انسانیت نوازی ہر صورت میں مطلوب ہے ۔ دنیا میں جتنے انبیاء کرام آئے ان کی تعلیم کا خلاصہ یہی رہا کہ انسانوں کو صرف ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا جائے اور انسانوں کے ساتھ بہتر طریقے سے جینا سکھایا جائے ۔ چنانچہ دینی تعلیمات کو اگر بنیادی طور پر تقسیم کیا جائے تو انہیں دو خانوں میں بانٹا جاسکتا ہے ۔ ایمانیات اور اخلاقیات ۔ دین کا کمال بھی یہی ہے کہ وہ زندگی کا ایک ایسا ڈھانچہ دیتا ہے جس میں اللہ کی عبادت اور بندوں کی خدمت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور دونوں کو ان کا جائز مقام اور مناسب جگہ دی جاتی ہے ۔ یہاں دونوں میں کسی قسم کی کوئی مغائرت نہيں بلکہ یہ دونوں زاویے انسان کی شخصیت کو مکمل کرتے ہیں ۔ مندرجہ ذیل حقائق پر نظر رکھیے تو یہ باتیں بہت اچھی طرح سمجھ میں آئیں گی ۔
قرآن حکیم میں انس وجن کی پیدائش کا مقصد اللہ کی عبادت کو بتلایا گيا ہے۔ وما خلقت الجن و الإنس إلا ليعبدون
تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد بھی یہی بتایا گيا ہے۔ و ما أرسلنا من قبلك من رسول إلا نوحي إليه أنه لااله إلا انا فاعبدون
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے اور اس پر سخت وعید سنائی گئی ہے ۔یہاں تک کہ نبی کو انبتاہ دیا گيا ہے کہ اگر وہ بھی ایسی غلطی کربیٹھیں تو ان کے بھی اعمال اکارت جائیں گے۔ لئن أشركت ليحبطن عملك و لتكونن من الخاسرين
وہیں دوسری طرف انسانوں کے ساتھ بہتر رویہ اپنانے کو بھی کم اہمیت نہیں دی گئی ہے ۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیجیے تو اس سلسلے میں کئی باتیں کافی اہم نظر آئیں گی ۔ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا۔ و ما أرسلناك إلا رحمة للعالمين
انسانی جانوں کو اتنا اہم سمجھا گیا کہ ناحق ایک جان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قراردیا گیا۔ من قتل نفسا بغير نفس أو فساد في الأرض فكأنما قتل الناس جميعا .
اخلاقیات کے جتنے تقاضے ہوسکتے ہیں سب کو باضابطہ منصوص کیا گيا ۔ سرسری طور پر بھی گزریے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی ۔ سکھایا گیا کہ بڑے کی عزت کی جائے ، چھوٹے پر شفقت ۔سکھایا گيا کہ ماں باپ کے ساتھ نہایت محبت اور عزت کا سلوک کیا جائے ، انہيں اف بھی نہ کہا جائے ، اگر وہ ایمان والے نہ ہوں تب بھی ان کے ساتھ حسن سلوک ضرور کیا جائے ، ہاں اللہ کے احکام کی جہاں مخالفت ہورہی ہو تو کسی انسان کی بات نہ مانی جائے ۔ سکھایا گيا کہ پڑوسیوں کے حق کا خیال رکھا جائے بلکہ اتنی تاکید کی گئی کہ اگر کسی کا پڑوسی اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہ ہو تو اس کے لیے جنت کا حصول آسان نہ ہوگا ۔ سکھایا گیا کہ راستے سے تکلیف دہ چيز کو ہٹایا جائے ، سکھایا گیا کہ درخت کے نیچے پاخانہ پیشاب نہ کیاجائے ، سکھایا گیا کہ راستوں پر بیٹھنے سے گریز کیا جائے ، سکھایا گیا کہ صلہ رحمی کی جائے اس کے ساتھ بھی جو قطع تعلقات کرتا ہو ، سکھایا گیا کہ اس طرح اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے کہ دائیں ہاتھ سے دیا جائے تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو ، سکھایا گیا کہ سوال کرنے والوں کو دیا جائے ، ڈانٹا جھڑکا نہ جائے اور جو ضرورت مند سوال نہیں کرتے ان کی خبرگیری کی جائے اور انہيں نوازا جائے ۔ مالداروں کے مال میں باضابطہ زکوۃ کو متعین کیا گيا ، عام صدقہ و خیرات پر ابھارا گیا ،عید سےپہلے صدقۃ الفطر کو ضروری قراردیا گيا ، سکھايا گیا کہ مزدور کواس کی مزدوری پسینہ سوکھنے سے پہلے دی جائے اور اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے ۔ متنبہ کیا گيا کہ اگر اللہ کی عبادت خوب کی اور بندوں کے ساتھ ظلم و تعدی کا رویہ اپنایا تو ایسی عبادت کسی کام کی نہیں ہوگی اور قیامت کے دن نیکیاں مظلوموں کے حوالے کردی جائیں گی ۔بتایا گیا کہ کھانا ، پانی اور کپڑا مانگنے والا آئے تو اسے دے دو کہ کل قیامت کے دن اللہ پاک اس سلسلے میں سوال کرکے یہ تک کہے گا کہ میں نے تم سے کھانا مانگا ، پانی مانگا ، کپڑا مانگا اور تم نے مجھےنہیں دیا ، بندہ کے تعجب اور سوال پر اللہ اسے جواب دے گا کہ میرا فلاں بندہ تمہارے پاس گيا تھا اور تم نے اسے نہيں دیا۔
