لاک ڈاؤن اور گھروں میں تراویح کے مسائل

مقبول احمد سلفی رمضانیات

اس میں کوئی شک نہیں کہ بروقت دنیا کے حالات سازگار نہیں ہیں خصوصا ہندوستان میں مسلمان قسم قسم کی آزمائشوں سے گزررہے ہیں۔ حکومتی اعلان لاک ڈاؤن کی وجہ سے رمضان المبارک جیسا خیروبرکت کا مہینہ متاثر ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہی تو ماہ مبارک ہے جس میں گنہگاروں کو بھی خیروبرکت کی سعادت نصیب ہوتی ہے اور صالحین کو مزید تقوی وپرہیزگاری عطا ہوتی ہے۔ اللہ ہمارے سروں سے آزمائش ٹال دے اور ماہ مبارک کی سعادتیں نصیب فرمائے۔ آمین
لاک ڈاؤن کی صورت میں مسلمانوں میں ایک بڑی بے چینی تراویح کے سلسلے میں ہے کہ گھروں میں محصور ہوجانے کی وجہ سے مسجد میں جاکر جماعت سے تراویح کی نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کی یہ بے چینی بجا ہے اور اس مشکل وقت میں ہم سب کو کثرت توبہ اور اللہ سے مدد ودعا کا التزام کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالی ہم پر اور پوری امت مسلمہ پر آسانی فرمائے۔ رہا مسئلہ تراویح کا تو اس سلسلے میں دیکھتے ہیں کہ شریعت سے ہماری لیے کیا کچھ رہنمائی اور سہولت موجود ہے۔

پہلی بات:
تراویح واجب نہیں ہے بلکہ مسنون ہے اسی لیے تو رسول اللہ ﷺصحابہ کو چند دن جماعت سے تراویح پڑھانے کے بعد تیسرے یا چوتھے دن مسجد ہی نہیں آئے کہ کہیں امت پر یہ فرض نہ کردی جائے۔ اگر کسی سے چند دن یا پورا رمضان تراویح چھوٹ جائے تو اللہ کے یہاں جوابدہی نہیں ہوگی مگر پانچ اوقات کی نمازوں میں سے ایک وقت کی بھی نماز بغیر عذر کے چھوڑ دیتے ہیں تو اس پر مواخذہ ہوگا۔

دوسری بات:
تراویح کی مسنون رکعات مع وتر گیارہ ہیں جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ رمضان میں اور رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اس لیے تراویح کی مسنون رکعات مع وتر گیارہ ہی ہیں۔ جو لوگ بیس رکعت تراویح مسنون کہتے ہیں ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔ صحیح دلیل سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو گیارہ رکعات ہی تراویح پڑھانے کا حکم دیا اس لیے یہ کہنا کہ حضرت عمر نے لوگوں کو بیس رکعت تراویح پر جمع کیا صحیح نہیں ہے۔

تیسری بات:
تراویح ہی تہجد اور قیام اللیل ہے یعنی رمضان المبارک میں جس نماز کو تراویح کہتے ہیں اسے تہجد اور قیام اللیل بھی کہہ سکتے ہیں، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اوپر دوسری بات کے تحت میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بتلائی کہ نبی ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ جو نماز نبی ﷺ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں قیام اللیل کے نام سے گیارہ رکعت پڑھتے تھے وہی نماز رمضان میں بھی ادا فرماتے تھے۔ اگر تراویح اور تہجد الگ الگ مانتے ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ نبی نے تین ہی دن صحابہ کے ساتھ تراویح پڑھی اور زندگی میں کبھی نہیں پڑھی یا جن تین یا چند دن صحابہ کو جماعت سے تراویح پڑھائی ان دنوں الگ سے قیام اللیل بھی پڑھی۔حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ نیز جن احادیث سے ہم تراویح کی فضیلت بیان کرتے ہیں ان میں تو “قام رمضان” یا ” قام لیلۃ” کا لفظ آیا یعنی جو رات کو قیام کرے، رات کے اسی قیام کو تو قیام اللیل کہا جاتا ہے۔

