زبان، قلم اور علم بڑی امانت ہے۔ ان کی حفاظت اور ان کے استعمال میں دیانتداری بے حد ضروری ہے۔ آپ بہت کم بولیے، کبھی کبھی قلم پکڑیے اور ٹھہر ٹھہر کر علم لٹائیے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن بڑبڑ بولیے، دھڑدھڑ قلم پکڑیے اور بکربکر لکھتے رہیے، یہ کمال نہیں ہے۔ کمال اس میں ہے جب آپ لوگوں کو حق کی طرف رہنمائی کریں۔
سوشل میڈیا کا حال آپ کو معلوم ہی ہے کہ یہاں مثبت چیزوں کی قدر کم ہوتی ہے، منفی چیزوں میں وہ بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جو جبہ ودستار کے مالک ہیں بلکہ اس میدان میں سفید ریش بھی نظر آتے ہیں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ اگر کسی کی تعریف کرو تو سب لوگ چپ رہیں گے اور جب کسی پر تنقید کرو تو سبھی حصہ داری نبھائیں گے۔ ہوبہو اس کا منظر فیس بک اور واٹس ایپ پر نظر آتا ہے۔
بعض لوگوں کو لکھنے کا شوق ہوتا ہے وہ بس لکھتے جاتے ہیں۔ اس سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ کیا لکھتے ہیں؟ اس کا فائدہ کیا ہے یا اس کے نقصانات کیا مرتب ہوں گے؟ بس لکھنا ہے، بلاضرروت بھی لکھنا ہے، بغیر کسی کے پوچھے لکھنا ہے کیونکہ لکھنے کی عادت لگ گئی ہے۔ ایسے لوگوں کو نصیحت زیادہ فائدہ نہیں پہنچائے گی لیکن پھر بھی نصیحت کرنا تو حق بنتا ہے۔ ایسے بعض افراد کو نصیحت کرتا ہوں کہ جس بات کی ضرورت ہو وہ لکھیں، جس سے فائدہ پہنچے وہ لکھیں اور جو آپ کو دنیا میں اور مرنے کے بعد بھی کام آسکے ایسی بات لکھیں۔ لوگوں کی خوشنودی پانے کے لیے، منفی کمنٹ کی بھیڑ لگانے کے لیے اور طرم خان بننے کے لیے نہ لکھیں۔ لکھیں تو کام کی چیز لکھیں کیونکہ آپ عالم ہیں، داعی ہیں اور خالص توحید والا عقیدہ رکھتےہیں۔ للو پنجو سے اپنے آپ کو ممتاز کریں۔
الحمدللہ بہت سارے علماء اپنی تحریروں کے ذریعہ اور بہت سارے علماء اپنی تقریروں کے ذریعہ امت اسلامیہ تک دلائل کی روشنی میں حق پہنچانے میں لگے ہوئے۔ ان علماء کی قدر ہونی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں سلفی علماء حق بیانی میں قرآن وحدیث سے استدلال کرتے ہیں اور لوگوں کو دین کی صحیح رہنمائی کرتے ہیں پھر بھی اجتہادی مسائل میں آپس میں اختلاف ہوجانا کوئی بعید نہیں ہے، اس طرح کے اختلاف پہلے بھی رہے ہیں خصوصا پیدا ہونے والے نئے مسائل میں۔
علماء میں ہر کسی کو حق ہے کہ دین کے احکام ومسائل دلائل کی روشنی میں لوگوں پر واضح کرے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی توفیق سے اس کام میں علمائے حق کی معتد بہ تعداد منہمک ہے۔ رمضان المبارک کے موقع سے عالمی وبا کورونا اور ملکی لاک ڈاؤن کی صورت میں امت میں عبادات واحکام سے متعلق قسم قسم کے مسائل پیدا ہوئے، ان مسائل کو علماء نے اپنی تقریروتحریر کے ذریعہ واضح کیا اور لوگوں نے علماء کے علوم سے فائدہ اٹھایا خواہ جمعہ کا مسئلہ ہو، تراویح کا مسئلہ ہو یا اعتکاف کا مسئلہ۔ عیدالفطر کی نماز سے متعلق بھی علماء کے مختلف بیانات اور تحریریں لوگوں کے سامنے ہیں۔
عیدالفطر کی نماز کے مسئلے میں علماء کے درمیان کئی باتوں میں اختلاف نظر آتا ہے۔ ان اختلاف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض وہ لوگ جن کو کچھ بھی لکھنے کا شوق ہے اور وہ بہت سارے افراد جو سوشل میڈیا کا منفی استعمال کررہے ہیں ان کی نظر میں یہ فتوی بازی لگ رہی ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ کسی مسئلے میں علم اور تحقیق پیش کرنا فتوی بازی نہیں ہے علماء کا فریضہ ہے۔ ہر خطیب وداعی لوگوں کے سامنے دین کے احکام بیان کرتا ہے اور ہر محقق ومصنف کتاب وسنت کی روشنی میں اپنے اپنے اندازواسلوب میں تحقیق پیش کرتا ہے۔ یہ سب مفتی نہیں کہلاتے ہیں بلکہ یہ ان کا فریضہ ہے، اپنے فریضے کی ادائیگی کررہے ہیں۔
بلاشبہ فتوی دینا مستند اداروں اور شعبہ افتاء کا کام ہے اور آپ جانتے ہیں عموما فتاوی میں کسی مسئلے کے تمام پہلوؤں پر مدلل بحث نہیں ہوتی کیونکہ اصل مقصد لوگوں کو کسی مسئلے میں ایک موقف کی وضاحت ہوتی ہے۔ بسااوقات اصل مسئلہ کی بھی دلیل مذکور نہیں ہوتی یا استدلال کبھی کمزور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کسی مسئلے میں موجود ہر ہر پہلو پر دلائل سے بحث کرتے ہیں اور ان دلائل کا تجزیہ کرتے ہیں، مسائل پہ دقیق بحث اور ان کا تحلیل وتجزیہ یہی تو سلفیت کی امتیازی خوبی ہے ورنہ ہم بھی مقلدوں کی طرح اندھے ہوجاتے اور بلادلیل فتوی اور بلاچوں چرا علماء کی بات مان لیتے۔
اس لیے لکھیے مگر ایسی بات جس سے انسانیت کی تعمیر ہو اور آپ کا لکھا ہوا بعد میں بھی آپ کے کام آئے۔ کمنٹ کا ایک خطاکار جملہ بھی آخرت میں نقصان پہنچائے گا اس لیے منفی افراد کی منفی پوسٹ پر ان کا جرم اور حوصلہ نہ بڑھائیں بلکہ آپ بھی مثبت بنیں، مثبت کام کریں اور لوگوں کو بھی اس طرف راغب کریں۔
آپ کے تبصرے