جوہر دکھا نہ اپنی خیالی اڑان کے
بیٹھے ہیں کل جہان کی ہم خاک چھان کے
مذہب کے نام پر جو نہ بٹتا معاشرہ
ٹکڑے کبھی بھی ہوتے نہ ہندوستان کے
وعدے پہ ان کے کوئی کرے اعتبار کیوں
پابند کب رہے ہیں وہ اپنی زبان کے
رکھا تھا جن کو جان سے اپنی عزیز تر
دشمن بنے ہیں آج وہ میری ہی جان کے
لاشہ ہے وہ ادھوری تمناؤں کا مری
نیچے دبا پڑا ہے جو غم کی چٹان کے
عاشق، فریب خوردہ، وفادار و نامراد
کردار ہیں یہ سارے مری داستان کے
دار و رسن تک آ کے مری داستانِ عشق
آخر کو پوری ہو ہی گئی کھینچ تان کے
واقف نہیں حروف تہجی سے وہ مگر
کہلاتے سرپرست ہیں اردو زبان کے
ہوتا ہے ان پہ نیند میں اشعار کا نزول
سوتے ہیں وہ جو چادرِ افکار تان کے
لینا ہے کام صبر و تحمل سے اب ہمیں
دن آ گئے ہیں شاؔد کڑے امتحان کے
آپ کے تبصرے