ٹوٹے ہوئے سینگ والے جانور کی قربانی: ایک تحقیقی جائزہ

مامون رشید ہارون رشید فقہیات

قربانی ایک اہم عبادت ہے، عظیم شعائر دینیہ میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ ابونا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ فقط اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی یہی قربانی بجائے اللہ رب العالمین کے کسی اور کے لیے کرتا ہے تو وہ شرک اکبر کا مرتکب ہوکر دین سے خارج ہو جاتا ہے۔
اسی اہمیت کے پیش نظر احادیث میں اس کا تاکیدی حکم آیا ہے اور رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کی ترغیب دلائی ہے نیز اس کے بارے میں تمام تفصیلات سے آگاہ بھی فرمایا ہے کہ قربانی کب کی جائے گی، جانور کیسے ہوں گے، کس عمر کے جانوروں کی قربانی کفایت کرے گی، کون سے جانور قربانی میں ناقابل قبول شمار کیے جائیں گے اور قربانی کیسے کی جائے گی، جانور ذبح کرنے کی کیفیت کیا ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
انہی امور مبینہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قربانی کا جانور بے عیب، نقائص سے پاک ہو مگر شارع نے اس امر کو مطلق نہیں چھوڑا ہے کہ چاہے عیب کسی بھی قسم کا ہو وہ قربانی سے مانع ہے بلکہ ان عیوب کی نشاندہی بھی کر دی ہے جن سے متصف جانوروں کی قربانی قابل قبول نہیں ہوگی۔ وہ سنت صحیحہ سے ثابت شدہ بالاجماع درج ذیل چار عیوب ہیں:
عن عُبيد بنَ فَيروز، قال: قلت للْبرَاء بْن عَازبٍ: حدّثْني بما كره، أَوْ نهى عنه رسول اللّهِ صَلَّى الله عَليْهِ وَسَلَّمَ من الْأضاحيِّ فقَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وسلَّم: هَكذَا بِيَدِهِ، وَيَدِي أَقْصَرُ مِنْ يده أَرْبَعٌ لَا تجْزئ في الْأَضاحِيِّ: الْعوْرَاءُ، الْبَيِّنُ عَوَرُها، وَالْمَريضةُ، الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ، الْبَيّن ظلْعُها، والكسيرةُ، الّتي لَا تُنْقي قَالَ: فَإِنّي أَكْرهُ أَن يكُون نقْص في الْأُذُن، قال: فما كرهْتَ مِنْهُ، فَدعْهُ، وَلَا تحَرِّمْه على أَحد

(حضرت عبید بن فیروز ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے حضرت براء بن عازب سے کہا: مجھے بتائیے کہ رسول اللہﷺ نے قربانی کے کس جانور کو ناپسند کیا ہے یا اس سے منع فرمایا ہے؟
انھوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا۔ اور میرا ہاتھ رسول اللہﷺ کے ہاتھ سے کوتاہ ہے۔ (اور فرمایا:) ’’قربانی میں چار قسم کا جانور کفایت نہیں کرے گا:
(1)وہ کانا جانور جس کا کانا پن واضح ہو
(2)وہ بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو
(3)وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو
(4) اور وہ دبلا جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔‘‘
عبید نے کہا: میں تو پسند نہیں کرتا کہ اس کے کان میں نقص ہو۔ حضرت براء نے فرمایا: جو چیز تمھیں پسند نہیں، اسے چھوڑ دو لیکن اسے کسی پر حرام نہ کرو۔
(سنن ابی داؤد: 2802، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 3144، صححه الألباني في الإرواء:1148، وشعيب الأنؤوط في تحقيق سنن أبي داود)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأجمعوا على أن العيوب الأربعة المذكورة في حديث البراء وهو المرض والعجف والعور والعرج البين لاتجزى التضحية بها وكذا ماكان في معناها أو أقبح كالعمى وقطع الرجل وشبهه”(شرح مسلم للنووي:13/ 120، الاستذكار لابن عبد البرِّ:5/ 215)

