حضرت فاروقی صاحب استاذ الاساتذہ ہیں۔ استاذ مرکز امام بخاری تلولی صدیق بھائی نے پہلی بار ملاقات اپنے استاذ سے مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ بنارس میں کرائی تھی۔ مین گیٹ سے لگی ہوئی حضرت کی اس کیبن کی تصویر ابھی بھی نگاہوں میں بسی ہوئی ہے۔ دوسری ملاقات مرشد کے دانش کدے پر دلی میں ہوئی تھی۔
حضرت کی صحبت میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ گہری عقیدت رکھنے والے شاگردوں کی ایک لمبی فہرست ہے، محبت زیر نظر انٹرویو میں پوچھے جانے والے سوالوں کے لب و لہجے سے چھلکتی ہے اور ایک دو نشست ہی حضرت کے ساتھ ہم جیسے طالب علموں کو عقیدت و محبت کے جذبات سے بھر دیتی ہے۔ استاذ کی شفقت ہی ایسی بے غرض ہے۔
تیسری ملاقات اللہ جانے کب ہوگی، البتہ اس لاک ڈاؤن میں بھی ایک ادھوری ملاقات کا انتظام ہوگیا ہے۔ لیجیے واٹس اپ گروپ دبستان اردو کا یہ انٹرویو پڑھیے اور گھر بیٹھے حضرت کے درشن آپ بھی کیجیے!
عبد الحسیب مدنی: شیخ سے گزارش ہے سب سے پہلے اپنے خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالیں۔
فاروقی صاحب: نام ذرا طویل ہے یعنی محمد ابوالقاسم بن ابوالخیر بن ابو بکر بن عظیم اللہ۔ صوبہ اتر پردیش کے ضلع پرتاپ گڈھ کی تحصیل کنڈہ میں اہل حدیثوں کا ایک گاؤں پریوا نرائن پور ہے، سو ڈیڑھ سو گھروں پر مشتمل یہ ایک عام سا گاؤں تھا جس میں کچھ بڑے زمین دار تھے، کچھ چھوٹے کاشتکار تھے۔ گنگا ندی تین کلومیٹر کے فاصلے سے بہتی ہے۔ گاؤں ماشاء اللہ اب تو کافی وسیع ہوگیا ہے پہلے تین مسجدیں تھیں اب دس گیارہ مسجدیں ہیں۔ جامع مسجد ایک ہی ہے، فی الحال اس کے خطیب اور امام ہمارے شاگرد اور خالہ زاد بھائی مولانا عبدالحلیم سلفی ہیں۔ سید احمد کا قافلۂ حج جہان آباد گھاٹ پر رکا تو ہمارے خاندان کے کئی بزرگ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور توحید خالص کی سوغات لے کر واپس لوٹے۔ اسی تحریک کے اثر سے بعد میں اہل حدیث بھی ہوئے۔ شیخ عظیم اللہ پہلے اہل حدیث ہوئے اور ان کے اثر سے پورا گاؤں اہل حدیث ہوگیا۔ تعلیم یافتہ، پر جوش اہل حدیث اور وہابی تحریک کے سرگرم ممبر تھے، آس پاس کا جو شخص اہل حدیث ہوتا اسے گاؤں میں بسا دیتے۔ جماعت کے بڑے علما سے قریبی تعلقات تھے، اخبار اہل حدیث امرتسر کے ابتدائی خریداروں میں تھے، انتقال ۱۹۱۸ میں ہوا۔ ان کے چھوٹے بھائی مولوی عنایت اللہ عالم دین تھے، میرے دادا مولوی ابوبکر صدیق بھی مولوی تھے، والد محترم مولانا ابوالخیر فاروقی، مولانا احمداللہ دہلوی، شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ مبارک پوری اور مولانا نذیر احمد املوی کے شاگرد اور جماعت کے معروف عالم تھے۔ اسی گھرانے میں ۷/ فروری ۱۹۵۲کو میری پیدائش ہوئی۔ والدہ مولانا محمد ابوالقاسم سیف بنارسی کی بھانجی تھیں۔ ماموں کے سایۂ عاطفت میں پرورش پائی، بڑے بھائی ڈاکٹر خالد شفاء اللہ رحمانی کے زیر سایہ جامعہ رحمانیہ بنارس میں مکمل تعلیم حاصل کی۔
