قرآن دیکھ کر نماز پڑھنے کا حکم

ابو احمد کلیم الدین یوسف عبادات

خشوع وخضوع نماز کا اہم ترین حصہ ہے، نماز میں بلا وجہ حرکت کرنا اس میں کمی پیدا کرتا ہے، نتیجتاً انسان نماز کے مقصد سے غافل ہوجاتا ہے۔ اس لیے نماز کے درمیان ہونے والی حرکات کے متعلق جانکاری حاصل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ کون سی حرکت نماز کی روح کے منافی ہے اور کون سی مباح ہے۔
موجودہ صورت حال میں وبائی مرض “کورونا” کے پیش نظر نماز تراویح کا مسجد میں باجماعت ادا کرنا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے، اب ایسی صورت میں ایک عام آدمی جسے بہت کم سورتیں یاد ہوں یا نہ کے برابر یاد ہوں وہ کیا کرے، اور اپنے گھر میں تراویح کا اہتمام کیسے کرے؟
سب سے اہم اور بنیادی چیز تو یہ جان لیں کہ تراویح کی نماز سنت مؤکدہ ہے جس کے بہت سے فوائد ہیں، اس لیے جتنا اہتمام ہم اس نماز کا کرتے ہیں ہمیں اس سے زیادہ اہتمام سال بھر فرض نمازوں کا کرنا چاہیے۔
دوسری چیز یہ کہ ہر ممکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ آدمی بلا ضرورت قرآن مجید کھول کر نہ پڑھے، جو سورتیں یاد ہوں وہ انہی کو پڑھے، اب جیسے مثال کے طور پر کسی کو تیسویں سپارے کی چھوٹی چھوٹی دس یا پندرہ سورتیں یاد ہیں اگر وہ تراویح کی رکعت لمبی کرنا چاہتا ہے تو تمام سورتوں کو ایک رکعت میں پڑھ لے اور پھر دوسری رکعت میں انہی سورتوں کو دوہرا لے، اور اسی طرح تراویح کی تمام رکعتوں میں کرے۔ یا پھر ان تمام سورتوں کی تقسیم کرلے اور ہر رکعت میں چار یا پانچ سورتیں پڑھے، اس طرح وہ اپنی تراویح کو مکمل کرسکتا ہے۔
لیکن اگر کسی کو نماز میں مزید قرآن کی تلاوت کرنی ہو، اور لمبا قیام کرنا ہو تو شرعا ایسا کرنا درست ہے، چنانچہ دوران نماز قرآن ہاتھ میں لے کر پڑھنے کی کئی صورتیں ہیں:
پہلی صورت: إمام کا قرآن مجید ہاتھ میں لے کر نماز پڑھانا۔
دوسری صورت: اکیلے شخص کا قرآن مجید ہاتھ میں لے کر نماز پڑھنا۔
تیسری صورت: امام کے پیچھے کوئی مصحف لے کر کھڑا رہے تاکہ وہ امام کو غلطی پر متنبہ کرسکے۔
چوتھی صورت: مذکورہ تینوں صورت کے علاوہ ہو، یعنی مقتدی بلا ضرورت بحالتِ نماز امام کی قراءت قرآن دیکھ کر سنتا ہو۔

پہلی صورت جائز ہے، یعنی امام کا قرآن دیکھ کر امامت کرنا، جیسا کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ذکوان مصحف سے دیکھ کر ان کی امامت کیا کرتے تھے۔(1)
إمام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر اضطراری کیفیت ہو یعنی (بغیر قرآن دیکھے تراویح ممکن نہ ہو) قرآن دیکھ کر تراویح پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بعض علماء گھروں میں قرآن دیکھ کر قیام اللیل کیا کرتے تھے۔(2)

امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: قرآن دیکھ کر امامت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نیز ان سے ماہ رمضان میں قرآن دیکھ کر امامت کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: اگر اضطراری کیفیت ہو تو کرسکتا ہے۔
یعنی اگر قرآن دیکھے بغیر قیام اللیل ممکن نہیں ہے تو قرآن سے دیکھ کر امامت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
امام زہری رحمہ اللہ سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جو ماہ رمضان میں مصحف سے دیکھ کر پڑھتا تھا، تو امام زہری نے فرمایا: ہم سے پہلے جو بہترین اشخاص گذر چکے ہیں وہ بھی مصحف سے دیکھ کر پڑھا کرتے تھے۔
امام عطاء، یحی الأنصاری، حسن بصری اور محمد بن سیرین رحمہم اللہ جمیعا بھی اسی کے قائل ہیں۔
البتہ فرض نمازوں میں مصحف سے دیکھ کر پڑھنا مکروہ ہے، کیوں کہ عام طور پر فرض نمازوں میں مختصر سورتیں پڑھی جاتیں ہیں، اس وجہ سے مصحف سے دیکھ کر پڑھنے کی نوبت نہیں آتی، لیکن تراویح کی نماز لمبی ہوتی ہے اس لیے یہاں مصحف دیکھ کر امامت کرنے کو جائز قرار دیا گیا۔(3)
اور امام زہری رحمہ اللہ کے مذکورہ قول سے پتہ چلتا ہے کہ منفرد بھی ضرورت پڑنے پر بحالت نماز قرآن دیکھ پڑھ سکتا ہے۔

رہی بات تیسری صورت کی یعنی امام کو تنبیہ کرنے کی غرض سے کوئی پیچھے مصحف کھول کر کھڑا ہو سکتا ہے یا نہیں؟
تو اس سلسلے میں انس رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے کہ: انس رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے ہوتے تھے اور ان کا غلام ان کے پیچھے مصحف لے کر کھڑا ہوتا تھا، اور جب کسی آیت میں مشکل پیش آتی تو وہ غلام مصحف کھول کر تنبیہ کرتا۔(4)
اس اثر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام کے پیچھے ضرورتا مصحف کھولا جا سکتا ہے، اور خاص کر جب کسی کو امام کے پیچھے سامع کی حیثیت سے رکھا گیا ہو تاکہ وہ امام صاحب کو بوقت ضرورت متنبہ کر سکے۔
یہاں پر ایک بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ بعض علماء بحالت نماز قرآن سے دیکھ کر پڑھنے کو مکروہ قرار دیتے ہیں، اور اس سلسلے میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ ایک اثر نقل کرتے ہیں کہ: ہمیں امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن دیکھ کر امامت کرنے سے منع کیا ہے۔(5)
لیکن یہ قول حد درجہ ضعیف ہے، کیوں کہ اس کی سند میں ایک راوی نہشل بن سعید نام کا ہے جسےامام ابوداؤد الطیالسی اور امام اسحاق بن راہویہ نے جھوٹا کہا ہے، اور امام ابو حاتم نے متروک کہا ہے۔
اسی طرح دوسری دلیل یہ دیتے ہیں کہ قرآن دیکھ کر نماز پڑھنا عمل کثیر ہے یعنی قرآن کھول کر پڑھنا پھر اسے بند کرنا اور پھر اس کے اوراق کو پلٹنا یہ بہت زیادہ عمل ہے اور نماز میں اتنی حرکت اور عمل درست نہیں ہے، اس لیے قرآن دیکھ کر پڑھنا مکروہ ہے۔
یہ دلیل بھی درست نہیں کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ انھوں نے اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہما کو فرض نماز کے دوران اپنی گود میں اٹھا کر نماز پڑھی ہے، چنانچہ جب قیام میں ہوتے تو کندھے پر رکھ لیتے، اور جب رکوع اور سجدہ کرتے تو اتار دیتے، اور جب سجدہ سے اٹھنے لگتے تو پھر اٹھا لیتے۔(6)
جب بچی کو فرض نماز میں گود میں لے کر نماز پڑھنا جائز ہے تو پھر ضرورت کے پیش نظر قرآن ہاتھ میں لے کر نماز پڑھنا کیوں کر درست نہیں ہو سکتا؟
اس لیے مذکورہ دلیلوں کی روشنی میں ضرورت کے پیش نظر قرآن دیکھ کر تراویح یا دیگر نماز پڑھنا یا پڑھانا بلاکراہت جائز ہے۔

