سوشل میڈیائی متعالمین کا فتنہ

تسلیم حفاظ عالی

کورونا وائرس کی قہرسامانیوں سے بچنے کے لیے پوری دنیا کے لوگ ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ سماجی دوری بنائے رکھنے کے لیے مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ لاک ڈاؤن کے ان ایام میں لوگوں کے پاس فرصت ہی فرصت ہے۔ فراغت کے ان اوقات کو لوگ اپنے اپنے متنوع ذوق کے مطابق گزار رہے ہیں۔ کوئی مطالعۂ کتب میں منہمک ہے، کوئی مقالات ومضامین کے اعداد میں مشغول ہے، کوئی مختلف آڈیوز اور وڈیوز بناکر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے میں مصروف ہے تو کوئی اس کے علاوہ دیگر نشاطات وسرگرمیوں میں مستغرق ہے۔

ان ناگفتہ بہ حالات میں ضروری بھی ہے کہ جیدومستند علما ودعاۃ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، عوام کی بھرپور رہنمائی کریں اور موجودہ حالات سے متعلق احکام ومسائل کو خوش اسلوبی کے ساتھ ان تک پہنچائیں۔ ایک حد تک کچھ جید علمائے کرام اپنے وقیع مقالات و بیانات کے ذریعہ لوگوں کی بہترین رہنمائی کر بھی رہے ہیں۔ لوگوں کو ان سے خوب خوب استفادہ کرنا چاہیے۔ لیکن یہاں پر المیہ یہ ہے کہ قبل ازیں اور فرصت کے ان لمحات میں خاص طور پر بزعم خویش اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت کے لیے بہتیرے ایسے طلبگارانِ شہرت سوشل میڈیا پر کود پڑے ہیں جن کا علم سطحی اور ناقص ہے۔ جنھیں کتاب وسنت کی صحیح معرفت نہیں ہے۔ جو احکام و مسائل کو ان کے اصلی مصادر ومراجع سے براہ راست اخذ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ان کی معلومات کا دارومدار سوشل میڈیا پر موجود آڈیوز، ویڈیوز، مقالات ومضامین اور چند اردو کتابوں پر ہے۔ ان میں کچھ ناتجربہ کار طلبہ و فارغین ہیں، کچھ بردرس ہیں جن کا میدان الگ ہے لیکن وہ اپنی بساط سے بڑھ کر خالص دعوتی میدان میں قدم رنجہ ہونے کے متمنی وشوقین نظر آرہے ہیں۔ اور کچھ تو آپ کو ایسے بھی ملیں گے جو ابھی مختلف جامعات میں درجات متوسطہ کے طلبہ ہیں۔ ایسے لوگ اگر اپنی خام معلومات کے ساتھ دین کے بڑے بڑے مسائل بیان کرنے لگیں گے تو کیا کیا گل کھلائیں گے، یہ بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔ جنھیں ایک حدیث صحیح سے سمجھنا تو دور کی بات اس کی اعراب خوانی تک نہیں آتی وہ جب کسی حدیث کی منمانی توضیح وتشریح کریں گے تو اسلامی تعلیمات کے فروغ کے نام پر بدعات وخرافات کو کس قدر رواج دیں گے آپ تصور نہیں کرسکتے۔ ان متعالمین کے پاس چونکہ اصلی مصادرومراجع سے براہ راست مسائل اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اس لیے وہ “محقق دوراں” بننے کے لیے “علامۂ وقت گوگل” کو کھنگالتے ہیں اور اس میں جو کچھ بھی رطب ویابس مل جاتا ہے اسے بڑی ڈھٹائی اور خوف الہی سے عاری ہوکر بیان کردیتے ہیں۔ قرآنی آیات کی خودساختہ تفسیر اور احادیث رسول کی خودتراشیدہ تشریح کرتے ہوئے ان کے دلوں میں ذرا سا بھی اللہ کا خوف پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے جہلاومتعالمین کو معلوم ہونا چاہیےکہ بنا تحقیق کے دینی مسائل میں منہ کھولنا کتنا بڑا جرم ہے اور اس پر کتنی بڑی وعید ہے۔
“من کذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار” (البخاري :1291)

