ٹیکنالوجی کی دنیا بھی کتنی عجیب ہوتی ہے۔ فیس بک کے خالق نے فیس بک پر ایک آپشن “بلاک” کا دیا ہوا ہے۔
آپ اگر کسی کو بلاک کر دیں تو وہ آپ کو فیس بک پر کہیں نظر نہیں آئے گا۔ اور نہ وہ آپ کو دیکھ سکے گا۔ اگرچہ دونوں حضرات کسی تیسرے شخص کی وال پر ایک ساتھ جمع ہوجائیں۔ دونوں ایک ہی پوسٹ کو لائک یا اس پر کوئی کمینٹ وغیرہ کریں۔ مگر دونوں ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے۔
اگر اس دنیا کا خالق بھی یہ آپشن عام زندگی میں لوگوں کو دے دیتا تو جن سے ہماری ان بن ہوجاتی ہے یا کسی قسم کی کوئی ناچاقی ہوجاتی ہے ان کو غیظ و غضب میں آکر بلاک کر دیتے اور شاید ہی پھر کبھی ان کی طرف ملتفت ہو پاتے۔ اور امید تھی کہ کبھی زندگی میں معافی تلافی کی نوبت نہ آتی۔
اللہ کتنا رحیم و کریم ہے۔ اس کی طاقت و قوت کا ہمیں اندازہ بھی نہیں۔ وہ مختار کل ہے۔ اس کے ایک “کن“ کہنے سے بلکہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں صرف ارادہ کرلینے سے پوری دنیا فورا سے پہلے ختم ہو سکتی ہے۔ مگر وہ اپنے بندوں کی بڑی سے بڑی خطاؤں اور نافرمانیوں کے باوجود ان سے درگزر کا معاملہ کرتا رہتا ہے۔ دل سے دعا کرنے پر تمام کوتاہیوں کو معاف بھی کردیتا ہے۔ اور احادیث سے پتا چلتا ہے کہ انسان توبۃ النصوح کے بعد گناہوں سے ایسے پاک ہوجاتا ہے جیسے شیر خوار بچہ جو کہ بالکل معصوم ہوتا ہے۔
اللہ رب العزت اپنے ان بندوں کو بھی پسند فرماتا ہے بلکہ ان کے لیے فضیلتیں بھی محمد عربیؐ کی زبانی بیان فرمائی ہیں جو نصح و خیر، صلح و آشتی اور محبت و مودت سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں۔
آج ہم ذرا ذرا سی بات پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ انا کا مسئلہ بنا لیتے، بات چیت بند کر دیتے ہیں۔ احسان جتانے لگ جاتے اور یہ عہد کر لیتے ہیں کہ آئندہ اس کے ساتھ کبھی خیر و بھلائی نہیں کریں گے۔ اور اپنے انا کی تسکین کے لیے اس غلط فیصلے کو واجبات کی طرح برتنے لگتے ہیں۔ اور پھر بالکل اسی طرح زندگی گزارنے لگ جاتے ہیں جس طرح فیس بک پر بلاک کیے گئے شخص سے بے پروا ہوکر اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ اپنی وال پر نہ اسے آنے کی اجازت دیتے ہیں اور نہ اپنی انانیت کی وجہ سے اس کی وال پر جاتے ہیں۔
یہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زندگی میں ایسے موڑ بھی آجاتے ہیں کہ ہمیں کسی کی نازیبا حرکتوں کی وجہ سے اس کی صورت تک دیکھنا گوارا نہیں ہوتا۔ مگر ایسی صورت حال میں بھی ہمیں آخری پیغمبر جسے “خلق عظیم” کی سند سے اللہ رب العلمین نے سرفراز کیا ہے اس کے طرز عمل سے سبق حاصل کرنا چاہیے اس نے کیسے کیسے ظالموں کو معاف کر دیا کہ جنھیں خود اپنی غلطیوں کی سنگینی کی وجہ سی معافی کی امید نہیں تھی۔ مگر رحمت للعالمین نے انھیں بھی معاف فرما کر ایسی مثال قائم کی ہے جس کی نظیر آج بھی دنیا میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔
ہم یہ مانتے ہیں کہ یہ کام اتنا آسان نہیں مگر یارو! اس کا صلہ بھی تو عام نہیں۔
ایک نظیر اور بھی ہمیں ان کی زندگی سے ملتی ہے کہ عم رسولؐ کے قاتل کو آپؐ نے معاف تو فرما دیا مگر یہ ہدایت بھی سنا دی کہ میری آنکھوں کے سامنے مت آنا اس وجہ سے نہیں کہ اس سے نفرت تھی محض اس سبب سے کہ جب میں تم کو دیکھتا ہوں چچا محترم کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم کسی سے اس کی تکلیف دہ حرکتوں کی وجہ سے معافی کے بعد بھی دوری بنا سکتے ہیں مگر اس کے خلاف اپنے دل میں نفرت نہیں پالنا چاہیے۔
یہ زندگی محبتیں بانٹنے کے لیے ہے اگر ہم محبتوں میں زندگی گزاریں تو ایک زندگی بھی ہمیں کم معلوم ہوگی مگر نفرتوں کے ساتھ ایک پل بھی گزارنا مشکل ہوگا۔زندگی کو آسان بنائیے، مشکل نہیں۔
آپ کے تبصرے