روشنی سے مرا صحن خالی رہا

خمار دہلوی شعروسخن

روشنی سے مرا صحن خالی رہا

شہر میں جبکہ جشن دوالی رہا


وہ ہُوا جو مقدّر کو منظور تھا

ہر عمل میرا خام و خیالی رہا


مفلسی سے رہا زندگی بھر جہاد

عمر بھر شکوہ خستہ حالی رہا


حسن کا اس کے پایا نہ ثانی کوئی

اور مرا عشق بھی بے مثالی رہا


حسن کا اس نےصدقہ نکالا نہیں

میں سوالی رہا تھا سوالی رہا


جس کو چھوکر تکبر نہ گزرا کبھی

وہ سدا کے لیے لازوالی رہا


آج بھی میری غیرت بچالےگئی

آج بھی میرا کشکول خالی رہا

آپ کے تبصرے

3000