کتاب “مناھل العرفان” میں “محمد عبد العظیم زرقانی” کے عقدی انحرافات 

مامون رشید ہارون رشید تعارف و تبصرہ

کچھ مؤلف کے بارے میں:
شیخ محمد عبد العظیم زرقانی مصر کے مغربی گورنری کے جعفریہ (سنطہ) نامی مقام پر پیدا ہوئے۔ آپ کی تاریخ ولادت بالتحدید معلوم نہ ہوسکى البتہ آپ کے سیرت نگاروں نے اتنا ضرور ذکر کیا ہے کہ آپ کی ولادت چودھویں صدی ہجری کے اوائل میں ہوئی ہے، زرقان شہر کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے زرقانی کہلائے۔ یہ شارح موطا کے علاوہ ہیں، شارح موطا کا نام محمد بن عبد الباقی بن یوسف ہے جبکہ صاحب مناھل العرفان کا نام محمد عبد العظیم ہے۔ شارح موطا کی ولادت (1055) ہجری اور وفات (1122ھ) کو ہوئی ہے جبکہ صاحب مناھل کی ولادت آپ کے ڈیڑھ صدی بعد چودھویں صدی کے اوائل میں اور وفات (1367ھ) کو ہوئی ہے۔ فقہ میں شارح موطا مذہبا مالکی تھے جبکہ صاحب مناھل کا کوئی خاص مذہب معروف نہیں ہے البتہ دونوں میں کئی باتیں مشترک بھی ہیں جس کی وجہ سے کچھ علما و طلبہ علم دونوں کو ایک ہی سمجھتے ہیں جیسے دونوں کا ایک ہی ملک ایک ہی ضلع اور ایک ہی شہر میں پیدا ہونا، دونوں کی نسبت کا ایک ہونا، دونوں کا جامع ازہر مصر میں تعلم و تعلیم کا فریضہ انجام دینا، دونوں کا عقیدتا اشعری ہونا اور تصوف کی طرف مائل ہونا۔ واللہ اعلم بالصواب

قاہرہ مصر کی عظیم درسگاہوں میں اکتساب فیض کے بعد آپ نے متعدد یونیورسٹیوں میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا، دعوت و تبلیغ کی راہ میں بھی لگے رہے اور متعدد مشہور کتابوں کی تالیف بھی کی جن میں سے کچھ ہیں:
(1) المنهل الحديث في علوم الحديث
(3) مناهل العرفان في علوم القرآن
(3) بحث في الدعوة والإرشاد

آپ کی وفات (1367) ہجری میں ہوئی۔
کتاب کی اہمیت:
مناھل العرفان علوم القرآن پر لکھی گئی کتابوں میں ایک اہم ترین، مرجع کی حیثیت رکھنے والی، مفید معلومات پر مشتمل، عمدہ ترین کتاب ہے حتی کہ شہرت اور تداول میں اپنے ما سبق کتب “امام زرکشی کی البرهان” اور امام سیوطی کی” الاتقان في علوم القرآن” وغیرہما پر بھی سبقت حاصل کر چکی ہے۔
چنانچہ زرقانی کے بعد  علوم القرآن پر کتابیں تصنیف کرنے والے تمام علما نے اس کتاب سے کافی استفادہ کیا ہے اور ترتیب وتبویب میں بھی مناھل العرفان کی ترتیب کی اتباع کی ہے۔

مؤلف کا منہج:
(1) مؤلف رحمہ اللہ نے کتاب کے اندر علوم القرآن کے اہم ترین مباحث پر خامہ فرسائی کی ہے جو ہر طالب علم کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
(2) مؤلف رحمہ اللہ نے کتاب کے اندر سترہ مباحث قائم کیے ہیں جن میں سے ہر ایک کے تحت متعدد اہم مسائل کا ذکر کیا ہے اور ان مسائل اور تقسیمات کو ذکر کرنے کے لیے مختلف عناوین بھی قائم کیا ہے جیسا کہ آپ نے مقدمہ میں اس امر کی صراحت کی ہے۔
(3) مؤلف نے ضرورت کے تحت ان عناوین کے معانی بھی بیان کیے ہیں جن کو آپ نے مباحث کے لیے قائم کیا ہے جیسا کہ آپ دیکھیں گے کہ مؤلف نے “المبحث الثاني في نزول القرآن” کا ذکر کیا ہے پھر اس کے نیچے لکھا ہے “معنى نزول القرآن”۔ آپ نے متعدد مباحث ذکر کرنے کے بعد اسی طرح کیا ہے۔
(4) اسی طرح کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مؤلف نے بہت سارے مقامات پر مبحث ذکر کرنے کے بعد اس مبحث کو پڑھنے اور اس کے تحت مندرج معلومات کو حاصل کرنے کے فوائد بھی بیان کیے ہیں جیسا کہ آپ نے “أسباب النزول” کی بحث کے تحت گفتگو کرنے کے بعد لکھا ہے “فوائد معرفة أسباب النزول”

