ابھی چند روز قبل جنوبی ہند کی ایک معروف شخصیت مولانا یوسف جمیل جامعی صاحب کی وفات پر میری ایک تاثراتی تحریر بعنوان ’’جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں‘‘ واٹس اپ گروپوں میں پھیلی تو گھومتی گھامتی ’’دبستان اردو‘‘ میں پہنچ گئی۔ گروپ کے ایک معزز رکن پروفیسر شمس الرب خان صاحب نے – جو ممبئی یونیورسٹی کے پروفیسر بھی ہیں اور اس سے قبل جامعہ سلفیہ بنارس سے فارغ التحصیل بھی ہیں – ایک اشکال پیش کیا اور پھر وہاں سے ایک مفید مباحثہ چلا۔ مناسب معلوم ہوا کہ اس گفتگو کو اور ایسی ہی ایک اور تحریر کو باہم جوڑ کر کچھ حذف واضافہ کے ساتھ ایک مضمون کے پیرائے میں ڈھال کر قارئین کے روبرو پیش کردیا جائے۔
پروفیسر صاحب نے جو اشکال پیش فرمایا تھا اس کا خلاصہ خود ان کے الفاظ میں یہ تھا کہ ”بادہ کش” و ”جام وپیمانہ” شراب نوشی سے جڑے ہوئے الفاظ ہیں، نقل کردہ ہی سہی لیکن کیا ایسے الفاظ استعمال کرنا شرعا درست ہے؟ کیا اس سے شراب نوشی جیسے قبیح فعل کو ہلکا اور خوشنما بنا کر پیش کرنے کی راہ ہموار نہیں ہورہی ہے؟ شراب نوشی حرام کردہ اعمال میں سے ہے، شرع نے شراب نوشی سے منع کیا ہے، ساتھ ہی حرام کردہ اعمال کا سد باب شرع کی طبیعت میں ہے۔ اس سیاق میں، ایسے قول و عمل کا کیا حکم ہے جو شعوری یا لاشعوری طور پر حرام کردہ اعمال کو ہلکا یا خوشنما بنا کر پیش کرتے ہوں خاص طور پر ایسی حالت میں جب کہ ان سے بچنا ممکن ہو؟ اسی ضمن میں یہ بنیادی سوال بھی زیر بحث آیا کہ الفاظ واصطلاحات کے استعمال کے سلسلے میں کیا کوئی شرعی ضابطہ بھی ہے؟
پروفیسر صاحب کے اس اعتراض یا اشکال کا پہلے تو یہ مجمل جواب دے دیا گیا کہ: اگر ایسا کوئی تاثر پیدا ہوتا ہو اور شراب نوشی جیسے حرام عمل کے شعوری یا غیر شعوری طور پر خوشنما بننے کی راہ ہموار ہو تو یہ اشکال اور گرفت بھی بالکل بر محل ہے اور اس سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن جہاں تک اردو زبان کی بات ہے کوئی ان الفاظ سے ایسا کوئی مفہوم اخذ نہیں کرتا۔ واللہ أعلم
پھر اس اجمال کی درج ذیل تفصیل (مع اضافہ) سامنے آئی……
الفاظ کا ذخیرہ کسی بھی زبان کا بنیادی عنصر ترکیبی ہوتا ہے اور زبان تہذیب سے بنتی ہے مذہب سے نہیں۔ البتہ مذہب اس تہذیب میں اپنا کردار ضرور ادا کرتا ہے، تہذیب خیر وشر کا مرکب ہوتی ہے، مذہب خیر وشر کی پہچان دیتا اور خیر کے اپنانے اور شر سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق تہذیب کے مختلف گوشوں کی طرح زبان وبیان کا گوشہ بھی اس حیثیت سے مذہب سے جڑا ہے۔ حلال وحرام یا جائز ومستحسن یا غیر مستحسن کی تقسیم یہاں بھی ہے۔ مختلف معاملات میں شریعت کا ایک موقف یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض معاملات کو دو ٹوک رد بھی نہیں کرتی لیکن اس کے ترک کو مستحسن ضرور قرار دیتی ہے۔ یہی معاملہ الفاظ کے ساتھ بھی ہے، شریعت اسلامیہ نے بہت تھوڑے الفاظ یا اصطلاحات کے سلسلے ہی میں سہی مگر انھیں صحیح، ممنوع یا غیر مستحسن قرار دیا ہے۔
