سوشل میڈیا پہ معصوم لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ

مقبول احمد سلفی سماجیات

جوخواتین سوشل میڈیا سے جڑی ہوئی ہیں ان کے سامنے بہت سارے مسائل ہوتےہیں اس لیےانھیں بہت احتیاط سے سوشل سائٹ کا استعمال کرنا چاہیے خصوصا جب آپ کسی سے چیٹ کرتے ہیں ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس پلیٹ فارم سے جہاں اچھے کام انجام دیے جاتے ہیں وہیں بے حیائی ، بداخلاقی ، بے ایمانی اور دجل وفریب کے نوع بنوع ہتھکنڈے بھی اپنائے جاتے ہیں ۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ عورت کوکیسے گمراہ کرکے شادی کا جھانسہ دیا جاتا ہے اورکس طرح اسے ولی کے بغیر شادی کے لیے راضی کیا جاتا ہےاس پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔
اس مسئلے میں دو اہم واقعات کا تذکرہ کرکے خواتین کو ایسے لوگوں سے چوکنا رہنے کی تاکید کرتا ہوں ۔ ایک واقعہ ہے پڑھی لکھی پاکستانی خاتون کا جو کسی پڑھے لکھے مگر جہادی ذہنیت کے مرد سے رابطے میں تھی، دونوں میں خوب بات چیت ہوا کرتی جس کا اثر یہ ہوا کہ آپس میں پیار ومحبت کی فضا بن گئی ۔ مرد کی جہادی ذہنیت نے لڑکی کی ذہنیت بھی جہادی بنا دی اور اس لڑکی نے قتل وقتال کو ہی اصل دین سمجھا اور اسی حوالے سے لڑکی مرد کی بے پناہ دیوانی بن گئی۔ لڑکی کے سامنے وہی مرد اصلی مسلمان نظر آنے لگا جو جہاد ی قسم کا ہو۔ آپس میں بات بڑھتے بڑھتے شادی تک پہنچ گئی۔ لڑکے نے حامی بھر لی کہ میں تمھی سے شادی کروں گا، یونہی مہینے اور سال گزرتے رہے مگر شادی کا وعدہ محض وعدہ ہی تھا ، اب تب کرتے کرتے لڑکی کی عمر چالیس کے قریب پہنچ گئی۔ لڑکی کو اچانک خیال آیا کہ یہ بندہ صرف شادی کا وعدہ کررہا ہے مگر شادی کرکے اپنا وعدہ پورا نہیں کررہا ہے کچھ تو گڑبڑ ہے یعنی لڑکی کو ہوش اس وقت آیا جب اپنی جوانی مست گفتاری میں کھوتی نظر آئی ۔لڑکی نے شادی پہ اصرار کیا تو آخر کار اس نے شادی سے انکار کردیا۔ شادی سے انکار عمر کے ایسے مرحلے میں آیا جب اسے محسوس ہوا کہ اب مجھے سماج میں کوئی نہیں اپنائے گااور وہ حواس باختہ سی ہوگئی ۔بہت دنوں تک پریشان اور قلق واضطراب میں پڑی رہی بالآخر تعلیمی شعور کو جگائی اور ہمت جٹاکر اپنے مسائل کے حل کے لیے اب مستند علماء سے رابطہ کرنے لگی پھر بہت تگ ودو اور مشکلات سے دوچار ہونے کے بعد رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئی ۔
اپنے اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا کے مضرات بیان کرتے ہوئےکہتی ہےکہ یہاں اکثر مرد لڑکیوں سے لبھانے والی نرم گداز اور میٹھی میٹھی باتیں کرکے ان کی معصوم زندگیاں برباد کرتے ہیں اور لڑکیوں کو ہوش اس وقت آتا ہے جب سنبھلنے کا وقت ختم ہوچکا ہوتا ہے ، ساتھ ہی اس نے سوشل میڈیا سے توبہ کرتے ہوئے اپنے سارے اکاؤنٹس ڈیلیٹ کردیے۔
