حال ہی میں مرکزی حکومت نے اس لاک ڈاؤن میں جو کچھ رعایتیں دی ہیں یا مستقبل قریب میں مزید کچھ رعایتوں یا لاک ڈاؤن کے کامل طور پر ختم کرنے کا اعلان حکومت کی مجبوری ہے، کیونکہ ملک کے حالات بے حد خراب ہوچکے ہیں۔ ملک کی اقتصادی حالت پہلے سے زیادہ چرمراگئی ہے، لوگ کورونا سے کم بھوک سے زیادہ مر رہے ہیں، ضروری اشیاء کا فقدان ہورہا ہے، درآمد و برآمد کا پورا نظام ٹھپ ہوا جارہا ہے، اس لیے مزید رعایتوں یا کچھ شرائط کے ساتھ لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان حکومت کی مجبوری ہے، اور ان سب باتوں کے لیے اولین ذمہ دار ہمارے وہ حکمراں ہیں جن کی عدم فراست، دور اندیشی کی کمی اور نا سمجھی کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں۔
ان حکمرانوں کی مثال اس گدھے جیسی ہے جس کے اوپر کتابوں کا ڈھیر ہے لیکن اس علمی خزانے سے وہ(گدھا) نا بلد ہے۔ ایسے ہی ہمارے حکمراں ہیں جن کے پاس فراست و دور اندیشی نام کی کوئی چیز نہیں، بس حکومت کرنے کا جنون اور کرسی کا چسکا ہے، جس کی وجہ سے آئے دن اہل ہند آلام و مصائب اور مختلف طرح کے مشکلات میں گرفتار ہوتے رہتے ہیں، چاہے وہ اچانک کی نوٹ بندی (Demonetization) ہو، جس میں سو سے زائد بے قصور افراد لقمہ اجل بن گئے، یا راتوں رات آدھی ادھوری تیاری میں عوام پر نیا نظام ٹیکس جی ایس ٹی تھوپنا یا بغیر کسی پیشگی اطلاع اور بغیر کسی تیاری کے اچانک لاک ڈاؤن (Lockdown) کا اعلان کرنا، جس کی وجہ سے لاکھوں یومیہ مزدور بھکمری کے شکار ہوگئے اور لاکھوں کو بے یار ومددگار ہزاروں کلو میٹر پیدل چلنے پر مجبور ہونا پڑا اور اس اثنا میں کتنے (30 سے زائد) اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اب متوسط طبقہ کی بھی مالی حالت انتہائی خراب ہورہی ہے، اور ان سب کی ذمہ دار جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا کہ حکومت ہند ہے، کیونکہ یہ جان لیوا وائرس جب دنیا بھر میں اپنے پیر پسار رہا تھا تو ہمارے حکمراں خواب خرگوش میں تھے، بلکہ اپنے اس ملک میں اس وائرس کو نمستے ٹرمپ پروگرام کے ذریعہ لانے کا انتظام کررہے تھے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں جنوری ہی میں اس وائرس کا پہلا کیس سامنے آچکا تھا، لیکن متنبہ ہونا تو دور ہمارے حکمرانوں نے اس سے چشم پوشی اختیار کرلی اور شتر مرغ کی طرح اپنی آنکھوں کو ریت میں چھپا لیا۔ نتیجہ میں یہ وائرس آج پورے ملک میں خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے۔
23/مارچ تک ملک کا سارا نظام جوں کا توں جاری و ساری تھا اور حکومت نےدنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے وائرس سے کوئی عبرت وموعظت نہیں پکڑا تھا، حتی کہ کوئی خاص احتیاطی تدابیر یا کورونا وائرس کی خطرناکی یا آنے والے دنوں میں لاک ڈاؤن کا امکان جیسی صورت حال کا اعلان بھی حکومت کی طرف سے نہ کیا گیا تھا۔ (اگر کیا گیا ہوتا تو شاید حالات اس قدر خراب نہ ہوتے۔ واللہ اعلم) اور اب بھی حکومت اس معاملہ میں حساس نظر نہیں آرہی ہے بلکہ بڑی تساہلی کا ثبوت دے رہی ہے کیونکہ اب تک جتنے ٹسٹس(Tests) ہوجانے چاہیے تھے نہیں ہوئے، اس بیماری کی روک تھام میں سب سے مددگار زیادہ سے زیادہ ٹسٹ کا ہونا ہے، تاکہ وقت رہتے ہی متاثر افراد کو الگ کیا جاسکے اور انھیں مناسب علاج فراہم کیا جاسکے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں کورونا جانچ( ٹسٹ) کی جو یومیہ صلاحیت (Capacity) ہے، اس کا نصف ( 50% فیصد) بھی نہیں کیا جارہا ہے۔ اصل میں حکمراں طبقہ اپنے عوام کے تعلق سے زیادہ خیر خواہ اور فکر مند نہیں معلوم ہورہا، وہ صرف معمول (Routine/روٹین) کا نظام چلانا چاہتے ہیں، اس لیے عوام الناس اور بالخصوص مسلمانوں کو اپنے تعلق سے خود ہی فکر و کیئر (Care) کرنا ہوگا اور چند باتوں کا خیال پہلے سے زیادہ رکھنا ہوگا:
