اجتہادی مسائل میں اختلاف پہلے بھی تھا، اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ ایسے مسائل میں یہ مطالبہ کرنا کہ علماء اپنے اختلافات سائڈ رکھ کر عمل کے لیے صرف ایک حکم نکال کر دیں مقلدین کی طرف سے ہو تو سمجھ میں آنے والا ہے۔
لیکن وہ لوگ جنھوں نے ترکِ تقلید اور اتباعِ دلیل کا راستہ اختیار کیا ہے ان کو تو یہ اختلافات دیکھنے اور سمجھنے پڑیں گے، دلیلوں کا موازنہ کرنا پڑے گا اور اپنے علم اور تحقیق کے مطابق راجح مسئلے پر عمل کرنا پڑے گا۔
ہاں! کوئی عامی کم ظرف اور کم ہمت ہو یا دلائل کے موازنہ کی صلاحیت خود میں نہیں پاتا تو اس کے لیے اجازت ہے کہ وہ اختلافی مسائل میں جس مفتی کی چاہے تقلید کرلے، کیونکہ جہاں علماء کا اختلاف ہو وہاں عامی کے لیے توسع پیدا ہوجاتا ہے۔
لیکن علماء سے یہ مطالبہ کرنا سراسر غلط ہے کہ وہ اپنے مسائل کسی ایسے خفیہ چینل پر ڈسکس کریں کہ اس کی بھنک عوام کو نہ لگنے پائے۔ صحابہ کے زمانے سے لے کر اب تک اس طرح کے اختلافات ہوتے رہے ہیں لیکن کبھی علماء پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی کہ وہ اپنے اختلافات ڈسکس نہیں کرسکتے۔ اگر پابندی لگائی گئی ہوتی تو ان یہ اختلافات اپنی ان تفصیلات کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچ پاتے۔
ان مسائل پر مباحثے سے ہی مسائل کی تنقیح ہوتی، غور وفکر کے نئے زاویے روشن ہوتے ہیں، آراء کا تبادلہ ہوتا ہے، اجتہاد کے نئے دروازے کھلتے ہیں، ایک طرف ماضی کے ہمارے فقہی ذخیرے کی تفہیم ہوتی ہے تو دوسری طرف مستقبل میں آنے والی نسل کے لیے فقہی نظائر قائم ہوتے ہیں۔ مباحثے پر پابندے سے سہ طرفہ فیضان عام کرنے والا یہ مبارک عمل رک جائے گا۔
ہاں علماء سے یہ کہا جانا چاہیے کہ مباحثے میں ان کا انداز عالمانہ ہونا چاہیے مناظرانہ نہیں اور مزاج بات رکھنے کا ہونا چاہیے رائے تھوپنے کا نہیں، لہجے میں تواضع ہونا چاہیے ادعا اور کبر نہیں۔
آپ کے تبصرے