ایک دوسرا واقعہ بالکل تازہ ہے جس نے مجھے اس حوالے سے دوسری خواتین کو متنبہ کرنے کے لیے مہمیز کا کام کیا۔ یہ واقعہ غیرشادی شدہ ہندوستانی عالمہ کا ہے جو ایک عالم دین سے رابطہ میں تھی ، اکتالیس سالہ شادی شدہ صاحب اولادعالم دین مدینہ یونیور سٹی سے فارغ التحصیل ہیں ،عربی تعلیم دیتے ہیں اور سوشل میڈیا پہ کچھ دینی کام کرتے ہیں ۔کہنے کے مطابق لڑکی کو عالم صاحب کا کام بہت پسند آیا اور دین کے لیے ان سےمحبت کرنے لگی ۔ یہ دینی محبت شادی تک بات لے گئی چنانچہ عالم دین نے عالمہ سے شادی کی پیش کش کردی ۔ لڑکی نے گھر والوں سے بات کی تو اس کاولی اس رشتہ سے راضی نہ ہوا۔ شادی کا یہ معاملہ کسی واسطہ سے مجھ تک پہنچا اور سوال کیاگیا کہ ایک عالمہ کسی عالم دین سے دینی محبت کرتی ہے اور ان سے شادی کرنا چاہتی ہےتاکہ دونوں مل کر اچھے سے دین کا کام کرسکیں مگر اس کا ولی راضی نہیں ہے تو کیا بغیر ولی کے شادی ہوسکتی ہے؟ ۔ مزید برآں مجھے اطلاع دی گئی کہ اس مسئلے کو ایک مدنی صاحب سے پوچھاگیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ایسی صورت میں لڑکی ولی بدل سکتی ہے اس کی طرف سے کوئی اور ولی بن جائے گا بلکہ لڑکی کو یہاں تک بتایاگیا کہ اگر اس لڑکی نے اس عالم دین سے شادی نہ کی تو اللہ تعالی قیامت میں اس لڑکی سے اس کی صلاحیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اس وقت باپ منہ پھیرکر چلاجائے گا ۔
میں نے اس سوال پر سائلہ سے پانچ سوالات کیے تاکہ میرے سامنے بات بالکل واضح ہوجائے اور صحیح سے جواب دے سکوں ۔
(۱)کیا لڑکی اس عالم سے محبت کرتی ہے اور اس سے تنہائی میں باتیں کرتی رہتی ہے ؟
(۲) اگر وہ اس عالم سے دین کے لیے شادی کرنا چاہتی ہے تاکہ دونوں مل کر اچھے سے دین کا کام کرسکیں تو اب تک اس عالم کی دعوت کے کچھ اہم کام گنائیں تاکہ ان کی امتیازی خوبی کا اندازہ لگایا جاسکے۔
(۳) لڑکی کو ولی بدلنے اورقیامت میں صلاحیت کے متعلق سوال والا فتوی کیا اسی عالم کا ہے جس سے شادی کی بات کررہی ہے ؟
(۴) لڑکی کا باپ اس عالم سے شادی کیوں نہیں کرانا چاہتا؟
(۵) جب عالم دین شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں تو اسی سے شادی کیوں کرنا چاہتی ہے جبکہ اسے معلوم ہے کہ اس گھر میں سوکن کے مسائل اور سماج میں تعدد ازدواج کی مشکلات سے دوچار ہونا ہوگا؟
میرے ان سوالوں کے بالترتیب یہ جوابات ملے:
(۱) لڑکی عالم دین سے تنہائی میں بات کرتی ہے اور ان سےمحبت بھی کرتی ہے مگردینی کام کی وجہ سے نہ کہ جنسی تسکین کے لیے ۔
(۲) وہ عالم دین عربی تعلیم دیتے ہیں، آن لائن عالمانہ کورس کرواتے ہیں اور مستقبل میں مدینہ میں دینی کام کرنے کا ارادہ ہے ۔
(۳)ہاں اسی عالم دین نے ایسا فتوی دیا ہے ۔
