اپنے اخلاص کا احتساب کیجیے!

تسلیم حفاظ عالی تعلیم و تربیت

اعمال وعبادات میں اخلاص روح کی حیثیت رکھتا ہے۔جس طرح بنا روح کے جسم کی کوئی حیثیت نہیں اسی طرح بنا اخلاص کے عمل کی کوئی قیمت نہیں۔ اعمال وعبادات میں دراصل حسن واخلاص ہی مطلوب و معتبر ہے۔ نمودونمائش کے جذبات سے پر عبادات کی کثرت محض باعث زحمت وعذاب ہے۔ جذبۂ ریاکاری کے ساتھ کیا جانے والا عمل قیامت کے دن باعث نقصان اور موجب خسران ثابت ہوگا۔ اللہ تعالی ریاکاروں سے کہے گا کہ جاؤ اپنے اعمال کا بدلہ ان لوگوں سے لے لو جن کو خوش کرنے اور جن سے داد طلب کرنے کے لیے تم نے دنیا میں عمل کیا تھا۔ ایک حدیث میں اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: 《إن أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر، الرياء، يقول الله يوم القيامة، إذا جزي الناس بأعمالهم، اذهبوا إلى الذين كنتم تراؤون في الدنيا فانظروا هل تجدون عندهم جزاء》(صحيح الجامع: 1555 – صححه الألباني)
یقیناً تمھارے تئیں مجھے سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ ہے شرک اصغر یعنی ریا، قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائےگا تو اللہ تعالی (ان ریاکاروں سے) فرمائے گا: ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھلانے کے لیے تم دنیا میں عمل کرتے تھے اور دیکھو کیا تمھیں ان کے پاس اپنے اعمال کا بدلہ ملتا ہے؟

اللہ تعالی نے دنیا طلبی، ریاکاری اور نمود و نمائش کے جذبے کے ساتھ عمل کرنے والوں کا انجام بیان کرتے ہوئے فرمایا: 《من كان يريد الحياة الدنيا و زينتها نوف إليهم أعمالهم فيها وهم فيها لا يبخسون ○أولئك الذين ليس لهم في الآخرة إلا النار و حبط ما صنعوا فيها و باطل ما كانوا يعملون》(هود: 15-16)
جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہے ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہیں بھرپور پہنچادیتے ہیں اور یہاں انھیں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انھوں نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کے اعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں۔

دنیاطلبی اور ریا ونمود کا انجام جہنم کا دائمی عذاب اور اس کی رسوائی ہے۔ ہمیں اس بات کو اچھی طرح اپنے دل ودماغ میں بٹھا لینی چاہیے کہ اللہ تعالی کے یہاں وہی عمل سندِ قبولیت حاصل کرتا ہے جو زیور اخلاص سے آراستہ اور زادِتقوی سے مزوّد ہو۔ نمود ونمائش اور شہرت وناموری کے حصول کی غرض سے کیا جانے والا عمل خواہ بظاہر کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو اکارت اور برباد ہے اللہ کے یہاں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: 《جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: أرأيت رجلا غزا يلتمس الأجروالذكر، ماله؟ فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: لا شيء له، فأعادها ثلاث مرات، يقول له رسول الله صلي الله عليه وسلم “لا شيء له “ثم قال: إن الله لا يقبل من العمل إلا ما كان له خالصا وابتغي به وجهه》(النسائي: 3140- صححه الألباني)
ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: آپ ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو اللہ سے اجر کا طلبگار اور لوگوں سے مدح و ثنا کا خواستگار بن کر جہاد میں شریک ہوتا ہے (یعنی اللہ سے اجر کی طلب کے ساتھ ساتھ لوگوں سے مدح وثنا کا بھی خواہاں ہوتا ہے) اسے کیا ملےگا ض؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس نے اپنی بات تین مرتبہ دہرائی اور رسول اللہ ﷺ اس سے یہی فرماتے رہے کہ اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اسی کے لیے ہو اور اس سے محض اسی کی رضا مقصود و مطلوب ہو۔