بہت سارے قارئین کے لیے یہ بات کسی اچنبھے سے کم نہ ہوگی اور وہ سمجھتے بھی ہوں گے کہ یہ ’’حرف گیری‘‘ محض مذہب کے ٹھیکیداروں کی تنگ نظری ہے جس کا تعلق مذہب سے کم خود ان کی اپنی سطحی فکر سے زیادہ ہے۔ لیکن جس شخص کی نظر اسلام کی آفاقی تعلیمات پر ہو اور جو اسلام کے اصلاحی مشن کی وسعتوں کا ادراک رکھتا ہو، نصوص شرعیہ میں وارد الفاظ و اصطلاحات کے استعمال سے متعلق تعلیمات اس کے پیش نظر ہوں اور جو اس حقیقت سے بھی واقف ہو کہ الفاظ صرف الفاظ نہیں ہوتے وہ کسی تہذیب اور اس کے افکار و نظریات کے ترجمان بھی ہوا کرتے ہیں۔ اور جو یہ مانتا ہو کہ بندگی کا دائرہ اس حصہ کو بھی شامل ہے کہ بندہ اپنی زبان وبیان کو بھی اللہ کی عبودیت کے رنگ میں رنگ لے تو اس کے نزدیک نہ یہ موضوع غیر اہم ہے اور نہ اس سلسلے میں شریعت اسلامیہ کی عائد کردہ حدبندیاں بوجھ لگتی ہیں۔ بلکہ ایک بندہ یہاں بھی بندگی کے کمال کو پانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے: (إن العبد لیتکلم بالکلمۃ ما یتبین فیھا یزل بھا في النار أبعد ما بین المشرق والمغرب)
بندہ بسا اوقات ایک لفظ یا جملہ ایسا بول جاتا ہے جس پر وہ غور نہیں کرتا جس کے بدلے وہ جہنم کی اتنی گہرائی میں پہنچ جاتا ہے جتنی دوری کہ مشرق ومغرب کے درمیان ہے (متفق علیہ واللفظ لمسلم)
غور نہیں کرتا سے مراد کیا ہے؟ اس کی وضاحت بعض شارحین نے یوں کی ہے: (لایتدبرھا ولایفکر في قبحھا وما یترتب علیھا)
یعنی انسان یہ سوچے بنا بولتا ہے کہ اس کے اس جملہ کی حقیقت کیا ہے؟ اور اس کے اندر کیا قباحت ہے؟ اور اس جملہ کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے؟
الفاظ کا یہ معاملہ بسا اوقات بہت حساس بھی ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب ان میں سے کسی لفظ سے عقیدہ کا کوئی مسئلہ وابستہ ہو۔ اس سلسلے میں کتب حدیث میں متعدد الفاظ سے متعلق الگ الگ احادیث وارد ہیں، ایسے الفاظ کو اکٹھا کر کے ان کی وضاحت اور ممانعت کی وجہ کا جائزہ لے کر اردو زبان میں ایک بہترین کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے۔ امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم کے اندر ایک مستقل کتاب بعنوان (کتاب الألفاظ من الأدب وغیرھا) لکھی ہے۔
الفاظ کی اسی غیر معمولی اہمیت اور شریعت اسلامیہ میں اس پہلو کی طرف دی گئی توجہ کے پیش نظر ہی عبقری زمانہ علامہ بکر ابوزید رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو کتابیں ’’معجم المناھي اللفظیۃ‘‘ اور ’’فوائد في الألفاظ‘‘ تصنیف فرمائی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں تقریبا ڈیڑھ ہزار کلمات سے متعلق شرعی موقف کو واضح فرمایا ہے جو یا تو بلا نکیر مستعمل ہیں حالانکہ شرعا ان کا استعمال محل نظر ہے یا پھر بعض لوگوں کو ان الفاظ کے استعمال پر اعتراض ہے حالانکہ تحقیق کے بعد ان کے استعمال میں کوئی قباحت ثابت نہیں ہوتی۔