عبد الحسیب مدنی: ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے دیر سے ہی جواب دیں۔ بنیادی دلچسپی کن فنون میں ہے۔ آپ کی نظر میں طالب علم کی سب سے بڑی خوبی کیا ہے اور سب سے بڑی خامی کیا ہے؟
فاروقی صاحب: محترم میں عرصۂ دراز سے اس تحقیق میں لگا ہوں کہ مجھے بنیادی طور پر کن فنون سے زیادہ دلچسپی ہے، مگر ہنوز کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ ہمارے صاحب زادے ڈاکٹر احمد سعید کا دعوی ہے کہ میرا میدان تاریخ و ادب ہے۔ شیخ عزیر کا کہنا ہے کہ تمھارا موضوع کلاسیکل عربی ادب تھا، لیکن تم نے ظلم کیا اور اس میدان سے بھاگ نکلے۔ مدرسہ والے کہتے تھے نحو، صرف اور ادب تمھارا موضوع ہے اس لیے دوسرے موضوعات کی گھنٹیاں تمھیں نہیں دی جائیں گی۔ اس معاملے میں ابھی بھی شش و پنج میں ہوں اور کوئی حتمی جواب دینے سے قاصر ہوں۔
آپ کا سوال نمبر ۲ بہت اہم ہے۔ میرے نزدیک طالب علم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ استاد کے دروس اور لکچرس کو غور سے سنے اور سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ خود کو درسی کتابوں تک محصور کرلے اور خارجی کتابوں کا مطالعہ نہ کرے۔
فاروق عبد اللہ نراین پوری: شیخ سے میرے کئی سوالات ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں:
(۱)کس فن میں آپ اپنے آپ کو سب سے زیادہ مضبوط پاتے ہیں؟ اور اس میں مہارت پیدا کرنے کے لیے آپ نے کس طرح کی محنت کی تھی؟
(۲)کیا کسی فن میں کمزوری محسوس کرتے ہیں؟ اس کمزوری کو دور کرنے کے لیے آپ نے کون سا طریقہ اپنایا؟
(۳)آپ کا ایک مضمون پڑھا تھا جس میں آپ نے میدان خطابت سے دور بھاگنے کی بات کی تھی، سوال یہ ہے کہ اس مضمون کی باتیں سچ تھیں یا وہ بطور مزاح صرف انشائیہ تھا؟
فاروقی صاحب: (۱)شیخ یہ اعتراف کرتے ہوئے مجھے بڑی شرمندگی محسوس ہورہی ہے کہ کسی فن میں کبھی مہارت نہیں پیدا کرسکا، دلچسپی ضرور ہر اس فن میں لی جس تک میری رسائی ہوسکی۔ پڑھانے کے لیے جو موضوعات مجھے دیے جاتے تھے ان میں میری کوشش یہ ضرور ہوتی تھی کہ طلبا میری باتوں کو سمجھ سکیں، ان میں اکتاہٹ نہ پیدا ہو۔ میں نے کبھی متن کے ترجمہ و تشریح تک خود کو محدود نہیں رکھا، میری کوشش یہ ہوتی کہ طلبا کو موضوع سے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات دے سکوں۔ جو بھی فن پڑھانے کے لیے دیا گیا، پہلے تو کئی بار اس کتاب کو پڑھتا، اس سے متعلق کتابوں کو پڑھتا، حتی کہ کتاب کے مشمولات حفظ ہوجاتے۔ تاکہ بچہ اس فن سے متعلق جو بھی پوچھے اسے تسلی بخش جواب دے سکوں، اگر جواب نہ دے سکتا تو صاف صاف کہہ دیتا کہ بھیا مجھے معلوم نہیں ہے، خواہ مخواہ کی لن ترانیاں مجھے پسند نہیں۔
(۲)ریاضی میں ہمیشہ کمزور رہا۔ یہ کمزوری پیدائشی اور خاندانی ہے اس لیے دور ہی سے اسے سلام کیا، علم عروض اور فن موسیقی کی باریکیاں میرے پلے کبھی نہیں پڑیں، لاکھ کوششوں کے باوجود ان سے کورا ہی رہا۔
(۳)خطابت سے سدا میں بھاگتا رہا، مجمع میں تقریر سے پسینے چھوٹتے ہیں، نماز میں امامت سے بھی گھبراتا ہوں، بس شاگردوں اور احباب کی مجلسوں میں خوب پائیں پائیں کرتا ہوں، جب راہ فرار نہیں دکھائی دیتی تو مجبوراً چیں چیں کرنا ہی پڑتی ہے۔