اب ان دونوں زاویوں پر غور کیجیے تو اسلام میں کتنے توازن سے چیزیں رکھی گئی ہیں ۔ کتنے سلیقے سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو باہم ملایا گيا ہے ۔ یہاں کوئی افراط نہيں ہے اور نہ ہی کوئی تفریط ہے بلکہ حیرت انگیزاور قابل عمل میانہ روی ہے کہ اللہ سے گہرا ، مضبوط ترین اور خوب خوب تعلق بھی ہو اور اللہ کے بندوں سے کوئی بیر ہونے کی بجائے محبت و خدمت کا رشتہ بھی استوار رہے ۔ ایک حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ سب سے بہتر مسلمان وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زيادہ نفع بخش ہو ۔اسلام نے رہبانیت سے منع کیا کہ انسان دنیا سے کٹ کرصرف اللہ کی عبادت میں لگا رہے ، بتلایا گیا کہ اچھا مسلمان وہ ہے جو لوگوں سے دی جارہی تکلیف برداشت کرے اور ان کے بیچ رہ کر ان تک خیر پہچانے کی کوشش کرتا رہے ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد لوگوں کی خبر گیری کرتے تھے ، کوئی نہیں ہوتا تو حالات دریافت کرنے اس کے گھر جاتے ، روزہ کے مقاصد میں تقوی کو بنیادی حیثیت دی گئی اور سمجھایا گیا کہ اگر کوئی گالی دے یا جھگڑے تو کہہ دو کہ میں روزہ سے ہوں ، حج میں رنگ و نسل سے پرے وحدت و اجتماعیت کا درس دیا گيا ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی سیرتیں اسی توازن اور میانہ روی کاآئینہ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کا زیادہ تر حصہ رب کی عبادت میں صرف کرتے ہیں اور بندوں کے ساتھ ایسا رویہ ہے کہ آپ سے حسن اخلاق کی تعریف متعین ہوتی ہے ۔صحابہ کرام کی زندگیاں دیکھیے تو انسان حسن سلوک ، بلند اخلاق اور ایثار و قربانی کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے کہ کیا ایسے لوگ واقعی کبھی روئے زمین کی زینت رہے ہیں ۔
اب اس دینی زاویہ کے بالمقابل لبرلزم اور ہیومنزم کے علمبرداروں کو دیکھیے تو ان کے حساب سے انسان جب تک اللہ سے برگشتہ نہ ہو بندوں سے محبت کرہی نہيں سکتا ۔آپ انسانوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو لازمی طور پر آپ کو مذہب سے نکلنا ہوگا ۔ تنگ نظری کے اس رویے کو بلندخیالی کا نام دیا جاتا ہے ۔ ندافاضلی کاایک شعر ہے
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
سوال یہ ہے کہ مسجد میں عبادت کرتے ہوئے کسی روتے ہوئے بچے کو کیوں نہيں ہنسایا جاسکتا ؟ آخر حقوق العباد کی انجام دہی کے لیے حقوق اللہ کی قربانی کیوں ضروری ہوجاتی ہے ؟ برصغیر کی سطح پر دیکھیے تو صوفیا کرام کو خدمت خلق کےلیے بطور خاص جانا جاتا ہے کیا انہیں لوگوں کی خدمت کے لیے اللہ کی عبادت سے الگ ہونا پڑا ؟جن لوگوں کو دین کی سمجھ ہوگی وہ یقینی طور پر جہاں اللہ کی عبادت کریں گے ، اس سے محبت کریں گے وہیں وہ اللہ کے بندوں سے خیرخواہی کا رویہ بھی رکھیں گے ، ان تک بھلائی پہنچانے کی کوشش بھی کریں گےاور دونوں کام بغیر کسی پریشانی کے حسن توازن کے ساتھ انجام دیں گے ، بے شمار اللہ کے بندے اسے انجام دیتے بھی ہیں لیکن تنگ نظر لوگوں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے اصل اعلا ظرف وہی ہوں ۔
دین انسان کو بہت سی چيزوں کا پابند کرتا ہے جن سے اس کی شخصیت سنورتی ہے ، اباحیت پسند کسی طرح کی پابندی میں رہنا نہيں چاہتے ، وہ عزت وعصمت کے سارے تصورات کو مسترد کرتے ہیں ، آپ دیکھیں گے کہ آزادی کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ کہیں کوئی حدنہ رہے اور اسے آزادخیالی اور روشن خیالی بنادیا جاتا ہے پھر ایک مرد نہ معلوم کتنی عورتوں سے رشتہ بناتا ہے کوئی معنی نہيں رکھتا لیکن اگر کوئی مسلمان ایک سے زائد شادی کرلیتا ہے تو ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے جب کہ شادی کرنے والا شادی کرنے کےساتھ ہی اپنی منکوحہ کی ساری ذمہ داریاں اپنے سر لے لیتا ہے اور جو بغیر کسی نکاح کے رشتے بناتا ہے ، وہ صرف رشتے بناتا ہے کوئی ذمہ داری بھی نہيں لیتا لیکن اسےہی محب نسواں بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔
ان حقائق پر غور کیجیے تو آپ اس نتیجے تک پہنچیں گے کہ دین بیزاری کے پیچھے انسانیت نوازی یا روشن خیالی نہيں ہوتی بلکہ قصور نظر ، تنگ خیالی اور اباحیت پسندی ہوتی ہے جسے چھپانے کے لیے مختلف قسم کے خوشنما پردے ٹکادیے جاتے ہیں لیکن اصل تکلیف تب ہوتی ہے جب بہت سے اچھے لوگ بھی ان پردوں سے دھوکہ کھاکر انہیں تنگ خیالوں کے ہم خیال نظر آنے لگتے ہیں ۔ اللہ ہمیں درست سمجھ دے ۔
آپ کے تبصرے