بکر ابو زید رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے مقدمے میں متقدمین اہل علم کی ان تصانیف کا بھی تذکرہ کیا ہے جو اسی مقصد سے لکھی گئی تھیں۔ جو ایک طرف اس مسئلہ کا ثبوت ہے کہ یہ معاملہ نئے دور کی حِدت یا جدت کا نتیجہ نہیں تو دوسری طرف اسلاف کے کارناموں کا ایک اور سنہرا باب ہمارے سامنے کھولتا ہے جو بتلاتا ہے کہ سلف صالحین نے علم کی کس کس شاخ پر اپنے آشیانوں کے نمونے چھوڑے ہیں۔ بطور نمونہ یہ چند نام ملاحظہ فرمائیں:
(۱) النجاۃ من ألفاظ الکفر مؤلف : عرب شاہ سلیمان بن عیس البکری الحنفی ۶۹۵ھ
(۲) رسالۃ في ألفاظ الکفر لابن قطلوبغا ۸۷۹ھ
(۳) تشیید الأرکان في : لیس في الإمکان أبدع مما کان مؤلف : السیوطی ۹۱۱ھ
(۴) المناھي اللفظیۃ : مؤلف الشیخ محمد بن صالح العثیمین۱۴۲۱ھ
(۵) فقہ الکلمۃ ومسؤولیتھا فيالقرآن والسنۃ مؤلف : محمد بن عبدالرحمن بن عوض (معاصر)
اس بنیادی حقیقت کے واضح ہوجانے کے بعد ہم اس مسئلہ کی طرف بڑھتے ہیں کہ الفاظ واصطلاحات اور ان کے شرعی حکم کے جاننے کا ضابطہ کیا ہوسکتا ہے؟
الفاظ و اصطلاحات کو شرعی ناحیہ سے تین قسم میں بانٹا جاسکتا ہے۔
1۔ پہلی قسم ان الفاظ کی ہے جو خود شریعت میں مستعمل ہیں۔ قرآن وسنت یا صحابہ کرام کے آثار میں جن کا تذکرہ واستعمال عام ہے۔ ظاہر بات ہے ایسے الفاظ کے جائز ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہونا چاہیے۔
2۔ دوسری قسم ان الفاظ کی ہے جن کے استعمال سے شریعت میں ممانعت وارد ہے۔ اس ممانعت کے پیچھے پوشیدہ اسباب مختلف ہوسکتے ہیں، تاہم شریعت نے جس کسی لفظ یا تعبیر کے استعمال سے منع فرمایا ہے وہ سارے کے سارے اس قسم میں داخل مانے جائیں گے۔
نبی ﷺ کی حین حیات بعض یہود نے لفظ ’’راعنا‘‘ کے ساتھ شرارت کی تو اللہ تعالی نے یہ حکم نازل فرمایا: {یا أیھا الذین آمنوا لاتقولوا راعنا وقولوا انظرنا واسمعوا وللکافرین عذاب ألیم}
اے ایمان والو! تم (نبیﷺ کو)’’راعنا‘‘ نہ کہا کرو بلکہ ’’انظرنا‘‘ کہو یعنی ہماری طرف دیکھیے اور سنتے رہا کرو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(البقرۃ : ۱۰۴) واقعہ اور پس منظر کو جاننے اور ’’راعنا‘‘ اور’’انظرنا‘‘ کے فرق کو مزید سمجھنے کے لیے تفاسیر دیکھ لی جائیں۔
شریعت میں ممنوع الفاظ کی فہرست میں سے ایک لفظ کسی بادشاہ کا خود کو شہنشاہ کہنا یا کہلوانا بھی ہے۔ نبی ﷺ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(إن أخنع اسم عنداللہ رجل تسمی ملک الأملاک، لا مالک إلا اللہ)
اللہ تعالی کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ نام اس شخص کا ہے جو خود کو شہنشاہ کہے جبکہ اللہ کے علاوہ کوئی مالک حقیقی نہیں۔ (متفق علیہ) سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے اس عربی لفظ کی تفسیر کرتے ہوئے عجم میں مستعمل لقب ’’شہنشاہ‘‘ کو اس کا ہم معنی لفظ قرار دیا ہے۔