چوتھی بات:
تراویح میں قرآن ختم کرنا ضروری نہیں ہے، تراویح اصل میں قیام اللیل ہے یعنی رات میں اطمینان وسکون سے لمبا قیام کرنا خواہ قرات جس قدر بھی ہو، اللہ تعالی قیام اللیل کا اجر دے گا۔ اگر کسی نے تراویح میں دس، پندرہ یا بیس پارے ہی تراویح میں پڑھے مگر قیام اللیل کا حق ادا کیا تو بلاشبہ اسے قیام اللیل کا اجر ملے گا۔ اور جس نے تراویح میں مکمل قرآن ختم کیا مگر نماز میں سکون واعتدال نہیں برتا، کوے کی طرح چونچ مارتا رہا ایسی نماز نماز ہی نہیں ہے۔ نبی ﷺنے ایک صحابی کو جلدبازی میں نماز پڑھنے پر کئی دفعہ نماز دہرانے کا حکم دیا۔

پانچویں بات:
مسجد میں حاضر ہوکر جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا ضروری نہیں ہے بلکہ اکیلے بھی پڑھ سکتے ہیں اور مسجد کے علاوہ گھر میں بھی ادا کرسکتے ہیں اور یاد رکھیں کہ کوئی اکیلے بھی تراویح پڑھتا ہے تو اس کو بھی اتنا اجر ملے گا کہ سابقہ سارے گناہ معاف ہوجائیں گے جس کا وعدہ رسول اللہ ﷺنے رمضان میں قیام اللیل سے متعلق کیا ہے اس لیے لاک ڈاؤن کی وجہ سے زیادہ فکرمندی کی ضرورت نہیں ہے نیز حالات کی سنگینی کی وجہ سے جب جمعہ اور فرائض کی جماعت ساقط ہوگئی ہے تو تراویح محض مسنون ہے جس کے لیے نہ مسجد شرط ہے اور نہ ہی جماعت۔
ان چند مسائل سے آگاہی کے بعد ایک اہم بے چین کرنے والا مسئلہ یہ ہے کہ ٹھیک ہے تراویح کے لیے جماعت یا مسجد ضروری نہیں ہے مگر جماعت سے پڑھنا بڑے اجر وثواب کا کام تو ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ جماعت سے کوئی بھی نماز ادا کرنا اکیلے پڑھنے سے ستائیس گنا بہتر ہے اور پھر ایک صحیح حدیث میں ہے کہ جو امام کے ساتھ آخری وقت تک قیام کرے تو اسے پوری رات قیام کا اجر ملتا ہے۔(صحیح النسائی :1604)
گوکہ تراویح اکیلے پڑھنے سے بھی سابقہ گناہ کی معافی کا اجر مل جائے گا تاہم رمضان بابرکت مہینہ ہے اور جماعت سے ثواب دوچند ہوجاتا ہے اس وجہ سے آپ اپنے اپنے گھروں میں اہل خانہ کے ساتھ جماعت سے تراویح کا اہتمام کریں۔ نماز کی امامت کے بارے میں نبی ﷺکا فرمان ہے: لیؤمکم اکثرکم قرآنا(صحیح النسائی:788) یعنی تم میں سے جس کو سب سے زیادہ قرآن یاد ہو وہ امامت کرائے۔
اس فرمان رسول کی روشنی میں جس کو سب سے زیادہ قرآن یاد ہو وہ گھر والوں کو تراویح پڑھائے۔ یاد رہے مرد عورتوں کی امامت کراسکتا ہے مگر عورت مردوں کا امام نہیں بن سکتی ہے۔ زیادہ قرآن یاد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ گھر میں مثلا دس افراد ہیں اور کسی کو ایک سپارہ یاد ہے، اتنا کسی کو یاد نہیں ہے تو وہی امامت کرائے یا کسی کو چند سورتیں ہی یاد ہیں اور دوسرے کو کچھ یاد نہیں تو جس کو چند سورتیں یاد ہیں وہی امامت کرائے۔ یہاں ایک اور بات یاد رہے کہ ایک سورت کو ایک سے زائد رکعت میں بھی پڑھ سکتے ہیں مثلا سورہ اخلاص پہلی رکعت میں پڑھی گئی تو دوسری رکعت میں بھی سورہ اخلاص پڑھ سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی کو چند چھوٹی سورتیں بھی یاد ہوں تو وہ بھی تراویح پڑھا سکتا ہے، ایک ایک رکعت میں ایک ایک سورت پڑھائے اور اگر رکعات سے کم سورتیں یاد ہوں تو ایک سورت دو رکعتوں میں پڑھائے۔
