عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں

عبداللہ صلاح الدین سلفیؔ متفرقات

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن عظیم نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے سب سے بڑی نعمت عقل ہے، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی دیگر مخلوقات پر فضیلت بخشی اور دیگر تمام جانداروں پر فوقیت عطا کی ہے، تاکہ وہ غور و فکر سے کام لے کرعبرت و نصیحت حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے انسان کو غور و فکر اور تدبر و تفکر کے لیے عقل عطا کی جس کے ذریعہ وہ حق و باطل میں فرق کرتا، نافع و ضار میں تمیز کرتا، خیر و شر کو سمجھتا اور اللہ و رسول کی باتوں میں تدبر و تفکر سے کام لے کر اخروی فلاح و کامرانی کی راہ اختیار کر سکتا ہے۔ اگر انسان اس نعمت عظمیٰ کا صحیح استعمال کرتا ہے تو اس کا حال اور مآل دونوں درست ہوجاتے ہیں جبکہ عقل کا غلط استعمال دنیا وآخرت میں ناکامی وتباہی سے دوچار کرتا ہے۔

لفظ عقل قرآن مجید میں کم و بیش 49 مرتبہ استعمال ہوا ہے اور رب العالمین نے تواتر کے ساتھ تمام انسانوں کو عقل کے استعمال کی دعوت دی ہے، کلام الله ميں “لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُون”، ’’أَفَلَا تَعۡقِلُونَ‘‘، ’’لِّقَوۡمࣲ یَعۡقِلُونَ‘‘ اور ’’فَهُمۡ لَا یَعۡقِلُون‘‘ وغیرہ الفاظ پر مشتمل آیات بار بار عقل کی اہمیت وافادیت بتلانے کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح استعمال کی دعوت دیتی ہیں، صرف ’’أفلا تعقلون‘‘ کا استعمال قرآن مجید میں 13 مرتبہ ہوا ہے۔

یقیناً اسلام غور و فکر، تدبر و تعقل یعنی عقل کے استعمال کا داعی ہے، اور بار بار کائنات میں پھیلی ہوئی اللہ عزوجل کی نشانیوں میں غور و فکر کرنے پر ابھارتا ہے “قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ”۔ (یونس:101)
ترجمہ: “کہہ دیجیے! تم دیکھو اور غور کرو آسمان و زمین میں موجود چیزوں میں”۔

اسلام سوالات قائم کرنے، کائنات کی وسعتوں میں جوابات تلاش کرنے اور وسعت کون ومکاں کے ساتھ روئے زمین کے ہر ذرے میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ بار بار کہتا ہے: ’’أَفَلَا تَعۡقِلُونَ‘‘ (کیا پھر تم عقل نہیں رکھتے)، ’’أَفَلَا تَذَكَّرُونَ‘‘ تو کیا تم عبرت ونصیحت حاصل نہیں کرتے (یونس:3) اور ساتھ ہی فرماتا ہے: ’’وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘(سورۃ البقرۃ:269، آل عمران:7) “اور عقل والے ہی عبرت ونصیحت حاصل کرتے ہیں”۔

عقل کی تعریف:

“وہ قوت جو غور و فکر، استدلال اور تصور و تصدیقات کو ترکیب دے کر نتیجہ نکالتی ہے، اور اچھے برے، خیر و شر اور حق و باطل کے درمیان فرق کرتی ہے عقل کہلاتی ہے”۔ (القاموس الوحید:1108/2)

اور لغت کی مشہور کتاب (لسان العرب: 458/11-459) میں ہے: “العقل: الحجر والنھی ضد الحمق… وسمی العقل عقلا لأنه یعقل صاحبه عن التورط فی المھالک أی: یحبسه”۔
ترجمہ: “یعنی عقل کے معنی روکنے اور منع کرنے کے ہیں، یہ حماقت کی ضد ہے… اور عقل کو عقل اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ صاحب عقل کو ہلاکتوں سے دوچار ہونے سے روکتی ہے”۔

عقل کی اہمیت کتاب و سنت کی نظر میں:
اللہ رب العزت نے عقل کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا ہے:وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَيئا وَّجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن”۔ (النحل:78)
ترجمہ: “اور اللہ تعالیٰ نے تمھیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا جبکہ تم کچھ نہیں جانتے تھے، اسی نے تمھارے کان، آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر ادا کرو”۔