علمائے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ براء بن عازب کی حدیث میں مذکورہ چار عیوب بیماری، دبلا پن، کانا پن اور لنگڑا پن (جس جانور میں موجود ہو اس) کے ذریعے قربانی جائز نہیں ہے، اسی طرح ان عیوب کا بھی حکم ہے جو ان جیسے ہوں یا ان سے برے ہوں جیسے دونوں آنکھوں کا اندھا ہونا، ٹانگ کٹا ہوا ہونا اور اس کے مشابہ عیوب”
البتہ اختلاف اس چیز میں ہے کہ ان عیوب کے علاوہ ان سے کم تر درجے کے جو عیوب ہیں کیا وہ بھی کفایت سے مانع ہیں یا وہ کوئی دوسرا حکم رکھتے ہیں؟
مثلاً جس جانور کے بالکلیہ سینگ نہ ہو اس کے بارے میں علمائے امت کا اجماع اور اتفاق ہے کہ اس کی قربانی کرسکتے ہیں۔
اس کے برخلاف ٹوٹے ہوئے سینگ والے جانور کی قربانی کے سلسلے میں اختلاف ہے:
چار اقوال ہیں:
پہلا قول: مطلقا نہیں کر سکتے۔
ان لوگوں کے دلائل:
اول:
عنْ عليّ قال: “نهى رَسُول الله صلّى اللَّه عَلَيْه وسلَّمَ أَنْ يُضحّى بأَعْضب القرن وَالْأُذن”
(اسے امام أبو داود (2805)، ترمذي (1504)، ابن ماجه (3145) اور أحمد (1158) نے روایت کیا ہے اور امام ترمذي اور حاكم نے صحیح قرار دیا ہے، جبکہ امام ابوداود، الباني اور مقبل بن ہادی الوادعی کے شاگرد محمد بن علی بن حزام صاحب فتح العلام نے ضعیف قرار دیا ہے۔ انظر: البدر المنير لابن الملقِّن (9/ 293)، والإرواء للألباني (4/ 361)
اسی طرح اسے ابن عبد البر، ابن حزم اور شیخ ابن عثیمین نے بھی ضعیف کہا ہے)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فرمایا جن کے سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے ہوئے ہوں۔
دوم:
عن يزيد ذو مصر، قال: أتيت عتبة بن عبد السلمي فقلت: يا أبا الوليد، إني خرجت ألتمس الضحايا فلم أجد شيئا يعجبني غير ثرماء فكرهتها فما تقول؟ قال: أفلا جئتني بها. قلت: سبحان الله تجوز عنك ولا تجوز عني. قال: نعم، إنك تشك ولا أشك، إنما ” نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المصفرة والمستأصلة والبخقاء والمشيعة، وكسرا، والمصفرة: التي تستأصل أذنها حتى يبدو سماخها ” والمستأصلة: التي استؤصل قرنها من أصله، والبخقاء: التي تبخق عينها، والمشيعة: التي لا تتبع الغنم عجفا وضعفا، والكسراء: الكسيرة

“(اسے امام أبو داود (2803 اور أحمد (17653) نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی اور امام ابن حزم رحمہا اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے)
ترجمہ : یزید ذومصر بیان کرتے ہیں کہ میں عتبہ بن عبد سلمی کے پاس آیا اور (ان سے) کہا: اے ابوالولید! میں قربانی لینے کے لیے نکلا ہوں مگر کوئی جانور پسند نہیں آیا سوائے ایک کے کہ اس کے دانت گرگئے ہیں۔ مگر وہ بھی مجھے پسند نہیں ہے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انھوں نے کہا: وہ تم نے مجھے کیوں نہیں لا دیا۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! تمھاری طرف سے جائز ہوگا تو کیا میری طرف سے جائز نہ ہوگا؟ انھوں نے کہا: ہاں (اس لیے کہ) تم شک کرتے ہو اور مجھے کوئی شک نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ نے ان جانوروں سے منع کیا ہے جو «مصفرة، مستأصلة، بخقاء، مشيعة» یا «كسراء» ہوں۔ «مصفرة» وہ ہے جس کا کان جڑ سے کٹ گیا ہو کہ اس کا سوراخ نظر آنے لگے۔ «مستأصلة» وہ ہے جس کا سینگ جڑ سے نکل گیا ہو۔ «بخقاء» وہ ہے جس کی بینائی جاتی رہے مگر آنکھ قائم ہو۔ «مشيعة» وہ ہے جو ناتوانی و کمزوری کی وجہ سے دوسری بکریوں کے ساتھ نہ چل سکے اور «كسراء» وہ ہے جس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہو۔
دوسرا قول:
آدھا سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو تو نہیں کرسکتے، یہ امام نخعی، ابو یوسف، محمد بن الحسن الشیبانی اور معاصرین میں سے شیخ ابن باز اور صالح الفوزان وغیرہم کا قول ہے۔
ان کی دلیل بھی حضرت علی کی اوپر بیان کردہ حدیث ہے البتہ ان لوگوں نے عضباء کی تفسیر آدھا سینگ ٹوٹا ہوا جانور سے کی ہے:
عن جري بن كليب السدوسي، عن علي قال: “نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يضحى بأعضب القرن والأذن”قال قتادة: فذكرت ذلك لسعيد بن المسيب، فقال: العضب، ما بلغ النصف فما فوق ذلك”

