کتاب “الفہرست” تراجم و تالیفات اور مختلف علوم و فنون کے بارے میں بڑی اہمیت کی حامل اور اصل الاصول کی حیثیت رکھتی ہے اور اس موضوع کی یہ پہلی کتاب ہے۔ اس شہرہ آفاق کتاب کے مصنف کا نام محمد بن اسحاق بن محمد ابن اسحاق الندیم ہے، لیکن ابن ندیم کے نام سے ہی مشہور ہے۔ اس کی کنیت ابوالفرج ہے، بغداد میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک وراق تھا۔(تاريخ الاسلام للذہبي: 8/ 833، معجم الادبا للحموي: 6/ 2427، لسان الميزان: 5/ 72، معجم المطبوعات العربيہ:1/ 267)
ابن خلدون نے وراقین کی تعریف میں کہا کہ: کتابوں کی نقل، تجلید، تصحیح وغیرہ امور جن کا پیشہ ہوتا ہے انھیں وراقین کہا جاتا ہے۔(تاريخ ابن خلدون: 1/503)
حیرت کی بات یہ ہے کہ جس شخص نے ہزاروں مصنفین و مؤلفین، ان کی تالیفات و تصنیفات، مختلف علوم و فنون اور قیمتی علمی و تحقیقی ذخائر سے پوری دنیا کو متعارف کرایا، خود اس کی زندگی کا حال یہ ہے کہ لوگ اس کے حالات زندگی سے متعارف نہیں ہوسکے۔ سیر و تاریخ کی اکثر کتابیں اس کے ذکر ہی سے خاموش ہیں، صرف دو چار مؤلفین نے نہایت مختصر، چند سطور میں اس کا ترجمہ ذکر کیا ہے۔ اسی لیے ابن الندیم کی طفولیت، عہد شباب، تعلیم و تربیت، مشایخ و تلامذہ اور ان کے علمی رحلات و سفر، ان تمام امور سے دنیا واقف نہیں ہوسکی۔ البتہ مؤلف کی اس زیر تبصرہ کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت وسیع النظر، مختلف علوم و فنون کے بہت زیادہ جانکار اور ہر فن کی کتابوں اور ان کے مصنفین کے بارے میں کامل آگاہی رکھتا تھا۔ ابن الندیم محدثین و محققین کے نزدیک غیر ثقہ و غیر معتبر ہے۔
مؤلف کا عقیدہ اور مذہب:
کسی بھی کتاب کو پڑھنے سے پہلے اس کتاب کے مؤلف کے عقیدہ اور مذہب کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے، تاکہ اگر کسی کتاب کا مؤلف فاسد العقیدہ والفکر ہو تو اس کا اثر قارئین کی زندگی اور فکر پر نہ پڑے اور اس مؤلف کے بارے میں ہم پہلے ہی سے محتاط ہوجائیں۔
جہاں تک ابن الندیم کی بات ہے تو وہ مذہبا شیعی بلکہ رافضی اور معتزلی تھے۔ ان کی تحریرات و تقریرات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو اہل سنت سے بغض و نفرت تھی جیسا کہ روافض کے یہاں یہ لاعلاج بیماری ہے۔
ابن حجر نے کہا کہ: جب میں نے ان کی کتاب کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ رافضی معتزلی ہیں، اہل سنت کو حشویہ اور اشاعرہ کو مجبرہ کا نام دیتے ہیں اور ہر غیر شیعی عالم کو عامی کہتے ہیں، اس مؤلف میں عجیب و غریب بات یہ ہے کہ انھوں نے عبد المنعم بن ادريس، واقدي ، اسحاق بن بشير وغیرہ کذابین کی توثیق کی ہے اور محمد بن اسحاق، ابی اسحاق الفزاری وغيره ثقات پر کلام کیا ہے(لسان الميزان: 5/ 72)
وفات:
مؤرخین کا ان کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف ہے، علامہ ذہبی نے تخمینا ان کی تاریخ وفات 391 سے 400 ہجری بتایا ہے۔(تاريخ الاسلام: 8/ 833) جبکہ معجم المطبوعات العربيہ کے مؤلف نے ان کی وفات 385 کے آس پاس قرار دیا۔(معجم المطبوعات العربيہ: 1/ 267)
کتاب کا مختصر تعارف:
مؤلف نے اس کتاب کا کوئی عنوان نہیں رکھا ہے، صرف کتاب کے مقدمہ میں ذکر کیا ہے کہ: “یہ کتاب عرب و عجم کی ان تمام کتابوں کی فہرست ہے جو عربی زبان اور اس کے رسم الخط پر مشتمل ہیں”(الفہرست: ص 7) اور یہیں سے یہ کتاب لوگوں کے درمیان “فہرست” کے نام سے مشہور ہوئی۔
اس کتاب میں چوتھی صدی ہجری کے اواخر تک کے تمام علوم و فنون، ثقافت و تہذیب کا جائزہ لیا ہے اور ان کے مولفین کے مختصر حالات اور ان کی تاریخ ولادت و وفات کا ذکر کیا ہے۔
اس میں اقوام عرب و عجم کی زبان، اسلوب تحریر، ان کے رسم الخط، کتابت کی شکلیں اور مشہور خطاط و کتاب کا ذکر ہے۔
اس میں قرآن کریم کے نزول، اس کی جمع و تدوین، مشہور قراء، مفسرین اور کاتبین وحی کے بارے میں قیمتی معلومات جمع کیے گئے ہیں۔ اسلام سے قبل آسمانی کتب و صحائف کے بارے میں بھی ضروری معلومات کا ذکر ہے۔