ایک اور مثال معاملات کے دنیا کی ہے۔ عربوں کا رواج تھا کہ وہ انگور کو ’’کرم‘‘ کہتے تھے۔ اس کے پیچھے یہ مقصود تھا کہ عرب میں جو شراب عام تھی اس کی سب سے نفیس قسم انگور سے بننے والی شراب تھی اور ان کا دعوی تھا کہ شراب پینے کے بعد ان کی سخاوت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا تھا۔ اسی لیے انھوں نے خود شراب کو ’’کرم‘‘ یعنی ’’سخاوت‘‘ کا نام دے دیا۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’لا تسموا العنب کرما‘‘ انگور کو ’’کرم‘‘ سخاوت کا نام نہ دو، سخاوت تو مومن کا دل ہے۔ (بخاری ۶۱۸۲۳ ومسلم ۲۲۴۷) یعنی سخاوت کی نسبت انگور کے بجائے دل سے بالخصوص ایک مومن کے دل سے ہے۔ لہذا انگور کو ’’کرم‘‘ نہ کہو۔ اس جیسے متعدد الفاظ ہیں جن کے استعمال سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔ کتب حدیث میں یا پھر بکر ابوزید رحمہ اللہ کی تصنیف ’’معجم المناھي اللفظیۃ‘‘ کی طرف رجوع کرکے ان سے واقفیت حاصل کی جاسکتی ہے۔
3۔ الفاظ کی تیسری قسم میں وہ الفاظ آتے ہیں جن کا ذکر یا ممانعت دونوں شرع میں وارد نہیں ہے۔ اس تیسری قسم میں تفصیل ہے یا یوں سمجھ لیں اس تیسری قسم کی پھر تین قسمیں یا تین شق ہیں:
أ۔پہلی شق : کسی بھی زبان میں مستعمل وہ الفاظ جو شرع میں وارد تو نہیں لیکن اپنے مفہوم اور دلالت میں شرع کی کسی بات یا تعلیم سے ٹکراتے نہیں۔ ایسے الفاظ کے درست ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور ان کے استعمال میں کسی قسم کی قباحت نہیں۔ کسی بھی زبان کا اکثر حصہ بلکہ اصل حصہ ایسے ہی الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ماکولات ومشروبات میں جس طرح اصل حلت ہے شریعت کی نظر میں ان کا اصل حکم حلال کا ہوتا ہے اور بہت تھوڑی سی اشیاء ہیں جنھیں شارع نے حرام قرار دیا ہے۔ بالکل اسی طرح الفاظ و اصطلاحات کی وسیع دنیا میں سے بھی محض بعض الفاظ ہی ہیں جو شرع کی نظر میں قابل اعتراض ہوسکتے ہیں۔ جس طرح نبی ﷺ نے عربوں کے درمیان رہتے ہوئے ان کی زبان کو جوں کا توں باقی رکھا بلکہ عربوں ہی کی زبان میں قرآن مجید اتارا گیا اور آپ ﷺ نے صرف ان الفاظ پر تنبیہ فرمائی جن پر حقیقت میں شرعی ناحیہ سے اعتراض تھا بالکل اسی طرح ہر زبان کی اصل اور اس کے اکثر الفاظ و تعبیرات درست اور شریعت کی نظر میں مقبول ہوتے ہیں۔
ب۔ دوسری شق: زبان وبیان میں رائج وہ الفاظ یا اصطلاحات جن کا تذکرہ یا ممانعت تو شریعت میں صراحت کے ساتھ نہیں آئی البتہ ان الفاظ کی دلالت اور مفہوم شریعت کی کسی تعلیم سے متصادم ہو۔ اس کا جو بھی مفہوم معروف ہو وہ شریعت کی نظر میں قابل نکیر ہو ایسے الفاظ اور اصطلاحات سے کلی اجتناب شرعا واجب ہوگا۔ جیسے یہ الفاظ یا تعبیرات ہیں’’دختر نیک اختر‘‘ یا ’’فلاں کے ستارے گردش میں ہیں‘‘ یا ’’فلاں کا ستارہ اقبال بلند ہو‘‘ یہ تینوں کی تینوں تعبیرات ستارہ پرستی یا زمین اور اہل زمین پر ستاروں کی تاثیر کو ماننے والے عقائد پر مبنی تعبیرات ہیں۔ ان میں آدمی کے نصیب کو ستاروں سے جوڑا گیا ہے جو شریعت اسلامیہ کی نظر میں سراسر بدعقیدگی پر مبنی تصور ہے۔ لہذا ان الفاظ وتعبیرات سے بچنا لازمی ہے۔