(5) ہر مناسب مقام پر ادنی مناسبت پائے جانے کی صورت میں بھی مؤلف اسلام اور علم کے مابین موجود قوی ربط کا ذکر کرتے ہیں اور اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام ہمہ وقت علم، کائنات اور خود نفس انسانی میں بحث ونظر اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔
(6) مقتضائے احوال کے مطابق مؤلف احکام شریعت کی حکمتوں اور اسرار وعلل کو بیان کرتے ہیں تاکہ یہ ثابت کر پائیں کہ اسلام ہی درد والم سے دوچار گمراہ انسانیت کا علاج ہے اور وہی انسانوں کی کامیابی وکامرانی کا ضامن ہے۔
(7) جب کسی علمی مسئلے پر بات کرتے ہیں تو اس میں علما کے اختلافات اور ان کے دلائل کا ذکر کرتے ہیں پھر ان دلائل کا علمی مناقشہ کرتے ہوئے اخیر میں راجح موقف کی تعیین بھی کرتے ہیں۔
(8) ہر مبحث کے اخیر میں اس سے متعلق اعدائے اسلام کے شکوک و شبہات کا ذکر کرتے ہیں اور پھر ان کا جواب بھی دیتے ہیں۔
(9) بسا اوقات بعض تشریعی امور کی حکمتوں کا ذکر کرتے ہیں جیسا کہ آپ نے قسط وار نزول قرآن کی حکمت، سورہ بسورہ نزول کی حکمت، نسخ کی حکمت وغیرہ امور کا ذکر کیا ہے۔
(10) بعض اوقات مؤلف رحمہ اللہ بعض مباحث کا اختتام ایک مختصر خاتمے یا خلاصہ کلام یا کسی قسم کے تعاقب سے کرتے ہیں۔
(11) ہر مبحث کے تحت قرآن سے صرف چند مثالیں دینے پر اکتفا کرتے ہیں استیعاب کی کوشش نہیں کرتے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مؤلف نے اپنی کتاب کے اندر مقدمہ میں مذکور منہج کی مکمل پیروی کی ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں: كتاب مناهل العرفان :دراسة وتقويم للدكتور خالد عثمان السبت)

کتاب کی خصوصیات:
(1) کتاب کے اندر مذکور تمام مباحث انتہائی اہم ہیں۔ مؤلف نے غیر ضروری مباحث کے ذکر سے احتراز کیا ہے۔
(2) مؤلف نے متقدمین و متاخرین کی بہت ساری کتابوں کی ورق گردانی کے بعد اس کتاب کی تصنیف کی ہے جس کی وجہ سے یہ کتاب عظیم فوائد اور قیمی ونادر تحقیقات کا جامع بن گئی ہے۔ مؤلف نے جن کتابوں کے اقتباسات اپنی کتاب کے اندر نقل کیا ہے صرف انہی کتابوں کی تعداد ایک سو سات ہے۔
(3) مؤلف نے علمی تحقیق کے ساتھ ساتھ عصری اسلوب کو بھی اپنائے رکھا ہے جس کی وجہ سے متخصص وغیر متخصص سب کے لیے کتاب سے استفادہ آسان  ہے۔
(4) مؤلف نے اس کتاب کے اندر چند ایسے مباحث کا ذکر کیا ہے جن کا ذکر مستقلا دوسری کسی کتاب میں نہیں ہے گرچہ ضمنی طور پر ان میں سے بعض کا تذکرہ سیوطی اور زرکشی کی کتابوں میں موجود ہے وہ کل چار مباحث ہیں۔
(5) سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ کتاب ایک حقیقی عالم کی تصنیف ہے جس کی مستقل شخصیت اور دوسروں سے ممتاز ایک عمدہ اسلوب ہے۔
(6) کتاب علمی ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی بھی ہے جس کی وجہ سے قاری کی توجہ بنی رہتی ہے اور دلچسپی میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوپاتی۔
ملاحظات:
ان خصائص کے ساتھ کچھ ملاحظات بھی ہیں جو منہج تالیف اور جمع معلومات سے متعلق ہیں:
(1) زرقانی نے کتاب میں استطراد واسھاب اور حشو وزوائد سے کام لیا ہے بلا فائدہ عبارتوں کی تطویل اور نقولات کی کثرت نے کتاب کے حجم کو زیادہ کردیا ہے۔
(2) مؤلف نے علوم القرآن کے بہت سارے اہم مباحث کو ترک کردیا ہے جن کا علوم القرآن سے نہایت گہرا تعلق ہے چنانچہ اگر زرکشی اور سیوطی کی کتابوں سے اس کا موازنہ ومقارنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مناہل کے اندر مذکور مباحث سابقہ دونوں مؤلفین کی کتابوں کے اندر مذکور مباحث کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ امام زرکشی کی کتاب “البرہان” کے اندر “مناهل” کے مقابلے میں 31 مباحث زیادہ ہیں جبکہ امام سیوطی کی “الإتقان في علوم القرآن” کے اندر 59 مباحث اور “التحبير” کے اندر 60 مباحث زائد ہیں۔
(3) بہت سارے مقامات پر انتساب اقوال اور مصادر کی طرف احالہ میں خطا کے شکار ہوگئے ہیں۔
(4) مؤلف نے تعریفات کو جامع انداز میں بیان نہیں کیا ہے بلکہ اس سلسلے میں آپ کا اسلوب ادبی انشائی اور غیر محکم ہے جبکہ تعریف کی یہ شرط ہے کہ وہ جامع اور مانع ہو۔
عقدی انحرافات:
مناھل کے اندر موجود انحرافات کی نشاندہی متعدد علما نے اپنی اپنی کتابوں کے اندر کی ہے جن میں سے چند کتابیں درج ذیل ہیں:
(1) كتاب مناهل العرفان للشيخ خالد بن عثمان السبت
(2) نقض عقائد الاشاعرة في كتاب مناهل العرفان للدكتور توفيق العلوان
(3) القول الرشيد في حقيقة التوحيد للشيخ سليمان بن ناصر العلوان (التكفيري المبتدع المجروح)

