ٹانکنے والا حیرت زدہ رہ گیا

خمار دہلوی شعروسخن

ٹانکنے والا حیرت زدہ رہ گیا

چاند ماتھے پہ اس کے ٹنکا رہ گیا


سنگِ مرمر سا وہ خوبصورت بدن

جس نے دیکھا اسے دیکھتا رہ گیا


آ گئے رو بہ رو آئینے کے جب آپ

محوِ حیرت صنم آئینہ رہ گیا


یاد کرنا تجھے بس تجھے سوچنا

یہ شب و روز کا مشغلہ رہ گیا


وقت نے بیڑیاں ڈال دیں پاؤں میں

جو جہاں تھا وہی پر کھڑا رہ گیا


جن سے امید تھی چھوڑ کر چل دیے

ہمسفر پاؤں کا آبلہ رہ گیا


وحشتِ دل جہاں لے کے آئی وہاں

غیر کوئی نہ کوئی سگا رہ گیا


ہے بلا شک وہی روشنی کا امیں

جو ہواؤں میں جلتا ہُوا رہ گیا


راکشس آبرو لوٹتے ہی رہے

موک درشک بنا دیوتا رہ گیا


اڑ گئے سب پرندے قفس توڑ کر

اور صیاد حیرت زدہ رہ گیا

آپ کے تبصرے

3000