تقریر و تحریر

ابوحسان مدنی تعلیم و تربیت

ہر شخص کے پاس لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کے عموما دو ذرائع ہوتے ہیں۔ ایک تحریر (کتابت/قلم)، دوسری تقریر (خطابت/زبان)، لیکن ہر شخص دونوں پر عبور نہیں رکھتا۔ ایسے بہتیرے افراد آپ کو ملیں گے جو میدان خطابت کے شہسوار تسلیم کیے جاتے ہیں، لیکن چند سطور لکھنا ان کے لیے ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوتا ہے، والعکس۔ اور بعض افراد دونوں سے عاری ہوتے ہیں، والعکس، ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم (الجمعة:٤)،

لیکن ہر دو فن میں کچھ باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

اپنی کسی بات یا فکر و خیال کو تحریری صورت میں لاتے ہوئے بہت ہی متنبہ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ الفاظ کو حوالہ قرطاس کرتے ہوئے قلم کار کے پاس عام طور پر کافی وقت ہوتا ہے۔ اور اس معاملہ میں عجلت پسندی کسی بھی صورت میں درست و مناسب نہیں تاکہ جو کچھ تحریری شکل میں پیش کیا جارہا ہے اس میں کسی بھی ناحیہ سے خطا نہ ہو، یا خطا کا امکان کم سے کم ہو۔ جب کہ دوسری جانب تقریر و خطابت کا معاملہ اس سے بالکل الگ اور جدا ہوتا ہے، کیوں کہ کوئی بھی مقرر و خطیب اپنے منتخب موضوع پر کتنی بھی تیاری کرلے، دوران خطابت اکثر کچھ ایسی باتیں ذہن میں آہی جاتی ہیں، جن کو نوک زبان پر لانا ضروری معلوم ہوتا ہے، یا دوران خطابت سبقت لسانی و برق رفتاری کی وجہ سے ہر دو صورت میں بعض غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں، یا غلطیوں کا امکان بڑھ جاتا ہے، جیسے عربی عبارتوں کو پڑھتے ہوئے حرکت واعراب (زبر، زیر، پیش وغیرہ) کا یہاں وہاں ہوجانا، یا ذہن میں کچھ ہو اور زبان سے کچھ اور نکل جائے (رواہ مسلم/رواہ البخاری/بدل الغلط)۔ ایسی چیزوں کا صدور خطباء کرام و مقررین عظام سے عموما ہوتا رہتا ہے۔ رٹے باز خطیبوں کو اس سے استثناء حاصل ہے،(میرے ساتھ بھی کئی بار ایسا ہوا، اس لیے مجھے اس بات کا احساس ہے، اس اقرار کے ساتھ کہ ممکن ہو یہ میری کمزوری ہو)، ایسے میں خطباء کسی حد تک معذور سمجھے جاتے ہیں، لیکن اپنے الفاظ کو حوالہ قرطاس کرتے ہوئے قلم انتہائی سوچ سوچ کر اٹھانا ضروری ہوجاتا ہے، کیوں کہ فن خطابت میں غلطی دوران خطاب ہوتی ہے، جس کی اصلاح کا موقع و محل ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ جب کہ لکھتے وقت ہر بات کی صحت و سقم جانچنے و پرکھنے کا پورا موقع ہوتا ہے، اس لیے کاتب کو چاہیے کہ لکھتے ہوئے ہر بات کی صحت و سقم کا پورا خیال رکھے، بلکہ فقط ان چیزوں پر (فنون میں) ہی لکھے، جن پر اچھا عبور رکھتا ہو، ایسے فنون جن میں عبور نہ ہو، یا ایسے مسئلہ مسائل جن میں وضاحت و صراحت نہ ہو، ان پر خامہ فرسائی سے خصوصا مجھ جیسے نو آموز قلم کاروں کو دور ہی رہنا چاہیے اور انتظار کرنا چاہیے کہ پہلے کبار اہل علم اپنی رائے پیش کردیں، اور اگر ان کے مابین بھی اختلاف وتضاد نظر آئے، تو ایک طالب علم کی حیثیت سے ان کی باتوں کا جائزہ لینا چاہیے، اور جس کی بات اقرب الی القرآن و السنہ ہو اسے اخذ کرنا چاہیے۔ ایسے معاملات میں نہ تو شخصیت پرستی ہونی چاہیے، کہ فلاں شیخ جن کے اقوال و آراء آپ کے نزدیک قابل حجت ٹھہرے، یا آپ پر ان کے علم وفن کا رعب ودبدبہ قائم ہو، اس وجہ سے ان ہی کی باتوں پر عمل کریں اور اس کی نشرو اشاعت میں لگ جائیں، چاہے انھوں نے علمی انداز میں اور دلائل و براہین کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت نہ کی ہو، (اور یہ چیز سلفی منہج کے موافق بھی نہیں ہے)، یا کبار اہل علم سے پہلے آپ ایسے دقیق مسائل میں شیخی بگھارنے لگیں جن میں کمال دقت، وسعت مطالعہ، بالغ نظری اور اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا اپنا قلم سوچ سمجھ کر ہی اٹھانا چاہیے، تاکہ بعد میں کف افسوس نہ ملنا پڑے۔
اللہ ہم سب کو سلیقہ تحریر دے، اور اس ملکہ کے ذریعہ حق کی نشرو اشاعت کی توفیق دے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000