(4) دكتور محمد عبد الرحمن الخميس کی بعض کتابیں
یہ چند سطور انہی کتابوں سے مستفاد ہیں۔
انحرافات (غلطیاں):
پہلی غلطی:
مؤلف نے آیات الصفات کو متشابہات القرآن میں شامل کیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں: “والمتشابه من جهة المعنى أوصاف الله تعالى وأوصاف القيامة فإن تلك الأوصاف لا تتصور لنا إذ كان لا يحصل في نفوسنا صورة ما لم نحسه أو ليس من جنسه” (مناهل ج:2/ص:220….
نیز ملاحظہ فرمائیں کتاب مذکور کا: المبحث الخامس عشر: في محكم القرآن ومتشابهه)
یعنی معنی کے جہت سے متشابہ اللہ تعالٰی اور قیامت کے اوصاف ہیں۔
حتی کہ انھوں نے مناہل کے جلد 2 صفحہ 286 پر “متشابه الصفات” کے نام سے ایک عنوان بھی قائم کیا ہے۔
جبکہ یہ صریح غلطی اور نصوص کتاب و سنت اور عقیدہ سلف صالحین سے لاعلمی کی دلیل ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “اس بات کی دلیل کہ آیات الصفات ان متشابہات میں سے نہیں ہیں جن کے معانی غیر مفہوم ہوں یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے اپنے آپ کو متعدد اسما سے موسوم کیا ہے جیسے رحمن ودود عزیز اسی طرح اللہ نے اپنی ذات کو بہت سارے اوصاف سے بھی متصف کیا ہے جیسا کہ سورہ اخلاص آیت الکرسی سورۃ الحدید کی ابتدائی آیات سورہ حشر کی آخری آیات وغیرہ وغیرہ میں ہے۔ چنانچہ اس معاند (آیات الصفات یا اوصاف باری تعالیٰ کو متشابہ گرداننے والے) سے کہا جائے گا کہ کیا یہ اسما وصفات کسی معبود موجود پر دلالت کرنے والے ہیں یا نہیں؟ اگر کہے نہ، تو وہ معطل و منکر خالق قرار پائے گا۔ اور اگر کہے ہاں تو اس سے کہا جائے گا کہ تم نے ان اسما وصفات سے یہ تو سمجھ لیا کہ یہ کسی ذات پر دلالت کرنے والے ہیں مگر تم نے یہ کیسے نہیں سمجھا کہ یہ اسما وصفات اپنے معانی پر بھی دلالت کرنے والے ہیں”۔ (مجموع الفتاوى لابن تيمية: 13/296)
خلاصہ یہ ہے کہ اوصاف باری تعالیٰ کے معانی معلوم ومحکم اور مفہوم ہیں البتہ ان اوصاف کی کیفیات متشابہ وغیر مفہوم ہیں یہی اہل سنت وجماعت اور سلف صالحین کا عقیدہ ہے جو کہ عین حق وصواب ہے۔
دوسری غلطی:
مؤلف نے متشابہ آیات کی مثال کے طور پر آیت کریمہ “الرحمن على العرش استوى” کو ذکر کیا ہے۔
یہ چیز سرے سے باطل اور گمراہ کن ہے کیونکہ مذکورہ آیت کریمہ واضح اور محکم ترین آیتوں میں سے ہے تشابہ اور متشابہات سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
اللہ رب العالمین نے قرآن حکیم کے اندر سات مرتبہ اس آیت کے مضمون کو ثابت کیا ہے۔ لہذا اس طرح کے محکم آیت کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ متشابہات میں سے ہے کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ جبکہ اس کے الفاظ اپنے معانی پر دلالت کرنے میں بالکل واضح ہیں لفظ “رحمن” بلا کسی اختلاف کے اللہ رب العالمین کا ایک بہترین نام ہے۔ اور لفظ “علی” کے سلسلے میں تمام نحویوں کا اتفاق ہے کہ وہ طلب علو استعلا پر پر دلالت کرنے والے ہیں اور “عرش” سلف صالحین کے اجماع کے مطابق تخت شاہی کو کہتے ہیں جبکہ کلمہ “استوی” جملہ اہل لغت کے اجماع کے مطابق عربی کے واضح اور صریح الدلالۃ کلمات میں سے ہے جو استعلا اور فوقیت پر دلالت کرتے ہیں۔
چنانچہ جو شخص اس کے علاوہ کسی اور بات کا عقیدہ رکھتا ہے وہ یا تو متجاہل مغالط اور مفوض ہے یا جاہل بے علم اور غلط اندیش ہے۔
سلف صالحین نے اس آیت کی تفسیر علو صعود ارتفاع اور فوقیت سے کی ہے وطریق السلف أعلم وأسلم وأحكم وطريق الخلف أشر وأضل واجهل۔
تیسری غلطی:
یہ کہنا کہ آیات الصفات کو ان کے ظاہری معانی سے پھیرنے پر سلف کا اجماع ہے۔
زرقانی لکھتے ہیں: “علماؤنا أجزل الله مثوبتهم قد اتفقوا على ثلاثة أمور تتعلق بهذه المتشابهات ثم اختلفوا فيما وراءها
فأول ما اتفقوا عليه صرفها عن ظواهرها المستحيلة واعتقاد أن هذه الظواهر غير مرادة للشارع قطعا كيف وهذه الظواهر باطلة بالأدلة القاطعة ….؟” (مناهل العرفان: 2/286)