قرآن و سنت میں حکمت و دانائی اور سوجھ بوجھ کی ستائش یوں کی گئی ہے:
“یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَاب”۔ (البقرۃ:169)
ترجمہ: “وہ جسے چاہتا ہے دانائی عطا کرتا ہے اور جسے دانائی عطا کی جائے تو بلاشبہ اسے بہت زیادہ بھلائی دے دی گئی اور نصیحت صرف عقل والے ہی قبول کرتے ہیں”۔
اور رسول اکرمﷺ نے اپنی حدیث میں یوں ارشاد فرمایا:
“مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ …..” (صحیح البخاری:71، وصحیح مسلم:37)

ترجمہ: “اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت کر دیتا ہے”۔

اسلام نے ایسی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے جن سے عقل پر برے اثرات پڑتے ہیں، اور وہ خراب و برباد ہوتی ہے، جیسے: شراب، جو کئی مرحلوں میں حرام کی گئی۔ ابتداءً فرمایا:
“یا آَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْن”۔ (النساء:43)
ترجمہ: “اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ یہاں تک کہ اپنی بات کو سمجھنے لگو”۔
جب عقل پختہ نہ ہو یا انسان عقل کی حالت میں نہ ہو یا سرے سے عقل ہی نہ ہو تو انسان احکام شرعیہ کا مکلف نہیں ہوتا اس سے شریعت ساقط ہوجاتی ہے:
دلیل: عن عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. قَالَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ ؛ عَنِ الْمَجْنُونِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ حَتَّى يُفِيقَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَحْتَلِمَ “۔ (سنن أبی داؤد:4401)

ترجمہ: “سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین طرح کے آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے: مجنون جس کی عقل مغلوب ہو حتی کہ افاقہ پا جائے اور سویا ہوا شخص حتی کہ جاگ جائے اور بچہ حتی کہ بالغ ہو جائے”۔

حق سمجھنے کے لیے عقل کا استعمال نہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی طرح قرار دیا ہے:
“لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّایَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُن, لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّایَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولٰٓئکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلّ اُولٰٓئکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ”۔ (الأعراف:179)

ترجمہ: “ان کے دل ایسے ہیں جن سے سمجھتے نہیں، آنکھیں ایسی ہیں جن سے دیکھتے نہیں اور کان ایسے ہیں جن سے سنتے نہیں، یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں، یہی لوگ غافل ہیں”۔

اسلام کی نظر میں مجرم وہ ہے جو حق کو سمجھنے اور اس کے واضح ہو جانے کے بعد حق کا انکار کرے، ارشاد ربانی ہے:
“وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا”۔ (النساء: 115)

ترجمہ: “جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے ہدایت کے خوب واضح ہوجانے کے بعد بھی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھر گیا ہے اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے، اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے”۔

غور و فکر اور عقل کا استعمال کرنے کے بجائے اندھی تقلید کرنے والوں کی قرآن مجید میں مذمت کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
“وَإِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَنَا اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْئا وَّلَا یَھْتَدُوْنَ”۔ (المائدۃ:104)
ترجمہ: “اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول ﷺ کی طرف آؤ تو کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ داداؤں کو پایا، اگر چہ ان کے بڑے نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ ہدایت یاب ہوں؟”۔
نیز ارشاد فرمایا:“وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآاَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَنَا اَوَلَوْ کَانَ الشَّیْطٰنُ یَدْعُوْھُمْ اِلٰی عَذَابِ السَّعِیْر”۔(لقمان:21)
ترجمہ: “اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی تابعداری کرو، تو کہتے ہیں: بلکہ ہم تو اسی کی تابعداری کریں گے جس پر اپنے باپ داداؤں کو پایا ہے، اگرچہ شیطان ان (کے بڑوں) کو دوزخ کی طرف بلاتا رہا ہو؟”۔

عقل کے فوائد:
1- کائنات اور اس کی وسعتوں میں غور و فکر کر کے خالق کائنات کی قدرت، رحمت، علم اور حکمت وغیرہ کا ادراک عقل ہی کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
“اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ”۔ (البقرۃ:164)

ترجمہ: “بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، رات ودن کے آنے جانے میں اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں ان چیزوں کو لیے چلتی ہیں جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں اور اللہ کے نازل کردہ آسمانی پانی میں کہ اس کے ذریعہ زمین کو زندہ کیا اس کے مردہ ہونے کے بعد، اور ہر قسم کے جانوروں میں جو اس نے زمین میں پھیلائے ہیں اور ہواؤں کے پھیرنے میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان پابند کر دیے گئے ہیں، (ان سب میں) ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں”۔

