ہر قدم پر ضبط میرا آزماۓ زندگی

شمشاد شاد شعروسخن

ہر قدم پر ضبط میرا آزماۓ زندگی

موت برحق ہے تو پھر کیوں ورغلاۓ زندگی


ناز اس کی جراَت و ہمت پہ کرتا ہے جہاں

ضربِ نومیدی سے لیکن تلملائے زندگی


فائدہ کچھ بھی نہیں اب آپ کی امداد کا

ریزہ ریزہ ہو چکی ہے اب قبائے زندگی


دیکھ کر انبار لاشوں کا لبوں سے مستقل

ہیں یہی الفاظ جاری ہائے ہائے زندگی


جاگتی آنکھوں میں خوابوں کے دریچے کھول کر

کشتی صبر و رضا کیوں ڈگمگائے زندگی


مال و زر، جاہ و حشم کی اب نہیں خواہش ہمیں

تو مسیحا ہے تو بڑھ کر دے دعائے زندگی


آسماں کی چھت کے نیچے حضرتِ انسان کی

واقعی دشوار کن تھی ابتدائے زندگی


ماسوا عشقِ خدائے دو جہاں اے منکرو

کچھ نہیں ہے، کچھ نہیں ہے ماورائے زندگی


باوجود اے شاؔد اتنی مشکلوں کے آج بھی

گامزن ہے کاروانِ ارتقاۓ زندگی

آپ کے تبصرے

3000