فقیر ومسکین کا صحیح مفہوم اور زکاۃ میں ان کا حصہ

نسیم سعید تیمی رمضانیات

فقیر ومسکین کسے کہتے ہیں، ان دونوں اصطلاح کی تعریف کیا ہے؟ بہت سارے لوگ اس کی حقیقت سے نابلد ہیں، اور اس کے تئیں ایک غلط مفہوم اپنے ذہن میں بٹھایے ہویے ہیں، سمجھتے ہیں جو شخص کاسائے گدائی لےکر در در گھومتا رہے وہی فقیر ہے، وہی زکاۃ کامستحق ہے، اس لیےبہت سے لوگوں کو یہ کہتے ہویے پایا گیا کہ ہمارے معاشرے میں فقراء کی تعداد معدود چند ہے، زکاۃ کے مستحقین نا کے برابر ہیں، اس لیے زکاۃ کی مدیں خصوصا زکاۃ الفطرتھوڑا بہت فقراء کو دینے کے بعد مدارس ومکاتب ہی میں رکھ لیتے ہیں، اور زکاۃ کے اصل مستحقین کوہی محروم کر دیا جاتاہے، یہ بات یاد رکھیں کہ صاحب زکاۃ یا زکاۃ تقسیم کرنے والےکا فقیر کی تعریف وحقیقت سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اسے زکاۃ کا کتنا مال دیا جانا چاہیے تاکہ زکاۃ کی فرضیت کا مقصد پورا ہو، معاشرے سے فقر وفاقہ دور ہو، مواساۃ وبھائی چارہ کا ماحول پیدا ہو اور کسی فقیر کو روز مرہ گھر گھر نہ گھومنا پڑے۔
فقیر ومسکین کی تعریف میں راجح بات یہ ہے کہ فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، یا کچھ ہو لیکن اس سے اس کی آدھی ضرورت بھی پوری نہیں ہو رہی ہو، مثال کے طور پر کسی شخص کا یومیہ خرچ سو روپے ہے لیکن اس کے پاس ایک بھی روپیہ نہیں ہے، یا اس کے پاس دس یا بیس یا تیس یا چالیس روپے ہیں، یعنی پچاس سے کم روپےہیں تو وہ فقیر ہے۔
اور مسکین وہ ہے جو اپنی آمدنی سے اپنی آدھی یا اس سے زیادہ ضرورت پوری کر لیتا ہے، لیکن ساری ضروریات مکمل نہیں ہو پاتیں، مثال کے طور پر کسی کا یومیہ خرچ سو روپے ہے، لیکن اس کے پاس پچاس یا اس سے زیادہ روپے ہیں، مگر سو سےکم روپےہیں تو وہ مسکین ہے۔ (دیکھیے: المحلى (6/ 148)، ومغني المحتاج 3 / 95 – 106 – 108، والمغني لابن قدامہ 6 / 413 – 421.و الدرر البهية والروضة الندية والتعليقات الرضية (1/ 531، والموسوعة الفقهية الكويتية (20/ 15) والفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (3/ 1952)۔َ
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس کی آمدنی وانکم اخراجات سے کم ہے وہ زکاۃ کا مستحق ہے، اس کو زکاۃ میں سے اتنا دیا جایےگا جس سے اس کی بقیہ ضرورت پوری ہو جایے۔
ابن عبد البر کہتے ہیں: “اگر کسی کے پاس اپنا گھر ہے، غلام کا بھی مالک ہے لیکن اس کی ضرورت مکمل نہیں ہوتی ہے تو وہ بقدر حاجت زکاۃ لے سکتا ہے، وہ اپنے گھر اور غلام کی وجہ سے مالدار شمار نہیں ہوگا، پھر آگے کہتے ہیں: یہ ایک قاعدہ ہے اسے سمجھ لیں، اور اس قاعدہ پر حجاز وعراق کے تمام فقہاء متفق ہیں”۔ الاستذكار (3/ 211).
ابن عثیمین کہتے ہیں: “اگر کسی کے پاس کھانے پینے پہننے اوررہنے سہنے کے بقدر مال ہے، وہ شادی کرنا چاہتا ہے لیکن مہر ادا کرنے کے لیے مال نہیں ہے تو اسے مہر ادا کرنے کے لیے زکاۃ دی جایے گی۔
اگر کسی طالب علم کے پاس کھانے پینے پہننے اور رہنے سہنے کے بقدر مال ہے، لیکن ضروری کتابیں خریدنے کے لیے مال نہیں ہے تو اسے کتاب خریدنے کے لیے زکاۃ دی جایے گی”۔ (الشرح الممتع (6/ 221)).