ہمارے علمائے کرام نے (اللہ انھیں اجر جزیل عطا فرمائے) ان متشابہات (صفات) سے متعلق تین چیزوں پر اتفاق کیا ہے پھر ان کے علاوہ دیگر چیزوں کے سلسلے میں اختلاف کیا ہے۔
سب سے پہلی چیز جس پر ان علما نے اتفاق کیا ہے ان صفات کا ان کے ناممکن و مستحیل ظواہر سے پھیرنا اور یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ یہ ظواهر قطعا شارع کی مراد نہیں ہیں اور کیسے یہ مراد ہو سکتے ہیں جبکہ یہ ظواہر قطعی دلائل کی رو سے بالکل باطل ہیں۔
یہ بات کئی وجوہ سے غلط اور خلاف واقع ہے:
اول:
اجماع کا دعویٰ  بالکل باطل ہے۔ سلف صالحین میں سے کسی نے نہیں کہا ہے کہ ان آیات کے ظواہر اپنے معانی سے مصروف ہیں بلکہ یہ دین میں نیا کام ہے جس کو جہمیہ معتزلہ ماتریدیہ اشعریہ اور خوارج وغیرہ نے ایجاد کیا ہے۔ سلف سے اس کے خلاف منقول ہے:
امام ابن عبد البر فرماتے ہیں: قرآن و سنت میں جتنے اوصاف الہیہ کا ذکر ہے ان تمام کے اقرار واثبات، ان پر ایمان اور انھیں مجاز کے بجائے حقیقت پر محمول کرنے پر سلف صالحین کا اجماع واتفاق ہے مگر ایک بات یہ ہے کہ وہ لوگ ان میں سے کسی کی بھی کیفیت بیان نہیں کرتے۔ البتہ ان کے علاوہ جو بدعتی لوگ ہیں جیسے جہمیہ معتزلہ خوارج وغیرہم تو یہ لوگ ان اوصاف کا انکار کرتے ہیں، انھیں حقیقت پر محمول نہیں کرتے اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ جو ان اوصاف کو ثابت مانے وہ مشبہ میں سے ہے۔ (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ:5/198)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اس بات پر صحابہ کا اجماع نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان میں سے کسی سے بھی آیات الصفات کی تاویل منقول نہیں ہے۔ (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ:6/394)
اسی طرح اس مذہب کو سلف صالحین سے دیگر علمائے کرام نے بھی نقل کیا ہے جیسے قاضی ابو یعلی نے “ابطال التأويل” کے اندر اور امام بیہقی نے “الأسماء والصفات” کے اندر۔ (مجموع الفتاوى لابن تیمیہ:5/89)
قاضی ابو یعلی فرماتے ہیں: تاویل کے بطلان کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ اور ان کے بعد تابعین نے ان آیات الصفات کو ان کے ظواہر پر محمول کیا ہے ذرہ برابر ان کی تاویل نہیں کی اور نہ ہی انھیں ان کے ظواہر سے پھیرا ہے چنانچہ اگر تاویل جائز ہوتی تو وہ ضرور اس کی طرف سبقت کرتے۔ (مجموع الفتاوی لابن تیمیہ:5/90)
اسی طرح ابو الحسن اشعری اور ابو المعالی الجوینی سے بھی منقول ہے۔
دوم:
آیات الصفات بلا شبہ محکم ومفسر ہیں انھیں ظواہر کہنا درست نہیں ہے۔ انھیں ظواہر کہنا بے محل بلکہ بادشاہ کو فوجی یا بارش کو شبنم کہنا ہے۔
سوم:
ان آیات کو ان کے ظاہری معانی سے پھیرنا ان اسما وصفات کی تحریف یا تعطیل کرنا ہے جن پر یہ آیات دلالت کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ مزید دس وجوہات ہیں جو آیات الصفات کو ان کے ظاہری معانی سے پھیرنے کے فساد و بطلان پر دلالت کرتی ہیں جنھیں شیخ الاسلام نے ذکر کیا ہے۔ (الحموية الكبرى:20-23، مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ:5/15-20)
چوتھی غلطی:
یہ کہنا کہ آیات الصفات کے ظواہر شارع کی مراد نہیں ہیں۔ (مناهل العرفان: 2/286)
یہ بھی انتہائی کمزور اور باطل فکر ہے اور اللہ، اللہ کے رسول کی طرف ایسی بات منسوب کرنا ہے جسے اللہ یا اللہ کے رسول نے کہا نہیں ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا ہے:
یا سبحان اللہ!  کیسے اللہ کے رسول یا سلف صالحین میں سے کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم ان آیات وأحاديث کے مدلولات کا عقیدہ نہ رکھو بلکہ اس چیز کا عقیدہ رکھو جس کا تقاضا تمھاری عقلیں کرتی ہوں اور ایسا ایسا عقیدہ رکھو کیونکہ یہی حق ہے…. اور ان آیات میں غور و فکر کرو ان میں سے جو آیات تمھاری عقلوں کے موافق ہوں ان کا عقیدہ رکھو اور جو موافق نہ ہوں انھیں یا تو موافق بناؤ یا ان کا انکار کر دو! (الحموية الكبرى:23 ، مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ:ص:5/19)
پانچویں غلطی:
یہ کہنا کہ آیات الصفات کے ظواہر مستحیل ہیں انھیں ان کے ظاہری معانی پر محمول کرنا ممکن نہیں ہے۔ (مناهل العرفان:2/286)
یہ بھی ابطل الباطل ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں مطلقا کسی مستحیل چیز کا وجود ہی نہیں ہے، رسول کوئی ایسی چیز لے کر نہیں آئے جس کا فہم و ادراک عقول انسانی کے لیے محال ہو بلکہ رسول ایسی چیزیں لے کر آئے ہیں جو عقول انسانی کو حیرت واستعجاب کے عالم میں مبتلا کر دینے والی ہوں۔
لہذا جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ قرآن و حدیث میں کوئی مستحیل چیز بھی ہے تو وہ دس خطرناک چیزوں میں واقع ہوجاتا ہے اور یہ ساری کی ساری کفر ہیں:
(1) اس سے لازم آتا ہے کہ نصوص کے ظواہر کفر ہیں۔
(2)…کتاب و سنت کفر پر مشتمل ہیں۔
(3)… کتاب و سنت استنباط واخذ عقائد کے مصادر ہونے کے قابل نہیں ہیں۔
(4)… کتاب وسنت کے ظواہر باعث فساد اور موجب گمراہی ہیں ان سے اصلاح نہیں ہوتی۔
(5) …قلوب انسانی کتاب وسنت کے اندر موجود امور پر یقین نہیں کر سکتے۔
(6) …مکمل طور پر قرآن و حدیث کو پرے رکھ دینا چاہیے۔
(7)…لوگوں کو بلا قرآن و حدیث کے چھوڑ دینا انھیں اس قرآن و حدیث کے ساتھ رکھنے سے بہتر ہے جس کے ظواہر مستحیل ہیں۔
(8) اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ کے رسول اور آپ کے صحابہ ایسی باتیں کرتے تھے جن کا ظاہر کفر ہے اور انھوں نے کبھی نہیں کہا کہ یہ ظاہری مفہوم مقصود ومراد نہیں ہے۔
(9) اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ صدر اول کے لوگ اس ظاہری مفہوم کو ثابت مانتے تھے جو کفر پر مشتمل ہے۔
(10) یہ بہت سارے مشرکین اور مبتدعہ کے لیے دروازے کھولنا ہے جن کا بند کرنا ممکن نہیں۔ (الحموية الكبرى: 20-23)

