو ظاہرا ہفت اقليم ڈکارے بیٹھے ہوں مگر ان کا باطن قلاش ہو۔
بابا نصی رموز کو سمجھنے سے پہلے سیرت نبوی کی تمام ساعتوں میں بکھری روشنیوں کو سمجھ لینے کی ترغیب دیتے رہیں ہیں۔ بابا سے بہت دنوں سے گفتگو ہوئی نہیں ہے۔ شاید وہ مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم اس عہد میں داخل ہو چکے ہیں جب چھوٹے چھوٹے تجدیدی نسخے تیار کرنا شروع کردیں تاکہ آفاقی حملوں کو جھیل سکیں، خاموش بیٹھے رہنے کے عذاب کو روک سکیں اور اندروں کے چنگھاڑتے وحشی کو پالتو بنا سکیں۔ بابا سے سیکھی ہوئی ساری چیزوں کے بعد اب کوئی مجھ سے علم کی تعریف سننا چاہے گا تو میں یہی کہوں گا ”وہ اضطراب ہے“۔ ”علم منبع اضطراب“ ہے۔ علم فضیلت سے زیادہ اضطراب ہے۔ والله اعلم

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Anwar Jamal

بھئی واہ! مزہ آگیا۔ کیا ھی عمدہ خاکہ تحریر کیا ھے عزیزم نے۔ میں توقائل ھوگیا۔

Mohammad Ehtesham

بہت پہلے کسی سیانے شاعر نے کہا تھا:
کتنی پرسکون تھی لا علمی
آگہی نے اضطراب دیئے

پہلی بار “بابا” کے شایان شان کچھ پڑھنے کو ملا.. ہزاروں سلام میری طرف سے بابا کو اور بابا کے اس مضطرب بچے کو.