مولانا عبدالوہاب خلجی رحمہ اللہ

ایم اے فاروقی

روشن چراغ بجھتے ہیں تو تاریکیوں کا احساس فزوں تر ہوجاتا ہے، تارے ٹوٹتے ہیں تو دنیا کی بے ثباتی نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے، پرانے احباب جو علم کے  نگینے تھے ایک ایک کرکے اٹھتے جارہے ہیں، ابھی ایک ہفتہ قبل فضیلۃ الشیخ صلاح الدین ایک محفل میں کہنے لگے:” فاروقی صاحب ہم لوگ بونس میں چل رہے ہیں، نہ جانے کب کس کا بلاوا آجائے، شیخ ابوالکلام بھی چل بسے”۔ جی دھک سے کر کے رہ گیا، ہم سے ایک جماعت نیچے تھے، طالب علمی کے دور میں کافی قربت رہی، حیدر آباد کو وطن ثانی بنا لیا تھا۔
کل( 13/ اپریل ۲۰۱۸) ٹرین میں بیٹھا ہوا مسافرت اور غربت کے مضمرات کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ مولانا عبد الوھاب خلجی کے سانحۂ ارتحال کی خبر ملی، ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے خون نچوڑ لیا ہو، ان کی موت پوری جماعت کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے، ان سے محبت کرنے والوں کی زبان پر یہی جملہ ہے، فیس بک اور وہاٹس ایپ پر یہی جملہ گردش کر رہا ہے ۔
مولانا ایک بڑے عالم اور جماعت کے بے لوث خادم تھے، ان کا بڑکپن یہ تھا کہ اپنی بے پناہ مشغولیات کے باوجود دوستوں سے ملنے کا وقت نکال لیتے تھے، تواضع، خاکساری کا ایسا اظہار کہ سامنے والا شرما جائے، قیادت اور تنظیمی صلاحیت فطری تھی، حصول علم سے فارغ ہوئے تو کسی مسجد کے  امام یا کسی مدرسہ کے مدرس بننے کے بجائے اپنے ذوق کے اعتبار سے دائرۂ کار کا انتخاب کیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ جماعت کی وہ کشتی جو گول گول بھنور میں گھوم رہی تھی، اسے ساحل سے لگایا، جماعت کے کام مشینی انداز میں  گرتے پڑتے چل رہے تھے، آپ نے ان کی تنظیم کی، الگ تھلگ پڑی جماعت کے روابط اس طرح بحال کیے کہ آل انڈیا اہل حدیث کی یاد  تازہ کردی، دیگر تنظیمات کی تقاریب میں مولانا خلجی کو اہلحدیث کے نمائندے کی حیثیت سے عزت و احترام سے بلایا جانے لگا، جماعتی شناخت کو مستحکم ہونے میں دیر نہ لگی، شخصیت بھی پر رعب تھی، لحیم شحیم ، گورے چٹے، خوبصورت شاداب داڑھی، سر پر قراقلی اونچی ٹوپی، جہاں بیٹھتے نمایاں رہتے، خطابت کا ان کا اپنا انداز تھا، بولتے تو افصح اللسان نظر آتے، مسئلہ پیچیدہ ہوتو آپ کی صائب رائے کی طرف لوگوں کی نگاہیں لگی رہتیں، اپنی جماعت کے ساتھ نہ جانے کتنی ملی اورقومی تنظیموں کے فعال ممبر تھے، اپنی جماعت کو آپ نے وہ سب کچھ دیا جو اسے چاھیے تھا، ناقدین کی آنکھوں میں بھی کھٹکتے رہے، تنقیدیں بھی خوب ہوئیں، کوئی تھڑدلا ہوتا تو ساری ذمہ داریاں چھوڑ کر کنارے ہوجاتا ۔ یہ حقیقت ہے کہ تنقیدیں بھی اسی کی ہوتی ہی جو میدان عمل میں ہوتا ہے، گوشۂ عافیت میں سر چھپانے والے اس درد کی لذت اور ذائقہ کیا جانیں۔
مرکزی جمعیۃ سے وابستگی کے بعد میٹنگوں میں شرکت کے لیے جامعہ سلفیہ اکثر و بیشتر آتے، ہم مدرسین سے بھی ملتے، انکساری اور حسن اخلاق کا وہی مخصوص انداز ہوتا جو ان کے مزاج میں تھا، پان عادتاً کھاتے تھے یا نہیں یہ تو نہیں معلوم لیکن جب بھی وہ فارغ ہوتے، مجھے کمچھا چلنے کی فرمائش کرتے، کہتے آپ کا پان بڑا مزیدار ہوتا ہے، بعد کے ادوار میں کئی کئی سالوں بعد ملاقات ہوتی، لیکن ایسے پرتپاک انداز میں ملتے اور یادوں کو اس طرح شیئر کرتے کہ جیسے پچھلے ہفتہ ملے ہوں۔
ان کی زندگی میں جو بھی نشیب و فراز آئے وہ تاریخ کا حصہ بنتے چلے گئے، بڑے لوگوں کی اپنی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی ہے، ہم اہل حدیثوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم اہلحدیثیت کے بجائے غیر مقلدیت کی راہ پر اس طرح چل پڑے ہیں کہ علماء اور بزرگوں کا احترام کرنا بھی منہج سلف کے خلاف سمجھتے ہیں، زندگی میں روزانہ ملامت کے ٹوکرے سر پر انڈیلتے ہیں اور بعد از ممات مرثیہ خوانی کرتے نظر آتے ہیں، حالاں کہ یہی وہ رویہ ہے جس کی شدت سے مخالفت سلف نے کی ہے، مولانا خلجی  سے ان کے عروج کے زمانے میں لوگ بد گمان رہے، وہ یہی سمجھتے رہے کہ اس کے پاس تاج سکندری ہے، حالاں کہ وہ ایک مرد مجاہد تھا، جس کے پاس دلق قلندری بھی نہ تھا ،ایسا مجاھد جس کی کہانی صدیوں زندہ رہے گی۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
رضوان

تشنگی باقی رہی….
تھوڑا اور تفصیل سے بیان کریں تاکہ ہم جیسے مبتدی اپنے اسلاف کی تاریخ کو جان سکیں.

Abdul Rehman Abdul Ahad

مضمون ادھورا محسوس ہوتا ہے