فہم سلف کی ضرورت واہمیت

عبدالرحمن لطف الحق مرشدآبادی ادیان و مسالک

عہد شباب میں اسلام کا چہرہ بالکل صاف و شفاف اور حسن و جمال کا مظہر تھا، اور اس کا دامن ہر طرح کی ملاوٹ و آمیزش سے پاک تھا۔ اس عہد کی تعریف خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں کی ہے:

“خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ”۔ (صحيح بخاری:2652، صحيح مسلم:2533)

(سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہوں گے، پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہوں گے)

یہ عہد یقینا ہر طرح کے خیر وبرکت کا منبع اور فضل وکمال کا سرچشمہ تھا۔ پھر جوں جوں اسلام کی عمر بڑھتی گئی نئے نئے فرقے اور جماعتیں ظہور میں آئیں اور اسلام کا صاف و شفاف چہرہ اختلاف و انتشار کے داغ سے مکدر ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی:

“افترقَتِ اليهودُ على إحدى أو اثنتين وسبعين فرقةً، وتفرَّقت النَّصارى على إحدى أو اثنتين وسبعين فرقةً، وتَفتَرِقُ أمَّتي على ثلاث وسبعين فرقةً”۔ (سنن ابی داود:4596، سنن ترمذي:2640، مسند احمد: 8396 ۔ علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے: صحيح الجامع الصغير وزيادتہ: 1/ 245)

(یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے، نصاریٰ اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے، اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی)
ان فرقوں اور جماعتوں کا اختلاف و تنازع اس حد تک آگے بڑھا کہ ایک جماعت نے دوسری جماعت کو کافر اور حلال الدم تک قرار دیا۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ ہر جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ کتاب وسنت پر عمل کرتی ہے۔
قدرتی طور پر یہاں یہ سوال اٹھے گا کہ جب ہر جماعت کا یہی دعویٰ ہے کہ کتاب وسنت ہی اس کا مصدر و ماخذ ہے تو پھر اتنا اختلاف اور اتنی جماعتیں کیوں ہیں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ہر نئی جماعت نے کتاب وسنت کے نصوص کو سمجھنے کے لیے سلف صالحین کے فہم سے ادبار کیا اور اپنی عقل وفہم کے مطابق نصوص کتاب و سنت کو سمجھنے کی کوشش کی۔
فہم سلف کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالنے سے قبل مناسب سمجھتا ہوں کہ پہلے سلف کا معنی و مفہوم بیان کیا جائے۔
سلف کی لغوی تعریف:
ابن فارس فرماتے ہیں:

“(سلف) السين واللام والفاء أصلٌ يدلُّ على تقدُّم وسبْق. من ذلك السَّلَف: الذين مضَوا”۔ (معجم مقاييس اللغہ:3/ 72)

(سین لام اور فاء کی اصل تقدم و سبقت پر دلالت کرتی ہے، اس بنا پر سلف ان کو کہا جاتا ہے جو گزر چکے)
سلف کا اصطلاحی مفہوم:
جمہور علما کے نزدیک سلف سے مراد صحابہ، تابعین م اور تبع تابعین، تینوں صدی کے لوگ ہیں۔

(مجموع الفتاوى:6/ 355)، فتاوى نور على الدرب للعثيمين:2/ 2، معتقد اہل السنہ والجماعہ في توحيد الاسماء والصفات ص: 47)

