اصلاح سماج اور بڑی بے اعتدالی

ذکی نور عظیم ندوی سماجیات

صالح معاشرہ کی تشکیل یا معاشرہ کو ہر طرح کی خامی، برائی، فتنہ و فساد اورہر طرح کے منفی نتائج سے محفوظ رکھنے کے لئے “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ جس میں چھوٹے بڑے، امیر غریب، تعلیم یافتہ غیر تعلیم یافتہ، مرد خواتین اور با اختیار و بےاختیار کے درمیان فرق کی کوئی گنجائش نہیں۔ بلکہ فرق کرنے کی صورت میں مقصد فوت اور انسانی معاشرہ ابتری کا شکار ہوجاتا ہے اور مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوپاتے۔ اسی لئے شریعت میں پہلے مرحلے میں عملی طور پر ہر منکر کو روکنے، دوسرے مرحلہ میں زبان سے نکیر کرنے اور آخری مرحلہ میں دل سے اس کی قباحت کا پابند کیا گیا۔ اور اس ذمہ داری میں کوتاہی پر ایمان کے سلب ہونے کے خطرہ سے آگاہ کیا گیا۔
اس کی اہمیت اور شریعت میں اس کی سخت ہدایت کے باوجود اکثر و بیشتر بے اعتدالی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اور اونچ نیچ یا سماجی عدم برابری جو ہمارے ملک کی سب سے بڑی لعنت ہے اس کا اثر اس شعار میں مسلم طبقے میں واضح طور پر نظر آتا ہے، اور اکثر و بیشتر طبقاتی مزاج خواہ اس کی وجہ کچھ بھی ہو اس شعار کو عملی شکل دینے میں مانع ہوتا ہے اور “و أنا ربكم الاعلى” اور “انهم لشرذمة قليلون وانهم لنا لغائظون” جیسا مزاج اور نعرہ حقیقی یا عملی طور پر سامنے آتا ہے۔ اور حضرت ابراہیم یا دیگر انبیاء کی سنت “یا أبت” “یا أبت” اور اس کا پیغام ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے، اور ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر پر یہ کہہ بیٹھتے ہیں “أراغب أنت عن آلهتي يا ابراهيم لئن لم تنته لأرجمنك واهجرني مليا” اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت ہی ہمدرد و غمگسار چچا کی درخواست کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں مجھ پر رحم فرما پر آپ کے تاریخی جملے “يا عماه, والله لو وضعوا الشمس في يميني والقمر في يساري على أن اترك هذا الأمر حتى يظهره الله او أهلك فيه ما تركته” اور اس کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ، اور اپنے معمولی مفادات یا کبھی کبھی بےفائدہ خاموشی کو ہی غنیمت سمجھتے ہیں،اور نا جانے کس بنیاد پر اسے “سکوت مریم” سے تعبیر کرتے ہیں.
خاص طور پر طبقہ علماء جو یقینا “ورثۃ الأنبیاء” ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قول،عمل اور تقریر کو ماننے اور “لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة” کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام چیزیں نمونہ اور واجب العمل ہیں، کے باوجود حق بیانی اور ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے میں ہچکچاتےہیں۔اور شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنوں کو حقیقت میں نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی “تقریر” کو بطور وارث نبوت سمجھنے کی قطعا کوشش نہیں کرتے۔
اس کا ایک منفی اور نہایت خطرناک پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ اصلاح و تغییر کا یہ پورا عمل لغو فضول اور غیر مؤثر ثابت ہوتا ہے اور سماج افراتفری اور بے شمار برائیوں سے دوچار ہوجاتا ہے۔

لہذا اپنے بڑوں کی عزت و احترام اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ، ان کی لغزشوں اور ظلم وزیادتی پہ خاموشی یا کسی حد تک اس پر ان کا ساتھ دینا یہ اسلام اور اس کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔

آپ کے تبصرے

3000