زبان و ادب، فصاحت و بلاغت، شعر و شاعری، شعراء جاہلیت اور شعراء اسلام کے طبقات وغیرہ امور سے متعلق اہم تفصیلات سپرد قلم کیے ہیں۔ علم نحو کی تاریخ، اس کی اہمیت و ضرورت، مشہور نحویوں اور ان کی اہم تصنیفات کا تذکرہ بھی شامل کتاب ہے۔
مشہور فقہا، ان کی اہم تصنیفات، علم طب، علم فلسفہ اور اس سے مسلمانوں کی دلچسپی کی ابتدا، فلاسفہ اسلام، فلاسفہ یونان اور ان تمام علوم و فنون سے متعلق اہم تصنیفات و تالیفات کا ذکر بھی اس کتاب میں آ گیا ہے۔
اسی طرح دنیا کے قدیم مذاہب جیسے مذاہب ہند و مذاہب چین کے بارے میں بھی دلچسپ معلومات اس میں مندرج ہیں۔
الغرض دنیا کے تقریبا تمام علوم و فنون سے متعلق بنیادی و قیمتی معلومات کے زیور سے یہ کتاب مزین ہے۔
اس کتاب کی اہمیت اور اصل الاصول ہونے کا اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ابن خلقان، ذہبی، ابن حجر، صفدی، ابن قطلوبغا اور دیگر بے شمار علما و محدثین اس کتاب سے کثرت سے معلومات نقل کرتے ہیں اور اپنی کتابوں میں ثبت کرتے ہیں۔
اس کتاب کے کئی قلمی نسخے دنیا کے متعدد کتب خانوں میں ملے ہیں۔ لیکن کوئی بھی نسخہ کامل نہیں ہے۔
ان میں سے تین نسخے زیادہ متداول، مشہور اور معتبر ہیں، اور وہ یہ ہیں:
1-نسخہ شیسٹر بیٹی، یہ نسخہ آئرلینڈ کے ڈبلن شہر کے شیسٹر بیٹی لائبریری میں محفوظ ہے، اس نسخہ میں 119 اوراق ہیں، اس کا خط بہت ہی واضح اور خوبصورت ہے، اس میں شروع سے لے کر تقریبا نصف کتاب موجود ہے، لیکن اس میں باب اول کے کچھ فصول غائب ہیں، یہ نسخہ سب سے معتبر اور مولف کے نسخے سے سب سے قریب ترین سمجھا جاتا ہے۔
2- نسخہ شہید علی پاشا، یہ نسخہ استنبول کے مکتبہ سلیمانیہ میں موجود ہے، اس کا بھی خط بہت ہی واضح اور خوبصورت ہے، یہ نسخہ تقریبا آخری نصف کتاب پر شامل ہے، یعنی جہاں سے نسخہ اول ختم ہوا ہے وہاں سے اس کی ابتدا ہے۔ سابق نسخہ سے اس کی بہت زیادہ مشابہت ہے، اسی لیے اس کتاب کے محققین کا کہنا ہے کہ یہ دونوں نسخے اصل میں اس کتاب کا ایک ہی کامل نسخہ ہے، لیکن حوادث زمانہ کے سبب سے یہ نسخہ دو الگ الگ جگہوں میں ملا۔
3- نسخہ ٹونک، ہند کے صوبے راجستھان کے ضلع ٹونک کے مکتبہ سعیدیہ میں موجود ہے، اس نسخہ میں 44 اوراق ہیں، اس کا خط بہت ہی چھوٹا اور غیر واضح ہے، یہ نسخہ کتاب کے صرف کچھ اجزاء پر مشتمل ہے، لیکن اس نسخے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ نسخہ اول کے جو فصول غائب ہیں اس نسخے میں وہ فصول موجود ہیں، اس طرح سے ان تینوں نسخوں کو ملا کر پوری کتاب دستیاب ہو جاتی ہے(مقدمہ الفہرست تحقیق رضا تجدد ص 1-3، الفہرست لابن الندیم قراة نقدیہ للدکتور مہا أحمد ابراھیم ص 15-16)
یہ کتاب پہلی مرتبہ مشہور مستشرق فلوگل کی تحقیق سے 1872ء میں شائع ہوئی، اس ایڈیشن میں بہت زیادہ تصحیف، تحریف اور اخطاء موجود ہیں۔ پھر اس کے بعد کئی محققین نے اس کتاب کی تحقیق کی، لیکن اب تک رضا تجدد کی تحقیق سب سے اچھی تحقیق مانی جاتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ کتاب بہت ہی مفید اور جامع ہے، اور اپنے موضوع پر خاص شہرت و اہمیت کی حامل ہے، علم کے شائقین کو یہ کتاب کئی بار پڑھنی چاہیے، ایک طالب علم کے لیے عیب ہے کہ اس کی نظر سے یہ کتاب نہ گذرے۔
الله تعالى أپ کی کوششؤں کو قبول فرمائے آمین
میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ہمیں ان جیسے ناپید مصنف و مؤلف تک رسائی کرائی اور ہمیں تحقیق و مطالعہ کی طرف راغب کیا
فجزاكم الله خيرا
ماشاء الله
الفہرست کا عمدہ تعارف ہے
ابن ندیم کے شیعہ ومعتزلی ہونے کی بات الفہرست کے مطالعہ سے واضح ہوجاتی ہے
ابن ندیم نے اپنی کتاب کو دس ابواب / مقالات میں تقسیم کیا ہے اس پر بھی گفتگو مناسب ہوتی ۔
اسحاق بھٹی مرحوم نے الفہرست کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے جو مطبوع ومتداول ہے ۔
جناب مضمون کے لئے مبارك ہو۔ یہ پانچ ستارہ مضمون ہے۔ پلیز مزید اس طرح کی چیزین لکھیں۔