اس سلسلے کی ایک اور مثال روحوں کے بھٹکنے سے متعلق لوگوں کے تصورات اور ان پر دلالت کرنے والے الفاظ اور تعبیرات ہیں۔ جیسے ’’بھٹکتی آتما‘‘ یا ’’فلاں شخص میں فلاں کی روح حلول کرگئی ہے‘‘ یا ’’روحوں کی حاضری‘‘ وغیرہ۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق کسی بھی شخص کی فطری یا حادثاتی موت کے بعد اس کی روح کا ٹھکانہ اس کی قبر اور علیین یا سجین میں ہوتا ہے۔ روح کے بھٹکنے یا دنیا میں کسی اور انسان کے اندر حلول کرجانے جیسی باتیں بے بنیاد ہیں۔ لہذا وہ الفاظ و تعبیرات جو اس عقیدہ کی ترجمانی کرتے ہوں ان کا استعمال اور رواج شرعا ممنوع ہے ض۔
ج۔ تیسری شق: ان الفاظ کی ہے جن کے مفہوم میں صحیح و غلط دونوں کا احتمال ہو۔ یعنی وہ الفاظ اپنے اندر ایک سے زائد مفہوم رکھتے ہوں جن میں سے ایک مفہوم درست ہو تو دوسرا شریعت سے متصادم ہو۔ دراصل الفاظ و اصطلاحات کا اپنا ایک حقیقی معنی ہوتا ہے اور پھر استعمال میں ان کو کئی نئے معانی مل جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بسا اوقات یہ طے کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ ان میں سے اصلی اور حقیقی معنی کون سا ہے۔ ایسی صورت میں ان الفاظ کو نہ دو ٹوک رد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بلا روک ٹوک ان کواستعمال کیا جاسکتا ہے۔
اب کسی بھی جملہ یا شعر میں ان الفاظ سے مطلوب ومقصود مفہوم کا تعین کسی بھی ذریعے ممکن ہو تو پھر اسی کے مطابق حکم لاگو ہوسکتا ہے۔ متعین ہونے والا مفہوم شریعت اسلامیہ سے متصادم نہ ہو تو اس کا استعمال اس مفہوم میں جائز ہے اور اگر متصادم ہو تو پھر اس کا استعمال ناجائز اور غلط ہے۔ اس ضابطہ کی دلیل کے طور پر سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا أثر پیش کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے ’’شہنشاہ‘‘ کو ’’ملک الأملاک‘‘ کا ہم معنی پایا تو اس حکم میں’’شہنشاہ‘‘ کے لقب کو بھی شامل کردیا۔ (متفق علیہ)
اب سوال یہ ہے کہ کسی بھی ایسے لفظ سے مراد مفہوم کیسے کیا جائے؟ اس لفظ کے صحیح یا غلط دونوں میں سے کسی ایک مفہوم کے تعین کے ذرائع کیا ہوسکتے ہیں تو وہ درج ذیل ہیں:
۱۔جملے میں ان الفاظ واصطلاحات کا سیاق وسباق۔ یہ کسی بھی لفظ کے مفہوم کا تعین کرنے یا طے کرنے میں سب سے زیادہ معاون ہوتا ہے۔
۲۔بسا اوقات لکھنے بولنے والے کی شخصیت اس کی مرادومنشا کو بتا دیتی ہے یا پھر اس سے براہ راست استفسار کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اس کی مراد کون سا مفہوم ہے۔
۳۔ عرف میں اس لفظ کے استعمال کو دیکھیں، کسی بھی زبان یا اہل زبان کی تہذیب ان کے درمیان مستعمل اس لفظ کے معروف معانی کے تعین میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
