جب سے اردو زبان میں تحقیق حدیث کا آغاز ہوا ہے لوگوں نے علم مصطلح الحدیث کو بازیچہ اطفال بنا دیا ہے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ ہر وہ شخص جسے صحیح سے اردو کے دو جملے لکھنا نہیں آتا لیکن اس نے دو چار ترجمے یا اردو محققین کی ایک دو کتابیں پڑھ رکھی ہیں وہ بھی رجال حدیث پر کلام کرتا ہے اور تصحیح و تضعیف حدیث کی جرأت کر بیٹھتا ہے۔ اور حد تو تب ہو جاتی ہے جب ایسا شخص محدثین کرام کی بھی غلطیاں نکالنے لگتا ہے مثال کے طور پر انجینئر محمد علی مرزا، ابو محمد خرم شہزاد اور بالعموم برادرس کا ذکر غلط نہ ہوگا۔ مشاہدے میں یہ بات بھی ہے کہ ان چیزوں کا سب بڑا مرکز پاکستان ہے، وہاں تو مصطلح الحدیث کے اصولوں میں اختلاف ولاء اور براء کا سبب بن جاتا ہے اور نتیجتاً کبھی نہ ختم ہونے والے اختلاف کی صورت اختیار کر کے تحریری وتقریری جدل اور مناظرہ کا روپ دھار لیتا ہے۔
موجودہ طرز پر اردو میں تحقیق حدیث کی ابتدا غالبا محدث پاکستان حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے کی پھر محدث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے اس میں جان ڈال کر اسے مزید عروج عطا کیا۔ اس نوعیت کی بہت سی چیزیں محدث کبیر بدیع الدین شاہ راشدی اور ان کے بڑے بھائی محدث محب اللہ شاہ راشدی کی تصنیفات میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہندوستان میں بھی اس طرز تحقیق کی کچھ صورتیں موجودہ دور میں شیخ کفایت اللہ سنابلی کی تحریروں نیز مجلہ اہل السنہ ممبئ اور مجلہ الاحتساب دریاباد کے بعض مضامین میں نظر آتی ہیں۔
کچھ سالوں سے رسائل و جرائد اور ہند و پاک کے مختلف اہل علم و تحقیق کے مضامین اور تحریروں کے بدستور مطالعے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اردو اہل حدیث محققین بالخصوص پاکستانی محققین تحقیق اور اصول تحقیق کو لے کر کئی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان کی یہ گروہ بندی تعصب کی حد تک ہے جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
اول:محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے شاگردوں اور ان کے مدافعین اور سپوٹرز کا گروہ: شیخ رحمہ اللہ تو اپنے اصولوں کے تحت جس قدر ہو سکا قوم وملت اور احادیث رسول کی خدمت کر کے اس دنیا فانی سے چلے گئے لیکن ان کے بعد ان کے مدافعین نے محاذ کھڑا کر رکھا ہے،اس سلسلے میں حافظ ندیم ظہیر،محقق غلام مصطفی ظہیر امنپوری، ابو بکر اثری، ابو یحییٰ نور پوری اور ابو الاسجد صدیق رضا کا کردار قابل ذکر ہے۔
دوم:محدث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کے شاگردوں کی جماعت؛ شیخ حفظہ اللہ منہج سلف کے مطابق تحقیق وتخریج، درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، انھیں ان اختلافات سے زیادہ سروکار نہیں ہے البتہ یہ کرشمہ ان کے شاگردوں اور محبین کا ہے جن میں سب سے اہم رول شیخ محمد خبیب احمد اثری حفظہ اللہ اور محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی کا ہے۔
سوم:محدث کبیر محب اللہ شاہ راشدی کے سلسلے میں غلو کرنے والوں کا گروہ اور ان کا سرخیل حفید المحدث ابو المحبوب انور شاہ راشدی حفظہ اللہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مخالفین پر قسط وار ردود لکھنا ان کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔
چہارم:خود کفایت اللہ سنابلی صاحب اور ان کے مداحین کا گروپ، حافظ زبیر علی زئی صاحب کے خلاف ان لوگوں کی تحریروں سے ایسا لگتا ہے جیسے انھیں شیخ سے کوئی ذاتی عداوت ہو گرچہ مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہے مگر پھر بھی ان کے انداز سے کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
یہ سارے کے سارے ایک دوسرے کے خلاف ہمہ وقت بر سرِ پیکار رہتے ہیں۔ جب بھی کسی گروہ کے کسی فرد سے کوئی لغزش نظر آئی اس کے خلاف قسط وار ردود لکھنا شروع ہو گیا حتی کہ ابھی حال یہ ہے کہ متوفین کی کتابوں سے بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر غلطیاں نکالی جاتی ہیں اور پھر ان پر تبصرے کیے جاتے ہیں کہ آپ کے امام سرعت پسند تھے، تو آپ کے محدث متشدد تھے، انھوں نے فلاں جگہ فلاں راوی کو ایسا کہا ہے، آپ کی کتابوں میں املا کی غلطیاں پائی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مطلب یہ کہ جب مخالفت پر اتر آتے ہیں تو ذرا بھی نہیں بخشتے، املا اور طباعت کی غلطیوں کو بھی بڑی مشقتیں اٹھا کر ڈھونڈ نکالتے ہیں۔
لطیفہ یہ ہے کہ اول الذکر گروہ کو چھوڑ کر بقیہ سارے پہلے گروہ کی مخالفت میں متحد ہیں اور سب مل کر حافظ زبیر علی زئی کے منہج کا تعاقب کرتے اور ان پر اعتراضات واشکالات وارد کرتے ہیں۔
ان حضرات کے نزدیک دلچسپ موضوعات میں مسئلہ تدلیس،ضعیف+ضعیف حسن لغیرہ، زیادۃ الثقہ اور یزید بن معاویہ وغیرہ شامل ہیں ۔ان کے اختلافات کی چکی کا محور یہی چند مسائل ہیں۔
یہ رہی اردو تحقیق حدیث کی مختصر روداد۔ اس کا مقصد ہر گز کسی کی شخصیت میں طعن و تشنیع کرنا نہیں ہے بلکہ محض اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ ساری بحثیں کچھ زیادہ سود مند اور ثمر آور نہیں ہیں کہ ہم انھیں اپنی تمام تر توجہات کا مرکز بنا دیں۔ اس طرح کے اختلافات اور آراء میں تفرد اور غرابت ائمہ سلف اور متقدمین ومتاخرین کبار محدثین کے ہاں بھی پائی جاتی رہیں ہیں لیکن یہ چیزیں ان کے مابین باہمی چپقلش اور نفرت وعداوت کا باعث کبھی نہ بنیں۔ان اختلافات کی واضح ترین مثال یہ ہے کہ محدثین اور ائمہ رجال کو متشددین متساہلین اور معتدلین تین قسموں میں بانٹا گیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اصول حدیث وتحقیق میں اس طرح کا اختلاف آج کی پیدار نہیں ہے لہذا اگر معاصرین میں سے بھی کسی کے یہاں تشدد زیادہ ہے تو اسے بجائے مسئلہ بنانے کے در گزر کر دینا چاہیے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح منہج اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جب علماء کی تحقیقی باتیں کم علم عوام میں عام ہو جاتی ہیں تو یہ صورت حال پیدا ہونا ممکن ہے ۔یزید کا مسئلہ چار دن قربانی کا مسئلہ ۔اور بھی ہمارے میں مسائل ہیں ۔بالخصوص اہل حدیث عوام کا دماغ اور خراب ہوگا ۔۔کوی یہ بتانے کی ہمت نہیں کرتا کہ اہل حدیث اور غربا اہل حدیث کیوں بنے ۔ان کا اختلاف کیا ہے اور کیا حق ہے ۔دراصل احناف کے دلائل کی تردید کے لئے احادیث کی صحت کو مناظرہ کی اردو کتابوں میں لکھنے کا رواج آج خود اہل حدیث عوام اور علما کا سر درد بن… Read more »