چھٹی غلطی:
یہ کہنا کہ اسلام کا دفاع آیات الصفات کی تاویل پر موقوف ہے۔
زرقانی لکھتے ہیں:
ثانيه أنه إذا توقف الدفاع عن الإسلام على التأويل لهذه المتشابهات وجب تأويلها بما يدفع شبهات المشتبهين ويدر طعن الطاعنين (مناهل العرفان: 2/286)
یعنی آیات الصفات کے سلسلے میں دوسری مجمع علیہ بات یہ ہے کہ جب اسلام کا دفاع ان آیات الصفات کی تاویل پر موقوف ہو تو ان کی تاویل واجب ہوجاتی ہے جو شبہات وارد کرنے والوں کے شبہات اور طعن و تشنیع کرنے والوں کے طعن کو دور کردے-
یہ بات بھی ابطل البواطل اور حقائق سے کوسوں دور ہے کیونکہ تاریخ  شاہد عدل ہے کہ عہد صحابہ سے لے کر آج تک تاویل ہی تمام مصیبتوں اور فتنوں کی جڑ ہے۔ امام ابن القیم نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ تحریف کے فتنے، خوارج وروافض اور معتزلہ وجہمیہ کے فتنے اسی طرح باطنیہ وغیرہا کے فتنے تمام کے تمام تاویل کی نحوست سے پیدا شدہ ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں: “وهذا أصل بلية الإسلام من تأويل ذي التحريف والبطلان”۔ (نونية ابن القيم: 85-87)
جب یہ ثابت ہوگیا کہ تاویل اسلام کے خلاف زہر ہے تو یہ کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ اسلام کا دفاع تاویل پر بھی موقوف ہوسکتا ہے اور ایسی صورت میں تاویل جائز نہیں بلکہ واجب ہے؟
ساتویں غلطی:
یہ کہنا کہ آیات الصفات کے ظواہر کی تاویل واجب ہے۔ (مناهل العرفان:2/286)
حقیقت یہ ہے کہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے یعنی تاویل نہ کرنا ہی واجب ہے کیونکہ ان آیات کی تاویل حرام باطل اور ناجائز ہے چہ جائیکہ کہ واجب ہو۔
اس کی کئی وجوہات ہیں:
اول:
کیونکہ تاویل تحریف کی ایک قسم ہے بلکہ بذات خود تاویل تحریف ہے۔
دوم:
لفظ تاویل (اصطلاحی اعتبار سے) اسلام میں بدعی امور میں سے ہے۔
سوم:
یہ صرف بدعت ہی نہیں بلکہ یہود سے لیا ہوا ہے یہود ایسا کرتے تھے۔
چہارم:
تاویل منہج سلف کے خلاف ہے کیونکہ سلف صالحین نے بجائے تاویل کے ان اوصاف کو ثابت کیا ہے۔
پنجم:
تاویل کا جواز باطنیہ وغیرہ گمراہ فرقوں کے لیے راہ ہموار کرنا ہے جنھوں نے اس دلیل کی بنیاد پر احکام عملیہ فقہیہ کی تاویل کی ہے کہ متکلمین نے احکام علمیہ عقدیہ کی تاویل کی ہے۔