ثناء اللہ صادق تیمی: کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ مدارس کا نصاب اور نظام تعلیم مختلف مسلم جماعتوں کے بیچ باہمی مخاصمت کے بنیادی اسباب میں سے ہیں۔ اگر ہاں تو آپ کی نظر میں ارباب مدارس کو کیا کرنا چاہیے؟
کیا آپ مانتے ہیں کہ مدارس کا معیار تعلیم گرا ہے؟ اگر ہاں تو طالب علم، ذمہ دار اور استاذ میں سے کس کو کتنا ذمہ دار مانیں گے؟
ادب اور زبان کی تدریس سے متعلق آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے؟ کیا مدارس میں اس سبجیکٹ کو وہ اہمیت دی جاتی ہے جو دی جانی چاہیے؟
فاروقی صاحب: تیمی صاحب آپ کے تینوں سوالات زبردست اور تفصیل طلب ہیں اور ان پر باقاعدہ علمی مذاکرہ ہونا چاہیے۔
(۱)نظام تعلیم کے بنیادی عنصر نصاب تعلیم اور طرز تعلیم ہیں۔ نظام تعلیم کا ایک مقصد متعین ہونا چاہیے اور اسی کے مطابق نصاب تعلیم اور طرز تعلیم ہونا چاہیے۔ مسلمان مختلف مسلک میں بٹا ہوا ہے، ظاہر ہے ہر ایک جماعت چاہے گی کہ اس کا نصاب تعلیم اس کے مسلک کا ترجمان ہو۔ میں سمجھتا ہوں مسلم علما جنھیں اس موضوع سے دلچسپی ہے سب کو ایک نصاب تعلیم پر متفق کرنا بہت مشکل ہے، بنائے مخاصمت نصاب تعلیم سے زیادہ طرز تعلیم ہے۔ آپ دیکھیں کہ سرکاری عربی بورڈ یوپی میں اسی لیے کافی آپشن دیے گئے، بڑے مدارس بھی خود مختار ہیں، ان کا اپنا نصاب ہے۔ ندوة العلما تحریک کا ایک اہم مقصد ایک ایسا نصاب تعلیم تیار کرنا تھا جس پر ساری جماعتوں کے مدارس متفق ہوسکیں، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ مولانا آزاد ۱۹۴۰ کے قبل سے اس کے لیے کوشاں رہے، غالبا مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی قیادت میں ایک کمیٹی بنائی تھی، جس کے متعدد سیمینار ہوئے۔ مدرسہ عالیہ رام پور کے پرنسپل، شبیر احمد غوری اور مختلف ماہرین تھے، سیمینار کے مقالے خدا بخش لائیبریری نے چار جلدوں میں شائع کیے، جو اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ شیخ جمیل شیرخاں نے ایک بار اسی گروپ میں یہ بحث اٹھائی تھی اور مختلف قیمتی پوائنٹس پیش کیے تھے۔ بہر حال اگر مختلف جماعتوں کا ایک نصاب تعلیم نہ بن سکے ایک وفاق نہ ہوسکے تو کم از کم سلفی مدارس کا ایک نصاب اور ایک وفاق بنانے کی کوشش ضرور جاری رکھنی چاہیے۔
(۲)تعلیم کے اعلی معیار کے لیے طلبا، اساتذہ اور انتظامیہ تینوں کا مساوی کردار ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ تعلیم کا معیار گرا ہے۔ اگر کہیں گرا بھی ہے تو اس کے ذمہ دار اساتذہ اور طلبہ سے زیادہ منتظمہ ہے، تعلیمی معیار کا پیمانہ ماضی کو نہیں بنایا جاسکتا، ہر دور کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اور یہ تقاضے دو چار سال میں بدلتے رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مدارس کی تعلیم کی تجدید کاری کی سخت ضرورت ہے، کچھ مدارس نے اپنی وسعت کے مطابق تجدید کی لیکن یہ بہت کم ہے، انقلابی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