2- قرآن کی آیتوں میں غور و فکر کرنا اور اس کے معانی کو سمجھنے کا کام بھی عقل سے ہی کیا جا سکتا ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
“اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا”۔ (محمد:24)

ترجمہ: “تو کیا وہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟”۔

3- اللہ تعالیٰ نے جو شرعی قوانین اور احکام دیے ہیں ان کی حکمت کے بارے میں غور و فکر کرنا:
چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
“وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃ ّ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن”۔ (البقرۃ:179)

ترجمہ: “اور تمھارے لیے قصاص ہی میں زندگی ہے، اے عقل والو! تاکہ تم بچ جاؤ” (تاکہ تم دوسروں پر ظلم کرنے سے باز رہو)۔
بظاہر قصاص (خون کا بدلہ خون کے طور پر کسی مجرم کا قتل کیا جانا) مزید ایک جان کی ہلاکت ہے لیکن اگر غور کیا جائے اور عقل کو استعمال کر کے سوچا جائے تو نظر آئے گا کہ جب قاتل کو قصاصاً قتل کردیا جائے تو دوسرے تمام مجرمین سزا کے خوف سے قتل کا جرم کرنے سے باز آ جائیں گے اور اس طرح بہت سی معصوم جانیں بچ جائیں گی اور ان کی زندگیاں محفوظ رہ سکیں گی۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
“یقول تعالیٰ فی شرع القصاص لکم وھو قتل القاتل حکمۃ عظیمۃ وھی بقاء المھج وصونھا لأنہ إذا علم القاتل أنہ یقتل انکف عن صنیعہ فکان فی ذلک حیاۃ للنفوس”۔

ترجمہ: “یعنی اللہ تعالیٰ نے تمھیں جو قصاص کا حکم دیا ہے کہ قاتل کو قتل کر دیا جائے تو اس میں ایک عظیم حکمت پنہاں ہے اور وہ ہے سیکڑوں جانوں کی بقا اور حفاظت۔ وہ اس طرح کہ جب قاتل کو یہ معلوم ہو کہ اگر اس نے قتل کیا تو اسے بھی اسی طرح قتل کر دیا جائے گا تو وہ اپنی اس کرتوت سے باز رہے گا، اس طرح حکم قصاص میں انسانی جانوں کی زندگی کا راز مضمر ہے”۔ (تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر: 312/1، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

4- نئے پیش آمدہ مسائل میں عقل کے ذریعہ اجتہاد کرکے قرآن و سنت سے ان کا حل پیش کرنا، جیسے اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
’’كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ‘‘۔ (صحیح البخاری:6124)

ترجمہ: “ہرنشہ آور چیز حرام ہے”۔
علماء امت نے اس نص کی روشنی میں اپنی عقل کے ذریعہ قیاس کرتے ہوئے چرس، گانجہ، مرفیا، افیون، ہیروئن اور تمباکو وغیرہ تمام مسکرات کوحرام ٹھہرایا ہے۔

5- عقل ہی کا استعمال کر کے اہل حق باطل پرستوں کی تردید بھی کرتے ہیں، چنانچہ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عقلی رد کا یوں ذکر فرمایا ہے:
“اَلَمْ تر َاِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰۂُ اللّٰہُ الْمُلْکَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْن”۔ (البقرۃ:258)

ترجمہ: “کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم علیہ السلام سے اس کے رب کے بارے میں اس لیے جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے بادشاہی دے رکھی تھی؟ جب ابراہیم نے کہا: میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، تو اس (نمرود) نے کہا: میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابراہیم نے کہا: بے شک اللہ تعالیٰ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا، پس جس نے کفر کیا تھا وہ ہکا بکا رہ گیا، اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا جو ظالم ہیں”۔

6- بہت سی سیدھی سادی باتوں کو صرف عقل کے ذریعہ سمجھایا جا سکتا ہے، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں ہی اللہ رب العزت بیان فرماتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کی بت پرستی کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
“قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْن”۔ (الصافات:95)

ترجمہ: “آپ علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم ان کی پوجا اور عبادت کرتے ہو جنھیں تم (خود) تراشتے ہو؟”۔

نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں یہودی اور عیسائی دونوں دعوی کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے دین پر تھے، حالانکہ تورات جس پر یہودی ایمان رکھتے تھے اور انجیل جسے عیسائی مانتے تھے، دونوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سیکڑوں برس بعد نازل ہوئیں تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی یا عیسائی کس طرح ہو سکتے تھے، اللہ رب العالمین نے اس کا بیان یوں کیا ہے:
“یاَھْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمَآ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰۃُ وَالْاِنْجِیْلُ اِلَّا مِنْ بَعْدِہٖ افَلاَ تَعْقِلُوْن”۔ (اٰل عمران:95)

ترجمہ: “اے اہل کتاب! تم ابراہیم کی بابت کیوں جھگڑتے ہو، جبکہ تورات وانجیل تو ان کے بعد نازل کی گئیں، تم پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے؟”.