بوقت ضرورت تراویح میں قرآن دیکھ کر پڑھنا کیسا ہے؟
اب آتے ہیں ایک اہم مسئلہ کی طرف کہ اگر کسی کو قرآن زیادہ یاد نہ ہو اور تراویح میں طویل قیام وسجود کرنا چاہتا ہو تو کیا وہ قرآن دیکھ کر پڑھ سکتا ہے؟
اس سوال کا سیدھا اور مختصر جواب یہ ہے کہ ضرورت کے وقت قرآن دیکھ کر تراویح پڑھانا جائز اور صحیح ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے غلام کو تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور وہ قرآن سے دیکھ کر سیدہ عائشہ کو تراویح پڑھاتے۔ یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے۔ سیدہ عائشہ دین کی بڑی عالمہ وفاضلہ تھیں، ان سے صحابہ اور صحابیات دین سیکھتے اور مسائل دریافت کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی صحابی سے حضرت عائشہ کے اس عمل کی مخالفت وارد نہیں ہے حتی کہ عمومی طور پر بھی کسی صحابی نے مصحف دیکھ کر نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے۔ بعض لوگ تین صحابہ کرام کا نام ذکر کرتے ہیں مگر صحابی کا کوئی اثر ثابت نہیں ہے مندرجہ سطور میں ان کا خلاصہ پڑھیں:
(1)(( عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا برا سمجھتے اور اسے اہل کتاب کا طریقہ بتاتے))۔ یہ اثر تاریخ بغداد میں موجود ہے اور تاریخ بغداد کے محقق دکتور بشار عواد معروف نے المیزان(4/507) کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ اس کی سند میں ابوبلال اشعری ضعیف راوی ہے۔
(2) ((حضرت سوید بن حنظلہ رضی اللہ عنہ نے ایک صاحب کو قرآن دیکھ کر پڑھتے دیکھا تو ان کا قرآن لے کر الگ رکھ دیا))۔ سوید بن حنظلہ نام سے صحابی گزرے ہیں، ان سے حدیث بھی مروی ہے مگر یہاں نام میں تحریف ہوگئی ہے۔ المصاحف لابن ابی داؤد 7054 میں سلیمان بن حنظلہ البکری ہے جبکہ یہ نام بھی صحیح نہیں ہے، صحیح نام سلیم بن حنظلہ البکری السعدی الکوفی ہیں۔ یہ صحابی نہیں تابعی ہیں۔
(3) ((حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہم لوگوں کو حالت نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے سے قطعا منع فرما دیا تھا))۔ یہ روایت کنزالعمال اور اعلاء السنن میں ہے مگر وہاں اس کی سند نہیں ہے۔ صاحب المصاحف نے اس کی سند ذکر کی ہے اس سند میں نہشل بن سعید نیساپوری نام کا کذاب ومتروک راوی ہے، امام بخاری اور امام نسائی نے اس پر حرج کی ہے۔
ان تینوں میں دوسرا قول صحابی کا نہیں ہے اور باقی بچے صحابی کے دو اقوال ضعیف ہیں اس لیے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی بنیاد پر ضرورت کے تحت نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا جائز ہے۔صحابی کا قول وعمل تابعی پر مقدم ہے اس لیے بعد والوں کے اقوال نہیں ذکر کر رہا ہوں البتہ ائمہ اربعہ کی بات کریں تو امام ابوحنیفہ کے علاوہ ائمہ ثلاثہ نے نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی رخصت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام زہری سے کسی نے سوال کیا کہ رمضان میں قرآن دیکھ کر پڑھنا کیسا ہے تو انھوں نے بہترین جواب دیا: كان خيارنا يقرؤون في المصاحف (المدونة الكبرى1/288-289 والمغني لابن قدامة 1/335) کہ ہم میں سے بہتر لوگ قرآن دیکھ کر پڑھتے تھے۔

