کیا کسی عذر کے سبب صفوں کے درمیان فاصلہ رکھنا عذاب الہی کو دعوت دینا ہے؟

ابو احمد کلیم الدین یوسف عبادات

محترم قارئین: حالیہ مہاماری “کورونا” کے سبب صفوں کے درمیان دوری رکھ کر جماعت ادا کرنا، صحت کی حفاظت خاطر ایک مطلوب امر ہے، اور یہ دوری اطباء کے کہنے پر کی گئی ہے، کیوں کہ یہ متعدی مرض ہے، جو مشیت الہی سے ایک سے دوسرے میں سرایت کرتا ہے، اور اس بیماری کے پھیلنے کا بنیادی سبب ایک دوسرے سے بالکل قریب ہو کر گفتگو کرنا یا ملنا، یا بھیڑ لگانا ہے، اس لئے ثقہ علماء کرام نے یہ فتوی دیا کہ بیماری سے بچنے کیلئے صفوں کے درمیان ایک محدود دوری رکھنا جائز ہے جس سے بیماری کے متعدی ہونے کا خطرہ کم رہے اور با جماعت نماز بھی ہو جائے.
اب بعض احباب کا کہنا ہے کہ: صفوں کے درمیان دوری رکھ کر نماز پڑھنا عذاب الہی کو دعوت دینا ہے.
ان کا یہ کہنا کئی اسباب کی بنیاد پر درست نہیں ہے:
1- صفوں میں مل کر کھڑا ہونا واجب ہے، اور کسی عذر شرعی کے تحت واجب ساقط ہو سکتا ہے، موجودہ مسئلہ میں بیماری سے بچنا ضروری امر ہے، اور ماہرین کے مطابق اگر ہم صفوں کے درمیان ایک محدود فاصلہ رکھتے ہیں تو بیماری کے متعدی ہونے کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے، چنانچہ اس عذر کی بنیاد پر صفوں میں مل کر کھڑے رہنے کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے.
2- شریعت میں اس قسم کی مثالیں موجود ہیں، ایک مثال ملاحظہ فرمائیں، اگر جماعت کا وقت ہو چکا بلکہ اس کے لیے اقامت بھی کہہ دی گئی، اور عین اسی وقت کھانا حاضر ہے اور آدمی بھوکا بھی ہے، یا پھر اسے رفع حاجت پیش آگئی، ایسی صورت میں شریعت اسے رخصت دیتی ہے کہ وہ جماعت میں شامل ہونے کے بجائے اپنی کھانے کی ضرورت یا رفع حاجت کو مکمل کرلے، پھر نماز ادا کرے.
قارئین کرام: آپ خود غور فرمائیں کہ جب بھوک اور اور استنجا وغیرہ کیلئے شریعت نے جماعت – جو کہ واجب ہے- چھوڑنے کی اجازت دی ہے تو پھر مرض سے بچنے کیلئے صفوں کے درمیان فاصلہ بنانے کی اجازت کیسے نہیں مل سکتی، حالانکہ جماعت چھوڑنے پر سخت وعید آئی ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت چھوڑنے والے مسلمان کے گھروں کو آگ لگانے کا بھی ارادہ کیا.
اور یہاں تو جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جا رہی ہے بس عذر کی وجہ سے صفوں میں مل کر کھڑا ہونا ممکن نہیں، تو پھر یہ کہنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ عذر کی بنا پر صفوں کے درمیان فاصلہ رکھنا عذاب الہی کو دعوت دینا ہے؟؟؟
3- دوسری مثال: نمازی کے سامنے سے گذرنے کے متعلق شریعت میں بڑی سخت وعید آئی ہے، حرمین شریفین میں حج وغیرہ کے موقع پر بہت ازدحام ہوتا ہے، اسی طرح جمعہ کے دن پوری دنیا کی مساجد میں بھیڑ ہوتی ہے، اب سوال یہ ہے کہ اگر نمازِ جمعہ کے بعد کسی کو اشد ضرورت پیش آگئی جس کی بنا پر اس کا رکنا ممکن نہیں ہے، اور مصلیان مسجد اپنی اپنی سنت ادا کرنے میں مشغول ہیں تو کیا شریعت اسے اجازت دیتی ہے کہ وہ نمازیوں کے سامنے سے گذر کر اپنی ضرورت کو پوری کرے؟
یقیناً شریعت اسے اجازت دے گی، کیوں کہ شرعی قاعدہ ہے کہ “الضرورات تبیح المحظورات” بوقت ضرورت نا جائز چیزیں جائز ہو جاتی ہیں.
نمازی کے آگے سے گذرنا جو کہ حرام ہے لیکن ضرورت کی وجہ سے یہ جائز ہے تو پھر وقتی ضرورت کی بنیاد پر صفوں کے درمیان ایک محدود فاصلہ کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟
4- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ صفوں میں مل کر کھڑے ہونے کو واجب قرار دیتے ہیں، اس کے باوجود وہ فرماتے ہیں کہ: جب کوئی قیام (کھڑے ہو کر نماز پڑھنا)، قرأت (سورہ فاتحہ پڑھنا)، رکوع اور سجدہ وغیرہ نہیں کر سکتا تو اس سے یہ چیزیں (یعنی قیام، سورہ فاتحہ کی قرأت، رکوع اور سجدہ) ساقط ہو جا تی ہیں تو پھر (عذر کی بنیاد پر) صف بندی بھی ساقط ہو سکتی ہیں.
الفتاوی الکبری لابن تیمیہ (2/ 327).
خلاصہ کلام یہ کہ بعض اوقات عذر کی وجہ سے واجب ساقط ہو جاتا ہے، اور صف میں مل کر کھڑے ہونا راجح قول کے مطابق واجب ہے، یہ بھی عذر کی وجہ سے ساقط ہو سکتا ہے، اور حالیہ دنوں میں پائی جانے والی وبا عذر میں شامل ہے، جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں تفصیل سے بات آئی.