(۴) لڑکی کم سن اور باکرہ ہے ، اس کی عمر انیس سال اور عالم کی عمر اکتالیس سال ہے اور دو بچے بھی ہیں جبکہ لڑکی اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی ہے اس وجہ سے ولی اس شادی سے راضی نہیں ہے ۔
(۵)عالم دین لڑکی کی دینداری کی بناپر بے پناہ محبت کرتے ہیں اور آگے اس کے ساتھ مل کر عورتوں میں دعوت کا کام کرنا چاہتے ہیں اور لڑکی کو کہتے ہیں کہ اس کی دینی صلاحیت وہ ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں اس وجہ سے لڑکی اس سے شادی کے لیے راضی ہےحالانکہ انھیں کبھی نہیں دیکھا ہے۔
اس کے بعد میں نے انھیں جواب دیا کہ فتوی سے ہی مجھے شک لگارہا تھا کہ کوئی اپنے مفاد میں فتوی دے رہا ہے اور لڑکی کو قیامت کے نام پر جھانسہ بھی دے رہا ہے اورلڑکی عالم دین کی باتوں میں آکر جذبات سے مغلوب ہوگئی ہے ۔عورت نرم دل ہوتی ہے ، میٹھی میٹھی باتوں میں کسی کو بھی اپنا دل دے بیٹھتی ہے یہاں بھی ایسا ہی معاملہ لگ رہا ہے ، عین ممکن ہے لڑکی عالم دین کے کاموں کو پسند کرتی ہومگر عالم کا اس لڑکی سے بے پناہ محبت کرنا ، شادی کرنے کے لیے ولی کے خلاف جانے کا فتوی دینااور قیامت کے نام پر دل جیتنا دراصل فراڈ اور دھوکہ ہے اور مجھے ان کے اندردعوتی اعتبارسے ایسے صفات بھی نظر نہیں آتے ہیں جو وجہ امتیاز بن سکیں،جو سب عالم کرتے ہیں وہی ا ن کا بھی کام ہے ۔
چونکہ لڑکی عالمہ تھی اور ان کے فتوی پر اطمینان نہیں ہوا تب کسی واسطے سے دوسرے عالم سے مسئلہ دریافت کرتی ہے تاکہ کہیں جذبات میں غلط قدم نہ اٹھالے ۔
اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ صورت بالا میں لڑکی کو ولی بدلنے کا اختیار نہیں ہے اور شریعت میں ولی کے بغیر نکاح باطل ہے ۔اس مسئلے میں ولی کا انکار اپنی جگہ جائز ہے ،اس کا انکار دین کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ عمر دراز،شادی شدہ اورصاحب اولادہونے کی وجہ سے ہے ۔ اور یہ کوئی معیوب بات نہیں کہ کوئی ولی اپنی بیٹی کے لیے مناسب عمر والا غیرشادی شدہ رشتہ تلاش کرے ۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے جب رسول اللہ ﷺ سے اپنی شادی کا ذکر کیا تو آپ نے پوچھا کہ تم نے کنواری سے شادی کی یا ثیبہ سے تو انھوں نے جواب دیا کہ ثیبہ سے ۔ آپ نے کہا باکرہ (کنواری) سے کیوں نہیں کی ، آگے آپ نے باکرہ سے شادی کا فائدہ بتایا: ’’تلاعبك وتلاعبها‘‘یعنی وہ تجھ سے کھیلتی اور تو اس سے کھیلتا۔
آپ کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے کھیلنے کودنے کی ایک عمر ہوتی ہے اور مرد و عورت میں سے ہرکوئی یہ خواہش کرسکتا ہے کہ اس کی شادی غیرشادی شدہ سے ہو تاکہ دونوں ایک دوسرے سے پورے طور پر لطف اندوز ہوسکیں ۔ اگر عمر کے تفاوت کی وجہ سے شادی کے بعد کم سن لڑکی کو عمر دراز مردسےمکمل جنسی تسکین نہ مل سکے یا جوانی کا حقیقی لطف نہ پا سکے تو بعد میں پچھتانا اپنی جگہ نکاح کااہم مقصد سکون قلب اور شرمگاہ کی حفاظت پورا نہیں ہوگااس لیے یاد رہےشادی سے پہلے نکاح کے مقاصد کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
