مولانا ابوالحسنات عبدالحئی لکھنؤ‌‌ی: حیات و خدمات

طارق اسعد

لکھنؤ کی سرزمین علم وادب اور فن و حکمت کے لحاظ سے ہمیشہ سے زر خیز رہی ہے۔ اس خطے کو مختلف ادبا و شعرا کے ساتھ ساتھ علما ودعاۃ کی خدمات بھی نصیب رہی ہیں۔ دوسری طرف اپنی قدیم تہذیب اورجدا گانہ ثقافت کے ساتھ ہندوستان میں اس کی ایک منفرد شناخت ہے۔ بے شک مرور ایام نے اس سے بہت ساری چیزیں چھین لی اور اس کے سابقہ حسن پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی مگر آج بھی اپنے رکھ رکھاؤ اور نفاست نیز علم و ادب کے حوالے سے یکتائے روزگار ہے۔ سرزمین لکھنؤ پر جنم لینے والی ممتاز ہستیوں میں ایک نام نامی مولانا ابوالحسنات عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ کا بھی ہے۔ مولانا کی شخصیت اتنی ہمہ جہت وہمہ گیر ہے کہ ان مختصر صفحات میں ان کا احاطہ مشکل ہے۔ بالخصوص آپ کی تالیفی و تصنیفی خدمات اور احقاق حق وابطال باطل کے لیے بے لوث مساعی کے ذکر کے لیے رجسٹر درکار ہے۔ پھر بھی سطور ذیل میں ان کی حیات و خدمات کے کچھ گوشوں پر گفتگو کی جارہی ہے۔

نام ونسب:عبدالحئی بن عبدالحلیم بن امین اللہ بن محمد اکبر بن ابوالرحم بن محمدیعقوب بن عبدالعزیز بن محمدسعید بن شہید قطب الدین انصاری سہالوی لکھنؤی۔ [۱]

کنیت: ابوالحسنات

خاندان: مولانا عبدالحئی لکھنؤی رحمہ اللہ کاخاندان علم وفضل اورزہدوتقویٰ میں معروف ومشہورتھا،آپ کے والد مولانا عبدالحلیم کاشمار ہندوستان کے کبارعلما میں ہوتا ہے۔ آپ نے فقہ، حدیث اور معقولات میں بہت ساری کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ڈاکٹر ولی الدین ندوی نے علامہ لکھنؤی کے آباء واجداد میں متعدد علما کا تذکرہ کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ علم وفضل کا سلسلہ اس خاندان میں وراثتاً چلاآرہاتھا۔ [۲]

ولادت: آپ کی ولادت ۲۶؍ذوالقعدہ ۱۲۶۴ھ بروزمنگل باندہ شہرمیں ہوئی۔ [۳]

نشوونما اورتحصیل علم: علامہ لکھنؤی رحمہ اللہ اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میں نے پانچ سال کی عمر میں حافظ قاسم علی لکھنؤی کے پاس حفظ قرآن کی ابتدا کی۔ لیکن ابھی جزء ’’عم یتساء لون‘‘ مکمل نہ ہوا تھا کہ میرے والد مجھے اوروالدہ کوساتھ لے کرجون پورآگئے، یہاں حافظ ابراہیم کے پاس دوبارہ حفظ شروع کیا اوردس سال کی عمرمیں حفظ قرآن کی تکمیل کی اوردس سال کی عمرہی میں تراویح کی امامت کی۔‘‘ [۴]
آگے کی تعلیم کے بارے میں مولانا اپنی دیگر تصنیف ’’النافع الکبیر‘‘ میں ذکرکرتے ہیں کہ گیارہ سال کی عمر میں تحصیل علوم کی شروعات کی اور سترہ سال کی عمرمیں صرف، نحو، معانی، بیان، منطق، حکمت، طب، فقہ، اصول فقہ، علم کلام، حدیث اور تفسیر وغیرہ کی درسی کتابوں کی قرأت سے فارغ ہوئے۔ [۵]
علامہ موصوف ۱۲۷۷ھ میں اپنے والد کے ساتھ حیدرآباد کے لیے عازم سفرہوئے اوردوسال تک دکن ہی میں سکونت پذیررہے۔ ۱۲۷۹ھ میں والد کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے، دوسری مرتبہ ۱۲۹۲ھ میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ والد کی وفات کے بعد مولانا حیدرآباد سے اپنے وطن واپس لوٹ آئے اوروہیں پردرس وتدریس کاحلقہ قائم کیا اور تاحیات یہ سلسلہ جاری رکھا۔[۶]