اخلاص کے تعلق سے یہ بات بھی قابل غور اور لائق اعتنا ہے کہ ہم اپنے اخلاص کا تو ادراک کرسکتے ہیں کہ ہمارے اندر کتنا اخلاص ہے اور ہمارے اعمال ریاونمود کے جذبات سے کتنے پاک ہیں۔ لیکن دوسروں کے اخلاص کو پرکھنے اور ان کے سینوں کے رازہائے سربستہ کو جانچنے کی صلاحیت ہمارے اندر نہیں ہے۔ یہ خاصہ صرف اور صرف خالق کائنات کا ہے۔ ہاں ریاکاری کے واضح آثاروقرائن کا وجود استثنائی صورت میں داخل ہے۔ چونکہ اخلاص کا تعلق دل سے ہے اور دل کے راز سے صرف اللہ تعالی واقف ہے اس لیے دوسروں کے سینوں کے رازوں اور دلوں کے بھیدوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ ان کی نیتوں کے تعاقب سے احتراز کرنا چاہیے۔ خواہ مخواہ دوسرے کی نیت پر شک کرکے اس کے اعمال وعبادات کو ہدف استہزا بنانا منافقانہ حرکت ہے۔ جنگ وغیرہ کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ مسلمانوں سے چندے کی اپیل فرماتے تو وہ آپ کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے حسب استطاعت اس میں حصہ لیتے۔ زیادہ دینے والوں کے بارے میں منافقین کہتے کہ ان کا مقصد ریاکاری اور نمودونمائش ہے اور تھوڑا دینے والوں کی بابت کہتے کہ اس مال سے کیا بنے گا۔ یوں منافقین دونوں طرح کے مسلمانوں کا استہزا کرتے اور مذاق اڑاتے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ان کی اس قبیح حرکت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: 《الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جھدھم فيسخرون منھم سخر الله منھم ولھم عذاب أليم》 (التوبۃ:79)
جو لوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنھیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر نہیں، پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے، انہی کے لیے دردناک عذاب ہے۔
آج کل ایک دوسرے کے پیچھے پڑنے کی مذموم حرکت بہت عام ہوتی جارہی ہے۔ ظاہر سے چشم پوشی اور باطن میں جھانکنے کا مرض پھیلتا جارہا ہے۔ کسی کے اخلاص کو مطعون کرکے اس پر ریاکاری کا ٹھپا لگانا مہلک وبا کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ ریاکاری سے اجتناب کی عمومی نصیحت مطلوب و مفید ہے لیکن تعیین وتخصیص کے ساتھ کسی کے عمل کو ہدف طعن وتشنیع بنانا بسااوقات بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ کتنے لوگ دوسروں کی طعنہ زنی سے دلبرداشتہ ہوکر کار خیر سے برگشتہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ظاہر پر احکام کا اجرا کرتے ہوئے باطن کو اللہ کے حوالے کردینا چاہیے۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں ہمارے لیے اس سلسلے میں بہت بڑا درس عبرت ہے۔
《عن أسامة بن زيد قال: بعثنا رسول الله ﷺ إلى الحرقة من جھينة، قال : فصبحنا القوم فھزمناھم، قال : ولحقت أنا ورجل من الأنصار رجلا منھم ، قال: فلما غشيناه قال :لا إله إلا الله، قال : فكف عنه الأنصاري، فطعنته برمحي حتى قتلته، قال :فلما قدمنا بلغ ذلك النبيﷺ، قال: فقال لي:يا أسامة،أقتلته بعد ما قال لا إله إلا الله، قال : قلت : يا رسول الله،إنما كان متعوذا، قال:أقتلته بعد ما قال لاإله إلاالله، قال : فما زال يكررھا علي، حتي تمنيت أني لم أكن أسلمت قبل ذلك اليوم》(البخاري:6872)
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے قبیلۂ جہینہ کی ایک شاخ کی طرف (مہم پر) بھیجا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ان لوگوں کو صبح کے وقت جالیا اور انھیں شکست دے دی۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور قبیلۂ انصار کا ایک آدمی قبیلۂ جہینہ کے ایک آدمی تک پہنچے اور جب ہم نے اسے گھیر لیا تو اس نے کہا “لا إله إلا الله” انصاری صحابی نے تو (یہ سنتے ہی) ہاتھ روک لیا لیکن میں نے اپنے نیزے سے اسے قتل کردیا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم واپس آئے تو اس واقعہ کی خبر نبی کریم ﷺ کو ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اسامہ! کیا تم نے کلمہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے بعد اسے قتل کر ڈالا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس نے صرف جان بچانے کے لیے اس کا اقرار کیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے پھر فرمایا: تم نے اسے لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے بعد قتل کر ڈالا۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ اس جملے کو اتنی دفعہ دہراتے رہے کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوگئی کہ کاش میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔
مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول! اس نے تو ہتھیار کے ڈر سے کلمہ کہا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: 《أفلا شققت عن قلبه حتى تعلم أقالھا أم لا》
کہ تم نے اس کے دل کو چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا تاکہ تمھیں معلوم جاتا کہ اس نے کلمہ کا اقرار (دل سے) کیا تھا یا نہیں۔ (مسلم :96)
اس واقعہ میں عبرت و موعظت کا بہت بڑا سامان ہے۔ دل کے معاملات کا علم اور ضمائروبواطن کا ادراک صرف اللہ تعالی کو ہے۔ انسان کو صرف اپنی نیت واخلاص کا علم ہے۔ اس لیے وہ اپنے اخلاص کا احتساب کرے اور دوسروں کی نیتوں کو اللہ کے حوالے کردے۔ ایک مسلمان کا شیوہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے کے عیوب ونقائص کی پردہ پوشی کرے۔ اس کے لیے اپنے اندر خیرخواہی کے جذبات رکھے۔ کمیوں اور کوتاہیوں کے صدور کے وقت اس کے لیے عذر تلاشے، اسے تنہائی میں سمجھائے، نہ کہ زمانے کے سامنے اس کی غلطیوں کی تشہیر کرتا پھرے۔ ابن سیرین رحمہ اللہ نے کیا خوبصورت بات کہی ہے: ’’إذا بلغك عن أخيك شيئ فالتمس له عذراً، فان لم تجد، فقل: لعل له عذراً لا أعرفه‘‘ (روض الأخيار 1/ 70)
جب تمھارے پاس تمھارے بھائی کی طرف سے کوئی چیز (کمی، کوتاہی وغیرہ) پہنچے تو اس کے لیے عذر تلاش کرو، اگر کوئی عذر نہ ملے تو کہو شاید اس کا کوئی ایسا عذر ہوگا جو مجھے نہیں معلوم ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو تمام اعمال و عبادات میں اخلاص کی توفیق دے اور ریا ونمود سے دور رکھے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000