ایک اعتراض یہ ہے کہ: “جب اس وبائی مرض “کورونا” کی ابتداء ہوئی تھی تو اس وقت مساجد بند کر دی گئی تھیں، تو مزید چند مہینے کیوں نہیں بند رہ سکتی ہیں تاکہ مرض پوری طرح ختم ہو جائے اور صف بندی جیسے فریضہ کی خلاف ورزی نہ ہو، کیوں کہ “کرونا” کی جو سنگینی شروعات میں تھی وہ ابھی بھی باقی ہے”.
اس کا جواب یہ ہے کہ: کرونا کی جو سنگینی شروع میں تھی وہ ابھی بھی ہے، لیکن شروع میں لوگوں کے اندر اس مرض کے تئیں احتیاط اور بیداری نہیں تھی، لیکن دھیرے دھیرے وہ چیز آگئی ہے، اور اکثریت احتیاطی تدابیر اختیار کر رہی ہے، اس لئے حکومت وقت کرفیو میں ڈھیل دے رہی ہے.
دوسری بات یہ کہ اس وقت حکومت کی جانب سے مسجد میں با جماعت نماز پر پابندی تھی اس لئے عوام اس فریضہ کی ادائیگی سے قاصر تھی، لیکن جب پابندی ختم ہو گئی تو ہم احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے با جماعت نماز کی ادائیگی پر قادر ہیں، اس لئے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی تلقین کی جا رہی ہے.
تیسری بات یہ کہ جس طرح صف بندی فرض ہے اسی طرح جماعت کے ساتھ نماز بھی فرض عین ہے، بلکہ صف بندی کے بہ نسبت باجماعت نماز کی تاکید زیادہ ہے، اور اس سے پیچھے رہنے والے کیلئے سخت وعید ہے، اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم ایک فرض کی ادائیگی یعنی صف بندی عذر کی بنا پر نہیں کر پا رہے ہیں تو کیا اس کی وجہ سے اس سے زیادہ اہم اور تاکیدی فریضہ یعنی با جماعت نماز چھوڑ دیا جائے؟

کیا با جماعت نماز کی ادائیگی کی استطاعت کے با وجود اسے قائم نہ کرنا عذاب الہی کو دعوت نہیں دینا ہے؟

بلکہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے با جماعت ادا کرنے سے شریعت کے دو اہم مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے، ایک نفس کی حفاظت، اور دوسرا دین کی حفاظت، نفس کی حفاظت فاصلہ رکھنے میں ہے، اور دین کے اہم شعیرہ با جماعت نماز کی حفاظت اسے مسجد میں پڑھنے میں ہے، اگر عذر کی بنیاد پر ایک واجب کے ترک سے بیک وقت دونوں مقاصد کی تکمیل ہو رہی ہے تو ان دونوں اہم مقاصد کی تکمیل کی جائے یہ پھر ایک واجب کی وجہ سے دونوں مقاصد کو ترک کر دیا جائے، اور یقیناً دونوں مقصد صف میں مل کر کھڑے ہونے سے عظیم ہے.
نیز جان کی حفاظت کی خاطر تو خاص حالات میں بظاہر شرک کے ارتکاب کی اجازت دی گئی ہے، تو پھر اسی جان کی حفاظت کی خاطر ایک واجب کو ترک کرنے کی اجازت اس خاص حالت میں کیوں نہیں مل سکتی؟

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ: خاص طور پر بڑے شہروں میں social distance ممکن نہیں ہے، کیوں کہ وہاں لوگوں کا انبوہ ہوتا ہے، اس لئے اگر ہم حالت نماز میں دوری بنا بھی لیں تو بھی سڑکوں اور بازاروں میں یہ دوری نا ممکن ہے.

یہ اعتراض صحیح نہیں کیونکہ ہم نظام کے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے پابند ہیں، اور اگر لوگ نہیں کرتے ہیں تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم انہیں متنبہ کریں، اور ذمہ داری کا احساس دلائیں.
مثال کے طور پر ننانوے فیصد مسلمان کسی نہ کسی طرح جھوٹ بولنے میں ملوث ہیں، اور متواتر جھوٹ کی سنگینی پر قرآنی آیات اور احادیث سنائی جا تی ہیں لیکن کوئی خاص اثر نہیں، مسجد میں نصیحت سنتے ہیں اور مسجد سے باہر قدم رکھتے ہی جھوٹ شروع ہو جاتا ہے، تو اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ جھوٹ جیسی قبیح بیماری سے لوگوں کو ڈرانا چھوڑ دیا جائے کیونکہ کہ لوگ جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے.
اسی طرح اگر اکثریت اس نظام کی پابندی نہیں کرتی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی نظام کے پابند نہ ہوں، نیز اکثریت کے تعامل کو دیکھ کر با جماعت نماز جیسے اہم فریضہ سے لوگوں کو محروم رکھا جائے.

واللہ اعلم بالصواب.

آپ کے تبصرے

3000