عید کی خوشیاں اور لاک ڈاؤن

عائشہ بنت سہیل احمد رمضانیات

کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس کی زد میں آکر لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ علاج دریافت کرنے کی ہزار کوششوں کے باوجود ایک بے یقینی کا سماں ہے۔ احتیاطی تدابیر کے پیش نظر لاک ڈاؤن کے نافذ ہونے سے غریب طبقے کے لوگ بے شمار مسائل میں گھر کر رہ گئے ہیں۔ ان کے دل دوز واقعات سن کر مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ اسی درمیان رمضان کا مبارک ماہ بغیر کسی اجتماعی عبادت کے گزر کر الوداع کی منزل پہ آچکا ہے۔
ان سنگین حالات میں عید کی آمد آمد بھی ہے۔
– لاک ڈاون ہے …کرفیو ہے ….کیسی عید؟
– اچھے کپڑے پہن کر کیا فائدہ…. کسے دکھانے ہیں؟
– پردیس میں ہوں …ہماری کہاں عید؟
– لوگ پريشانی سے مر رہے ہیں۔۔۔۔ہم خوش ہوں گے تو احساس جرم ہوگا۔
ہر بندہ حالات سے مجبور ہو کر ایسے مایوس کن سوالات اٹھا رہا ہے۔ مگر کہیں نہ کہیں یہ بھی ہے کہ ہم خود عید کے حقیقی مفہوم و مقاصد سے واقف نہیں!
عید کا مقصد تو رب کا شکر ادا کرنا ہے کہ جس نے ہمیں رمضان کی عبادتوں کو بجا لانے کی توفیق و ہدایت دی۔
ذرا غور کریں کہ اس مرتبہ تو دنیا جب پریشان کن حالات میں ہے، لوگوں کی نفسیات متذبذب ہورہی ہے اور ذہنی تناؤ کے سبب رشتے تک بگڑ رہے ہیں، ایسے میں رب کریم نے مومنوں پہ رمضان جیسے مہینے کو سایہ فگن کر کے ہماری صبر اور استقامت پر تربیت کی اور ہمیں اپنی عنایتوں میں رکھا۔ اس ماہ کی برکت سے مسلم امت کے اندر صبر، توکل اور ہمدردی کے جذبات بڑھ گئے اور اتنی کٹھن گھڑی میں بھی ہمیں روزے رکھنے کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔ فبائ آلاء ربكما تكذبان؟! ہمیں تو مزید شکر بجا لانا چاہیے۔ عید کی خوشی اللہ کی طرف سے قرآن کے نزول اور ہدایت عطا کیے جانے کی خوشی ہے اور موجودہ حالات میں تو اس نعمت کا ادراک اہل ایمان کو عام دنوں کی بنسبت زیادہ ہوا ہے لہذا اہل ایمان کا اس پر خوش ہوجانا اور خوشی منانا بالکل بجا ہے۔
عید بھی اپنے صحیح وقت پہ آ رہی ہے۔ اس مسلسل بے بسی کے عالم میں عید ایک مسرت اور خوشیوں کی کرن ہے۔ حقیقت میں اس وقت ہمارے تھکے نفس کو عید کی مسرتوں اور ذہنی و نفسیاتی فضا کی تجدید کی اشد ضرورت بھی ہے اور ہم شکوہ کناں ہیں کہ کیسی عید؟؟

لہذا عید کی آمد پہ رب کریم کا شکر کریں۔ اللہ کی بڑائی بیان کریں (تکبیرات) اور تہ دل سے خوشی کا اظہار کریں۔
کیونکہ حالات کتنے ہی نازک کیوں نہ ہوں، اللہ تعالی ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس دن خوش ہوں، خوشیاں منائیں اور خود پر اس کی نعمتوں کے آثار ظاہر کریں۔ رمضان کی کٹھن عبادتوں کے بعد اپنے نفس کو سرور بخشنا فطری اور شرعی تقاضہ ہے، یعنی کہ ہم اس پہ ماجور بھی ہوں گے۔
عید کی خوشیاں منانا اس دین کی شان شوکت میں چار چاند لگانے کے مانند ہیں۔ عید کے دن کو حالات کا الزام دے کر عام دنوں کی طرح گزارنا اس دن کی حق تلفی ہے۔ ان حالات میں خوشی کا اظہار کر کے خود کو کسی بھی طرح کا مجرم محسوس نہ کریں بلکہ اس سال کی عید کو مثبت طریقے سے منا کر زندہ امت کی مثال بنیے۔

ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے؟ بالکل ممکن ہے! کیونکہ اللہ تعالی نے عید کی خوشیوں کو عید کے دن سے جوڑا ہے، نہ کہ صرف باہر منانے سے وابستہ کیا۔ لہذا لاک ڈاؤن کے ضوابط کا پورا خیال رکھ کر اپنے گھروں ہی پہ عید کے سنن و آداب بجا لائیے۔ نئے یا اچھے کپڑے زیب تن کریں، خوشبو لگائیں، مستند علماء کے بتایے طریقے سے عید کی نماز ادا کریں۔ اعزاء و اقارب کو عید کی تہنیت پیش کریں، ان کے حال احوال دریافت کریں۔ کھانے اور حلویات کا اہتمام کریں۔ اس بار کرنا تو یہ چاہیے کہ لاک ڈاؤن سے متاثرین افراد کو گھر میں رکھے اپنے زائد کپڑے دے دیے جائیں تاکہ وہ بھی عید کی خوشی ظاہر طور پہ منا سکیں۔ عید کے مخصوص کھانے حکومت کی ہدایات کے تحت جہاں تک پہنچ ہو، استطاعت کے مطابق تقسیم کر کے ان کے دلوں میں خوشیوں کی لہر پیدا کریں۔ اس طرح آپ کے دل میں ان کے تئیں ملامت نفس اور تعارض بھی نہیں پیدا ہوگا۔ بلکہ یہ عید کے عین مقاصد میں سے ہے کہ اپنی خوشیوں کو بانٹ کر غیر محظوظ لوگوں کو شریک بھی کیا جائے۔

اہل و عيال پر اپنی وسعت ظاہر کریں بچوں کا خاص خیال کریں۔ آپ حالات سے کتنے ہی مایوس ہوں، بچے ہر حال میں عید کے منتظر ہوتے ہیں۔ ان کی دلجوئی کریں، ان کے ساتھ کھیلیں۔ غریب بچوں کے لیے نئے کپڑے بڑی خوشی کا باعث ہوتے ہیں۔ لہذا جن کو اللہ تعالی نے اپنے کرم سے نوازا ہے وہ اپنے بچوں سمیت ان بچوں کے لیے بھی کپڑوں کے تحفے پیش کریں۔

کچھ ہفتوں سے کافی لوگوں نے عید کی خریداری کی بائیکاٹ مہم چلا کر فضا مکدر کر دی ہے۔ جبکہ عيد كی شاپنگ صرف لباس پر مشتمل نہیں، کھانے پینے کی اشیاء کی بھی ہوتی ہے۔ اس مباح عمل سے مکمل اجتناب شرعا اور فطرتا درست نہیں۔ عید کے ساتھ یہ بھی درست رویہ نہیں کہ نئے کپڑے ہونے کے باوجود پرانا اختیار کیا جائے۔ آج کل اکثر لوگوں کا حال ہے کہ حاجت سے زائد نئے کپڑے اپنے گھروں میں ہی رکھے ہوتے ہیں یا نہ ہونے کی صورت میں بھیڑ بھاڑ سے پرہیز کرتے ہوئے آن لائن بھی خریدے جا سکتے ہیں۔ تو جہاں ممکن ہے نئے کپڑے اختیار کرنے میں برائی محسوس نہ کریں۔ ضرورت صرف غیر ضروری اشیاء کے خریدنے، اسراف سے پرہیز کرنے اور باہر نکلتے وقت لاک ڈاؤن کی ہدایات پہ عمل کرنے کی نصیحت کی تھی نہ کہ فطری اور شرعی تقاضوں سے روکنے کی۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
“لان شکرتم لا أزیدنکم”
“قل من حرم زینة الله التي أخرج لعبادہ والطيبات من الرزق”
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہماری عبادتیں قبول کرے۔ ہمیں توفیق دے کہ ہم عید کے حقوق و مقاصد کو نبی کریم، صحابہ اور علمائے سلف کے فہم کے مطابق سمجھیں اور ان نا گفتہ بہ حالات میں بھی دین عزیز کے اس شعار کو عام کر کے شاد و آباد رکھ سکیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Abrar Ahmad hanif madni

ماشاءاللہ وقت اور حالات کے مطابق بہت مناسب آرٹیکل ہے ، اللہ آپکو مزید لکھنے کی توفیق عطا فرمائے، الله يبارك فيك ويحفظك من كل سوء .