1۔بغیرضرورت گھر سے کوئی نہ نکلے، صرف اسی ضرورت کے لیے نکلیں جو لابدی ہو اور جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔
2۔عورتیں، بچے اور ضعیف افراد گھر سے ہرگز نہ نکلیں سوائے دوا علاج کی خاطر۔
3۔گھر سے نکلتے ہوئے کامل احتیاط برتیں، دوسروں سے کم از کم ایک میٹر فاصلہ (سوشل ڈسٹنس) رکھیں، ماسک اور دستانے وغیرہ کا استعمال لازمی کریں، بغیر ضرورت کسی بھی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں۔
4۔ضرورت ختم ہوتے ہی فورا گھر لوٹیں اور آکر ہاتھ، پیر اور منہ وغیرہ دھوئیں یا ممکن ہو تو نہالیں۔
5۔جو افراد تجارت و کاروبار کے لیے باہر نکلیں وہ حد سے زیادہ احتیاط برتیں۔
6۔غالب امکان ہے، اور احتیاط کا تقاضا بھی کہ اس بار عید کی نماز وغیرہ عید گاہ میں نہ ہو، اور چونکہ امسال عید کے دن سابقہ اعیاد کی طرح گھروں میں لوگوں کی آمد و رفت نہ ہوگی اور حالات بھی اسی بات کے متقاضی ہیں، اس لیے عید کی خریداری (کپڑے، چپل، جوتے وغیرہ) بالکل نہ کریں، ویسے بھی ایک مسلم کی عید کپڑوں وغیرہ سے نہیں ہوتی ہے بلکہ
ليس العيد لمن لبس الجديد
إنما العيد لمن خاف الوعيد
ترجمہ: عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہنے، بلکہ عید اس کے لیے جو وعید الہی سے ڈرا۔
7۔ایسے حالات کب تک رہیں گے اللہ ہی جانتا ہے، اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (W.H.O.) کی جانب سے بھی خبردار کیا گیا ہے کہ یہ وائرس ابھی مزید اور لمبے وقت تک رہے گا، اس لیے جمع پونجی کو سنبھال کر خرچ کریں، بلکہ جب تک حالات کامل طور پر درست نہ ہوجائیں اور ماہرین اس بات کی توثیق نہ کردیں اس وقت تک صرف لا بدی و لازمی چیزوں پر ہی خرچ کریں۔
8۔معلوم ہونا چاہیے احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ (الاحتياط خير من العلاج) اس لیے ہر معاملہ میں احتیاط ضروری ہے، چاہے کورونا وائرس کا مسئلہ ہو (اور اس وائرس سے بچنے کا واحد راستہ احتیاط ہے) یا عید کی خریداری کا یا لاک ڈاؤن میں نرمی یا ختم کرنے میں حکومت کی بدنیتی یا مجبوری، کسی بھی حال میں احتیاط کا دامن ہرگز نہ چھوڑیں۔
9۔رمضان المبارک میں میسر اس فراغت کو غنیمت جانیں۔
(حدیث: اغتنم خمسا قبل خمس: و من ذلك ..فراغك قبل شغلك، وصححه الألباني في صحيح الجامع الصغير)، اور (فإذا فرغت فانصب) پر عمل کرتے ہوئے فارغ اوقات میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کریں۔
10۔حالات کے حساب سے صدقات و خیرات جیسی عبادت کا زیادہ اہتمام کریں، کیونکہ ہماری قوم کے بہت سے افراد ان حالات میں فاقہ کشی پر مجبور ہیں، لہذا خاص کر پاس پڑوس کی مسلم فیملی کی مالی حالت کے تعلق سے آگاہی حاصل کرلیں، تاکہ قوم کا کوئی فرد بھوکا نہ رہے۔
آخر میں دعا گو ہوں کہ اے اللہ! اس وائرس سے مسلمانوں کی حفاظت فرما، اعداء اسلام کی سازشوں کو ناکام بنا اور ہم مسلمانوں کو توفیق دے کہ دین کی نشرو اشاعت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔ آمین یا رب العالمین۔ واللہ ھو الموفق
لا یعنی قسم کا مضمون ہے، میں اس تجسس پر پڑھتا رہا کہ کوئی کام بات ہوگی، لیکن شدید مایوسی ہوئی