(۳)ادب اور زبان کی تدریس کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ زبان وادب کی تدریس فہم شریعت اور دعوت و ارشاد کے لیے سخت ضروری ہے۔ افسوس کہ مدارس میں اس سے بالکل بے اعتنائی ہے۔ جو لڑکے اس میدان میں اچھے نکلتے ہیں وہ ان کی ذاتی جدوجہد اور ذوق کا ثمرہ ہے۔
شیر خان جمیل احمد عمری: شیخ محترم آپ اپنے تعلیمی مراحل سے روشناس کرائیے:
۱-تعلیم (دینی و عصری)
۲-اساتذہ (مشہور اور جن کو ابھی تک نہیں بھلا پائے اور اس کے اسباب)
فاروقی صاحب: (۱) تعلیم کی ابتدا اپنے خاندانی مدرسہ محمدیہ مدینة العلوم پریوا نرائن پور سے ۱۹۵۸ میں پانچ سال کی عمر میں کی۔ ۱۹۶۲ میں پنجم پاس کیا، اسی سال والد صاحب جامعہ رحمانیہ بنارس سے استعفی دے کر مستقل طور پر پریوا آگئے اور مدرسہ کی ذمہ داری بھی اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ دو سال تک فارسی اور ابتدائی عربی کی کتابیں والد صاحب نے پڑھائیں، کتابیں یہ تھیں: فارسی کی پہلی کتاب، گلزار دبستاں، گلستان، میزان منشعب، عربی کا معلم
(۲) ۱۹۶۵ میں مدرسہ سعیدیہ دارانگر وارانسی میں داخلہ لیا، استاد میرے بڑے بھائی ڈاکٹر خالد شفاء اللہ رحمانی تھے۔ یہاں پر پنج گنج، نحو میر، القرأة الراشده، شرح مأة عامل، قصص النبيين، امین الصیغہ وغیرہ ان سے پڑھی۔
(۳) ۱۹۶۶ میں جامعہ رحمانیہ مدن پورہ بنارس میں مولوی ثالث میں داخلہ لیا اور ۱۹۶۷ میں مولوی رابع مکمل کیا۔ استاد مولانا عزیز احمد ندوی، مولانا عبد السلام فیجی والے، مولانا قرة العین املوی، مولانامحمد ادریس آزاد، مولانا عابد رحمانی، مولانا عبد الحمید رحمانی اور انگلش کے استاد ماسٹر فیروز مرزا پوری تھے۔
عالمیت و فضیلت: ۱۹۶۸ میں عالم اوّل میں الجامعة المركزية (مركزي دارالعلوم، موجودہ جامعہ سلفیہ) میں داخلہ لیا،یہاں سے ۱۹۷۱ میں عالمیت اور ۱۹۷۳ میں فضیلت مکمل کیا۔ یہاں کے اساتذہ میں مولانا عظیم اللہ مئوی، مولانا شمس الحق، مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی، مولانا عابد رحمانی، مولانا عبد الوحید رحمانی، مولانا محمد رئیس ندوی، ڈاکٹر مقتدی حسن ازھری،مولانا عبد الحمید رحمانی، شیخ ربیع، شیخ ہادی، شیخ محسن، ڈاکٹر عبد العلیم، ڈاکٹر عبد القدوس، ماسٹر شمس الدین، ماسٹر اکبر علی لودھی تھے۔ اسی درمیان الہ آباد عربی و فارسی بورڈ سے منشی، عالم کا امتحان دیا۔ ۱۹۷۴ میں فاضل ادب فرسٹ کلاس پاس کیا، دوران تدریس ۱۹۷۹ میں فاضل دینیات کا امتحان دیا، پوزیشن سیکنڈ ان آل یوپی رہی۔ رزلٹ پانییر انگلش اخبار میں شائع ہوا۔ منشی کامل بھی فرسٹ ڈویژن پاس کیا، سن یاد نہیں ہے۔
بی اے اور ایم اے: ۱۹۷۷ میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں بی اے سکنڈ ایر میں داخلہ لیا۔ مضامین انگلش لٹریچر، پولیٹکل سائنس، ہسٹری تھے۔ یہیں سے ۱۹۸۱ یا ۱۹۸۲ میں اردو ادب میں ایم اے کیا، الحمد للہ یہاں بھی پہلی پوزیشن رہی، انعام کی شکل میں پچاس یا سو روپئے کی ایک چیک یونیورسٹی نے دی۔ پی ایچ ڈی کے لیے پروفیسر محمد حنیف نقوی کے اصرار پررجسٹریشن کرالیا تھا، موضوع انھوں نے دیا تھا علماء اہل حدیث کی ادبی خدمات، ایک آدھ چیپٹر غالبا تقویة الإيمان پر لکھا تھا، اس وقت کچھ زیادہ ہی لبرل تھا، ادب میں مسلکی تقسیم کا شدت سے مخالف تھا، نقوی صاحب کٹر اہل حدیث تھے، وہ کہتے ہی رہے قاسم تھیسس مکمل کرلے، نہیں تو پچھتائے گا، آخر میں نے ہتھیار پھینک دیا۔
