جو لوگ اس وقت حالات کا رونا روتے ہیں یا لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں یاپھر قرض لینے اور ادا کرنے میں پریشان ہورہے ہیں ان کے لیے بہترہے کہ سامنے جو بھی کام نظر آئے اسے کسب رزق کا ذریعہ بنالیں خواہ وہ لکڑی ڈھونے ، باربرداری کرنے، کھیتی باڑی کرنے، تعمیری کام کرنے، سلائی کڑھائی کرنے اور محنت ومزدوری کرنے والا کام کیوں نہ ہو۔ ہماری مشکلات بشمول اہل علم یہ ہے کہ وہ ہاتھوں کی کمائی سے متعلق بے شمار پیشوں کو حقیرسمجھتے ہیں کیونکہ یہ سماج کی نظر میں حقیر ہیں،آج بھی بنکروں کوحقارت سے جولاہاکہہ کر پکارا جاتاہے۔ یاد رکھیے اسلام کی نظر میں کوئی بھی جائز پیشہ حقیر وکمتر نہیں ہوتا ۔ایک دوسری پریشانی یہ ہے کہ اکثر لوگ آرام پسند ایئرکنڈیشن کام تلاش کرتے ہیں جس میں تنخواہ کا گراف بھی اونچا ہو۔
ان دو وجوہات کی بناپر بہت سے لوگ معاشی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں اور دردرکی ٹھوکریں کھاتے ہیں ۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ کمائی ہاتھ سے کمائی ہوئی ہے ۔ مقدام بن معدی کرب بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا:
ما اكل احد منكم طعاما احب الى الله عز وجل من عمل يديه(مسند احمد)
ترجمہ: تم میں سے کسی نے بھی ایسا کھانا نہیں کھایا جو رب تعالیٰ کو اس کے ہاتھوں کی کمائی سے زیادہ محبوب ہو۔
یہی روایت مذکورہ صحابی سے صحیح بخاری میں اس طرح مروی ہے،نبی ﷺکا فرمان ہے:
ما أكَلَ أحَدٌ طَعامًا قَطُّ، خَيْرًا مِن أنْ يَأْكُلَ مِن عَمَلِ يَدِهِ، وإنَّ نَبِيَّ اللَّهِ داوُدَ عليه السَّلامُ، كانَ يَأْكُلُ مِن عَمَلِ يَدِهِ(صحيح بخاری:۲۰۷۲)
ترجمہ: کسی آدمی کے لیے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔
اس حدیث سے اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ ہاتھوں کی کمائی شرف ومنزلت والی کمائی ہے کیونکہ یہ انبیاء کا پیشہ ہے اور اللہ کو محبوب ہے ۔ بھلائی کاایسا کوئی کام جسے اللہ پسند کرتا ہو اور نبیوں نے اختیار کیا ہوکبھی حقیر ہوسکتا ہے یا اس کے کرنے میں عار محسوس کی جاسکتی ہے ؟ نہیں ،ہرگز نہیں ۔
اسلام نے حلال وطیب رزق کمانے اور کھانے کی ترغیب دے کر اس پر شکرگزاری کا حکم دیا ، فرمان الہی ہے:
فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ(النحل:۱۱۴)
ترجمہ: جو کچھ حلال اور پاکیزہ روزی اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو ۔
اور نبی ﷺحلال روزی میں سب سے پاکیزہ روزی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
ما كسبَ الرَّجلُ كَسبًا أطيبُ من عملِ يدِه وما أنفقَ الرَّجلُ على نفسِه وأهلِه وولدِه وخادِمِه فهو صدَقةٌ(صحيح ابن ماجہ:۱۷۵۲)
ترجمہ: آدمی کی کوئی کمائی اس کمائی سے بہتر نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہواور آدمی اپنی ذات، اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جو خرچ کرے وہ صدقہ ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حلال روزیوں میں ہاتھوں کی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے اس لیے اپنے دونوں ہاتھوں کو محنت ومزدوری کے کسی کام میں لگانے میں شرم محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ انسانوں میں سب سے افضل طبقہ انبیاء کا ہے ان سب نے بکریاں چرائیں، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إلَّا رَعَى الغَنَمَ، فقالَ أصْحابُهُ: وأَنْتَ؟ فقالَ: نَعَمْ، كُنْتُ أرْعاها علَى قَرارِيطَ لأهْلِ مَكَّةَ(صحيح بخاری:۲۲۶۲)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا ہاں! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چرایا کرتا تھا۔
موسی علیہ السلام کے بارے میں قرآن شاہد ہے کہ انھوں مدین کے بزرگ کے یہاں (دس سال) بکریاں چرائیں۔ بکری چرانے کے علاوہ انبیاء کے متعلق مختلف قسم کے ہاتھ والے پیشے کی صراحت ملتی ہے ۔ نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے، ادریس علیہ السلام خیاطی کرتے ،الیاس علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام لوہاری کیا کرتے تھے اور ابراہیم علیہ السلام نے سب سے افضل گھرکعبہ کی تعمیر کی یعنی وہ تعمیراتی کام جانتے تھے ۔ کیا انبیاء کے ان پیشوں میں ہمارے لیے سبق نہیں ہے کہ اگر ان دنوں حالات بدسے بدتر ہیں تو ہاتھوں سے کیا جانے والا جو بھی کام ہم کر سکتے ہیں بطور پیشہ اختیار کرلیں اور اس کے ذریعہ روزی روٹی کا انتظام کرسکیں ۔ ذرا اس حدیث پر بھی غور کرلیں کہ کس طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مجبوری میں محنت ومزدوری کرنے اور سوال کرنے سے منع فرمایاہے چنانچہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ، فَيَأْتِيَ بحُزْمَةِ الحَطَبِ علَى ظَهْرِهِ، فَيَبِيعَهَا، فَيَكُفَّ اللَّهُ بهَا وجْهَهُ خَيْرٌ له مِن أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطَوْهُ أَوْ مَنَعُوهُ(صحيح بخاری:۱۴۷۱)
