ارطغرل ڈرامہ میں پدرم سلطان بود کے آگے کیا ہے؟

سراج الدین متفرقات

 دن پہلے پاکستان کے ایک ٹی وی چینل نے ایک اعلان نشر کیا جس کو دیکھ کر یہاں حکومت کی طرف سے فراہم کیے جانے والے رامائن کی یاد آگئی۔ یہاں “رامائن” چل رہا ہے تو وہاں “ارطغرل” چلے گا۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی خیالی کہانیاں ہیں۔جو “ارطغرل” دیکھنے کے فضائل ومناقب بیان کر رہے ہیں، بلکہ کچھ کے نزدیک تو اسی میں امت کی ترقی کا راز مضمر ہے، ان سے گذارش ہے کہ اللہ کے واسطے لوگوں کو گمراہ نہ کریں۔ قوم کی اصلاح ڈرامہ اور سیریل سے نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ ہند وپاک کی سرکار جس کہانی یا ڈرامے کو عوام کے لیے از خود پیش کرے وہ ان دونوں ملکوں کی عوام کے حق میں بہتر نہیں ہوسکتا۔ حکومتِ ہند جن اغراض ومقاصد کے حصول کے لیے ہندؤں کو رامائن دِکھاتی ہے اس سے آپ بخوبی واقف ہیں؛ بالکل وہی اثرات مسلم قوم پر اس ڈرامے کے بھی پڑھیں گے۔ جیسے کٹرتا اور متشدد نظریات رامائن کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں، ویسی ہی غیر ضروری جذباتیت اور بلیک میلنگ والی فکر “ارطغرل” سے بھی ابھر کر آئے گی۔ یہ ڈرامہ ایسی کہانیوں اور ان احداث و واقعات پر مبنی ہے جن سے سماج میں فساد اور کھل کر عشق ومعاشقے انجام پائیں گے۔ کیونکہ لوگ ڈرامہ کے کرداروں سے متاثر ہوکر تیر و کمان اور تلوار لے کر نکلنے سے تو رہے لیکن نوجوان لڑکے لڑکیاں معاشقے والا کردار تو اپلائی کر ہی ڈالیں گے۔