علالت ووفات: ۱۳۰۳ھ کے وسط میں مولانا پربیہوشی کے دورے پڑنے شروع ہوئے اور یہ دورے برابر بڑھتے رہے یہاں تک کہ سوموارکی شب بتاریخ ۳۰؍ربیع الاول ۱۳۰۴ھ میں آخری دورہ پڑا اورآپ کی روح قفس عنصری سے پروازکرگئی۔ إناللہ وإناإلیہ راجعون۔ [۷]
تین مرتبہ آپ کی نمازجنازہ ادا کی گئی۔ پہلی دفعہ مولوی محمدعبدالرزاق انصاری، دوسری مرتبہ مولاناعبدالوہاب اور تیسری بارمولوی عبدالمجید نے پڑھائی۔ آپ کے شاگرد مولانا عبدالحفیظ بندوی نے لکھا ہے کہ مولانا کے جنازے میں بیش وکم بیس ہزارافراد نے شرکت کی، بوقت وفات آپ کی عمر محض ۳۹ سال تھی۔ [۸]
آپ کی وفات حسرت آیات پرعبدالعلی مدراسی نے یہ اشعارکہے:
مات عبدالحي لکن لم یمت فیضانہ
إذا مات المسمٰی واسمہ لا یموت
إنہ أحیا علوم الدین في الدنیا لنا
إن في العقبیٰ لہ جنات عدن لاتفوت
لم یزل في طول عمر خادما فن الحدیث
بل لہ یوماولیلا في کتاب اللہ قوت[۹]

اولاد: مولانا کی تمام اولاد آپ کی زندگی ہی میں وفات پاگئی، صرف ایک بیٹی باحیات رہی جس کی شادی آپ کے ایک شاگرد مفتی محمد یوسف سے ہوئی۔[۱۰]

اساتذہ: آپ کے اساتذہ میں علامہ محمد عبد الحلیم بن محمد امین (مولانا کے والد)، مفتی نعمت اللہ بن مفتی نور اللہ انصاری اور مولوی خادم حسین قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے ابوالعبا س احمد بن زینی دحلان، شیخ علی حریری، شیخ عبد الغنی دہلوی اور شیخ محمد عبداللہ بن علی عثمان نجدی سے سند اجازہ حاصل کی۔[۱۱]

تلامذہ: ڈاکٹر ولی الدین ندوی نے آپ کے ۳۲ تلامذہ کا تفصیلی ذکر کیا ہے جن میں سے چند خاص شاگردان کے اسماء درج ذیل ہیں:
۱۔ ادریس بن عبد العلی حنفی
۲۔ ظہیر احسن بن سبحان علی نیموی عظیم آبادی
۳۔ حمید الدین فراہی
۴۔ وحید الزماں حیدرآبادی( نواب جنگ بہادر)
۵۔ عثمان بن اشرف علی حنفی [۱۲]

