آندھیاں بغض وعداوت کی چلانے والے
گُل نہ کر پائے دیے میرے گھرانے والے
لامکانی کی اذیّت میں بسر کرتے ہیں
اونچی اونچی یہ عمارات بنانے والے
میں بچا ہوں تو نشانے سے بچا ہوں کیسے
محوِ حیرت ہیں سبھی تیر چلانے والے
دل اگر دل سے ملائیں تو کوئی بات بنے
رسم دنیا کے لیے ہاتھ ملانے والے
گھر میں رہتا ہے کوئی خوف کا سایہ، جب تک
لوٹ کے آتے نہیں کام پہ جانے والے
کیوں پشیماں نہیں ایوان سیاست جبکہ
خودکشی کرنے لگے فصل اگانے والے
گو کہ یہ علم رہا پھر بھی شجرکاری کی
چھاؤں میں رہتے نہیں پیڑ لگانے والے
واہ واہ بہت ہی عمدہ غزل استادِ محترم 🙏