7- اپنی یا دوسروں کی غلطیوں سے سبق لینے یا دوسروں کی نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی عقل چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُوا الْاَلْبَابِ”۔ (الزمر:9)

ترجمہ: “نصیحت صرف وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل مند ہوں”۔

برتر کون؟ عقل یا نقل؟
بعض لوگوں نے اپنی عقلوں کو بے کار اور معطل کر رکھا ہے حتی کہ نہ تو عقل کو کوئی اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی اللہ کی قدرتوں اور کائنات میں پھیلی ہوئی اس کی عظمت کی نشانیوں میں غور و فکر کے لیے اپنی عقل کا استعمال کرتے ہیں، یہ لوگ عقل کو سرے سے استعمال ہی نہیں کرنا چاہتے اور کہتے ہیں کہ بھائی اگر ہم (Deep) گہرائی میں جائیں گے تو ڈوب جائیں گے۔ اس کے بالمقابل کچھ ایسے بھی ہیں جو عقل کے تعلق سے غلو اور افراط کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور حد سے زیادہ عقل پر اعتماد کرتے ہیں حتی کہ عقل ہی کو تشریع اور تحسین و تقبیح کا مصدر بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے ہر وہ چیز ان کے نزدیک حق اور درست ہے جس کو ان کی کوتاہ عقل مستحسن قرار دے گرچہ کتاب اللہ اورسنتِ رسول اللہﷺ کے خلاف ہو، جس کی بنا پر بدعات کی کثرت، گمراہیوں کا پھیلاؤ، فتنوں کا ظہور ہورہا ہے اور سنتیں مردہ ہورہی ہیں، امت کاشیرازہ منتشر ہو رہا ہے اور نصوص کتاب وسنت کی تحریف ہو رہی ہے۔

یہ لوگ عقل کو ہی اپنا قبلہ وکعبہ اور سب کچھ سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ نصوص کتاب وسنت سے بھی برتر اور فائق۔ جبکہ اہل السنہ والجماعۃ عقل کی اہمیت وافادیت کو تسلیم کرتے اور عقل کو اس کا صحیح مقام دیتے ہیں یعنی کائنات میں پھیلی ہوئی اللہ تعالی کی قدرت وکاریگری اور عظمت کی نشانیوں میں غور کرنے اور اشیاء کا باہم موازنہ کرنے میں عقل کا استعمال کرتے ہیں لیکن صرف عقل ہی پر بھروسہ واعتماد نہیں کرتے نہ ہی عقل کو اس کے مقام سے زیادہ اہمیت دیتے اور نہ نصوص کتاب وسنت پر اس کو تقدم اور فوقیت دیتے ہیں ، اور یہ عقیدہ وایمان رکھتے ہیں کہ عقل، نقل صحيح یعنی کتاب و سنت سے فائق اور برتر نہیں، وہ کہتے ہیں عقل نقل صحيح کے تابع ہے، کیونکہ عقل ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے جبکہ نصوص کتاب وسنت ایک مستقل بالذات حقیقت۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی صفات میں علم کا ذکر تو ہے مگر عقل کا نہیں۔ عقل کو نقل پر مقدم کرنا سواری کو سوار پر سوار کرنا ہے، بنابریں عقل کے بے جا استعمال کی قطعاً اجازت نہیں۔

قرآن حکیم نے’’عقل سلیم‘‘ کی تعریف کی ہے، لیکن کیا جو شخص احادیث کے مستند ذخیرے، صحیح روایات پر مبنی آثار واقوال اور فہم سلف وکلام عرب نیز جمہور ائمۂ مجتھدین ومفسرین کی آراء کو نظر انداز کرکے غوروفکر اور تفکر وتدبر کادعویٰ کرے، اس کی عقل کو قرآن کی’’ عقل سلیم‘‘ کا مصداق قرار دیا جاسکتا ہے؟ نہیں، ایسی عقل “عقل سقیم” ہے۔