تالیفات: مولانا نے مختلف علوم وفنون میں تقریباً ۱۱۲ کتابیں تصنیف فرمائیں، جن سے نہ صرف آپ کی وسعت علمی اور کثرت مطالعہ کا پتا چلتا ہے بلکہ ایک قسم کی خوشگوار حیرت بھی ہوتی ہے کہ ۳۹؍ سال کی قلیل عمر میں ایک صد سے زائد قیمتی کتب کا سرمایہ چھوڑنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان پر اللہ رب العزت کا خاص فضل اور خصوصی عنایت تھی ؂
توفیق باندازہ ہمت ہے ازل سے
ڈاکٹر ولی الدین ندوی نے’’ حسرۃ الفحول‘‘ کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ جب آپ کے والد مولانا عبد الحلیم نے آپ کا نام عبد الحئی تجویز کیا تو کسی نے کہا کہ مولانا! آپ نے اپنے نام (عبد الحلیم) سے حرف نفی حذف کر دیا ہے۔ چنانچہ یہ ایک نیک فال ہوگیا تاکہ اس کے طفیل اس لڑکے کی عمر دراز ہو اور یہ نیک وصالح بنے۔[۱۳]
احادیث شریفہ میں مختلف ومتنوع اعمال کو درازئ عمر کا سبب بتایا گیا ہے، علما نے عمر میں اضافے کی جو توجیہات پیش کی ہیں ان میں سے ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ نیک وصالح آدمی کم عمری اور قلیل مدت میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیتا ہے جسے کر گزرنے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اسی چیز کو عمر میں برکت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے مولانا عبد الحئی لکھنوی علیہ الرحمہ کے کارناموں کی طویل فہرست پر نظر ڈالی جائے تو بخوبی اس کا انطباق آپ کی ذات پر ہوتا نظر آتا ہے۔ ۳۹؍ سال کی مختصر ترین مدت میں آپ نے دنیا کے سامنے جو علمی خدمات پیش کیں اور مختلف موضوعات کو اپنے دامن قلم میں سمیٹا وہ آپ کی صلاحیتوں کا جیتا جاگتا مظہر اور توفیق الٰہی کی منہ بولتی تصویر ہے ؂
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کی بات نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
مولانا علیہ الرحمہ اصول وفروع میں حنفی المسلک تھے لیکن تقلیدی جمود چھو کر بھی نہیں گزرا، آپ کی تالیفات وتصنیفات میں جابجا دیکھنے کو ملتا ہے کہ آپ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کو ترک کرکے صحیح حدیث پر عامل ہیں، صاحب نزھۃ الخواطر لکھتے ہیں:
’’ مولانا اصول وفروع میں امام ابو حنیفہ کے مذہب پر قائم تھے لیکن مسلکاً متعصب نہ تھے، جب کسی مسئلہ میں مسلک احناف کے برخلاف نص صریح مل جاتی تو تقلید کو ترک کردیتے اور دلیل کی اتباع کرتے۔ ’’ النافع الکبیر‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: ’’من جملہ اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے مجھے فن حدیث اور فقہ حدیث کی طرف توجہ کی توفیق عطا فرمائی ہے، میں کسی بھی مسئلے پر اس وقت تک اعتماد نہیں کرتا ہوں جب تک کسی حدیث یا آیت سے اس کی کوئی اصل (دلیل) نہ مل جائے، اور جو مسئلہ صحیح وصریح حدیث کے برخلاف ہوتا ہے اسے ترک کردیتا ہوں، میر اخیال ہے کہ اس معاملے میں مجتہد معذور بلکہ ماجور ہوتا ہے، مین ان لوگوں میں سے بھی نہیں ہوں جو عوام کالانعام کو تشویش میں مبتلا کردیتے ہیں بلکہ میں لوگوں کے بقدر فہم ان سے گفتگو کرتا ہوں۔‘‘
’’ الفوائد البھیة‘‘ میں عصام بن یوسف کے ترجمے میں لکھتے ہیں:’’ یہ بات جان لی جائے کہ اگر ایک حنفی مسئلے میں قوت دلیل کے سبب اپنے امام کے مسلک کوترک کردیتا ہے تواس کے سبب وہ دائرہ تقلید سے خارج نہیں ہوگا، بلکہ ترک تقلید کی صورت میں یہ عین تقلید ہوگی، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ عصام بن یوسف نے ’’عدم رفع‘‘ میں امام ابوحنیفہ کے مذہب کوترک کردیا پھربھی حنفیہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔‘‘[ ۱۴](للہ در ما قال)

