اللهم ارفع عنا الوباء (کہانی)

ڈاکٹر شمس کمال انجم ادبیات

بچے نے بڑی معصومیت سے پوچھا: ابا آج کل آپ دفتر کیوں نہیں جاتے؟ بیٹے آج کل کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہوگیا ہے۔ اس لیے میں گھر سے ہی دفتر کا کام کرلیا کرتا ہوں۔ بچہ مارے خوشی کے تھرکنے لگا، پھدکنے لگا۔ اور خوشی سے بولا اللہ کرے یہ کورونا کبھی ختم نہ ہو کہ پھر آپ ہمیشہ ہمارے پاس رہیں گے۔ گھر میں ہی رہیں گے۔ ابا نے کہا نہیں بیٹے ایسا نہیں کہتے۔ کورونا ایک وبا ہے۔ کورونا ایک بیماری ہے۔ کورونا ایک مہلک اور متعدی مرض ہے۔ جس کو یہ بیماری لاحق ہوجاتی ہے اگر وہ کسی کو چھو دے، کسی پر چھینک دے تو وہ بھی اس بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس بیماری کی دوا بھی نہیں ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو کسی الگ جگہ رکھ دیا جائے۔ انھیں قرنطینہ میں رکھ دیا جائے یہاں تک کہ وہ ٹھیک ہوجائیں۔ اسی لیے یہ بیماری دنیا میں جہاں جہاں پھیلی ہے وہاں وہاں لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے۔ بازار بند، دکانیں بند، شاپنگ مال بند، بس بند، ریل گاڑی بند، ہوائی جہاز بند، اسکول بند، کالج بند، یونیورسٹی بند۔ سب کچھ بند کردیا گیا ہے۔ اور سرکار نے کہا کہ کوئی آدمی گھر سے نہ نکلے تاکہ نہ تو کسی کی بیماری اسے لگے نہ ہی اس کی بیماری کسی اور کو لگے۔ سرکار نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ اپنے ہاتھ پاؤں اور منہ کو بار بار دھوتے رہنا چاہیے تاکہ اس بیماری سے حفاظت ہوسکے۔ ہزاروں لوگ اس بیماری سے مرچکے ہیں۔ لاکھوں لوگ اس بیماری سے متاثر ہوگئے ہیں۔ انھیں قرطینہ میں رکھ کر ان کے بال بچوں سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے۔ بہت سارے لوگوں کی نوکریاں چھوٹ گئی ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں۔بہت سارے مزدور اپنے گھروں گو نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کے گھروں میں کھانے پینے کا سامان نہیں ہے۔ مسجدیں بند ہیں۔ وہاں نماز پڑھنا منع ہوگیا ہے۔ گرودوارے بند ہیں۔ مندر بند ہیں۔ چرچ بند ہیں۔ سب کچھ بند ہے۔ لوگ بہت پریشان ہیں۔
بچہ غمزدہ ہوگیا۔ اس نے کہا اچھا! ایسی بات ہے؟ اس نے پھر معصومیت سے کہا: پھر تو میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالی اس بیماری کو جلد از جلد دور کرے۔ اس وبا کو دور کرے۔ اس لاک ڈاؤن کو ختم کرے تاکہ ساری دکانیں کھل جائیں سب کو سامان ملنا میسر ہوجائے۔ ساری ٹرینیں، بس اور ہوائی جہاز چلنے لگیں تاکہ لوگ اپنی اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔ سب کی نوکریاں بحال ہوجائیں تاکہ ان کی روزی روٹی کا سامان ہوسکے۔ مساجد ومعابد کھل جائیں تاکہ لوگ نمازیں پڑھ سکیں، اپنے اپنے رب سے قریب ہوسکیں۔ دفتر کھل جائیں تاکہ آپ دفتر جاسکیں۔ اسکول کھل جائیں تاکہ بچے اسکول جاسکیں۔ کالج اور یونیورسٹیاں کھل جائیں تاکہ پڑھنے پڑھانے ریسرچ اور تحقیق کا کارواں پھر سے آگے بڑھ سکے۔
ابا نے آمین کہا اور اپنی سوچوں میں غرق ہوگئے۔ وہ سوچنے لگے ہماری تہذیب ومعاشرت بھی کس قدر بدل گئی ہے کہ اللہ کی پناہ! لاک ڈاون سے پہلے ہم دن رات بھاگ رہے تھے۔ نہ ہمارے پاس اپنے لیے وقت تھا نہ اپنے بال بچوں کے لیے۔ نہ اللہ کے لیے وقت تھا نہ قوم کے لیے نہ سماج اور دنیا کے لیے۔ ہم بس کام اور کام کررہے تھے۔ ہم انسان نہیں مشین بن چکے تھے۔ ہماری تہذیب، معیشت اور معاشرت کا خانہ خراب ہوچکا تھا۔ اب یہ جو کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہوا تو سب کو ایک بار پھر موقع ملا کہ وہ اپنے اپنے اہل خانہ، ماں باپ، بال بچوں اور اہل وعیال کے ساتھ تھوڑا وقت صرف کرسکیں۔ تھوڑی جسمانی اور ذہنی راحت کا احساس کرسکیں۔ وقت پہ سوئیں وقت پہ جاگیں۔ وقت پہ نماز پڑھیں اور عبادت کریں۔ وقت کی اہمیت کو پہچانیں، انسانیت کو جانیں اور اس کی قدر کریں۔ رشتوں کا احترام کریں۔ آدمیت سے پیار کریں۔ غریبوں محتاجوں مسکینوں اور بیواؤں کی خبر گیری کریں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کریں۔
در اصل اللہ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔ وہ اس کورونا سے ساری انسانیت کو کیا درس دینا چاہتا ہے کسی کو پتہ نہیں۔ اللہ کرے یہ وبا جلد از جلد دور ہو۔ لاک ڈاؤن ختم ہو اور سارا نظام ہستی پھر سے اپنی روٹین پر آجائے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000