یہ بہت مختصر اور حفظ کے اعتبار سے بڑی آسان حدیث ہے اور اکثر لوگوں کو یاد بھی ہے۔ علما اسے مختلف مواقع ومناسبات سے بیان کرتے اور اس کا معنی ومفہوم بتاتے رہتے ہیں۔ محدثین اور شارحین حدیث کی عربی تشریحات اگر آپ سمجھ نہیں سکتے تو کم از کم کسی مستند عالم سے رہنمائی حاصل کیجیے اور اس حدیث سے نکلنے والے احکام ومسائل کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ یاد رکھیے جس دن آپ کو اس حدیث کا مفہوم سمجھ میں آجائے گا اور شریعت کی جانب جھوٹی بات اور غیر محقق امر کے انتساب پر جو اس میں زبردست وعید سنائی گئی ہے وہ آپ کے دل ودماغ میں بیٹھ جائےگی اس دن سے بنا تحقیق کے کوئی بھی بات کہنے سے پہلے آپ ہزار بار سوچیں گے اور آپ کی روح کانپ اٹھے گی۔

ایسے لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جنھیں عربی زبان کی شدبد تک نہیں حتی کہ قرآن کی ناظرہ خوانی صحیح سے نہیں کرسکتے وہ بڑے بڑے علمی وتحقیقی مسائل میں طبع آزمائی شروع کردیتے ہیں۔ مستندومتخصص علما جن مسائل کے سلسلے میں ہزار بار سوچتے اور بحث و تحقیق کرتے ہیں یہ متعالمین ان مسائل پر دھڑلے سے بولے جاتے ہیں اور ایسے بولتے ہیں کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ پھر اس کے جو نقصانات سامنے آتے ہیں اور اس کے جو بھیانک اثرات لوگ باگ پر مرتب ہوتے ہیں وہ نہایت ہی افسوسناک اور المناک ہیں۔

دینی مسائل بیان کرنا کوئی کھیل تماشا نہیں ہے کہ کوئی بھی آئے اور اپنا ہنر آزمانا شروع کردے اور جو چاہے ہفوات بکتا پھرے۔ یہ دین کا معاملہ ہے، اس میں بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ افتا ایک بہت ہی عظیم الشان، سنگین اور خطرناک امر ہے۔ اس میں ذرا سی لغزش کے بڑے دردناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ آپ کا ایک غلط فتوی، کسی مسئلے کی غلط توضیح کسی کے لیے موجب ہلاکت بھی ہوسکتی ہے۔ اس کی ایک مثال ابوداؤد کی اس حدیث میں دیکھیے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نکلے تو ہم میں سے ایک شخص کو پتھر لگا، جس سے اس کا سر پھٹ گیا، پھر اسے احتلام ہوگیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا: کیا تم لوگ میرے لیے تیمم کی رخصت پاتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہم تمھارے لیے تیمم کی رخصت نہیں پاتے، اس لیے کہ تم پانی پر قادر ہو۔ چنانچہ اس نے غسل کیا تو وہ مرگیا۔ پھر جب ہم نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپﷺ نے فرمایا: ان لوگوں نے اسے مارڈالا، اللہ ان کو مارے، جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انھوں نے کیوں نہیں پوچھ لیا؟ نہ جاننے کا علاج پوچھنا ہی ہے۔ (ابوداؤد:336-حسنه الألباني)

ذرا مذکورہ حدیث پر غور کیجیے کہ صحابۂ کرام جن کے زہدوورع پر ادنی سا شک اور جن کے کتاب وسنت کے تمسک و اعتصام پر معمولی سا ریب ہمارے ایمان کو خطرے میں ڈالنے کے لیے کافی ہے، ان کی ذرا سی تاویلی لغزش ایک صحابی کی موت کا سبب بن گئی تو پھر ہماری اور آپ کی بساط کیا ہے۔ ہمارا علم تو ان کی گرد پا کے برابر بھی نہیں ہے۔ سلف صالحین کی سوانح عمری کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ وہ علم و حکمت کے سمندر ہونے کے باوجود دینی مسائل کے بیان اور فتوی کے باب میں کس قدر متورع اور خوف الہی سے سرشار تھے۔آپ اِن اقوال سے اس کا تھوڑا سا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
“وعن الشعبي والحسن و أبي حصين، قالوا: إن أحدكم ليفتي في المسألة، ولو وردت على عمربن الخطاب رضي الله عنه لجمع أهل بدر۔”