ترجمہ:تم میں سے کوئی بھی اگر (ضرورت مند ہو تو) اپنی رسی لے کر آئے اور لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے۔ اور اسے بیچے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی عزت کو محفوظ رکھ لے تو یہ اس سے اچھا ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے، اسے وہ دیں یا نہ دیں۔
حالات جس قدر بھی خراب ہوجائیں یہ حدیث سبق دیتی ہے کہ گزربسر کے لیے کوئی کام نہ ملے تو لکڑی اٹھانے اور بیچنے کا کام ہی کرلیاجائے لیکن کام چور بن کر لوگوں سے بھیک نہ مانگی جائے ۔ لکڑی کی مثال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس یہی کام کیا جائے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ حلال اور پاکیزہ روزی کے لیے محنت در محنت اور کڑی سے کڑی مشقت اٹھانی پڑے گھبرانا نہیں چاہیے ۔ محنت کرکے حلال روزی ہی کھانی چاہیے ۔دین اسلام عمل وکردار کا نام ہے ، یہ ہمیں دنیا وآخرت کی کامیابی کے لیے عمل پر ابھارتا ہے ، بغیر عمل کے نہ دنیا کی کامیابی ممکن ہے اور نہ ہی آخرت کی ۔ مرنے سے پہلے تھوڑی سی مہلت مل جائے اس وقت بھی اسلام عمل کی ترغیب دیتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنْ قامَتِ السَّاعةُ وفي يدِ أحدِكُم فَسيلةً فإنِ استَطاعَ أن لا تَقومَ حتَّى يغرِسَها فلْيغرِسْها(صحيح الأدب المفرد:۳۷۱)
ترجمہ:اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو اور اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ قیامت قائم ہونے سے پہلے اسے لگا لے گا تو اسے ضرور لگانا چاہیے۔
دھیان سے اس حدیث پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے کس قدروقت کو اہمیت دی ہے اور کس قدرقلیل وقت میں بھی عمل کرنے کی ترغیب دی ہے بلکہ درخت لگانے کا ذکر زراعت کی اہمیت اور اسے بطور پیشہ اختیار کرنے کی طرف اشارہ کناں ہے ۔ صحیح بخاری میں صراحت کے ساتھ مسلمانوں کے لیے زراعت کاذکر ہے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما مِن مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ منه طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كانَ له به صَدَقَةٌ(صحيح بخاری:۲۳۲۰)
ترجمہ:کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اپنی معاشی حالت درست کرنے کے لیے قطع نظر اس سے کہ سماج کیا کہے گا یا سماج کی نظر میں کون سا پیشہ محترم ہے آپ اپنے ہاتھوں سے جو کام کرسکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ہمت جٹاکراللہ پر توکل کرتے ہوئے اس کام میں لگ جائیں ۔ ہاتھوں سے متعلق سیکڑوں کام ایسے ہیں جن میں ڈگری اور ہنر کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف محنت چاہیے ۔ میرے کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ تجارت نہ کریں یا آپ ترقی یافتہ اقتصادی شعبوں سے نہ جڑیں بلکہ اس مضمون کے ذریعہ ان مایوس بھائیوں کو دلاسہ دینا اور عمل کی طرف راغب کرانا چاہتا ہوں جویہ کہتے ہیں میرے پاس کوئی کام نہیں ہے ۔ آپ کے آگے پیچھے دائیں بائیں چاروں طرف کام ہی کام ہے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں کام کرنا نہیں چاہتا ۔ ابن الجوزی نے تاریخ عمربن الخطاب میں ذکر کیا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص مجھے پسند آتا اس کے بارے میں پوچھتا کہ اس کے پاس کوئی کام ہے ، جب یہ معلوم ہوتا کہ اس کے پاس کوئی کام نہیں ہے تو وہ میری نظروں سے گر جاتا۔علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے الدرر المنتثرہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا قول ذکر کیا ہے ،وہ کہتے ہیں میں فارغ بیٹھے شخص کو ناپسند کرتا ہوں جو نہ دنیاوی کام کرتا ہو نہ اخروی کام ۔
کام آپ کے پاس آپ کے ہاتھ میں ہے، چاہے تو کریں اور چاہیں تو نہ کریں مگر کبھی یہ نہ کہیں کہ میرے پاس کام نہیں ہے ۔ ہاں بعض کاموں میں شرم وحیا آتی ہے ، سماج کا خیال آتا ہے مگر ہمیں عزت کی روٹی ہاتھوں کی کمائی سے نصیب ہوتو بھوکے مرنےیا کسی کے سامنےلجاتے ہوئے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے ۔ ساتھ ہی اللہ تعالی سے دعائیں بھی کریں یعنی جہاں اسباب اپناکر کسب معاش کے لیے کوشش کرنی ہے وہیں اللہ سے روزی مہیاکرنےاور اس میں برکت دینے کی دعا بھی کرنی ہے ۔ اللہ روزی دینے والا ہےوہ کوشش کرنے والو ں کو روزی عطا کرتا ہے۔
آپ کے تبصرے