رہی بات چوتھی صورت کی یعنی بلا ضرورت مصحف لے کر امام کے پیچھے کھڑا رہنا جیسا کہ حرمین شریفین میں دوران تراویح مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، اور اسی کا دیکھا دیکھی ہمارے یہاں بھی بعض افراد کرتے ہیں، تو اکثر علماء نے اس سے منع کیا ہے، اور اسے خلاف سنت بتایا ہے۔
کیوں کہ اس میں بہت سے مفاسد ہیں، جیسے کہ:
1- جو قرآن کو اپنے ہاتھ میں اٹھائے رہتے ہیں وہ اپنے دائیں کو بائیں ہاتھ پر نہیں رکھ پاتے، جبکہ نماز میں سنت یہی ہے کہ قیام کی حالت میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے۔
2- نماز کی حالت میں سنت یہ ہے کہ انسان کی نگاہ سجدہ کی جگہ پر ہونی چاہیے جبکہ قرآن دیکھنے والے کی نگاہ قرآن پر ہوتی ہے۔
3- قرآن کھولنا، صفحہ پلٹنا، پھر بند کرکے جیب یا بغل کے نیچے دبانا اور رکوع میں جانا یہ عمل کثیر ہے، اور بلا ضرورت اتنی حرکت نماز میں درست نہیں۔
4- جو لوگ امام کے پیچھے قرآن لے کر سنتے ہیں آپ ان میں سے بعض کو دیکھیں گے کہ سجدہ کرتے وقت وہ ایک ہاتھ سے قرآن پکڑے ہوتے ہیں، یا تو وہ صحیح سے اپنا دونوں ہاتھ سجدہ کے دوران ویسے نہیں رکھ پاتے جیسا کہ سنت سے ثابت ہے، یا پھر سجدہ میں ایک ہی ہاتھ رکھتے ہیں جوکہ سنت کی صریح خلاف ورزی ہے، کیوں کہ سجدہ سات اعضاء پر کیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے صرف چھ اعضاء پر سجدہ کر رہے ہوتے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ دوران نماز ضرورت کے پیش نظر مصحف سے دیکھ کر پڑھا جاسکتا ہے یا امام کے قراءت کی متابعت بغرض تنبیہ کی جا سکتی ہے، بلا ضرورت نماز میں قرآن مجید دیکھنے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ اس عمل سے بہت ساری سنتیں فوت ہوتی ہیں۔(7)
واللہ اعلم بالصواب
…………………………………………………….
(1) صحیح بخاری تعلیقا (40/1)
(2) المصاحف (صفحہ: 460)
(3) المغنی (335/1) بتصرف
(4) مصنف ابن أبي شيبة (7223/123/2)
(5) المصاحف (449)
(6) صحیح مسلم (حدیث نمبر 435)
(7) شیخ البانی، ابن باز اور ابن عثيمين رحمہم اللہ جمیعا کے اقوال کا خلاصہ ہے۔

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
FAISAL NADEEM

جزاک اللہ خیرا…

حسیب الرحمن عبد الشکور دیناجپوری

جزاكم الله خيرا ونفع الله بكم الأمة

Anas

تروایح میں امام کا یا امام کے پیچھے مقتدی کا مصحف قرآنی اٹھا کر نماز پڑھنا؟ – مختلف علماء کرام Holding the Mushaf of Qura’an in Taraweeh by Imaam or those who behind him? – Various ‘Ulamaa تروایح میں امام کا یا امام  کے پیچھے مقتدی کا مصحف قرآنی اٹھا کر نماز پڑھنا؟    مختلف علماء کرام ترجمہ: طارق بن علی بروہی مصدر: ویب سائٹ الآجری۔ پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام بسم اللہ الرحمن الرحیم سوال: کیا مقتدی کے لیے بالخصوص تراویح میں امام کے پیچھے مصحف قرآنی اٹھانا جائز ہے کہ وہ امام کی قرأت کے ساتھ ساتھ اسے دیکھتا رہے؟… Read more »