حقیقی دوست وہ ہے جو ایک دوست کا مونس و غمخوار ہو، اس کے راز کا محافظ ہو،اس سے کوئی غلطی یا خطا ہو جائے تو در گزر کر دے، خود اس سے بھی کوئی لغزش سرزد ہو جائے تو اس کا معترف ہو اور فورا معذرت طلب کرے، دوست کی الجھنوں اور پریشانیوں کو دور کرنے کی ہر ممکن تدبیر اپنائے، اسے دلاسہ اور تسلی دے، با وفا ہو، وعدہ نبھائے، امانت میں کبھی خیانت نہ کرے، دل کا پاک صاف ہو، ذرّہ برابر بغض و حسد نہ رکھتا ہو، عمدہ اخلاق و کردار کا حامل ہو،راست باز اور سچا ہو، دوست کے عیوب کی پردہ پوشی کرے،اس سے حسن ظن رکھے، عدم موجودگی میں بھی اس کی غیبت و چغلی نہ کرے،محفلوں میں بھی ذکر خیر کرے،لوگوں میں اس کی شان بلند کرے،اپنی عظیم دوستی پر فخر کرے،اس کی خوشی و غمی کو اپنی خوشی و غمی تصور کرے۔
در حقیقت اچھا اور سچا دوست وہی ہے جو اپنے ساتھی کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی چاہتا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ(ترمذی)آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے پس تم میں سے ہر ایک غور و فکر کر لے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔
یعنی دوست اسی کو بنایا جائے جو نیک،پرہیزگار اور دیندار ہو، بد خلق، مطلبی اور خود غرض نہ ہو،اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بطور مثال ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دوستی کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے:
إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا
غار ثور میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھی حضرت ابو بکر صديق رضی اللہ عنہ کو مشکل وقت میں یوں تسلی دے رہے تھے کہ تم غم نہ کرو، بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس حقیقی دوست وہی ہے جو مشکل ترین لمحات میں کام آئے، کسی بھی حال میں ساتھ نہ چھوڑے،صبر و شکر اور توکل علی اللہ کی تلقین کرے، معاون و مدددگار ہو، دوست بے بس و مجبور ہو تو اس کا دست و بازو بنا رہے، اگر کسی معاملے میں آراء و خیالات مختلف ہوجائیں تو صفت دوستی پر حرف تک نہ آئے، الفت و محبت برقرار رہے۔
حقیقی دوست دوستی نبھاتا ہے، وہ دوست سے دور نہیں رہنا چاہتا، دور ہوجانے پر بھی بذریعہ کال خیر خیریت دریافت کرتا رہتا ہے، بے تکلف باتیں کرتا ہے،اس کو اطمینان دلاتا ہے، خیر خواہ بن کر کر رہتا ہے، اس کی خامیوں اور عیوب کی نشاندہی کرتا ہے تاکہ دور کر لے۔
ایک دوست دوسرے دوست کے لیے مثل آئینہ ہے، اس کا چہرہ دیکھ کر بھانپ لے کہ وہ خوشی میں ہے یا غمی میں، حزن و ملال میں ہے یا فرحت و شادمانی میں۔یاد رکھیں! دوست مصیبت و پریشانی کے وقت ہی آزمایا جاتا ہے، دوستی اور دشمنی محض اللہ اور اس کی رضا کی خاطر ہو تو اللہ بروز قیامت اپنے سایے تلے جگہ بھی عطا کرے گا جس دن اس کے سایے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔
لہذا دوست وہی تلاش کریں جو آپ کو اللہ سے قریب کرنے والا ہو، آپ سے حد درجہ محبت رکھتا ہو، لایعنی اور فضولیات میں نہ پھنسائے رکھتا ہو،خوش اخلاق، خوش گفتار، خوش ذوق اور خوش طبع ہو،ہر حال میں آپ کا بھلا چاہتا ہو۔
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔
دوستی پہ مختصر لیکن جامع اور شامل تحریر ہے
دوستی کا تقاضا فطرت کے عین مطابق ہے لیکن انتخاب ہمارا ہے کہ مفاد کے لئے ہے یا للہیت کے لیے،
شكراً شیخنا المکرم
بارك الله فى علمك و احسن إليك آمين
جزاکم اللہ خیرا بھائی حوصلہ افزائی کیلئے
ماشاءاللہ قابل تعریف
ماشاءاللہ۔ بہت بہت شکریہ۔
وان يحب المرء لا يحبه الا لله
بہت خوب محترم عمدہ ہے
,,
ماشاءاللہ تبارک اللہ
کیا ہی خوب آپ نے لکھا