مولانا لکھنؤی نے مختلف علوم وفنون میں جوکتابیں تصنیف فرمائی ہیں ان کا اجمالی خاکہ درج ذیل ہے:
۱۔ عقائد ۴
۲۔ حدیث ۸
۳۔ اصول فقہ ۱
۴۔ فقہ ۵
۵۔ فرائض ۱
۶۔ رقائق ۱
۷۔ تاریخ وتراجم ۱۶
۸۔ سیرت وانفرادی تراجم ۲
۹۔ موالیدوفیات ۳
۱۰۔ منطق وحکمت ۲۵
۱۱۔ علم مناظرہ ۲
۱۲۔ نحو ۲
۱۳۔ صرف ۵ [۱۵]

مولانا کی چند اہم تصانیف کے اسماء درج ذیل ہیں:
۱۔ تکملة المیزان
۲۔ حاشیة علی شرح تھذیب المنطق لعبداللہ الیزدي
۳۔ مقدمة السعایة
۴۔ إبراز الغي فی شفاء العي
۵۔ عمدۃ الرعایة بشرح الوقایة
۶۔ الآثار المرفوعة في الأحادیث الموضوعة
۷۔ الرفع والتکمیل في الجرح والتعدیل
۸۔ الفوائد البهیة في تراجم الحنفیة
۹۔ القول الأشرف في الفتح عن المصحف
۱۰۔ ردع الإخوان عن محدثات آخر جمعة رمضان [۱۶]

مولانا لکھنؤی: علما کی نظر میں
۱۔ نواب صدیق حسن خان: نواب صاحب کے صاحبزادے علی حسن خان کہتے ہیں: ’’ جب والد صاحب کوعلامہ عبدالحئی بن عبدالعلیم لکھنؤی کی وفات کی خبر موصول ہوئی تووالد صاحب نے اپنا ہاتھ پیشانی پررکھا اورکچھ دیر تک سر کوجھکائے رکھا، پھرجب گردن اٹھائی تودیکھا کہ آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں اور مولانا کے لیے دعائے رحمت فرمارہے تھے۔ والد صاحب نے فرمایا:’’الیوم غربت شمس العلم۔‘‘ [۱۷]
واضح رہے کہ نواب صاحب علیہ الرحمہ اور مولانا لکھنوی رحمہ اللہ علیہ کے درمیان عرصے سے مناقشہ ومباحثہ چلا آرہا تھا اور ایک دوسرے سے علمی مناظرہ زوروں پر تھا، دینی حلقوں میں فریقین کی معرکہ آرائی توجہ کا محور بنی ہوئی تھی، تاہم ان اختلافات کے باوجود دونوں حضرات کی الفت ومحبت اور ایک دوسرے کے تئیں جذبہ عزت واحترام بھی قابل دید تھا، سطور بالا میں علی حسن خاں کا بیان گزرا کہ مولانا لکھنوی کی وفات پر نواب صاحب کس قدر رنجور ہوئے تھے، صاحب نزھۃ الخواطر نے یہ بھی لکھا ہے کہ مولانا کی وفات پر نواب صاحب کو سخت صدمہ پہنچا اور اس رات انھوں نے کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔[۱۸]
۲۔ شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی: میاں صاحب نے ایک جم غفیر کے سامنے مولانا لکھنوی کو مخاطب کرکے فرمایا تھا:’’ آپ نابغہ روزگار اور یکتائےعہد ہیں، اس صدی میں آپ نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ کوئی اور نہ پیش کرسکا، اللہ آپ کی زندگی کو بابرکت بنائے۔‘‘[۱۹]
۳۔ مولانا محمد یوسف بنوری:’’ آپ کا تعلق ان ربانی علما سے ہے جنھوں نے روایت ودرایت کے منقول ومعقول علوم کو ورع وتقویٰ، عبادت، ہدایت اور صالحیت کے ساتھ جمع کیا ہے۔‘‘[۲۰]
۴۔ مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی: مولانا علی میاں ندوی نے انھیں ’’ علامة الھند‘‘ اور’’ فخر المتاخرین‘‘ کا لقب دیا ہے۔[۲۱]