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ فقیر ومسکین کو کتنی مقدار میں زکاۃ دی جایے، تو جان لیں کہ اس سلسلہ میں صریح نص نہیں ہے، اس لیے اہل علم کے ما بین اختلاف واقع ہوا ہے، چنانچہ جمہور علماءنے کہا کہ اسے اتنا مال دیا جایے جس سے وہ سال بھر بے نیاز ہو جاے؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سال بھر کا نان ونفقہ محفوظ کر لیا کرتے تھے، یہ قول مالکیہ اور حنابلہ کا ہے نیز شافعیہ کا بھی ایک قول ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ اسے اتنا دیا جایے جس سے وہ ہمیشہ کے لیے فقر وفاقہ سے نجات پاکر لوگوں سے بے نیاز ہو جایے، مثلا اگر وہ پیشہ ور وہنرمند ہے تو اسے متعلقہ پیشہ کے آلات واوزار خریدنے کے برابر مال دیا جایے تاکہ وہ اپنے پیشہ سے منسلک ہوکر اپنی روزی روٹی کما سکے، اگر تاجر ہے تو اسے اتنا مال دیا جایے جس سے وہ تجارت کر کے اپنے نان ونفقہ کا بندوبست کر سکے، یہ شافعیہ کا مذہب ہے اور حنابلہ کی ایک روایت ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ اسے دو سو درہم یا اس سے کم دیا جایے، اگر اسکےاہل وعیال بھی ہوں تو پر آدمی دو سو درہم یا اس سے کم دیا جایے، یہ ابو حنیفہ کا قول ہے، دو سو درہم سے زیادہ دینا ان کے نزدیک مناسب اس لیے نہیں ہے کیوں کہ دو سو درہم میں زکاۃ واجب ہوجاتی ہے، اگر دوسو درہم دیا جایے تو وہ مالدار میں شمار ہو جایے گا، اگر اس سے زیادہ دیا جایے تو ان کے نزدیک بھی جائز ہے لیکن مکروہ ہے۔ (دیکھیے: فتح القدير 2 / 28، وشرح منتهى الإرادات والإنصاف 3 / 238، والمغني 6 / 665، والدسوقي 1 / 494، والمجموع 6 / 194، والموسوعة الفقهية الكويتية (22/ 317)).
جمہور کا مذہب راجح معلوم ہوتا ہے؛کیوں کہ اس کی پشت پر ایک دلیل ہے، نیز زکاۃ ہر سال ادا کی جاتی ہے، اس لیے ایک سال ہی کے لیے فقیر کو بقدر کفاف زکاۃ کا مال دیا جایے، پھر دوسرے سال جب زکاۃ جمع ہوں تب دی جایے،وعلی ہذا القیاس۔
مذکورہ بالا اہل علم کی تصریحات کے بعد میں ان ذمہ داران سے گذارش کرتا ہوں جن کے پاس عام زکاۃ یا صدقہ فطرکی مدیں جمع ہوتی ہیں کہ وہ اپنے گاؤوں یا شہر کی گشت کریں، اور یہ پتہ لگائیں کہ کتنے لوگ زکاۃ کے مستحق ہیں، سب کی لسٹ تیار کریں، پھر اخلاص اور امانت داری کے ساتھ سب کے سالانہ اخراجات کو مد نظر رکھتے ہویے سب کی مقدار متعین کریں، پھر تمام مستحقین کے درمیان تقسیم کریں۔
اگر آپ فقیر ومسکین کے صحیح معنی ومفہوم کوسمجھ کر، سلف کے فقہ وفہم کے مطابق ان کے لیے زکاۃ کی مقدار متعین کریں گے اور ان کے حقوق ادا کریں گے تو آپ کومعاشرے میں فقراء کےنہ ہونے کا شکوہ جاتا رہے گا، بلکہ ان کی کثرت کا گلہ ہوگا۔
اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے اور صحیح راہ پر چلایے۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
عتيق الله

ممتاز بارك الله فيكم وجزاكم الله خيرا.

عبدالمتين

جزاكم الله. یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم میں سے أكثريت فقير ومسكين كا مفهوم نہیں سمجھتی ہے. جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زکات کے اصل مستحقين محروم ره جاتے ہیں. وہ ہمارے ہی درمیان میں ہوتے ہیں لیکن نہ تو وہ ہم سے کہ پاتے ہے اور نہ ہم سمجھ پاتے ہیں. زكات کے اصل مستحقين محروم ره جاتے ہیں اور روایتی میاں اور فقیر ہی ہر سال وصول کرتے رہتے ہیں. اس ضمن میں بیداری کی ضرورت ہے. ہمیں خود ہی ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر سفيد پوش لوگوں کو تلاش کر کے ان تک کہ… Read more »