رمضان کا مہینہ بے شمار عظمت واحترام کا مہینہ ہے، اسی میں قرآن نازل ہوا، اسی میں لیلۃ القدر ہے، اسی کے آخری عشرہ میں اعتکاف ہے۔ اس مہینہ میں دن کا روزہ فرض اور رات میں قیام اللیل مطلوب ومؤکد کردیا گیا، اعمال صالحہ کی طرف رغبت دلانے اور برے اعمال سے بچنے کے لیے فرشتے متعین کیے گئے، نیکیوں کے اجر و ثواب میں اضافہ اور دعاؤوں کی قبولیت کے بے شمار مواقع دیے گئے۔
جب کہ روزہ وہ عبادت ہے جو سابقہ امتوں پر بھی فرض تھا، یہ سابقہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ، اللہ کو اس قدر محبوب کہ اس کے لیے خاص، تقوی اور اللہ کی خشیت کا ذریعہ، اعمال صالحہ کے اجروثواب میں اضافے کا موسم بہار، گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال، ایک دن کے عام روزہ کے عوض دوزخ کے 70 سال کے بقدر دوری کی خوش خبری۔ روزے دار کے منہ سے آنے والی بدبو مشک سے زیادہ پسندیدہ، اس کے لیے دوہری خوشیاں ایک افطار اور عیدالفطر کے موقع پر اور دوسری رب سے ملاقات کے وقت، یہ روز قیامت اس کے لیے سفارشی، اہل وعیال مال اور پڑوسیوں کے تعلق سے ہونے والی خامیوں کا کفارہ، اس میں دعاؤں کی قبولیت کے بے شمار مواقع، اور صرف اس کے لیے جنت میں ایک خاص دروازہ “ریان” اور ان سب سے بڑھ کر خود اللہ کی یہ ندا اور فخریہ اعلان کہ اس نے اپنا کھانا پینا اور جائز ازدواجی رشتہ میرے لیے ہی ترک کیا۔
قرآن کریم کی سورۃ بقرہ میں آیت نمبر 183 سے 187 تک رمضان اور روزے کے متعلق بہت سی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ لیکن ایک قابل غور بات یہ ہے کہ درمیان میں اللہ نے ارشاد فرمایا: “﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ﴾:سورة البقرة (186)
یعنی جب بندہ آپ سے میرے بارے میں پوچھے تو آپ کہہ دیجیے کہ میں قریب ہوں، دعا کرنے والا جب دعا کرتا ہے تو میں اسے قبول کرتا ہوں اسے چاہیے کہ مجھ سے دعا کرے اور مجھ پر ایمان رکھے شاید وہ لوگ رشد و ہدایت پا جائیں۔
اس سے اندازہ ہوا کہ رمضان کا دعا سے خاص تعلق ہے اور اسی وجہ سے رمضان میں دعا کی قبولیت کے بے شمار امکانات اور مواقع آتے ہیں۔ اسی طرح افطار کے وقت اور دیگر بہت سے اوقات میں دعا کی قبولیت کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا ہے، اور بعض موقعوں جیسے افطار کے بعد “ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر ان شاء الله” یا لیلۃ القدر میں “اللهم انك عفو تحب العفو فاعف عني” یا تکبیر تشریق کے الفاظ حدیث سے ثابت ہیں۔ ان کا التزام اور خیال کرنا چاہیے لیکن جو کلمات اور دعائیں احادیث سے ثابت نہیں ان کو نہیں پڑھنا چاہیے۔ اور اس سلسلے میں دعا کی حقیقت اور چند دیگر امور کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔
دعا عبادت ہی نہیں اصل عبادت ہے “الدعاء ھو العباده(احمد)”، دعا بندوں کی ضرورت ہی نہیں بلکہ رب کا مطالبہ ہے: “وقال ربكم ادعوني استجب لكم(غافر60)”، دعا ہماری بے بسی کا اظہار نہیں بلکہ اللہ کے نزدیک سب سے محترم شیئ ہے “ليس شيء اكرم على الله من الدعاء(الترمذی)”، دعا اللہ کو ناگوار نہیں بلکہ دعا نہ کرنے والا اللہ کے غضب کا مستحق ہے “من لم يسال الله يغضب عليه(احمد)”، دعا اللہ سے دوری کا نہیں بلکہ اس کو قریب کرنے کا ذریعہ ہے “واذا سالك عبادي عني فاني قريب (بقرۃ186)”، دعا نافرمانوں کا طریقہ نہیں بلکہ انبیاء کی سنت ہے، اور دعا سے غفلت برتنے والے کے لیے اللہ کی سخت وعید ہے “ان الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين”۔(غافر60) قرآن و حدیث میں بے شمار دعائیں ہیں۔ عام بھی اور خاص بھی، مطلق بھی اور عدد و وقت کے ساتھ مقید بھی۔