شعبی، حسن اور حصین رحمہم اللہ–مشہور تابعین میں سے ہیں- کہتے ہیں کہ بے شک تم میں سے کوئی شخص کسی ایسے مسئلے کے بارے میں فتوی دے دیتا ہے کہ اگر وہی مسئلہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کے سامنے پیش کیا جاتا تو وہ اس کے حل کے لیے اہل بدر کو جمع کرلیتے۔ (آداب الفتوی والمفتی والمستفتی للنووي:15)
“عن الهيثم بن جميل: شھدت مالكا سئل عن ثمان وأربعين مسألة فقال في ثنتين وثلاثين منھا: لا أدري۔”

ہیثم بن جمیل کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ سے اڑتالیس مسائل کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے ان میں سے بتیس مسائل کے بارے میں کہا: مجھے نہیں معلوم ہے۔(آداب الفتوی :16)
“وعن مالك أيضا، أنه ربما كان يسأل عن خمسين مسألة، فلا يجيب في واحدة منھا، وكان يقول: من أجاب في مسألة فينبغي قبل الجواب أن يعرض نفسه على الجنة والنار، وكيف خلاصه،ثم يجيب۔”

حضرت امام مالک ہی کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے بسااوقات پچاس مسئلوں کے بارے میں پوچھا جاتا اور ان میں سے وہ کسی کا جواب نہیں دیتے اور کہتے کہ جب کوئی شخص کسی مسئلے کا جواب دینا چاہے تو اسے چاہیے کہ اپنے آپ کو جنت اور جہنم پر پیش کرے اور سوچے کہ نجات کی کیا سبیل ہے، پھر جواب دے۔ (آداب الفتوی:16)
“وسئل عن مسألة، فقال: لا أدري! فقيل: ھي مسألة خفيفة سھلة، فغضب وقال: ليس في العلم شيئ خفيف۔”

نیز امام مالک ہی سے ایک مسئلہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا مجھے نہیں معلوم۔ تو کسی نے کہا کہ یہ تو ہلکا اور آسان سا مسئلہ ہے۔ تو امام مالک غضبناک ہوگئے اور کہا: علم میں کوئی چیز ہلکی نہیں ہوتی۔ (آداب الفتوی : 16)

امام مالک رحمہ اللہ کے علاوہ امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ اور دیگر سلف صالحین بھی فتوی کے باب میں حد درجہ محتاط رہتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کے مشہور اقوال بھی ہیں جن سے ان کے زہدوورع اور غایت درجہ احتیاط کا پتہ چلتا ہے۔

“وعن سفيان بن عيينة: أجسر الناس على الفتيا أقلھم علما۔”

سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ فتوی کے معاملے میں لوگوں میں سب سے زیادہ جسارت وہی دکھاتا ہے جس کا علم سب سے کم ہوتا ہے۔(آداب الفتوی: 15)

سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کی بات آج کس قدر خوبصورت اور سچی لگ رہی ہے، آپ خود اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کتاب وسنت کے علم سے کورے اور جاہل لوگ شرعی مسائل کی جاہلانہ توضیح اور بلا سوچے سمجھے فتوی بازی میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ اور حدیث رسول کے بمصداق خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔

ایسی صورت حال میں جید و مستند علما کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آگے آئیں اور ان سوشل میڈیائی متعالمین کے فتنے کی سرکوبی کریں۔ ہر زمانے کا اپنا اپنا تقاضا ہوتا ہے۔ جس زمانے میں ہم جی رہے ہیں اس میں لوگ فیسبک، واٹس اپ، یوٹیوب وغیرہ پر زیادہ سرگرم رہتے ہیں۔ اس لیے ان ذرائع کا مثبت اور دلکش انداز میں استعمال کرکے دعوتی فریضے کو انجام دینا دور حاضر کے اہم ترین تقاضوں میں سے ہے۔ اور متعالمین کی فتنہ انگیزی کے انسداد کا موثر ذریعہ اور متبادل طریقہ بھی یہی ہے۔

8
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
4 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
ارشادالحق روشاد المحکم

بہت خوب شیخ۔
جزاکم اللہ خیرا

تسلیم الدین حفاظ الدین عالی

شکریہ
جزاكم الله خيرا

Aminulislam

السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

تسلیم الدین حفاظ الدین عالی

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

Wafa Abbasi

Alhamdulillah umda aur zere gaur article h . Allah mazeed likhne ki salahit ATA farmaye aamin

تسلیم الدین حفاظ الدین عالی

آمين يارب العالمين
جزاكم الله خيرا

Mohammad naseem

دل کی بات کہہ دی آپ نے اللہ آپ کے قلم میں اور جولانی عطا کرے

تسلیم الدین حفاظ الدین عالی

شکریہ
جزاكم الله خيرا