اپنی رہائش گاہ پر میں کچھ علمی کاموں میں مصروف تھا کہ اچانک واٹس ایپ اور فیسبوک کے ذریعہ رنج وغم سے بھری خبر موصول ہوئی کہ شیخ عین الباری اب اس دنیا نہیں رہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
آپ کی سوانح عمری پر تو آپ کے شاگرد، قریبی رشتے دار یا آپ کے علمی ہم سفر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔ مگر درج ذیل تحریر صرف ایک تاثراتی پیغام ہے جو ان کی ہمہ گیر وہمہ جہت شخصیت، علم وفن میں ان کی گیرائی و گہرائی اور جماعت وجمعیت کی بے لوث خدمات سے متاثر ہوکر حوالہ قرطاس کیا گیا ہے۔
میرے علم کے مطابق شیخ کی تعلیم وتربیت دینی مدارس نظامیہ میں روایتی طور پر نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی سلفی ادارہ کے فارغ التحصیل تھے، بلکہ آپ کی تعلیم پورے بنگال میں پھیلے ہوئے سرکاری عالیہ مدرسہ میں ہوئی، جہاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد مزید علمی پیاس بجھانے کے لیے یا بالفاظ دیگر اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ڈھاکہ یونیورسٹی بنگلہ دیش کا رخ کیا، یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عالیہ مدرسہ جو ابھی عالیہ یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے، میں بحیثیت لکچرر ریٹائرمنٹ تک خدمات انجام دیتے رہے۔ شاید ان کے نام میں عالیاوی کی نسبت اپنی اسی مادر علمی کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
شیخ عین الباری بلا کے ذہین و فطین تھے، ان کی ذہانت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انھوں نے بہت ہی کم مدت یعنی چھ مہینے میں پورا قرآن کریم یاد کرلیا تھا۔ اسی لیے بڑے فخر کے ساتھ اپنے نام کے ساتھ حافظ لگایا کرتے تھے۔ ان کے سلسلے میں ایک بات مشہور تھی کہ جس چیز پر ایک مرتبہ نظر پڑتی وہ ذہن نشین ہو جاتی۔ آپ کی شخصیت ہمہ گیر و ہمہ جہت تھی، آپ بیک وقت ایک اچھے مصنف، شعلہ بیاں خطیب، مفسر، صحافی اور اتنظامی امور کے ماہر تھے۔ عالیہ یونیورسٹی میں ایک لمبے عرصے تک پروفیسر رہنے کی وجہ سے آپ کے شاگردوں کا ایک وسیع حلقہ اور سلسلہ ہے۔ آپ بنگلہ زبان میں پچاس سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں، آپ کی دو کتاب (سلفی قاعدہ اور سلفی بورنو پریچۓ) بنگال کے اکثر مدارس میں داخل نصاب ہے۔ اسی وجہ سے شیخ کو اللہ تعالیٰ نے بنگالی حلقہ میں عام مقبولیت عطا کی تھی، بلکہ ایک زمانہ تھا کہ بنگال کے علمی حلقہ میں ان کی شہرت کی طوطی بولتی تھی۔ علماء کرام ان کی شہرہ آفاق کتاب (آئینی تحفہ صلاۃ مصطفی، دو جلدوں میں) کو علمی مناقشہ ومباحثہ کے دوران مرجع کے طور پر پیش کرتے تھے۔
آپ ایک کامیاب صحافی بھی تھے، آپ کی ادارت میں ایک ماہنامہ مجلہ اھل حدیث نکلتا تھا، جس نے نوجوان طبقہ میں دینی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین کی سچی تصویر آپ کی تالیفات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ آپ نے بہت سہل مگر جامع انداز میں قرآن کریم کی تفسیر لکھی ہے۔ حدیث اربعون کی شرح اور صیام و رمضان نامی کتاب کی تصنیف سے آپ کی شہرت پر چار چند لگ گیا تھا۔
