بچپن: ایک ستارہ جو ٹوٹ گیا

ارشاد الحق روشاد

تحریر: حسان ابوالمکرم
ترجمہ: ارشادالحق روشاد


باپ کون ہے؟ آپ کے نزدیک اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ کیا باپ کو بھول جانا آسان ہے؟ کون ہے ایسا جو باپ کی قدر و منزلت سے نا آشنا ہو؟ اور اس سے محبت کرنے کا حق اسے حاصل نہ ہو؟
ان سوالات نے مجھے رُلا کر رکھ دیا، دل پاش پاش ہوگیا، خواب چکنا چور ہوگئے، مجھ پر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ دل کتنا افسردہ ہوتا ہے جب بچپن کی سنہری یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور ذہن و دماغ میں دوبارہ لوٹتی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی گزشتہ کل کے واقعات ہوں! باپ کے مقام و مرتبے کو بیان کرنا میرے لیے ذرا مشکل ہے، قلم لکھنے سے عاجز ہے اور ہر سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔
باپ: وہ ہے جو دنیا میں میری آمد کا 9 مہینے بڑی خواہش اور تڑپ سے انتظار کرتا ہے۔
باپ: وہ ہے جو میری تعلیم و تربیت اور دیگر تمام تر ذمہ داریوں کو نبھانے میں انتہائی محنت و مشقت کرتا ہے۔
باپ: وہ ہے جو ہر تکلیف دہ چیز کو مجھ سے دور کرتا ہے۔
باپ: وہ ہے جو پیسہ کمانے کے لیے حد درجہ جد و جہد کرتا ہے تاکہ بچے خوشحال زندگی بسر کرسکیں۔
باپ: وہ ہے جو مجھے خاص مقصد کے تحت نیک آرزوؤں اور خوابوں کے ساتھ مدرسہ لے جاتا ہے تاکہ میرا داخلہ کرائے۔
باپ: وہ ہے جس کے فوت ہوجانے سے اولاد کی تمام تر آرزوئیں کافور ہوجاتی ہیں، زندگی ادھوری ہوجاتی ہے، اس کے جگر گوشے کی زندگی غم و الم سے نڈھال ہو کر رہ جاتی ہے۔
باپ: وہ ہے جو بچپنے کی سفاہت و نادانی اور اس میں سرزد ہونے والی ہر تکلیف و نقصان کو برداشت کرتا ہے۔
باپ: وہ ہے جو پیار محبت، خیر و بھلائی اور تعلیم و تربیت دینے کی خاطر ہاتھ اٹھاتا ہے، دنیا کے آلام و مصائب برداشت کرنے کا عادی بناتا ہے۔
باپ: وہ ہے جو بظاہر غصے میں اولاد کو ڈانٹتا ہے، مگر اس کے دل میں پیار محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔
مَیں باپ کی تعریف کا حق ادا کر ہی نہیں سکتا، باپ کا معنی و مطلب بیان کرنا میری بساط سے باہر ہے۔ میں کیا کہوں اور کیا لکھوں، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے، اور نہ ہی میرے اندر کچھ کہنے اور لکھنے کی سکت باقی رہ گئی ہے۔
یا اللہ! کیا والد کی رفاقت و صحبت میں گزرے ہوئے حسین لمحات دوبارہ نصیب ہو سکتے ہیں؟ اللہ جواب دیتا ہے: “ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں”۔ (آل عمران:140)
در حقیقت باپ کی شفقت و مہربانی کا ذکر چند الفاظ اور جملوں میں نہیں کیا جا سکتا، بچپن ہنساتا بھی ہے اور رُلاتا بھی، اس میں عمدہ نصیحتیں بھی ملتی ہیں اور مختلف تجربات بھی۔ بچپن میں لڑکا والد کے سامنے کھیلتا ہے، تھکان سے نڈھال ہوکر اسی جگہ گر پڑتا ہے، آنکھوں میں نیند بھر آتی ہے تو وہ کسی بھی جگہ سو جاتا ہے، مگر صبح جب بیدار ہوتا ہے تو خود کو والدین کے پاس نرم و نازک بستروں پہ پاتا ہے، جو محبت بھری نظروں سے اس کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، والدین کے علاوہ دوسرا کوئی بھی یہ نیک کام نہیں کرسکتا، ” اے میرے رب! جس طرح سے ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش و پرداخت کی تھی تو ان پر بھی رحم فرما دے”۔ (اسراء:24)
بچپن میں لڑکے کو سوجھ بوجھ نہیں ہوتی، وہ اپنے ماں باپ سے مختلف چیزوں کے متعلق بارہا سوال کرتا رہتا ہے، ان سے طنز و مزاح اور مذاق بھی کرتا ہے، پھر بھی وہ اس سے راضی اور خوش رہتے ہیں، سوچیے کہ اگر ایسا مذاق ان کے علاوہ دوسروں سے کیا جائے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟
بچپن میں لڑکا اپنے باپ سے ٹوفی، چاکلیٹ اور دیگر اشیاء خورد و نوش کا مطالبہ کرتا ہے، باپ کام سے تھکا ہارا گھر پہنچتا ہے، اپنے لخت جگر کی فرمائش بھول جاتا ہے، بیٹا اصرار کرتا رہتا ہے، باپ کافی تھکاوٹ کے باوجود دوبارہ جاتا ہے اور بیٹے کی خواہش خوشی بخوشی پوری کرتا ہے، اس کو بوسہ دیتا ہے، اپنی قیمتی اور انمول نصیحتوں سے نوازتے ہوئے اس سے کہتا ہے: میرے پیارے بیٹے اپنی ماں کو پریشان مت کرو، انھیں اُف تک نہ کہو، یاد رکھو! والدین کی اطاعت و فرمانبرداری تم پر واجب ہے ورنہ اللہ تم سے ناراض ہوگا-
یا اللہ! پیار محبت سے بھری ہوئی والدین کی نصیحتیں بے شمار ہیں، دل کی شدید خواہش ہے کہ وہ حسین لمحے دوبارہ نصیب ہو جائیں، ایک بیٹا جب اپنے والد کا سامان استعمال کرتا ہے تو کافی خوش ہوتا ہے، ان کا جُوتا، چپل پہنتا ہے تو عزت و وقار محسوس کرتا ہے، ان کا موبائل اور چشمہ لینے کی ضد کرتا ہے، شفیق و مہربان باپ اس کو اپنے ساتھ دوکان لے جاتا ہے اور کئی طرح کے کھلونے اور چشمے خرید دیتا ہے، بیٹا اپنے باپ کے زیر مطالعہ کتاب چھینتا ہے، وہ فورا اس سے کئی سوال کر بیٹھتا ہے تاکہ اس کا ذہن کھلے اور عقل و دماغ کے پردے وا ہوں، وہ اپنے بیٹے سے سوالات کرتا رہتا ہے اور حوصلہ افزائی کے طور پر ہر جواب کے عوض اس کو تحفہ بھی دیتا ہے، باپ کا مزید پیار پانے کے لیے بیٹا کئی معمولی کام انجام دیتا ہے، اور اس میں قیمتی انعامات و تحائف کی شرط بھی رکھتا ہے۔
اے والد محترم! آپ کا مقام و مرتبہ کتنا بلند ہے، فرحت و شادمانی سے لبریز کئی ایسی یادیں آپ سے وابستہ ہیں جس سے آپ کے مقام و مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، بلکہ آپ کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا ہے جس کا بیان ناممکن ہے، آپ کی قدر و منزلت اظہر من الشمس ہے جس میں کوئی شک نہیں، واللہ ایک پل کے لیے بھی والد محترم کی یاد مجھ سے جدا نہیں ہوئی، میرے ذہن و دماغ میں کبھی بھی انھیں بھول جانے کا خیال تک پیدا نہ ہوا، وہ آج بھی میرے دل کی دھڑکنوں اور سانسوں میں آباد ہیں۔
بچپن کو بھول جانا ناممکن ہے کیونکہ یہی وہ مرحلہ ہے جس میں دل خوبصورت دنوں اور سنہری یادوں سے لبریز ہوتا ہے، اے میرے والد محترم! آپ میرے گوشت، خون، رگ میں پیوست ہیں، آپ سے ہرگز مَیں جدا نہیں ہوسکتا الا یہ کہ میری روح جسم سے جدا ہوجائے اور میں اس دار فانی سے کوچ کر جاؤں، اے والد محترم! آپ میری زندگی کی تمام چیزوں سے زیادہ قیمتی ہیں، آپ کے بغیر زندگی ناقص ہے، دنیا بے لذت ہے، زمین اپنی وسعتوں کے باوجود مجھے تنگ نظر آتی ہے، میرا روشن اور تابناک مستقبل سیاہ نظر آتا ہے، میں آپ کو نہ ہی بھول سکتا اور آپ کے حقوق ادا کر سکتا ہوں، بس اسی پر صبر کر رہا ہوں کہ “حسبی اللہ و نعم الوکیل” (میرے لیے اللہ کافی ہے او وہی بہترین کارساز ہے)
میں دوبارہ پھر سوال کر رہا ہوں کہ والد کی قدر و منزلت سے کون نا آشنا ہوگا؟ کیا وہ بیٹا جو باپ جیسی عظیم نعمت سے محروم ہوگیا ہو، یا وہ بیٹا جس کا دل والد محترم کی محبت و مودت سے سرشار ہو، یا وہ بیٹا جو اپنی پوری زندگی والد کے لیے قربان کرنے پر تیار ہو۔