عقل پرستی یا وحی کے مقابلے میں عقل کی برتری وتفوق کا آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا، جبکہ ہند اور یونان کا فلسفہ اسلام کی سادہ تعلیمات پر اثر انداز ہورہا تھا، جس نے ایک طرف تو رہبانیت کی راہ کھولی تو دوسری طرف جہمیہ اور معتزلہ جیسے عقل پرست فرقوں کو جنم دیا۔ (یونانی فلسفہ کے سرخیل افلاطون اور اس کے شاگرد ارسطو تسلیم کیے جاتے ہیں)
عقل پرستوں نے ماضی بعید میں یونانی افکار سے اور ماضی قریب میں مغربی افکار سے ذہنی طور پر شکست کھاکر اس بات پر زور دینا شروع کردیا کہ شریعت میں فیصلہ کن حیثیت اللہ اور اس کے رسول کے بجائے عقل کو حاصل ہونی چاہیے۔ں برصغیر میں اس فکر کے سرخیل سرسید احمد خان(1817ء۔1898ء) تھے جنھوں نے مغرب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی اور اس دور میں یورپ صرف اسی بات کو ماننے پر تیار تھا جو عقل وتجربہ کی کسوٹی پر پوری اترتی ہو۔ اور ہر وہ بات جو خرق عادت یا مافوق الفطرت Super Natural ہو، اہل مغرب کے یہاں ناممکن الوقوع اور خلاف عقل سمجھ کر رد کردی جاتی تھی۔
مغرب سے بے پناہ مرعوبیت کے نتیجے میں عقل کو کتاب وسنت پر بھی مقدم کردیا گیا، جبکہ مغرب کی بنیاد الٰہیات و مابعد الطبیعات Metaphysics کے انکار، مادیت کی پوجا اور تشکیک پر ہے اور اس کو روحانیت سے ازلی بیر ہے۔

بلاشبہ انسان اسلام قبول کرنے سے پہلے مختار ہے کہ اگر چاہے تو اسے قبول کرے اور چاہے تو رد کرے، مگر اسلام لانے کے بعد، اسلام عقل اور آزادئ فکر کو کھلا نہیں چھوڑ دیتا بلکہ عقل کو وحی کے تابع رہ کر چلنے کی ہدایت کرتا ہے۔
خرق عادت امور: انبیاء کے معجزات اولیاء کی کرامات، حوض کوثر، پل صراط، جنت وجہنم اور عذاب برزخ وغیرہ اسی قبیل سے ہیں۔
بعض نادان کہہ دیتے ہیں: ’’یہ حدیث میری عقل میں نہیں آتی یا میری سمجھ سے بالاتر ہے‘‘ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ انسانی عقل چھوٹی اور کتاب وسنت کاعلم بڑا ہے اپنی عقل کو بڑا کرنا چاہیے کیونکہ سوٹ کیس کو جیب میں رکھنے سے جیب تنگ پڑجائے گی اور پھٹ جائے گی۔ لہذا عقل انسانی نقلی علم کا احاطہ نہیں کرسکتی۔

ہدایت کیا ہے اور گمراہی کیا؟ حق کیا ہے اور باطل کیا؟ اچھائی کیا ہے اور برائی کیا؟ اس کا تعین انسانی عقل نہیں کرسکتی، یہ صرف اور صرف شارع کا کام ہے، کسی بھی شخص کو چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم وفاضل اور دانشور ومحقق ہو، یہ حق ہی حاصل نہیں کہ وہ محض اپنی عقل وفہم سے کسی عمل کی بابت یہ کہہ سکے کہ یہ نیکی ہے اور یہ بدی، یہ ہدایت ہے اور یہ گمراہی۔ یہ فیصلہ صرف نصوص شریعت اور اصول شریعت ہی کی روشنی میں کیا جائے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ: 216)

ترجمہ: اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمھارے لیے بہتر ہو، اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
لہذا خیر وشر کا فیصلہ کرنا یہ انسانی عقل کی دسترس سے باہر ہے۔ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِذٰلِکَ خَیْر’‘ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً (النساء:59)

ترجمہ: پھر اگر باہم تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹادو، اگر تم واقعی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ باہم اختلاف اسی وقت ہوتا ہے جب ایک کی عقل دوسرے کی عقل سے ٹکراتی ہے، ایک کی عقل کچھ کہتی ہے اور دوسرے کی عقل کچھ، اور تیسرے کی کچھ اور۔ ایسی صورت میں فیصلے کو عقل کے بجائے نقل کے حوالے کردیا جائے گا۔