یہ یا ان جیسے قرائن یہ طے کرنے میں مدد دیں گے کہ کسی بھی ایسے لفظ کے معانی میں سے – جس کا ایک غلط تو دوسرا صحیح معنی ہے – کون سا معنی جملہ میں مقصود ہے۔ پھر جو مفہوم متعین ہوگا اسی اعتبار سے اس لفظ کے استعمال یا عدم استعمال کا فیصلہ خود بخود ہوجائے گا۔ اس کی مثال درج ذیل الفاظ ہیں:
(۱)تخلیق کار: اردو زبان میں یہ اصطلاح عام ہے۔ کسی بھی شاعر کے کلام کو اس کی تخلیق کہنا یا یہ کہنا کہ اس شعر کا خالق فلاں ہے بہت عام ہے۔ اب اس لفظ میں دوہرا اشکال ہے۔ ایک تو یہ کہ کیا غیر اللہ کو خالق کہنا درست ہوگا؟ اور دوسرا یہ کہ اہل سنت کے عقیدے کے بالکل برعکس معتزلہ کا عقیدہ یہ ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خالق خود ہوتا ہے۔ اب اس تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں کسی شعر کو کسی انسان کی تخلیق کہنا کہاں تک درست ہے؟
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ جان لیں کہ تخلیق کی نسبت غیر اللہ کی طرف قرآن وسنت میں وارد ہے لیکن ایسی صورت میں اس کا مفہوم خالق کائنات کی تخلیق کے مفہوم سے جدا ہوتا ہے (عقیدہ کی مفصل کتابوں میں ان دونوں بحثوں کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے (۱)اللہ اور غیر اللہ کی طرف تخلیق کی نسبت میں کیا فرق ہے؟ (۲)بندوں کے افعال کا خالق اللہ یا بندے خود ہوتے ہیں؟) لہذا یہ دیکھا جائے کہ کیا لکھنے بولنے والا اسی مفہوم میں اس لفظ کا استعمال کررہا ہے جو مخلوق کے حق میں جائز ہے؟ اور پھر مخلوق کے لیے جائز اس معنی میں کسی شعر کو کسی شاعر کی تخلیق قرار دینا جائز ہوسکتا ہے البتہ اس سے بچنا پھر بھی بہتر ہی ہوگا۔
اس لفظ میں ایک اور اشکال بھی ہے۔ یہاں یہ احتمال بھی باقی رہتا ہے کہ تخلیق کی نسبت شاعر کی طرف کرنے والا کس معنی میں اس کی نسبت ایک انسان کی طرف کررہا ہے؟ اگر مخلوق کے لیے جائز مذکورہ بالا مفہوم میں کررہا ہے تو وہ جائز ہے اور اگر معتزلہ والے مفہوم میں کررہا ہے تو پھر اس کے ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
(۲)نبی پاک: دوسری مثال نبیﷺ کو نبی پاک کہنے کی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نبیﷺ معصوم عن الخطا ہیں۔ یہ اہل سنت والجماعت کا متفق علیہ عقیدہ ہے اور اس معنی میں نبی ﷺ کو اگر کوئی نبی پاک کہتا ہے تو بالکل بجا ہے۔ لیکن وہیں اس عبارت کا ایک اور معنی تقدس اور پاکیزگی کا ہے جس سے مراد ہر قسم کے عیب ونقص سے اور بشری تقاضوں سے پاک ہونا بھی ہے، اس دوسرے مفہوم ہی میں ’’القدوس‘‘ صرف اللہ تعالی ہے اور صرف وہی ’’پاک ‘‘ ہے اور اس معنی میں صرف اللہ کو پاک ماننا اس کی توحید ہے تو غیراللہ کے لیے اس مفہوم میں اس لفظ کا استعمال کرنا شرک ہے۔ صوفیاء کے نزدیک ایک طرف نبیﷺکو بشری صفات اور درجات سے بلند ماننے اور اس پر اصرار کرنے کا عقیدہ ہے تو دوسری طرف بکثرت نبیﷺ کے لیے ’’نبی پاک‘‘ کا استعمال بھی رائج ہے۔ ظاہر ہے اس سیاق میں یہ لفظ قابل قبول نہیں رہ جاتا۔ اس طرح ’’نبی پاک‘‘ کہنا دو طرح کے معانی اپنے اندر رکھتا ہے جن میں سے ایک شریعت کی نظر میں صحیح ہے تو دوسرا بالکل غلط۔
