قرض لے کر عقیقہ کرنا

مامون رشید ہارون رشید

کیا ایک تنگ حال شخص قرض لے کر عقیقہ کر سکتا ہے یا نہیں؟ علمائے دین کا اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ مگر راجح اور صواب یہ ہے کہ عقیقہ کے لیے قرض لینے والے شخص کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
(1) ایسا قرض لینے والا خود مستقل فقیر اور تنگ دست وتہی داماں ہو اور کوئی امید نہ ہو کہ یہ “مال مقروض” کو لوٹائے گا بھی یا نہیں، تو ایسے شخص کے لیے قرض لے کر عقیقہ کرنا درست اور جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:
(لا يكلف الله نفساً إلا وسعها)

“اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا”۔
اور فرمایا:
“(وما جعل عليكم في الدين من حرج)

“اور اللہ تعالى نے دين ميں تمھارے ليے كوئى تنگى نہيں ركھى”۔
اور اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم، وإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه)

“جب ميں تمھيں كوئى حكم دوں تو اس پر اپنى استطاعت كے مطابق عمل كرو، اور جب تمھيں كسى چيز سے منع كروں تو اس سے اجتناب كيا كرو”۔
لہذا استطاعت کے مطابق عمل کرنا ہے اور اگر استطاعت نہ ہو تو عمل کرنا ارشاد نبوی کے خلاف شمار کیا جائے گا۔
اسی طرح اللہ کے رسول نے فرمایا:
(لا ضرر ولا ضرار)

نہ تو کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی خود نقصان اٹھاؤ۔
چنانچہ ایسا تنگ دست شخص اگر قرض لے گا تو وہ خود کو تو نقصان اور پریشانی میں مبتلا کرے گا ہی، بے چارے قرض خواہ کو بھی پریشانی میں ڈالے گا اور تنگ دامانی کی وجہ سے اس کے ساتھ ٹال مٹول سے کام لے گا۔
(2) قرض لے کر عقیقہ کرنے والا شخص ایسا ہو جو مستقل بالذات فقیر نہ ہو بلکہ کسی خاص موقع پر روپے پیسوں کی تنگی کی وجہ سے وہ قرض لے کر عقیقہ کررہا ہو اور یقین بھی ہو کہ تھوڑے دنوں بعد اس کے پاس روپے پیسے کا انتظام ہوجائے گا اور وہ قرض ادا کردے گا تو ایسے شخص کے لیے قرض لے کر عقیقہ کرنا درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب

آپ کے تبصرے

3000