جہاں تک عالم کی بات قیامت اور صلاحیت سے متعلق تو اس پر میرا یہ جواب ہے کہ یہی وہ ہتھکنڈاہے جس کے ذریعہ عالم صاحب نے معصوم لڑکی کو اپنا شکار بنایا ہے ،لڑکی کے دل میں اچھی طرح یہ بات ڈال دی ہے کہ تم بہت صلاحیت مندہو،اگر تم نے مجھ سے شادی نہیں کی تو تمھاری صلاحیت ضائع ہوجائے گی اور کل قیامت میں اللہ تعالی جب تم سے صلاحیت کے بارے میں سوال کرے گا تو کیا جواب دوگی ، تمھارے باپ تم سے منہ پھیر لیں گے ۔
عورت کی دعوت کا دائرہ کار مردوں کی طرح نہیں ہے ، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ نبوت ورسالت کے لیے اللہ نے مردوں کو ہی چنا اور عورتوں کو اپنے گھروں میں سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت دعوت کا کام نہیں کرے گی ،حسب سہولت بالکل کرے گی مگر اسلامی حدود وقیود کے ساتھ۔ پھر ایک عالمہ کا اپنےعلم کے مطابق عمل کرنے اور اپنے علم کو دوسروں تک پہنچانے میں کسی مرد کا محتاج نہیں ہے اور اس کے لیے نہ ہی اسی عمردرازصاحب اولادعالم سے شادی کرنا ضروری ہے، کیا دوسرے لوگوں کے پاس دین اور علم نہیں ہے؟
آخری بات اس قسم کے تمام لوگوں سے جو سوشل میڈیا پر براہ راست لڑکیوں سے بلاضرورت بات کرتے ہیں اور چکنی چکنی باتوں سے شادی کے لیے انھیں منوالیتے ہیں،اولا آپ کا ایسا کرنا شرعا حرام ہےکیونکہ اس کام کے لیے نہ جانے لڑکیوں سے کیا کیا بات کی جاتی ہوگی جو ضرورت میں شامل نہیں ہوگی۔ ثانیااگرآپ واقعتا شریعت کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے کسی لڑکی سے اس کے علم ودین کی بنیاد پرشادی کے خواہش مند ہیں تو لڑکی سے چکنی چکنی باتیں کرکے اس کو شادی کے لیے لبھانے کی کوشش نہ کریں بلکہ اس کے ولی سے شادی کی بات کریں ۔ہندی فلموں نے محبت کی شادی کے نام پرمسلم لڑکیوں کو گھر سے بھگایااور بغیرولی کے کورٹ میریج کرکے حرام کاری کرتے ناپاک زندگی گزاری ۔اب سوشل میڈیا بھی لڑکیوں کو اولیاء سے بغاوت پر ابھار رہا ہے۔ اس وقت افسوس بہت زیادہ ہوتا ہے جب علم کے ٹھیکیداربھی بغاوت کا علم بلند کرنے والوں میں نظر آتے ہیں۔
ان باتوں سے عورتوں کو یہ نصیحت مل رہی ہے کہ سوشل میڈیا کااستعمال بقدر ضرورت اورمحتاط طریقے سے کریں، بلاضرورت کسی انجان مردسے بات نہ کریں، کسی علمی سوال کے لیے ایسے عالم کی طرف رجوع کریں جن کا علم اور تقوی معروف ہو، حتی الامکان آڈیو میسج میں بات کرنے سے پرہیز کریں اور تحریربھی ناپ تول کر ضرورت کے مطابق ہی لکھیں اور شادی کی بات کسی سے ہرگز نہ کریں بلکہ کوئی آپ سےاس بارے میں بات کرے تو اسے اپنے ولی سے بات کرنے کہیں۔

آپ کے تبصرے

3000