فہم سلف کی ضرورت کیوں ہے:
ہمیں یہ بات یقین کر لینی چاہیے کہ جو بھی شخص سلف صالحین کے فہم سے اعراض کرکے اپنی عقل و فہم کے مطابق نصوص کتاب و سنت کو سمجھنے کی کوشش کرے گا وہ رشد و ہدایت کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا، اور صراط مستقیم پر اس کا قدم نہیں جم سکتا۔ لیکن کچھ لوگوں کا اشکال ہے کہ ہمیں صرف کتاب وسنت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے پھر ہمیں فہم سلف یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے اقوال، افعال اور فتاوے کی ضرورت کیوں؟
یہ اشکال در اصل قلت علم اور اسلامی اصول وقواعد سے تغافل کا ثمرہ اور نتیجہ ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ ہمیں صرف کتاب و سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن کتاب و سنت پر عمل کرنے کے لیے سب سے پہلے کتاب و سنت کو صحیح طور سمجھنا اور شریعت کے اسرار و مقاصد کو جاننا ضروری ہے، تب ہی ہم کتاب و سنت پر عمل کرسکتے ہیں۔ اب قدرتی طور پر یہاں سوال اٹھے گا کہ کتاب و سنت اور شریعت کو سلف نے یعنی صحابہ، تابعین و تبع تابعین نے بہتر سمجھا ہے یا بعد والوں نے؟ تو کوئی بھی مسلمان یہ کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا کہ بعد والوں کا فہم یا خود اس کا فہم صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے فہم سے بہتر ہے۔ تو جب یہ اتفاقی مسئلہ ہے کہ سلف ہم سے زیادہ کتاب و سنت کو سمجھنے والے تھے تو پھر سلف کے فہم کو چھوڑ کر اپنی عقل و فہم کے مطابق کتاب و سنت کو سمجھنے کی کوشش کیوں کی جائے؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر فرمایا ہے:

(وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا) (النساء: 115)

اس آیت سے صاف طور پر پتہ چل رہا ہے کہ رشد و ہدایت کے لیے کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ سبیل المومنین کا اتباع بھی ضروری ہے۔ جن مسائل پر سلف کا اجماع ہوچکا ہے، یا کتاب و سنت کا جو فہم سلف کے نزدیک مسلم و متعین ہے اس کو چھوڑ کر خود اپنی عقل و فہم کے مطابق کتاب و سنت کو سمجھنا ہی ضلالت و شقاوت کا سبب ہے۔ مثال کے طور پر “اللہ کہاں ہے” اس مسئلہ میں تمام سلف کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے، لیکن اب اگر کوئی شخص سلف کے اس فہم کو چھوڑ کر اپنے فہم کے مطابق کتاب و سنت کو سمجھنے کی کوشش کرے اور کہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے تو یہی اتباع غیر سبیل المومنین ہے اور یہی طریقہ تمام گمراہی و ضلالت کا دروازہ ہے۔
فہم سلف کی ضرورت پر علما کے اقوال:

1-عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قَالَ: “مَنْ كَانَ مُتَأَسِّيًا فَلْيَتَأَسَّ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -؛ فَإِنَّهُمْ كَانُوا أَبَرَّ هَذِهِ الْأُمَّةِ قُلُوبًا، وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا، وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا، وَأَقْوَمَهَا هَدْيًا، وَأَحْسَنَهَا حَالًا، قَوْمٌ اخْتَارَهُمْ اللَّهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ، وَإِقَامَةَ دِينِهِ فَاعْرِفُوا لَهُمْ فَضْلَهُمْ، وَاتَّبِعُوا آثَارَهُمْ، فَإِنَّهُمْ كَانُوا عَلَى الْهُدَى الْمُسْتَقِيمِ”۔ (الاعتصام للشاطبي: 3/ 307)، اعلام الموقعين عن رب العالمين: 4/ 106)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرماتے ہیں: (جسے اتباع کرنی ہو وہ اصحاب رسول کی کرے، کیونکہ وہ ساری امت میں سب سے زیادہ نیک دل، سب سے زیادہ وسیع علم، سب سے کم تکلف والے، سب سے زیادہ راہ مستقیم کے ہدایت یافتہ اور سب سے بہتر حالت والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے نبی کی صحبت اور اقامت دین کے لیے چن لیا تھا۔ اے لوگو! تم ان کی فضیلت پہچانو اور ان کے نقش قدم پر چلو کیونکہ وہی صراط مستقیم پر تھے۔)

2- امام احمد فرماتے ہیں:

“أصُول السّنة عندنَا التَّمَسُّك بِمَا كَانَ عَلَيْهِ أَصْحَاب رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم والاقتداء بهم”۔ (اصول السنہ لاحمد بن حنبل: ص 14)

(ہمارے نزدیک اصول السنہ یہ ہے کہ جس چیز پر صحابہ کرام تھے اسے مضبوطی سے پکڑے رہنا اور ان کی اقتدا و پیروی کرنا)
3- شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مذہب سلف سے عدول اور ترک کرنے والوں کو گمراہ اور بدعتی قرار دیا۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

