دروغ گوئی کی فطرت کو آگ لگ جائے

فیضان اسعد شعروسخن

دروغ گوئی کی فطرت کو آگ لگ جائے

تمھاری دوغلی صورت کو آگ لگ جائے


نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو مار ڈالا ہے

خدا کرے کہ محبت کو آگ لگ جائے


فقیرِ شہر کو فاقہ کشی نے مار دیا

امیرِ شہر کی دولت کو آگ لگ جائے


وفا خرید کے رکھ لو کہیں جو مل جائے

نہ جانے کب یہاں قیمت کو آگ لگ جائے


مآلِ خفتگی دیکھو یہ قوم چیخ رہی

ذہین فکر کی غفلت کو آگ لگ جائے


حقیر سمجھے سبھی کو ذلیل کرتا پھرے

انا پرست کی شہرت کو آگ لگ جائے


بدل سکے نہ عداوت کو جو اخوت سے

تو ایسے لوگوں کی صحبت کو آگ لگ جائے


ترس نہ کھائے جو فاقہ زدوں کی چیخوں پہ

قسی القلب سی غربت کو آگ لگ جائے


چھپا ہو مقصدِ شہرت اگر بھلائی میں

تو ایسی عزت و شہرت کو آگ لگ جائے


فراقِ جاناں سے اسعؔد کا دل ہوا چھلنی

دعاءِ دل ہے کہ ہجرت کو آگ لگ جائے

آپ کے تبصرے

3000