بعض دعائیں صبح و شام کی ہیں، بعض کھانے سے پہلے اور بعد کی، بعض قضاء حاجت کے لیے جاتے وقت بعض وہاں سے نکلتے وقت، بعض سونے سے پہلے کی بعض سو کر اٹھنے کے بعد کی، بعض سفر کے لیے، تو بعض نئے کپڑے پہننے کے لیے، بعض لیلۃالقدر کے لیے تو بعض یوم عرفہ کے لیے، بعض رکوع و سجود کے لیے تو بعض حج و عمرے کے لیے، بعض بیماری سے شفا کے لیے تو بعض بیماروں کو دیکھنے کے بعد، بعض سفر کے لیے تو بعض سفر سے واپس آنے کے بعد، بعض گھر سے نکلنے وقت تو بعض گھر میں داخل ہوتے وقت۔
مسجد میں داخل ہونے کے لیے الگ دعا اور نکلنے کے لیے الگ، نماز میں ثناء کے لیے الگ، رکوع و سجود کے لیے الگ، رکوع کے بعد کی الگ، سجدے کے درمیان کی الگ، نماز میں سلام سے پہلے الگ سلام کے بعد الگ۔
یعنی خاص موقعوں کے لیے، خاص مقامات کے لیے، خاص عبادات کے لیے خاص دعائیں اور اذکار ہیں۔ لیکن ایک دعا دوسری جگہ کے لیے مناسب نہیں اور دوسری دعائیں ان خاص موقعوں کے لیے خلاف سنت۔ یہاں تک کہ سب سے عظیم عبادت حج کے لیے “تلبیہ” کے نام سے مشہور ذکر غیر حج میں کبھی بھی کسی موقع کے لیے درست نہیں بلکہ حج وعمرہ میں بھی، عمرہ میں طواف سے پہلے اور حج میں یوم النحر کو رمی سے پہلے تک ہی محدود و مشروع۔ سجدے میں بندہ رب سے سب سے زیادہ قریب لیکن اس میں رب کا کلام ہی پڑھنے کی ممانعت “اني نهيت أن أقرا القران راكعا او ساجدا(مسلم)” اسی طرح بعض دعائیں اور اذکار خاص اوقات کے لیے متعین ہیں تو بعض خاص تعداد میں جیسے آیۃ الکرسی اور معوذتین کا صبح و شام تین تین بار پڑھنا، نماز کے بعد سبحان اللہ الحمدللہ اللہ اکبر کا 33 مرتبہ پڑھنا۔
لہذا جو دعائیں جس موقع کے لیے جس عدد میں جس انداز میں پڑھنے کا قرآن و حدیث سے ثبوت اس کو اسی طرح پڑھنا عبادت کی روح کے مطابق، اور الگ دعاؤں کو الگ تعداد میں الگ یا خاص انداز میں اپنی طرف سے بغیر ثبوت کے خاص کر لینا یہ دعا کی روح کے خلاف۔ کیونکہ دعا عبادت ہے عبادات توقیفی یعنی ثابت طریقے پر کرنا ہی مطلوب ہے، لہذا اس کے خلاف جانا عبادات کو غلط رخ دینے کا ذریعہ جو اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
جہاں تک بعض اہل اللہ کے مجربات کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ دعا کی تاثیر اور قبولیت کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں جیسے
۱- اللہ کی خصوصی رحمت
٢- دعا کے کلمات
٣- انداز اور کیفیت دعا
٤- تقوی و طہارت اور احتیاط
۵- اللہ سے حسن ظن
٦- نیکیوں میں سبقت اور مقابلہ
٧- اعمال کا خوف اور اللہ پر یقین
٨- فرائض کے بعد نوافل کا اہتمام
٩- عام زندگی میں حرام سے اجتناب
١٠- حلال کا اہتمام
١١- خوشحالی میں بھی کثرت دعا
١٢- نصوص سے ثابت اوقات کا لحاظ
١٣- الحاح وتضرع وغیرہ وغیرہ…
مذکورہ بالا اسباب اور دیگر دوسرے اسباب میں کون سی چیز دعا کی قبولیت کا اصل سبب ہے یہ بندے کو معلوم نہیں صرف اللہ کا فیصلہ۔ لہذا صرف کلمات کو اہمیت دینا جبکہ مسلم شریف میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی وہ حدیث مشہور ہے کہ جب ریگستان میں ایک شخص کا اونٹ غائب ہونے کے بعد ملتا ہے اور وہ انجانے میں، شدت مسرت سے اللہ کو بندہ اور اپنے کو رب کہتا ہے“اللهم انت عبدي وانا ربك(مسلم)” تب بھی اللہ تعالی اس سے ناراض نہیں ہوتے یعنی بندہ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان سے جب اللہ کے سامنے اپنی بات رکھتا ہے تو اس میں غلطیوں کو بھی اللہ تعالی نظرانداز فرما کر بعض دوسرے اسباب و وجوہات کی بنیاد پر اس کو قبول فرماتے ہیں۔ لہذا کوئی بھی دعا اور ذکر اگر قرآن و حدیث سے ثابت نہیں اور اسے اہل اللہ کا مجرب کہا جائے تب بھی قبولیت کے باوجود اس میں غلطی کا امکان ہے اور کم ازکم دوسرے کے لیے قابل عمل کہنا شریعت کی منشا کے خلاف۔ اللہ تعالی سب کو شریعت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کے تبصرے