آپ کے دوسرے سوال کا کیا جواب دوں، قاعدہ شروع کرانے سے سلفیہ تک ہر استاد نے میری تعلیم و تربیت میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے، ایک آدھ کو چھوڑ کر تقریبا سبھی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، کس کو بھولوں، کس کو یاد کروں۔ مشہور اساتذہ میں مولانا عبد الوحید رحمانی سابق شیخ الجامعہ کی شفقت اور مہربانیوں کو آج تک نہیں بھلا سکا، زندگی میں ایسے لمحے بھی آئے کہ بنارس ہی سے دل اچاٹ ہوگیا لیکن شیخ الجامعہ کی محبت نے مجھے مجبور کردیا۔ وہ میرے استاد ہی نہیں سرپرست بھی تھے، ان کی محبتیں آج بھی یاد کرتا ہوں تو دل میں ہوک سی اٹھنے لگتی ہے۔ دوسرے استاذ الاساتذہ مولانا عبد المعید بنارسی تھے، ان کے والد مولانا عبد المجید بنارسی مولانا سیف بنارسی کے استاد تھے، غالبا ۱۹۸۰ میں ان کا انتقال ہوا، میں نے ایسا ہر فن مولا استاد کسی کو نہیں پایا۔ اصولوں کے انتہائی پابند، تدریس اور تفہیم میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، ابتدائی عربی کی نصابی کتابوں کی کمی انھوں نے پوری کی۔ امین الصرف، امین النحو، امین الصیغہ، امین الکافی وغیرہ انہی کی لکھی ہوئی ہیں۔ جامعہ کے تمام اساتذہ کے مرجع تھے جب بھی کسی استاد کو علمی پیچیدگی نظر آئی اس کا حل انہی کے پاس تھا۔ ہمیشہ مجھے یاد دلاتے کہ تمھارا نام تمھارے نانا کے نام پر رکھا گیا ہے، ان کے نام کی لاج رکھنا، میں بد بخت کہاں سنتا، اللہ ان کی مغفرت فرمائے ان کا کوئی بھی شاگرد ان کو بھول نہیں سکتا ہے۔ یونیورسٹی میں دو تین اساتذہ ایسے تھے جن کی وجہ سے عصری علوم میں مجھے شد بد حاصل ہوئی، ایک پروفیسر شکلا جی جن کو ان کے گھر جاکر میں انھیں اقبال و غالب پڑھاتا تھا اور وہ مجھے ملٹن شیلی اور کیٹس پڑھاتے۔ دوسرے پروفیسر ایس کے مکھرجی تھے جنھوں نے مجھے شکسپیر کے ڈرامے گھر پر بلا کر پڑھایا۔ پروفیسر طہ صاحب قدم قدم پر میری رہنمائی کرتے رہے، وہ میرے پڑوسی بھی تھے اور بھائی صاحب کے دوست تھے، بی اے کی ساری کتابیں مہیا کیں، بریلوی تھے لیکن سلفیہ سے بڑی محبت کرتے تھے۔ سوشیالوجی میں بین الاقوامی شہرت کے مالک تھے۔ میرے بڑے محسن پروفیسر حکم چند نیر تھے، جن کی بڑی خواہش تھی کہ میں اردو ڈپارٹمنٹ بی ایچ یو میں آجاؤں لیکن مجھے سلفیہ عزیز تھا۔ نیر صاحب اردو شعبہ کے صدر تھے، ایم اے میں داخلہ کے لیے انھوں نے میرا فارم بھروایا، انھوں نے اجازت دی کہ تمھیں کلاس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے دو سال میں شعبہ میں شاید دو تین بار گیا۔
سرفراز فیضی: آپ اتنے منکسر المزاج، متواضع اور خاکسار کیوں ہیں؟ یہ منکسر المزاجی طبیعت کا حصہ ہے یا تربیت کا نتیجہ یا کسی واقعے کی پیداوار؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ کبھی حد سے آگے بڑھ کر احساس کمتری کے حدود میں داخل ہوجاتی ہے؟ کیا اس سے آپ کی ذات میں پایا جانے والا خیر محدود نہیں ہوجاتا یا کوئی نقصان جو اس سے آپ کو پہنچا ہو؟