آٹھویں غلطی:
انھوں نے سلف صالحین کو مفوضہ اور صفات کے سلسلے میں ان کے مذہب کو مفوضہ کا مذہب قرار دیا ہے اور تفویض کی تعریف یہ کی ہے کہ “وهو تفويض معاني هذه المتشابهات إلى الله وحده بعد تنزيهه تعالى عن ظواهرها المستحيلة ” (مناهل العرفان:2/287)
یعنی ان متشابہات (آیات الصفات) کے معانی کو ان کے ظواہر سے تنزیہ کے بعد صرف اللہ وحدہ کے سپرد کر دینا۔
یہ اعتقاد بھی کئی وجوہ سے باطل ہے:
اول:
سلف صالحین آیات کے معانی کے سلسلے میں مفوضہ نہیں تھے بلکہ آیات کی کیفیات کے سلسلے میں تفویض سے کام لیتے تھے کیونکہ سلف صالحین ان آیات کے معانی کو جو ان اوصاف کو شامل ہیں سمجھتے تھے اسی مقصد سے اللہ تعالیٰ نے انھیں واضح فصیح و بلیغ عربی زبان میں خطاب فرمایا ہے اور آیات الصفات آیات الاحکام کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور یہ بھی کہ صحابہ وتابعین لوگوں  میں سب سے زیادہ عربی زبان کو جاننے والے اور سب سے زیادہ فصح وبلیغ تھے۔
تو کیا یہ معقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسے کلام کے ذریعے خطاب فرمایا جن کے معانی وہ نہیں جانتے تھے؟
اور اگر سلف صالحین ان آیات الصفات کے معانی کو نہیں سمجھتے تھے تو پھر ان میں رسول بھیجنے اور کتاب نازل کرنے کا کیا فائدہ؟
دوم:
جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ سلف صالحین آیات الصفات کے معانی نہیں جانتے تھے تو وہ شخص ان پر تہمت لگانے والا، ان کو پاگل قرار دینے والا اور ان پر اس دین کے سب سے عظیم امر (اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے اسماء و صفات کے علم) سے جہالت کا حکم  لگانے والا ہے۔
اسی لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ان محرفین ومبدلین کو جو سلف صالحین کی طرف تفویض منسوب کرتے ہیں اہل الجہل والتجہیل کا نام دیتے ہیں۔
سوم:
جب سلف صالحین کی طرف تفویض کی نسبت باطل ہوگئی تو یہ بھی واضح ہوگیا کہ سلف جس تفویض کو مانتے تھے وہ ان صفات اور ان کی آیات سے جہالت نہیں بلکہ وہ تفویض صحیح یعنی ان صفات کی کیفیات کو اللہ کے سپرد کرنا ہے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: الاستواء معلوم والكيف مجهول والإيمان به واجب والسؤال عنه (عن الكيف) بدعة”