معلوم ہوا کہ عقل ونقل وحی کے تابع ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:
’’لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى ظَاهِرِ خُفَّيْهِ۔‘‘ (سنن ابی داؤد:162 صححہ الألبانی)

ترجمہ: اگر دین کا دارومدار رائے اور عقل پر ہوتا تو موزے کا نیچے والا حصہ اوپر والے کی بنسبت مسح کا زیادہ مستحق ہوتا، مگر میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ اپنے موزوں کے اوپر ہی مسح کیا کرتے تھے۔
عقلیں تو مختلف ہوتی ہیں، ایک ہی مسئلے میں دس لوگوں کی عقلیں دس طرح کے فیصلے صادر کرتی ہیں، پھر کس کی عقل کو معیار اور کسوٹی قرار دیا جائے؟ کیا اس کی عقل کو جس کا سر بڑا ہو؟ یا اس کی عقل کو جس کی گردن لمبی ہو؟ یا جو لمبا ہو اس کی عقل معیار بنے گی؟ یا ناٹے قد والے کی؟ یا پھر جو زیادہ ڈگریاں رکھتا ہو اس کی عقل فیصلہ کرے گی؟ آخر کس کی عقل کو اور کیوں؟ نیز ایک ہی چیز یا بات آج عقل میں نہیں آتی اور کل وہی عقل میں آجاتی ہے۔
اگر عقل کو قبلہ وکعبہ بنا لیا جائے اور اسے اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر مقدم کیا جائے تو کفر کا ارتکاب بھی ہوسکتا ہے۔ اور یہ ابلیسی حرکت ہوگی۔ ارشاد الٰہی ہے:
قَالَ مَامَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ قَالَ اَنَا خَیْر’‘ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ قَالَ فَاھْبِطْ مِنْھَا فَمَایَکُوْنُ لَکَ اَنْ تَتَکَبَّرَ فِیْھَا فَاخْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ (الأعراف:12-13)

ترجمہ: (اللہ عزوجل نے) فرمایا: تجھ کو سجدہ کرنے سے کس امر نے روک دیا جبکہ میں تجھ کو حکم دے چکا، (ابلیس) کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو خاک سے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو جنت سے اتر جا تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو اس میں رہ کر تکبر کرے سو نکل، بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے۔
معلوم ہوا کہ ابلیس نے فرمان رب کے مقابلے میں اپنی عقل کا استعمال کیا اور خود کو بہتر و برتر سمجھ بیٹھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کفر کا مرتکب ہوکر راندۂ درگاہ ہوگیا۔
اسی تناظر میں یہ حدیث قابل غور ہے:
عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت: لما أسری بالنبی ﷺ إلی المسجد الأقصی أصبح یتحدث الناس بذلک، فارتد ناس ممن کانوا آمنوا به وصدقوہ، وسعوا بذلک إلی أبی بکر فقالوا: ھل لک إلی صاحبک یزعم أنه أسری به اللیلة إلی بیت المقدس؟ قال أوقال ذلک؟ قالوا: نعم، قال: لئن کان قال ذلک لقد صدق، قالوا: أتصدقه، أنه ذہب اللیلة إلی بیت المقدس وجاء قبل أن یصبح الناس؟ قال:نعم إنی لأصدقه فیما ھو أبعد من ذلک بخبر السماء فی غداۃ أو روحة، فلذلک سمی أبوبکر الصدیق (رواہ الحاکم،الصحیحۃ:306)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، فرماتی ہیں: جب نبیﷺ کو راتوں رات مسجد اقصی کی سیر کرائی گئی، لوگ صبح کو اس بارے میں چہ می گوئیاں کرنے لگے اور کچھ ایسے لوگ جو آپ پر ایمان لاچکے اور تصدیق کرچکے تھے مرتد ہوگئے۔ کفار مکہ اس خبر کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس دوڑے دوڑے گئے اور کہا: کیا آپ کو اپنے دوست کی خبر ہے؟ وہ کہتا ہے کہ رات کو اسے بیت المقدس لے جایا گیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ ﷺ نے ایسا کہا ہے؟ کفار نے کہا: ہاں، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ نے ایسا کہا ہے تو یقینا سچ کہا ہے، کفار نے کہا: کیا تم اس بات کو سچ تسلیم کرتے ہو کہ وہ رات کو بیت المقدس گیا تھا اور لوگوں کے صبح کرنے سے پہلے آ بھی گیا؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں؛ یقینا، میں تو آپﷺ کی تصدیق اس سے بھی بڑی بات میں کرتا ہوں کہ آپﷺ کے پاس صبح وشام آسمان سے خبر آتی ہے۔ اسی وجہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا نام دیا گیا۔

معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے نقل (فرمان نبوی) کے مقابلے اپنی عقل کا استعمال کیا وہ ضلالت وگمراہی سے دوچار ہوکر مرتد ہوگئے اور جس نے نقل کے آجانے پر اپنا سرتسلیم خم کردیا وہ صدیقیت کے مقام پر فائز ہوکر دنیا وآخرت کی تمام بھلائیاں سمیٹ لے گیے۔
اللہ ورسول کا حکم آجانے پر عقل کے لیے رد وقبول کی گنجائش نہیں رہتی بلکہ تسلیم وقبول کرنا ہر حال میں واجب ہوتا ہے خواہ عقل ان امور کی کیفیت کا ادراک کرسکے یا نہ کرسکے کیونکہ ہر چیز کا احاطہ وادراک کرنے سے عقل عاجز ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاوَاُولٰٓئکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (النور:51)

ترجمہ: مومنوں کی بات تو صرف یہ ہونی چاہیے جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان کے بارے میں فیصلہ کرے تو یہ کہیں ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا:
وَمَاکَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَامُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًا۔(احزاب:36)

ترجمہ: اور کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے لیے اپنے معاملے میں ان کا کوئی اختیار (باقی) رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ یقیناً کھلم کھلا گمراہ ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ نہ صرف یہ کہ اللہ ورسول کا حکم آجانے پر عقل کو سر اٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی بلکہ اگر کوئی نقل کے مقابلے اپنی عقل کو استعمال کرتا ہے تو وہ واضح گمراہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے جس کو امام بخاری ؒ نے یوں روایت کیا ہے:
’’عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ جَاءَ إِلَى الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ، فَقَالَ : إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ‘‘۔ (صحیح البخاری :1597وصحیح مسلم:1270)

ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، کسی کو نفع یا نقصان پہنچانا تیرے بس میں نہیں، اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہیں دیتا۔

عقل پر نقل (کتاب وسنت) کے تفوق کے عقلی دلائل:
عقل سلیم کبھی بھی نقل صحیح کے معارض نہیں ہوسکتی ہمیشہ موافق ہی ہوگی۔ جو بھی عقل شرع سے ٹکرائے تو سمجھ لیناچاہیے کہ یہ عقل فاسد ہے یا پھر نقل میں کہیں خلل واقع ہے لہذا اس کی تحقیق کرنی چاہیے۔ ذیل میں کچھ ایسی عقلی دلیلیں بیان کی جاتی ہیں جو عقل پر نقل کے تفوق کی متقاضی ہیں:

۱۔ متعدد وجوہ کی بنا پر لوگوں کی عقلیں متفاوت اور مختلف ہوتی ہیں، جیسے: جہالت و خواہشات نفس کی پیروی وغیرہ، بنابریں ان عقلوں کے فیصلے بھی مختلف ہوتے ہیں جبکہ شریعت یعنی کتاب وسنت تغیر واختلاف سے پاک ہیں۔

۲۔ شریعت کو نازل کرنے والا اللہ رب العالمین ہے جو خطا اور نسیان سے مبرا اور منزہ ہے جبکہ عقل کو استعمال کرنے والا انسان مختلف خواہشات اور نقص وعیوب کا مجموعہ ہے، بنابریں عقل کو نقل پر مقدم کرنے کی گنجائش نہیں بلکہ دونوں میں کوئی مقابلہ اور موازنہ ہی نہیں۔

۳۔ عقل کا ایک محدود دائرۂ عمل ہے جس میں اس کو استعمال کرنا چاہیے اور غفلت نہ برتنی چاہیے۔ اسی طرح بعض چیزیں عقل کے دائرۂ عمل سے خارج ہیں جن کا عقل کے ذریعہ ادراک نہیں کیا جاسکتا، جیسے غیب کی چیزیں: پل صراط، جنت وجہنم اور عذاب قبر وبرزخ کے معاملات وغیرہ۔

٤۔ عقل ہر چیز کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔ لہذا اگر ایسے معاملات میں عقل کو مداخلت کی اجازت دی جائے جو اس کے دائرے سے خارج ہیں تو اس کی توانائی اور صلاحیت کو ضائع کرنا اور ایسی جگہ صرف کرنا ہے جو اس کے لیے مضر ہے، کیونکہ شریعت ایسے بہت سے امور کو شامل ومتضمن ہے جو عقل میں نہیں سماسکتی ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَیَسئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّاقَلِیْلاًً (الإسراء:85)