یہ دو مثالیں ہیں جو صرف یہ بتانے کے لیے پیش کی گئیں کہ بسا اوقات ایک ہی لفظ ایک سے زائد معانی کا امکان رکھتا ہے جن میں سے ایک شرعا درست ہے تو دوسرا محل نظر۔
ہم نے یہاں ایسے الفاظ منتخب کیے ہیں جن کا تذکرہ یا ممانعت دونوں کے دونوں شریعت میں صراحت کے ساتھ وارد نہیں ہیں۔ البتہ اس قسم کے الفاظ میں بہت سارے وہ الفاظ بھی داخل ہوجاتے ہیں جن کے سلسلے میں شریعت میں ممانعت بھی وارد ہے تو دوسری طرف ان کا استعمال بھی ملتا ہے۔ جیسے غلام اگر اپنے مالک اور آقا کے لیے لفظ ’’رب‘‘ کا استعمال کرے تو حکم کیا ہے؟ یا نبی ﷺ کے لیے لفظ ’’سید‘‘ کا استعمال۔ احادیث میں ایک طرف ان سے ممانعت وارد ہے تو دوسری طرف ان کا استعمال بھی وارد ہے۔
ایسی صورت میں صحیح موقف یہی ہے کہ ان الفاظ کو نہ دو ٹوک رد کیا جائے اور نہ ہی بلا روک ٹوک ان کے استعمال کو درست ٹھہرایا جائے۔ ایسی صورت میں بہتر یہی ہوگا کہ آدمی چاہے تو خود ایسے محتمل الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرے لیکن کوئی دوسرا اس کا استعمال کرے تو پھر اس کے قبول یا رد کرنے میں میانہ روی اختیار کرے جیسا کہ اوپر تفصیل گزری ہے۔
اس ساری تاصیلی وتفصیلی گفتگو کے بعد ہم آتے ہیں ’’بادہ کش‘‘ یا ’’جام وپیمانہ‘‘ جیسے الفاظ کے استعمال کی طرف۔ اہل علم اور اہل زبان بخوبی واقف ہیں کہ یہ الفاظ اپنے حقیقی معنی سے آگے بڑھ کر اردو ادب میں بہت سارے مفاہیم کو اپنی دلالت میں سمیٹ چکے ہیں، الفاظ بھی اپنا سفر طے کرتے ہیں اور تاثر وتاثیر اور اخذ وعطا کا ایک سلسلہ ان کے ساتھ بھی بندھا رہتا ہے، اردو زبان میں شراب اور اس کے متعلقات اس کی سب سے واضح مثال ہیں۔ اردو زبان و ادب میں پیمانہ، جام، مستی، نشہ جیسے الفاظ جہاں شراب اور شرابیوں کے آلات اور ان کی کیفیت کا پتہ دیتے ہیں وہیں اچھے اور صحیح معانی اور جذبات کی ترجمانی کے لیے بھی بکثرت ان کا استعمال عام ہے اور ان الفاظ کے ان صحیح معانی کی ترجمانی میں استعمال کو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔ اہل علم کی زبان وقلم کی نوک پر جامِ شہادت نوش کرنا، بادہ توحید وغیرہ کی تعبیرات عام ہیں۔
اسی حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے غالب نے کہا تھا ؎
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
گویا یہ الفاظ اور ان کا یہ استعمال مذکورہ بالا تقسیم کی روشنی میں تیسری قسم کی تیسری شق میں داخل ہوجاتے ہیں۔ یعنی ایسے الفاظ جن کا ایک مفہوم شریعت سے متصادم ہے تو دوسرا مفہوم شرعا درست ہے۔ اب یہاں پھر یہی کہا جائے گا کہ ان الفاظ کے اس استعمال کو دو ٹوک ردنہ کیا جائے۔ ایسی صورت میں بہتر یہی ہوگا کہ آدمی چاہے تو خود ایسے محتمل الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرے لیکن کوئی دوسرا اس کا استعمال کرے تو پھر اس کے قبول یا رد کرنے میں میانہ روی اختیار کرے۔