خلاصہ یہ کہ مولانا ابو الحسنات عبد الحئی لکھنوی علیہ الرحمہ کی شخصیت کثیر الجہات اور متنوع الاوصاف تھی، آپ کی تالیفات وتصنیفات آپ کے وسعت مطالعہ، غزارت علمی اور بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔ ’’مشک آن است کہ خود ببوید نہ آنکہ عطار بگوید۔‘‘
حنفی المسلک ہونے کے باوجود تقلیدی روش سے ہٹ کر تحقیقی رائے اختیار کرنے کے سبب آپ کی تحریروں کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور لوگوں کے درمیان پھیلی ہوئی مختلف بدعات وخرافات کے لیے سم قاتل بن گئیں۔ اللہ رب العزت نے ۳۹؍ سال کی عمر میں مولانا کے ذریعے جو خدمات لیں وہ قابل رشک ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا کی ان خدمات کو ان کے حق میں صدقہ جاریہ بنا دے، مولانا کی قبر کو نور سے بھر دے اور انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین ۔ تقبل یا رب العالمین

حواشی
[۱] نزھة الخواطر از مولانا عبدالحئی حسنی ، ۸؍۲۳۴
[۲] ملاحظہ ہو : الإمام عبدالحیی اللکنوئی از ڈاکٹر ولی الدین ندوی، ص:۶۴۔۶۵
[۳] نزھة الخواطر:۸؍۲۳۴
[۴] مقدمة ’’السعایة‘‘ از مولانا عبدالحئی لکھنوی،ص:۴۱
[۵] النافع الکبیراز مولانا عبدالحئی لکھنوئی،ص:۱۵۰۔۱۵۱
[٦] ملاحظہ ہو: نزہة الخواطر: ۷؍۲۵۴، حسرۃ العالم از مولانا عبدالحئی لکھنوئی، ص:۹۰، حسرۃ الفحول بوفاۃ نائب الرسول از محمد علی الباقی، ص:۶
[۷] الإمام عبدالحیی اللکنوئی، ص:۷۹
[۸] ملاحظہ ہو: کنز البرکات از محمد عبدالحفیظ بندوی، ص: ۳۶
[۹] الإمام عبدالحئی اللکنوئی، ص:۸۰
[۱۰] حوالہ سابق، ص:۸۲
[۱۱] نزھة الخواطر: ۸؍۲۳۴
[۱۲] الإمام عبدالحئی اللکنوی،ص:۱۲۰۔۱۴۱
[۱۳] ایضا،ص:۵۹
[۱۴] نزھة الخواطر:۸؍۲۵۲۔۲۵۳
[۱۵] الإمام عبدالحئی اللکنوی،ص:۱۶۵۔۱۶۶
[۱٦] نزھة الخواطر:۸؍۲۵۳۔۲۵۵
[۱۷] ایضا،۸؍۱۹۳
[۱۸] ایضا، ۸؍۲۵۳
[۱۹] کنزالبرکات، ص:۶
[۲۰] مقدمۃ البنوری علی ’’السعایة فی کشف ما فی شرح الوقایة‘‘ از مولانا عبدالحئی لکھنوئی، ص:۱
[۲۱] معجم المؤلفین از عمر رضا کحالة، ۱۱؍۳۸

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
SHAHBAZ AHMAD

Bas bat ha

Aamir Irshad

ماشاء اللہ