زندہ رہنے کی مسلسل جستجو کرتے رہے

خمار دہلوی شعروسخن

زندہ رہنے کی مسلسل جستجو کرتے رہے

زندگی بھر دل کے زخموں کو رفو کرتے رہے


اور تو کچھ کام کرنا ٹھیک سے آیا نہیں

چشم نم کو خون دل کی آبجو کرتے رہے


ہیں وراثت کے امیں وہ لائق تحسین ہیں

خون دل سے جو غزل کو سرخرو کرتے رہے


کرنے والے تو نمازِ عشق ادا کر بھی چکے

اور ہم اشکِ تمنّا سے وضو کرتے رہے


خانہ دل میں ہمارے گو کہ وہ موجود تھا

ہم تلاشِ یار لیکن کو بہ کو کرتے رہے


بھول کہیے آپ یا اس کو ہماری سادگی

بے وفا سے جو وفا کی آرزو کرتے رہے


سونپتے آئے ہمیشہ رہزنوں کو رہبری

دیدہ دانستہ یہی کارِ سہُو کرتے رہے

آپ کے تبصرے

3000