حالانکہ دشمنوں کا مجھے کوئی ڈر نہ تھا

خمار دہلوی شعروسخن

حالانکہ دشمنوں کا مجھے کوئی ڈر نہ تھا

اپنے ہی دوستوں سے مگر باخبر نہ تھا


پودے کو اپنا خون پلا کر شجر کیا

لیکن مرے نصیب میں اس کا ثمر نہ تھا


کہنے کو یوں تو بھیڑ تھی احباب کی مگر

افسوس یہ کہ ان میں کوئی معتبر نہ تھا


دارالاماں سمجھتے جسے مشکلات میں

ایسا تمام شہر میں کوئی بھی گھر نہ تھا


کرتا بھی میرے حال پہ کیا کوئی تبصرہ

اہل زباں نہ تھا کوئی اہل نظر نہ تھا


کیا چارہ سازیوں میں کمی رہ گئی کوئی

یا چارہ ساز تیری دوا میں اثر نہ تھا


چہرے کے داغ دیکھ کے اندیکھے کردیے

یا شہر میں خمار کوئی شیشہ گر نہ تھا

آپ کے تبصرے

3000