نویں غلطی:
یہ کہنا کہ قوانین لغویہ اور استعمالات عرب ظنی ہیں اور اثبات عقائد کے لیے ظن کے بجائے یقین کی ضرورت ہے۔
زرقانی لکھتے ہیں:
أن تعيين المراد من هذه المتشابهات إنما يجري على قوانين اللغة واستعمالات العرب وهي لا تفيد إلا الظن مع أن صفات الله من العقائد التي لا يكفي فيها الظن بل لا بد فيها من اليقين ولا سبيل إليه فلنتوقف ولنكل التعيين إلى العليم الخبير (مناهل العرفان:2/287)
یعنی یہ کہ ان متشابہات کے مراد کی تعین قوانین لغت اور استعمالات عرب کے ذریعے ہوتی ہے اور یہ صرف ظن کا فائدہ دیتی ہیں جبکہ صفات اللہ عقائد میں سے ہیں جن میں ظن کافی نہیں بلکہ ان میں یقین کی ضرورت ہے اور یہاں یقین غیر متوفر ہے لہذا ہمارے لیے توقف کرنا اور تعین مراد اللہ علیم وخبیر کے سپرد کرنا لازم ہے۔

ملاحظہ:
یہ سب سے بڑا بہتان ہے، سب سے پہلے جنھوں نے ان منطقیانہ وفلسفیانہ حماقتوں کا اظہار کیا وہ فخر الدین رازی ہیں جس میں ماتریدیہ اور اشاعرہ میں سے ایک جماعت نے ان کی اتباع کی ہے یہ انتہائی فاسد خیال ہے کیونکہ ہر زبان کے مفردات ان کے معانی پر بالکل صراحت اور یقین کامل کے ساتھ دلالت کرتے ہیں اور یہ اہل زبان کے ہاں معروف ہے۔
چنانچہ شمس، قمر، سماء، أرض، عظام، لحوم، ماء، ليل، نهار وغیرہ الفاظ کی اپنے معانی پر دلالت روشن سورج سے بھی زیادہ واضح ہے۔ اہل زبان اس چیز کو یقین قاطع اور جزم کامل کے ساتھ جانتے ہیں جس میں شک کی ذرہ برابر گنجائش نہیں ہے اور یہی حال ان مفردات سے مرکب جملوں کا بھی ہے۔
پس ہمارا “لا اله إلا الله” “محمد رسول الله” “الرحمن على العرش استوى” “الجنة و النار حق” “يد الله على أيديهم”وغیرہ چھوٹے بڑے جملے کہنا ان کے معانی پر قطعیت کے ساتھ دلالت کرتا ہے۔