مسلک احناف اور نماز میں قرآن دیکھنا:
متعدد کتب احناف میں مذکور ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک قرآن دیکھ کر پڑھنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ جب کہ آج لوگوں کی شدید ضرورت ہے کہ وہ اپنے اپنے گھر میں تراویح کی نماز قرآن دیکھ کر پڑھائیں کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے مساجد بند ہیں اور گھر گھر حافظ دستیاب بھی نہیں ہوسکتے مگر پھر بھی اور ان حالات میں بھی قرآن دیکھ کر پڑھنے سے حنفیوں کی نماز باطل ہوجائے گی۔ جب حنفیوں کو صحیح بخاری میں موجود سیدہ عائشہ کا حکم اور ذکوان کا عمل دکھاؤ تو اس دلیل کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں۔
حدیث عائشہ کے متعلق احناف کی ایک تاویل یہ ہے کہ یہ حدیث رسول نہیں ہے اثر ہے یعنی صحابی کا ذاتی عمل ہے۔ میں کہتا ہوں پھر صحیح بخاری میں موجود تراویح کی گیارہ رکعت عمل رسول ہے اس کو چھوڑ کر دلیل میں حضرت عمر کا عمل پیش کرتے ہو وہ بھی ضعیف، کیا وہ اثر نہیں ہے؟
احناف کی دوسری تاویل یہ ہے کہ ذکوان کا عمل متضاد اور اجماع امت کے خلاف ہے، میں کہتا ہوں کسی امام کا مسلک ان کے شاگرد سے رائج ہوتا ہے اور امام صاحب کے دو شاگرد ابویوسف اور محمد کہتے ہیں کہ نماز میں قرآن دیکھنے سے نماز مکمل ہوجاتی ہے، بس کراہت کا مسئلہ ہے جبکہ امام ابوحنیفہ نماز ہی فاسد کررہے ہیں۔ اس کا مطلب شاگرد نے اسی وقت بھانپ لیا کہ امام صاحب کا یہ فتوی غلط ہے لیکن غالی مقلدین پکڑے بیٹھے ہیں، امام صاحب کے شاگرد کا بھی لحاظ نہیں کرتے۔ یہ لوگ بھلا سیدہ عائشہ کا فتوی کہاں سے مانیں گے؟ اس بات پر کوئی حیرت کیے بنا نہیں رہ سکتا کہ جب احناف صحابی کے قول وفعل کو دیوار پر مار دیتے ہیں پھر ایسے لوگ امام کی ہر بات کی تقلید کیسے واجب قرار دیتے ہیں جو نہ نبی ہیں، نہ صحابی ہیں اور نہ ہی معصوم؟ احناف کی ایک تاویل یہ بھی ہے کہ حضرت عائشہ کا یہ عمل ان احادیث میں سے ہے جن کو امت نے قبول نہیں کیا، یہ محض ایک آدمی کا عمل ہے اور اسے امام بخاری نے ضمنا ذکر کردیا ہے۔ احناف کی اس بے جا تاویل میں کس قدر جرات ہے؟ اپنے امام کو معصوم سمجھتے ہیں، ہر بات کی تقلید واجب قراردیتے ہیں ورنہ نجات نہیں ہوگی مگر خیرالقرون کی عالمہ، زاہدہ اور فقیہ جن کو براہ راست نبی کا فیض حاصل تھا ان کو کون سا رتبہ دیتے ہیں؟ اس مناسبت سے ابن نجیم حنفی کاقول (جو الاشباہ والنظائر میں ہے) بیان کرنا دلچسپ ہوگا کہ نمازی قرآن کی طرف دیکھ بھی لے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے مگر شہوت کے ساتھ عورت کی شرمگاہ بھی دیکھے تو نماز باطل نہیں ہوتی ہے۔ ان باتوں سے آپ کو پتہ چل ہی گیا ہوگا کہ احناف کے یہاں قرآن و حدیث اصل نہیں اپنے امام کا قول ہی اصل ہے اس لیے ان کے فتاوی اور ان کے مسائل سے بچ کر رہنا چاہیے۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہم اپنے گھر میں جماعت بناکر تراویح پڑھ سکتے ہیں اور جسے زیادہ قرآن یاد ہوگا وہ امامت کرائے گا نیز کسی کو قرآن زیادہ یاد نہ ہو اور تراویح میں لمبی قرات کرنا چاہتا ہو وہ قرآن دیکھ قرات کرسکتا ہے لیکن یاد رہے کہ موبائل سے قرات نہ کریں بلکہ قرآن (مصحف) سے کریں کیونکہ موبائل مصحف نہیں ہے، یہ ایک ایسا آلہ ہے جس میں خیر اور شر دونوں ہے۔ اس سے امکان ہے کہ قرات کے دوران نامناسب چیز دیکھنے یا سننے کو مل جائے یا دھیان روزمرہ کی ان باتوں کی طرف چلاجائے جو موبائل سے کرتے اور سوچتے ہیں اور جو لوگ موبائل کو مصحف قرار دیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔

6
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
2 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
سہیل انور

ابن نجیم حنفی کے قول کا ذکر کیےء بغیر بھی مضمون مکمل سمجھا جاتا۔ لیکن یہ ذکر بڑے بھونڈے طریقہ سے اور بلا وجہ کیا گیا ھے۔ مضمون نگار کا مطالعہ بھلے ہی گہرا رہا ہو ، لیکن جب آپ عوامی سطح پر کوئی مضمون شایع کر رہے ہیں تو اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ پہلی سے بٹی ہویء امت کے درمیان مزید دراڑیں نا پیدا ہوں۔
شکریہ

ایاز ماسٹر

ماشاءاللہ تبارک اللہ۔

عبدالجبار علیمی نیپالی

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ• (مصنف ابن ابی شیبۃ ج2 ص284 باب كم يصلي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ. المعجم الکبیر للطبرانی ج5ص433 رقم 11934، المنتخب من مسند عبد بن حميد ص218 رقم 653) ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعت (تراویح) اور وتر پڑھتے تھے۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَ بِثَلَاثَۃٍ(تاريخ جرجان للسہمی ص317، فی نسخۃ 142)… Read more »

عبدالمومن محمودعالم،جھارکھنڈ،جامتاڑا

بیس کیااس سے بھی زائد رکعات کےقائل ہیں مگربیس کی تحدید پورےحزم ویقین کے ساتھ کرنایہ بھی عقلاونقلا پائےثبوت نہیں پہنچتا،دوسری بات ایک طرف صحیح روایتوں کاسلسلہ ہےتودوسری طرف ضعیف روایتوں کاسہارا،مگربراہوتقلیدکاکہ جس پریہ بیماری لگتی ہےتقلیدی خارشیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں،پھراسےزبان رسالت سےنکلےہوئےمخملی وریشمی الفاظ بھی کوئ فایدہ نہیں دیتے۔ کتاب وسنت سےسچےلگاؤہوتوپھراسکےلیئےفائدےہی فائدےہیں۔

عبدالجبار علیمی نیپالی

ہوش کے ناخن لو صاحب لوگوں کو گمراہ کرنا بند کریں ۔ حدیث عائشہ سے کسی بھی طرح 8 رکعات تراویح نہیں ثابت ہوتی

عبدالمومن محمود عالم

آج تک تمہارےپرکھےصحیح روایت کےمقابلےمیں ضعیف روایتوں کی منڈی میں ہی سودا بازی کرتےرہے،توبھلاآپ نےمسلکی تعصب میں بےجادعوی کیاتوکیا،کیا؟المقلد لیس بعالم ۔