ترجمہ: اور وہ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہیے! روح میرے رب کے حکم سے ہے، اور تمھیں تو بہت ہی تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
معلوم ہوا کہ روح کی حقیقت کا ادراک انسانی عقل کے بس کی بات نہیں۔

۵۔ کسی بات کا عقل میں نہ آنا اور کسی بات کا عقل سے ٹکرانا دو الگ الگ چیزیں ہیں، اگر کوئی بات آپ کی یا کسی کی عقل میں نہیں آرہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ بات سرے سے غلط ہے یا وہ عقل کے خلاف ہے یا عقل سے ٹکرارہی ہے۔ ہوسکتا ہے وہی بات کسی اور کی عقل میں آجائے یا آج جو آپ کی سمجھ میں نہیں آرہی ہوسکتا ہے وہی کل آپ کی عقل میں آجائے اسی لیے شریعت کا یہ حکم ہے کہ اگر کوئی بات تمھاری سمجھ سے بالاتر ہو تو اپنی سوجھ بوجھ پر اعتماد کرکے نہ بیٹھ رہو، بلکہ دوسروں سے بھی پوچھو شاید کہ وہ تمھاری سمجھ میں آجائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَسئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْن (النحل:43)

ترجمہ: پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو.
٦۔ عقل کو نقل صحیح (شریعت) پر مقدم کرنے کے نتیجے میں شریعت پر اعتماد اور بھروسہ کمزور ہوتا ہے اور کلام اللہ کو کلام الناس کے برابر قرار دینا لازم آتا ہے۔

۷۔ عقل پر شریعت کے تقدم وتفوق اور برتری پر خود عقول سلیمہ دلالت کناں ہیں لہذا شریعت پر عقل کو مقدم کرنے سے خود عقول سلیمہ کی دلالت پر طعن لازم آئے گا۔

۸۔ جس شخص نے اپنی رائے کو شریعت پر مقدم کیا وہ حقیقی مؤمن نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہ صحیح معنوں میں متبع شریعت ہے بلکہ اس پر یہ فرمان الٰہی صادق آتاہے:
’’الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیْرِسُلْطٰنٍ اَتٰھُمْ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَاللّٰہِ وَعِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍجَبَّار”۔ (غافر:35)

ترجمہ: جو لوگ اللہ کی آیات میں بغیر دلیل کے جھگڑتے ہیں، جو ان کے پاس آئی ہو، (یہ رویہ) اللہ کے نزدیک اور ان لوگوں کے نزدیک جو ایمان لائے بڑی ناراضی وبیزاری کا باعث ہے، اللہ ہر متکبر سرکش کے دل پر اسی طرح مہر لگادیتا ہے۔

۹۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ کتاب وسنت کا کبھی بھی عقل سلیم سے تعارض اور ٹکراؤ نہیں ہوسکتا کیونکہ کتاب وسنت کو نازل کرنے والا وہی اللہ ہے جس نے انسان کو عقل سلیم کی نعمت بخشی ہے۔

۱۰۔ عقل کو بے لگام چھوڑنا اور اسے کتاب وسنت کا پابند نہ بنانا تیز رفتار گاڑی کو بغیر بریک اور اسٹیرنگ کے چھوڑ دینے کی مانند ہے جو کبھی بھی اور کہیں بھی ٹکرا کر خود کو اپنے مالک سمیت ختم کر ڈالتی ہے۔
تلک عشرۃ کاملۃ۔
اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Abu Hayyan Saeed Al-Azhari

وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا۟ کا مفہوم سمجھنے کے لیے براہِ کرم مکمل آیت کو غور سے پڑھیں، فرقہ پرست ملاؤں کے فریب سے آگاہ رہیں۔ قرآن کریم کی آیت کے بارے میں سوچی سمجھی سازش عقل اور ہوش سے دور تمام فرقہ پرست دیوبندی، اہل حدیث سلفی وغیرہ سورۃ الحشر کی اس آیت کا کچھ حصہ “نام نہاد احادیث” کے حق میں نقل کرتے ہیں۔ میں جعلی اور من گھڑت احادیث کے دفاع کے لیے ان کے خیالات پر ماتم کرنا چاہتا ہوں.. اس ‘ماتم’ میں میرا ساتھ کون دے گا؟ ابو حیان عادل سعید سورہ… Read more »