دسویں غلطی:
یہ کہنا کہ خلف کا موقف آیات الصفات میں تاویل سے کام لینا ہے اور یہ امام ابو الحسن اشعری کا بھی موقف ہے۔ (مناهل العرفان: 2/289)
یہ بھی واضح غلطی ہے کیونکہ امام ابو الحسن اشعری کی زندگی میں عقائد کے سلسلے میں تین مراحل اور ادوار گزرے ہیں:

اول: اعتزالی دور
دوم: کلامی دور یعنی متکلمین کا منہج والا دور
سوم: سلفی دور
یہاں مؤلف نے جس کا تذکرہ کیا ہے وہ ان کا دوسرا کلامی دور ہے البتہ ان کا سلفی دور آخری دور ہے جو ان کی کتاب “الابانة عن أصول الديانة، مقالات الإسلاميين، اور رسالة إلى أهل الثغر بباب الأبواب” وغیرہ سے واضح ہے۔ “ابانۃ” امام اشعری کے آخری دور کی تصنیف ہے لہذا وہی معتمد علیہ ہے۔ (اس چیز کو محدث مدینہ شیخ حماد بن محمد انصاری نے اپنی کتاب “ابو الحسن الأشعري” کے اندر بالتفصیل بیان کیا ہے)
گیارہویں غلطی:
صوفیانہ عبارتوں کو اپنی کتاب میں نقل کرنا اور گمراہ متصوفین کی تعریف کرنا۔
بطور نمونہ چند چیزیں پیش ہے:
(١) زرقانی نے بوصیری گمراہ صوفی اور اس کے گمراہ کن قصیدے ہمزیہ کی زور دار تعریف کی ہے۔
زرقانی کہتے ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں کہ شرف الدین بوصیری کی طرح ایک شاعر آدمی جو اپنے اندر شاعرانہ ملکہ رکھتا ہو اس بات پر قادر ہے کہ اپنی شاعرانہ قوت کے ذریعے جس طرح کا چاہے عمدہ ترین قصیدہ کہہ دے اور جب اس کی شاعرانہ قوت جوش میں آئے تو اپنا معروف قصیدہ “ہمزیہ” کے ذریعے افضل الخلائق صل اللہ علیہ و سلم کی مدح سرائی بھی  کر دے۔ (مناهل العرفان:1/11)
بوصیری اور اس کے ہمزیہ کا حال کسی سے مخفی نہیں ہے ۔
ہمزیہ کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:

إنما فضلك الزمان وآيا
تك فيما نعده الآناء
(الهمزية ص:91)

(٢) زرقانی کہتے ہیں:
“أن المجاهدة تؤدي إلى المشاهدة”
عبادت وریاضت میں مجاہدۃ مشاہدہ رب کا باعث بن جاتا ہے پھر اس کے بعد خلوت اور کشف وغیرہ کے سلسلے میں غزالی صوفی کے اقوال نقل کرتا ہے۔ (مناهل: 1/304)
(٣) ابن عطاء اللہ سکندری کی تعریف اور کی عبارتیں نقل کرنا۔ یہ ابن عطاء اللہ سکندری شاذلی صوفی ہے اس کی تعریف کرنا اور اس کی عبارت نقل کرنا اس کے طریقہ کار سے رضامندی کی دلیل ہے۔

بارہویں غلطی:
جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ کے گمراہ کن افکار سے متاثر ہونا اور اپنی کتاب میں ان کے طریقہ کار کو اپنانا۔
مصر میں جمال الدین افغانی کے ہاتھوں ایک عقلانی مکتب فکر کا ظہور ہوا جس کی پرورش وپرداخت افغانی کے شاگرد محمد عبدہ نے کی گرچہ یہ مکتب فکر محض دو شخصیات کے افکار کا مجموعہ ہے مگر اس سے بے شمار لوگ متاثر ہوئے جن میں زرقانی بھی ہیں۔ اس مکتب فکر کے افکار میں مغرب کی محبت نیز اہل مغرب کے افکار اور اسلامی تعلیمات کے مابین تطبیق دینا شامل ہے۔
اس مکتب فکر سے متاثر ہوکر زرقانی نے کتاب کے اندر اعدائے اسلام کی جانب سے اسلام پر کیے گئے اعتراضات کا تعاقب کیا اور ان کا جواب دینے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں شبہات واعتراضات کی ایک کثیر تعداد کتاب میں جمع ہوگئی ہے جبکہ بلا ضرورت شدیدہ شبہات کو سننا تک جائز نہیں ہے اسی طرح کتاب میں دفاعی مسلک اختیار کیا جس کی وجہ سے بہت سارے ثابت شدہ شرعی امور میں تنازل سے کام لینا پڑا۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عقائد صحیحہ کی دولت سے ہمکنار کرے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000