مؤذن اور اذاں

عبداللہ رفیق متفرقات

مسلمانوں پر دن میں پانچ وقت کی نماز فرض ہے جو ایک اجتماعی عبادت ہے اور اس کو اس کے مقررہ وقت میں ہی مسجد میں ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس فرض کو ادا کرنے اور کروانے کے لیے مسجدوں میں امام اور مؤذن متعین ہوتے ہیں۔ امام پنج وقتہ نمازوں کی امامت کے ساتھ ساتھ خطبہ جمعہ دیتا ہے اور درس و تدریس کے فرائض انجام دیتا ہے اور مؤذن کا اصل کام لوگوں کو نماز کے لیے بلانا ہوتا ہے جسے اذان دینا کہتے ہیں جس میں وہ حی علی الصلاح اور حی علی الفلاح پکارتا ہے یعنی آؤ نماز کی طرف آؤ کامیابی کی طرف مگر ہم اس آواز کی طرف کان تک نہیں دھرتے یا یوں کہیں ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اس کی بہت سی وجہیں ہوسکتی ہیں جیسے دلوں میں نماز کی اہمیت نہ ہونا، سستی و کاہلی یا اللہ اور رسول کا خوف دل میں نہ ہونا۔ لیکن میری نظر میں ایک وجہ اور بھی ہے جس کے سبب مسلمان نماز کی طرف رغبت نہیں کر پا رہا ہے۔
ہماری مسجدوں میں جو مؤذن ہوتے ہیں وہ نیم خواندہ ہوتے ہیں قرأت و تجوید سے پوری طرح سے نابلد ہوتے ہیں اور آواز انکر الاصوات کے مصداق ہوتی ہے، کم پیسوں میں دستیاب ہو جاتے ہیں اس لیے متولیان انہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ الغرض ہمارے یہاں اذان ایک بے روح رسم بن کر رہ گئی ہے بقول علامہ اقبال “رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی” اور کچھ مسجدوں میں تو ایسے ضعیف العمر شخص کو اذان دینے پر معمور کر دیا جاتا ہے جو پوری طرح سے دنیاوی ذمہ داریوں سے خالی ہوتا ہے اور جس کی ضرورت گھر والوں کو نہیں ہوتی اس لیے وہ اپنے بیشتر اوقات مسجد میں ہی گزارتا ہے اور جب وہ بزرگ شخص اذان دیتا ہے تو اللہ کی پناہ… اس کی آواز میں لرزہ رہتا ہے، اس کا جسم اس کی آواز کا ساتھ نہیں دے رہا ہوتا ہے، سننے والوں کو عجیب بے ہنگم سا شور معلوم پڑتا ہے تبھی تو اذان لاؤڈ اسپیکر سے نہ دینے کے حق میں بہت سے مسلمان بھی نظر آجائیں گے اور سونو نگم جیسے لوگ اس کے خلاف کھڑے جگہ جگہ مل جائیں گے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اذان دینے پر معمور ایسے حافظ و قاری کو کیا جاتا جس کی سحر انگیز آواز ہو، جو تجوید سے پوری طرح آشنا ہو تاکہ جب وہ اذان دینا شروع کرے تو لوگ اپنے کاموں سے رک جائیں اور اذان سننے پر مجبور ہوجائیں اور مسجد کی طرف یعنی کامیابی کی طرف ان کے قدم خودبخود بڑھنے لگیں اور جو اس کے خلاف ہیں وہ جب سحر انگیز اذان سنیں تو ان کے منہ سے برجستہ نکلے واہ….. کیا آواز ہے:
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
اور ایسے دور میں جب ہم مسجد نہیں جاسکتے تو کم سے کم مسجد سے آنے والی صدا ایسی خوبصورت ہونی چاہیے جس سے ہم محظوظ و مسحور ہو سکیں۔

آپ کے تبصرے

3000