اس مسئلہ کی ایک اور مثال شاعر کی تشبیب پر مبنی شاعری ہے۔ یعنی شاعر اپنی شعر گوئی میں ابتدا اپنی مفروضہ محبوبہ کے نام چند اشعار کہنے سے کرتا ہے جس سے اس کے عاطفہ یعنی دلی جذبات کو تحریک ملتی ہے اور زبان میں قوت پیدا ہوتی ہے پھر جب وہ اپنے حقیقی مقصد کی طرف آتا ہے تو اس کی شاعری بڑی جاندار ہوتی ہے۔ اگر کوئی تشبیب اور فحش گوئی کے اس فرق کو نہ سمجھے تو شاعر رسول حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بھی کٹہرے میں کھڑا کردے جبکہ رسول اکرم ﷺ نے ان کے حق میں یہاں تک فرمایا: (إن روح القدس لایزال یؤیدک مانافحت عن اللہ ورسولہ)
جبریل امین برابر تمھاری مدد کرتے رہیں گے جب تک تم اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دفاع کرتے رہوگے۔ (مسلم :۲۴۹۰)
یہاں تک تو معاملہ کا ایک پہلو صاف ہوجاتا ہے کہ’’بادہ کش‘‘ یا ’’جام وپیمانہ‘‘ جیسے ان الفاظ کا جائز یا شرعی اور صحیح مفاہیم کی ترجمانی کے لیے بلاغت اور ادبی پیرائے میں استعمال درست ہے۔ اس سیاق میں ان کے اس استعمال کی حیثیت تشبیہ یا استعارہ کی ہوتی ہے۔ البتہ اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کی طرف ہمارے پروفیسر صاحب نے ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہ ’’یہ الفاظ نقل کردہ ہی سہی لیکن کیا ایسے الفاظ کا استعمال کرنا درست ہے؟ کیا اس سے شراب نوشی جیسے قبیح فعل کو ہلکا اور خوشنما بنا کر پیش کرنے کی راہ ہموار نہیں ہورہی ہے؟‘‘
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ زبان وبیان میں جب فصاحت وبلاغت کا پہلو مدنظر ہوتا ہے تو پھر کسی کا ذہن نہ حقیقی شراب کی طرف جاتا ہے اور نہ میخانہ کی طرف۔ پھر اس کے لکھنے بولنے والے ہی نہیں سننے اور پڑھنے والے بھی ان الفاظ کا وہی مفہوم سمجھتے ہیں جو لکھنے اور بولنے والے کی مراد اور منشا ہے۔ لہذا قباحت کا یہ پہلو موہوم سا رہ جاتا ہے۔ بنا بریں اس کے استعمال کو شرعا محل نظر قرار دینا شاید زیادتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ معتبر ومستند علماء کرام کی نثر ہو کہ نظم دونوں میں یہ یا ان جیسی تعبیرات کا استعمال عام ہے اور اسے معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔ البتہ اگر کوئی اس سے پرہیز کرتا ہے کہ زبان میں اس قدر گنجائش ہے کہ میں انہی مفاہیم کو فصاحت وبلاغت کے دیگر پیرائے میں بیان کرسکتا ہوں اس طرح کہ مجھے اس جیسی تعبیرات کی ضرورت نہیں تو انسان کا اپنا یہ شخصی فیصلہ ہے جو بوجوہ بہتر بھی ہےم گویا ایسی صورت میں معاملہ عمومی فتوی سے شخصی تقوی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے یعنی اس پر حرمت یا مطلقا کراہت کا لیبل تو لگانا مشکل ہوگا لیکن اگر کوئی پرہیز کرتا ہے تو یہ اس کا کمال ہے۔ واللہ أعلم بالصواب
بہترین تحریر اللہ مزید قوت قلم میں تاثیر دے آمین.
ماشاءالله بہت ہی جاندار اور معلوماتی مضمون ہے، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