(اسے امام أبو داود (2805)، ترمذي (1504)، ابن ماجه (3145) اور أحمد (1158) نے روایت کیا ہے اور امام ترمذي اور حاكم نے صحیح قرار دیا ہے، جبکہ امام ابو داود اور الباني نے ضعیف قرار دیا ہے۔ انظر: البدر المنير لابن الملقِّن (9/ 293)، والإرواء للألباني (4/ 361)
اسی طرح اسے ابن عبد البر، ابن حزم اور شیخ ابن عثیمین نے بھی ضعیف کہا ہے)
ترجمہ: علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ان جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فریایا جن کے سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے ہوئے ہوں۔ قتادہ کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے اس کا تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا: ‘عضب’ (سینگ ٹوٹنے) سے مراد یہ ہے کہ سینگ آدھا یا اس سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو۔
تیسرا قول:
سینگ ٹوٹنے کے بعد خون نکلے تو نہیں کرسکتے، اس کے قائل امام مالک رحمہ اللہ اور معاصرین میں سے شیخ حسام الدین عفانہ ہیں۔
ان لوگوں کے دلائل کا مجھے علم نہ ہوسکا البتہ یہ لوگ اتنا ضرور ذکر کرتے ہیں کہ چونکہ جب سینگ سے خون نکلتا ہے تو اس کا اثر گوشت پر پڑتا ہے جس سے کہ جانور کے کمزور ہونے اور گوشت کے فاسد ہونے کا خطرہ رہتا ہے لہذا اگر اس قدر سینگ ٹوٹے جس سے کہ خون نکلتا ہو تو ایسی صورت میں اس جانور کی قربانی درست نہیں ہے۔
چہارم:
مطلقا کر سکتے ہیں، یہ علي، براء بن عازب، عمار، سعید بن المسيب، حسن البصري، ابو حنيفہ، شافعی اور جمہور اہل علم کا قول ہے۔ معاصرین میں سے امام ابن عثیمین، محمد علی فرکوس جزائری، مقبل بن ہادی الوادعی کے شاگرد محمد بن علی بن حزام صاحب فتح العلام اور محمد صالح المنجد وغیرہم اس کے قائل ہیں البتہ شیخ ابن عثیمین اور محمد صالح المنجد سینگ ٹوٹے ہوئے کے مقابلے میں سالم جانورں کی قربانی افضل قرار دیتے ہیں-
ان کے دلائل:
اول:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث:
عن حجية بن عدي، عن علي قال: البقرة عن سبعة، قلت: فإن ولدت؟ قال: اذبح ولدها معها، قلت: فالعرجاء، قال: إذا بلغت المنسك، قلت: فمكسورة القرن، قال: لا بأس «أمرنا، أو أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نستشرف العينين والأذنين»:

هذا حديث حسن صحيح (اسے امام احمد نے مسند﴿1022﴾ اور امام ترمذی نے سنن ﴿1503) کے اندر روایت کیا ہے۔ علامہ احمد شاکر نے صحیح اور امام البانی اور شعیب ارنؤوط وغیرہم نے حسن قرار دیا ہے)
ترجمہ: حجیہ بن عدی سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: گائے کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے کی جائے گی، حجیہ کہتے ہیں: میں نے پوچھا: اگروہ بچہ جنے؟ انھوں نے کہا: اسی کے ساتھ اس کو بھی ذبح کردو، میں نے کہا اگر وہ لنگڑی ہو؟ انھوں نے کہا: جب قربان گاہ تک پہنچ جائے تو اسے ذبح کردو، میں نے کہا: اگر اس کے سینگ ٹوٹے ہوں؟ انھوں نے کہا: کوئی حرج نہیں، ہمیں حکم دیا گیا ہے، یا ہمیں رسول اللہﷺ نے حکم دیا ہے کہ ہم ان کی آنکھوں اور کانوں کوخوب دیکھ بھال لیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
دوم:
بغیر سینگ والے جانور پر قیاس: کیوں کہ علما کا ایسے جانور کی قربانی کے جواز پر اتفاق ہے جس کا سرے سے سینگ ہی نہ ہو چنانچہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
العلماء مجمعون على أنَّ الجمَّاء جائزٌ أن يضحَّى بها، فدلَّ إجماعُهم هذا على أنَّ النقص المكروه هو ما تتأذَّى به البهيمةُ وينقص مِن ثمنها ومِن شحمها (الاستذكار لابن عبد البرِّ 5/ 218)

علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جماء (ایسا جانور جس کا سرے سے سینگ ہی نہ نکلا ہو) کی قربانی جائز ہے، پس ان کا اجماع اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نقص مکروہ ہے جس سے جانور کو تکلیف پہنچے اور جو جانور کی قیمت اور چربی میں نقص کا باعث ہو۔
چنانچہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ایسے جانور کی قربانی درست ہے جس کا سرے سے سینگ نکلا ہی نہ ہو تو سینگ ٹوٹے ہوئے کی قربانی بدرجہ اولیٰ درست ہے کیونکہ اس کا کم از کم کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے۔
خلاصہ کلام: یہ ہے کہ اس مسئلے میں راجح چوتھا قول ہے یعنی سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی جائز ہے البتہ اس کے مقابلے میں اگر میسر ہو تو سالم جانورں کی قربانی افضل ہے۔
اس ترجیح کے دلائل درج ذیل ہیں:
(1) سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
اور اوپر گزر چکا ہے کہ اس سلسلے میں حضرت علی کی مرفوع حدیث ضعیف ہے علامہ البانی نے اس کو منکر قرار دیا ہے۔ اس کے اندر دو علتیں ہے:
اول:
اس حدیث کی سند میں ایک راوی “جري بن كليب سدوسي” مجہول ہیں … ان کے بارے میں امام ابو حاتم رازی فرماتے ہیں “شيخ لا يحتج به” یعنی ان (کی روایت) سے احتجاج نہیں کیا جائے گا۔ امام علی بن المدینی فرماتے ہیں: “مجهول لا أعلم أحدا روى عنه غير قتادة” مجہول ہیں قتادة کے علاوہ کسی نے ان سے روایت نہیں کیا ہے۔ ان دو جلیل القدر نقاد کے مقابلے میں منقول ہے کہ قتادۃ ان کی تعریف کیا کرتے تھے، عجلی نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے اور ابن حبان نے ان کو کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں مرعاۃ المفاتیح:5/97) مگر عرض ہے کہ قتادۃ کا شمار جارحین ومعدلین میں نہیں ہے امام ذہبی نے “ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل” اور امام سخاوی نے “المتكلمون في الرجال” نامی کتاب لکھی ہے مگر کسی نے قتادۃ کا ذکر نہیں کیا ہے لہذا ان کی تعریف کا کوئی اعتبار نہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ قتادۃ ان کی کس وجہ سے تعریف کرتے تھے حفظ و ضبط میں کامل ہونے کی وجہ سے یا پھر عبادت وزہد میں یا فقہ میں؟ یہ نامعلوم ہے لہذا یہ کافی نہیں ہے۔
دوسری علت:
خود حضرت علی کی موقوف روایت اس حدیث کی مخالفت کرتی ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ آپ ٹوٹے ہوئے سینگ والے جانور کی قربانی میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے چنانچہ اگر یہ مرفوع روایت حضرت علی کے نزدیک صحیح ہوتی جن کے راوی آپ خود ہیں تو آپ اس کی مخالفت نہ کرتے۔
امام ابن عبد البر فرماتے ہیں:
“سینگ کا ذکر اس کے علاوہ اور کسی حدیث میں نہیں ہے….. اور بغیر سینگ والے جانور کی قربانی کے جواز پر علمائے کرام کے اجماع سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حدیث القرن ثابت اور صحیح نہیں ہے بلکہ وہ منسوخ ہے۔ کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ ایک ساتھ دونوں سینگوں کا نہ ہونا یہ زیادہ (عیب کا باعث) ہے کسی ایک کے بعض حصے کے نہ ہونے سے”۔ (الاستذکار 15/132)
(2) اللہ کے رسول سے جب پوچھا گیا کہ کس قسم کا جانور قربان میں کفایت نہیں کرے گا تو آپ نے بالتحدید فرمایا کہ “أربع لا تجوز في الأضاحي” یعنی چار قسم کے جانوروں کی قربانی کفایت نہیں کرے گی۔
لہذا اس حصر اور تحدید سے یہ پتا چلتا ہے کہ اس کے علاوہ جتنے اقسام کے جانور ہیں سب کی قربانی درست ہے۔
چنانچہ حضرت علی سے بھی جب ٹوٹے ہوئے سینگ والے جانور کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے کہا کہ کوئی حرج نہیں ہے اور دلیل یہ دیا کہ اللہ کے رسول نے ہمیں صرف آنکھ اور کان دیکھنے کا حکم دیا ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ چونکہ اللہ کے رسول نے ہمیں سینگ دیکھنے کا حکم نہیں دیا ہے لہذا ٹوٹے ہوئے سینگ والے کی قربانی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
اخیر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح فقہ دین سے نوازے۔ آمین

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
محمد رضوان سلفى مديرجامعة خديجة الكبرى،پورنیہ،بہار

ما شاء اللہ ، عمدہ تحقیق ۔بارك الله تعالیٰ فی علمكم وفقهكم

Sheikh Farhat Hussain Bilali Ashrafi

ماشاءاللہ بہت جامع تحقیق ہے اللہ آپکے علم و عمل میں مزید اضافہ فرمائیں۔آمین یا ربّ العالمین۔