“مَنْ عَدَلَ عَنْ مَذَاهِبِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ وَتَفْسِيرِهِمْ إلَى مَا يُخَالِفُ ذَلِكَ كَانَ مُخْطِئًا فِي ذَلِكَ بَلْ مُبْتَدِعًا… وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّ الْقُرْآنَ قَرَأَهُ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ وَتَابِعُوهُمْ وَأَنَّهُمْ كَانُوا أَعْلَمَ بِتَفْسِيرِهِ وَمَعَانِيهِ كَمَا أَنَّهُمْ أَعْلَمُ بِالْحَقِّ الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ بِهِ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنْ خَالَفَ قَوْلَهُمْ وَفَسَّرَ الْقُرْآنَ بِخِلَافِ تَفْسِيرِهِمْ فَقَدْ أَخْطَأَ فِي الدَّلِيلِ وَالْمَدْلُولِ جَمِيعًا”۔ (مجموع الفتاوى: 13/ 361)

(جو شخص صحابہ وتابعین کے مذہب اور تفسیر کو چھوڑ کر دوسرا کوئی مخالف مذہب اختیار کرے گا وہ نہ صرف غلطی پر ہوگا بلکہ وہ بدعتی ہوگا، اور ہم جانتے ہیں کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نے قرآن کو پڑھا اور سمجھا ہے، اور وہ لوگ یقینی طور پر قرآن کے معانی و مطالب سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے لائے ہوئے حق کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔ اب جس نے ان کے قول کی مخالفت کی اور ان کی تفسیر کے مخالف قرآن کی تفسیر کی اس نے دلیل اور مدلول دونوں میں غلطی کی)
4- شاہ ولی اللہ دہلوی نے فہم سلف کے مطابق کتاب و سنت پر عمل کرنے کو فرقہ ناجیہ کی علامت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

“أَقُول الْفرْقَة النَّاجِية هم الآخذون فِي العقيدة وَالْعَمَل جَمِيعًا بِمَا ظهر من الْكتاب وَالسّنة، وَجرى عَلَيْهِ جُمْهُور الصَّحَابَة وَالتَّابِعِينَ … وَغير النَّاجِية كل فرقة انتحلت عقيدة خلاف عقيدة السّلف أَو عملا دون أَعْمَالهم”۔ (حجۃ الله البالغۃ: 1/ 289)

(فرقہ ناجیہ وہ لوگ ہیں جو عقیدہ و عمل دونوں میں وہ بات لیتے ہیں جو کتاب و سنت سے ظاہر ہو اور جس پر جمہور صحابہ وتابعین کا عمل رہا ہو، اس کے بر معکس غیر ناجیہ ہر وہ فرقہ ہے جو ایسے عقیدے اپنائے یا ایسا عمل کرے جو سلف صالحین کے خلاف ہو)
ائمہ عظام کے مذکورہ اقوال سے واضح طور پر پتہ چل رہا ہے کہ سلف صالحین تمام امت میں کتاب و سنت کو سب سے بہتر سمجھنے والے تھے، شریعت کے اسرار وحکم کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ معارف ومطالب کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو انھوں نے تشنہ چھوڑا ہے، حق و صداقت کا کوئی دروازہ ایسا نہیں تھا جو ان پر نہیں کھلا تھا، نجات و کامرانی کی کوئی منزل ایسی نہیں تھی جہاں تک وہ نہیں پہنچے تھے۔
لہذا صراط مستقیم، طریق اسلم اور راہ بے خطر یہی ہے کہ ہم ہر طرح کی عقلانیت، جمود، تقلید، شخصیت پرستی، انانیت اور تعصب کے جراثیم کو ترک کرکے فہم سلف کی روشنی میں کتاب و سنت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں کتاب وسنت کو فہم سلف کی روشنی میں سمجھنے اور سبیل المؤمنین کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Ataur Rahman

ماشاءاللہ
یہ مضمون وقت کی اہم ضرورت ہے خاص کر بنگال اور جھارکھنڈ کے قرب و جوار کے لیۓ, محترم اسکو بنگلہ زبان میں بھی تحریر کر دیجیۓ کیونکہ جو لوگ اردو نہیں جانتے ہیں اس کے لیۓ مفید ہوگی