شیخ کو بہت سی زبانوں پر عبور حاصل تھا، بنگالی، اردو اور عربی میں اچھی مہارت کے ساتھ، انگریزی وفارسی زبان بھی جانتے تھے۔ ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد رشید ابن القیم کی کتابوں پر ان کی گہری نظر تھی، اس کا عکس ان کی تالیفات میں بخوبی ملتا ہے۔ آپ کی علمی شہرت کا دائرہ ہندوستان تک محدود نہ تھا بلکہ عالم اسلام وعالم عرب میں بھی خاص پہچان رکھتے تھے۔ آپ رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ کے ایک زمانہ تک رکن رہے۔ آپ متحمل، سنجیدہ مزاج اور امت کے تئیں سینے میں درد رکھنے والے انسان تھے۔ آپ کے تواضع اور انکساری کا عالم یہ تھا کہ عہدہ ومنصب کی لالچ میں نہیں رہتے، بلکہ علمی و انتظامی لیاقت کی بنیاد پر عہدے ومناصب آپ کے حوالے کیے جاتے رہے۔ ایک لمبے عرصے تک بنگال کے امیر جمعیت اہلحدیث ہند کے منصب پر فائز رہے، نیز آپ کو نائب امیر جمعیت اہلحدیث ہند عہدے سے بھی سرفراز کیا گیا، جسے آپ نے بحسن خوبی انجام دیا۔ آپ جامعہ سلفیہ بنارس کے مجلس شوریٰ کے بھی رکن رہے۔
بنگال کے اکثر دینی وعلمی جلسے اور کانفرنسوں میں آپ کو مدعو کیا جاتا، اشتہار نامہ پر نام دیکھتے اور سنتے ہی شیخ کو سننے کے لیے ایک بھیڑ جمع ہو جاتی۔
آپ کے اندر خود داری وعزت نفس کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، خود داری کا عالم یہ تھا کسی دولت کدہ میں یا کسی بڑے سرکاری ایوان میں جاکر جی حضوری وچاپلوسی کو اپنے لیے کسر شان سمجھتے تھے۔ آپ کی شخصیت کا یہ پہلو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ آپ عصری یونیورسٹی کے پروفیسر ہونے کے باوجود دینی، ملی اور دعوتی کاز کے ساتھ نہ صرف جڑے رہے، بلکہ اپنی پے پناہ علمی، فکری اور مادی صلاحیتوں کے ذریعہ علم دین کی بھر پور خدمت کرتے رہے۔ آپ نے زندگی کے آخری دور میں علمی ودینی سرگرمیوں کو محدود کرلیا تھا۔ آپ کی شخصیت ایسے نابغہ روزگار کی طرح تھی، جو ہر چھوٹا بڑا، خواندہ ونا خواندہ سب کے لیے روشنی کا مینار ہو، آپ اس پہاڑ کی مانند تھے جس کی چوٹی پر آگ جل رہی ہو۔
آج میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان کے علم وفن، انتاج علمی، اور دینی وملی خدمات کا تذکرہ کیے بغیر نہ صرف کلکتہ وجمعیت اہل حدیث بنگال کی تاریخ بلکہ کل ہند جمعیت اہلحدیث کی تاریخ ادھوری رہے گی۔
آپ کی موت بلاشبہ ایک عہد کا خاتمہ ہے اور جماعت وجمعیت کے لیے ایسا خلا ہے جس کا پر ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ آج شیخ کی موت سے موت العالم کا سماں ہے اور پورا علمی حلقہ سوگوار ہے۔
آہ علم وفن اور زبان وادب کا یہ تابناک ستارہ قریب ٧٥ سال کی عمر پاکر رمضان کے مبارک مہینہ میں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا! جو دنیا میں آفتاب و مہتاب بن کر آۓ تھے، وہ اپنے ہزاروں شیدائیوں کو رنج وغم میں ڈوبے ہوئے چھوڑ کر چلے گئے!!
اللہ انھیں غریق رحمت کرے، ان کی لغزشوں کو درگزر فرماۓ اور حسنات کو قبول کرے۔ آمین
ماشاء اللہ بہت خوب
شیخ محترم
شیخ عین الباری عالیاوی کی سوانح حیات کہاں مل سکتی ہے
رہنمائی کریں
ان کے لڑکے نصر الباری سے، اسی طرح ان کے شاگردوں سے، مرکزی جمعیت اہل حدیث سے اور بنگلہ زبان میں ان کا جو مجلہ نکلتا ہے اس سے۔