کیا ہی بہتر ہوتا اگر پاکستانی وزیر اعظم روز ایک دو آیات مع ترجمہ پیش کراتے، جس کا انھیں بھی ثواب ملتا اور قوم کی اصلاح بھی ہوتی۔
اگر واقعی آپ کو اسلامی تاریخ اور اپنے اسلاف کے کارناموں پر فخر ہے تو تاریخ کی معتبر کتابوں سے بالخصوص صحابۂ کرام اور تابعین و اتباع تابعین کے واقعات اور کارناموں کو پڑھیں۔ شجاعت وبہادری اور اسلام کے نام پر قربانیوں کا جذبہ دیکھنا ہو تو خلفاء راشدین، حمزہ، ابوعبیدہ بن جراح، سعد بن ابی وقاص، عمروبن عاص، خالد بن ولید اور حسن وحسین رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سیرت وسوانح کا مطالعہ کریں۔ ان کے کارنامے حقائق کا احساس دلائیں گے، ایمان کو تازگی حاصل ہوگی، ان سے معتدل اور درست افکار و نظریات حاصل ہوں گے جن کو ہر انسان اپنی عملی زندگی میں نافذ کرسکتا ہے۔ ایک ایسا ڈرامہ جو اپنے معمولی سے خیر کے پیچھے شرور وفتن اور بے پردگی وبے شرمی کا ایک عظیم سیلاب رکھتا ہے، جس کے ہر خیر پر شر پوری طرح حاوی ہے اسے اسلامی تاریخ کا ترجمان اور مسلم نوجوانوں کے لیے نمونہ قرار دیا جارہا ہے۔ نعوذ باللہ من ذلک
کچھ احباب کا کہنا ہے اسی بہانے اسلامی تاریخ کا علم ہوجائے گا۔ ان احباب کی جانکاری کے لیے عرض ہے کہ ڈرامے کے ٹائٹل ہر ہی لکھا ہوا ہے کہ ڈرامے کے واقعات حقائق پر مبنی نہیں ہیں لیکن انھوں نے اسے اسلامی تاریخ قرار دے دیا جس میں حقائق کا نام ونشان نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ان کی باتوں میں آکر اس کو تاریخ مان لے تو اس کے نزدیک اختلاط مرد و زن اور پیار و محبت میں کسی بھی حد تک جانے میں کوئی حرج نہیں ہوگا کیونکہ اس ڈرامے میں یہی دکھایا گیا ہے۔
انسان بھی کتنا عجیب واقع ہوا کہ جو چیز اس کو اچھی لگ جاۓ تو عقلی، نقلی اور تاریخی وسماجی ہر اعتبار سے اسے درست اور جائز ٹھہرانے پر اتر آتا ہے جو بالکل بھی معقول بات نہیں، اگر کسی کو کچھ اچھا لگ رہا ہے جو دین وشریعت کا حصہ نہیں ہے، یا جس کی کوئی تاریخی یا سماجی حیثیت نہ ہو، تو انسان کو چاہیے کہ وہ اسے اپنے تک محدود رکھے، نہ کہ ارطغرل ڈرامے کی طرح اسے اسلامی تاریخ کی ایک حقیقی تصویر کہہ کر اس کو Justify کرے۔ اس طرح کے اوٹ پٹانگ اعمال سے اسلام اور اس کی روشن تاریخ پر دھبہ لگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ارطغرل ڈرامے کے ساتھ کچھ یوں ہوا کہ وہ نوجوانوں کے جذبات کو ہٹ کرنے میں کامیاب رہا، جس کی وجہ سے وہ اس کے اسیر ہوگئے ورنہ اس میں ایسا کچھ ہے نہیں۔ بغیر کچھ سوچے سمجھے، بنا کسی تحقیق وثبوت کے اسے اسلامی تاریخ اور مسلم تہذیب وثقافت کے نام پر دیکھنے کی دعوت دی جارہی ہے۔ جو انتہائی احمقانہ عمل ہے حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جن سے پوچھ لیں کہ عثمانیوں پر لکھی گئی کوئی ایک اچھی تاریخ کی کتاب کی طرف رہنمائی فرمائیں تو بغلیں جھانکنا شروع کر دیتے ہیں۔ بعض تو ایسے بھی ملے جو کہہ رہے ہیں کہ ارطغرل کا عثمانیوں سے کیا تعلق؟ارطغرل کے آگے اس ڈرامے کا سلسلہ چلے گا یا نہیں، اس کا تو ہمیں علم نہیں لیکن اتنا تو طے ہے کہ اس کو دیکھنے کے بعد ایک بڑی تعداد ارطغرل کو عثمانی سلطنت کا ہیرو اور روح رواں مان لے گی جو سرے سے تاریخی حقائق کے منافی ہے۔
ہندو عقیدے کے مطابق رامائن میں بھی کچھ غلط نہیں ہے۔ لیکن فی الواقع وہ خیالی کہانی ہے بالکل وہی معاملہ “ارطغرل” کا ہے۔
مجھے بہت افسوس ہے کہ ارطغرل کی نشر واشاعت اور اسے اسلام کی دعوت اور غلبۂ حق کا ذریعہ قرار دینے والوں میں یونیورسٹی کے وہ طلباء پیش پیش ہیں جو مدارس سے پڑھے ہوۓ ہیں جن لوگوں نے اپنی زندگی کے 8/10 برس مدارس میں صرف کیے ہیں۔ پورے قرآن کی تفسیر پڑھی، کتب ستہ کے متون تو دُور کی بات، حاشیہ تک پڑھ ڈالا، فقہ و فلسفے اور اسلوب دعوت کی ضخیم سے ضخیم جلدیں پڑھ کر کنارے لگادیں۔ آج ان کے لیے دعوت دین کا محور ومرکز ارطغرل ڈرامہ قرار پایا۔ یہ دعوت دین کی توہین ہے، ان اساتذہ کی تحقیر ہے جنھوں نے 8/9 برسوں تک اتنی محنت سے تعلیم دی اور ان مدارس کے ساتھ دھوکہ ہے جنھوں نے اپنے طلباء کو دعوت دین کے طور طریقے سکھانے نیز انھیں قرآن وحدیث کی تعلیمات سے لیس کرنے لیے قومی سرمائے کا ایک بڑا حصہ ان پر خرچ کر دیا۔ کسی نے دیکھ لیا دیکھ لیا۔ انسان اپنی زندگی میں پتہ نہیں کیا کیا کرتا ہے۔ فلمیں دیکھتا ہے، گانے سنتا ہے، رومانس کرتا ہے اور نہ جانے کیا کیا؟؟؟ ہر کسی پر کوئی تنقید یا اس کی مخالفت نہیں کرتا لیکن کسی فلم یا ڈرامے میں امت کا مستقبل بتانے لگنا، اس کو اسلامی تاریخ کا ترجمان اور اسلامی تہذیب وثقافت کی حقیقی تصویر بتانا، یہ نری جہالت اور بے وقوفی ہے۔ اس کی تعریف وتوصیف میں لمبے لمبے قصیدے دے مارنا، مرعوبیت اور اپنے جذبات پر قابو نہ پانے کی علامت ہے جو ایک مسلمان کا شیوہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
سعد احمد

مضمون بہت اچھا ہے اس کے پیچھے کا جذبہ بھی بہت اچھا ہوگا مگر اپنی بات کو ذرا سجا کر کہتے ، اپنی اعتراضات پیش کرتے، اسلامی عناوین کی طرف اشارہ کرتے، فلم بینی کی برائی اور اسلامی اصول کی طرف اشارہ کرتے، آپ نے کتنے حصے ارطغرل کے دیکھیں ہیں، اور اسمیں کیا پایا، ارطغرل کو جو ملک نشر کر رہا ہے وہ اسلامی بھی ہے یا نہیں، یہ فلم کن لوگوں کو مخاطب کرتی ہے، فلم کے ڈائرکٹر کی کیا سوچ ہے، اس کا ترکی کے صدر اردگان سے کیا تعلق ہے، اس طرح کی فلموں مین بزنس… Read more »