افسوس صد افسوس ایسے لوگوں پر جو والد کے مقام و مرتبے سے ناواقف ہیں، بچپن میں لڑکا ان کا جوتا، چپل پہنتے وقت عظمت و وقار محسوس کرتا ہے، مگر آج جب بڑا ہوگیا تو پہننا نہیں چاہتا، وہ یہ سمجھتا ہے کہ ایسا کرنے سے میری شان و شوکت میں کمی آجائے گی، اور اب مجھے باپ کی کوئی ضرورت نہیں رہی، بچپن میں لڑکا ان سے ایسی پیاری پیاری باتیں اور نصیحتیں سنتا تھا جو آب زر سے لکھے جانے لائق ہیں، جب بھی اپنی زندگی میں رُونما ہونے والا کوئی قصہ یا کہانی بتاتے وہ بہت غور سے سنتا تھا، مگر آج وہ ان کی باتوں کو بیوقوفی اور نادانی شمار کرتا ہے، اقوام سابقہ کے افسانے تصور کرتا ہے اور ضیاع اوقات کا سبب بھی، کل جو لڑکا اپنے والد کی پیشانی کا بوسہ دیتے نہیں تھکتا تھا، آج وہی اس میں ننگ و عار محسوس کرتا ہے، نوکری مل جانے کے بعد خود کو اس باپ کے سامنے عظیم گردانتا ہے اور اس کو حقیر سمجھتا ہے جس نے اس کی اچھی تربیت کی، کل وہ ان کی انگلیوں کے سہارے چلتا تھا، اِدھر اُدھر ٹہلتا تھا، مگر آج ان کو خود کی گاڑی میں سوار کرنا نہیں چاہتا، الا یہ کہ اس کے والد شدید طور پر بیمار ہوجائیں اور ہاسپٹل لے جانے کی نوبت آجائے، کل وہ مدرسہ سے تیرے لوٹنے کا انتظار کیا کرتے تھے، آج تُمھیں ان کا بابرکت چہرہ دیکھنا گوارہ نہیں، کیونکہ گھر تاخیر سے پہنچنے پر وہ تمھاری سرزنش کرتے رہتے ہیں، کل وہ تمھارے ساتھ کھیلتے تھے، اپنے کندھے پر بِٹھاتے تھے، آج تم ہو کہ ان کو اپنے ساتھ گاڑی میں بِٹھانا نہیں چاہتے اس ڈر سے کہ کہیں تمھارے ساتھی تمھارا مذاق نہ اڑائیں اور تم پر ہنسیں، کل بات کرنے میں تم سے کافی غلطیاں سرزد ہوجاتی تھیں، وہ اصلاح کردیا کرتے تھے، آج جبکہ وہ تمھیں ڈانتے بھی نہیں، پھر بھی تم ان سے تنگ آجاتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ تمھارے پاس کچھ نہ بولیں، کل وہ تمھارے دوستوں اور ساتھیوں سے سکون قلب کے لیے تمھاری خیریت دریافت کیا کرتے تھے، آج تم اپنا موبائل نمبر چینج کر دیتے ہو تاکہ وہ تمھارے پاس کال نہ کرسکیں، ہلاکت و بربادی ہو تمھارے لیے کہ ان سے قطع تعلق کرنے کی پوری کوشش میں رہتے ہو، کس چیز نے تمھیں اس قدر کبر و غرور اور گھمنڈ میں مبتلا کر رکھا ہے؟ جیسے بھی ہوں وہ تمھارے والد ہیں، اور ایک ایسی عظیم نعمت ہیں جو دوبارہ ملنے والی نہیں، تم یہ سب کیوں بھول رہے ہو، آخر وجہ کیا ہے؟ یاد رکھو! تمھارے ابا جان کو اس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی کیا؟ کہ” تم جو تکلیفیں ہمیں دے رہے ہو اس پر یقینا ہم صبر کریں گے”۔ (ابراہیم:12)
واللہ تم بہت شرمندہ ہوگے جب تمھارے جگر گوشے تمھارے ساتھ ایسا ہی رویّہ اختیار کریں گے، اس وقت تمھارا کیا حال ہوگا؟ اور تمھیں کیسا لگے گا؟ یاد رکھو! “جیسا کروگے ویسا پاؤگے”
والدین اللہ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہیں، لہذا اخلاص کے ساتھ اس نعمت کی قدر کریں، حد درجہ ادب و احترام کریں، ان کی توہین مت کریں، اور نہ ہی حقیر جانیں، ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہوگئے، ان کے دل اداس ہیں، آنکھیں اشکبار ہیں، اور ابا جان کے دیدار کو ترس رہی ہیں، انسان ایک بار بچپنے پر غور تو کرے وہ خود کو ابا جان کی آغوش میں روتا ہوا پائے گا، پھر آپ ایسے شخص سے اس کا حال دل معلوم کریں، کہ وہ کتنا افسردہ ہوتا ہے اور اس پہ کیا گزر رہی ہوتی ہے؟
رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا

5
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
ارشادالحق روشاد المحکم

جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء

ارشادالحق روشاد المحکم

جزاکم اللہ خیرا

Hammadul haque

بارک الله فیک

Shafaur Rahman

جزاك الله خيرا واحسن الجزاء
رب ارحمهما كما ربياني صغيرا

Abdur Rahman

اللهم اغفر له وارحمه واسكنه فسيح جناته يارب العالمين.
رب ارحمهما كما ربياني صغيرا