فاروقی صاحب: آپ نے عجیب و غریب نفسیاتی سوال کیا ہے۔ میں نے اپنی ذات کے بارے میں بہت غور کیا تو پایا کہ یہ انکسار کہیں باہر سے نہیں آیا، بلکہ یہ میرے وجود کے اندر ہے۔ ہوسکتا ہے جینیٹک ہو، میرے والد بھی بے حد منکسرالمزاج تھے، میں چاہ کر بھی متکبر نہیں بن سکتا۔ ہر ذی علم مجھے اپنے سے بڑا لگتا ہے، جب کسی سے گفتگو کرتا ہوں یا کسی کی کتاب پڑھتا ہوں تو اپنی کم مائگی کا مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی احساس کم تری کا شکار ہوجاؤں لیکن یہ احساس تکبر کے مقابلہ میں مجھے زیادہ عزیز ہے۔ اپنے وجود میں پائے جانے والے خیر کی کبھی حد بندی نہیں کی، اگر کوئی خیر ہے تو میری کوشش ہوتی ہے اس کا فائدہ دوسروں تک پہنچے۔ یہ انکسار مجھے کدورت، رنجش اور انتقامی جذبے سے محفوظ رکھتا ہے۔ ملازمت کی طویل زندگی میں ہزاروں مواقع حزن و ملال کے آئے، الحمد للہ نہ کسی سے گفتگو بند کی نہ کسی سے رنجش ہوئی، نہ کسی سے معاصرانہ چشمک ہوئی۔ بعض لوگوں نے مصنوعی چشمک پیدا کرنے کی کوشش بھی کی تو میں نے یہ کہہ کر نظر انداز کردیا کہ میں ایک چھوٹا سا عام آدمی ہوں بڑوں کے سامنے میری کیا حیثیت ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میری اس جبلت کی وجہ سے کبھی کچھ نقصان پہنچا ہو۔ انسان اپنی حقیقت خود جانتا ہے اپنے مبلغ علم کو ٹٹولتا رہے تو وہ یقینا انکسار کے دائرے کو عبور کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔
عبد الغنی القوفی: اللہ کرے کہ آپ کی اس صفت(انکساری) کا کچھ حصہ ہم شاگردوں کی زندگی میں بھی آ جائے، آمین یارب۔انٹرویو زبردست چل رہا ہے ما شاء اللہ، جس بے تکلفانہ انداز میں استاذ محترم کے جوابات آ رہے ہیں ان سے یقینا سبھی کو بہت کچھ استفادہ کا موقعہ ملے گا۔ایک سوال میری طرف سے بھی، ہم نے ہمیشہ آپ کو اور حافظ عبد الحکیم فیضی رحمہ اللہ کو بقیہ اساتذہ کے مقابلے میں اردو ادب کی طرف زیادہ راغب پایا، اور وہیں سے ہمیں بھی اس طرف رغبت ہوئی۔یہ رجحان آپ کے یہاں کیسے آیا، ظاہر ہے نصابی کتابیں تو عام طور پر اصناف ادب کو بطور تبرک ذکر کرتی ہیں، ان کی طرف رغبت نہ ہونے پائے عام اساتذہ اس کے لیے کوشاں رہتے تھے پھر آپ ان سے مختلف کیوں تھے، کیا اس پہلو پر گفتگو پسند فرمائیں گے؟
فاروقی صاحب: ڈاکٹر صاحب اردو ادب خصوصا فکشن سے دلچسپی بچپن سے تھی۔ داستان اور کہانیاں بڑے شوق سے سنتا، میرے خاندان کی ایک بوڑھی اماں جاڑوں کی راتوں میں بارہ لکھندرا کی کہانی شروع کرتیں، دالان میں پوال بچھا دیا جاتا، اس کے اوپر بچھونے ہوتے، رضائی کی قلت کی وجہ سے ایک ہی رضائی میں کئی بچے گھسے ہوتے، ادھر بوڑھی اماں داستان شروع کرتیں، ادھر بچوں کے خراٹے گونجنے لگتے۔ ذرا بڑے ہوئے تو ابا نے بچوں کا رسالہ’’غنچہ‘‘ بجنور جاری کرادیا۔ اس میں ایک قسط وار کہانی ’’سونے کی فاختہ‘‘ قسط وار شائع ہوتی، رسالہ ایک دن میں ختم ہوجاتا۔ ہم سے بڑی ہماری بہن ہیں انھیں بھی ماشاء اللہ پڑھنے لکھنے کا بڑا شوق ہے، دونوں میں پہلے پڑھنے کے لیے لڑائی ہوتی، چھوٹا میں تھا، جیت میری ہوتی۔ بر سبیل تذکرہ اپنی بہن کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا، انھوں نے محض کثرت مطالعہ سے دینی اور ادبی معلومات میں بے پناہ اضافہ کیا۔ دو ماہ پہلے ملاقات ہوئی تو کہنے لگیں ابوالقاسم مجھے قرة العين حيدر كی ’’آگ کا دریا‘‘ کہیں سے لادو، مجھے خوشی ہوئی کہ گرہستی کے مسائل اور نواسے پوتوں کے شورو غل کے درمیان ادبی ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کر لیتی ہیں۔ بہت ہی محدود وسائل کے باوجود بچوں اور بچیوں کو اعلی تعلیم دلائی، عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم و تربیت کی ، ماشاء اللہ ان کی ساری اولاد کو اردو زبان و ادب سے محبت ہے۔ممبئی جیسے ہنگامہ خیز شہر میں اردو ادب سے متعلق کتابیں مطالعہ کرنے کا وقت نکال لیتے ہیں، ان کے ایک بیٹے آپ کے گروپ کے خاموش ممبر بھی ہیں، اس انٹر ویو کے بارے میں بہن نے سنا تو آدھے گھنٹے کا اپنی آپ بیتی کا ایک آڈیو دبئی سے بھیج دیا، جس کو سن کرہمارے بیٹے اور بیٹیوں کو حصول علم کی قدر و قیمت معلوم ہوئی۔ طالب علمی کے دور میں فکشن کے ساتھ ہر قسم کی ادبی کتابیں پڑھنے کا خوب موقع ملا، ادب سے دلچسپی بڑھتی چلی گئی، دوران تدریس طلبا میں حتی الوسع اپنی مادری زبان و ادب پڑھنے کی ترغیب دلاتا رہا۔
حافظ عبد الحکیم صاحب کا ادبی ذوق بہت صاف ستھرا تھا، کبھی کبھی شعر بھی کہتے تھے، ان کی اہلیہ اور خودوہ فکشن کے شائق تھے، ہر ماہ ریاض بک ڈپو سے ادبی رسائل اور ڈائجسٹ خریدتے، ان میں سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ عمومی طور پر سلفیہ و رحمانیہ کے طلبا اور خصوصی طور پر شعبۂ حفظ کے بچوں کو اولاد کی طرح عزیز رکھتے،جن بچوں کو انھوں نے حفظ کرایا وہ آج بھی انھیں یاد کر کے روتے ہیں۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ انھیں دینی کتابوں کے علاوہ ہر قسم کی کتابوں سے نفرت ہوگئی، دین داری میں جامعہ میں اگر کوئی ولی صفت تھا تو وہ حافظ صاحب تھے، وہ میرے ہمساز، ہم راز تھے، چالیس سال کی رفاقت اور دوستی کے دوران ان کے اخلاص کے بوجھ تلے ہمیشہ دبا رہا۔
یاسر اسعد: استاذ آپ کا تدریسی فترہ بہت طویل ہے، اس میں آپ نے مدارس کے طلبہ میں کیا کیا خامیاں دیکھیں؟
تلامذہ سے آپ کس حد تک لگاؤ رکھتے ہیں؟
آپ کے کچھ ممتاز تلامذہ؟
روزمرہ کی مصروفیات کیا ہیں آج کل؟
موجودہ حالات میں قیادت کے لیے علما کو عموما نا اہل شمار کیا جاتا ہے، اس کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ارباب مدارس کو اس کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
اسلام مخالف جدید افکار ونظریات کا مدرسے کا فارغ کیسے مقابلہ کرسکتا ہے؟
ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات پر آپ کی گہری نظر ہے، موجودہ متعصب اور متشدد نظریے کا مقابلہ وہ کس طرح کرسکتے ہیں، ان کا مستقبل کیا ہوگا؟
فاروقی صاحب: عزیزی یاسر! آپ نے تو سات سوالوں کی پوری لسٹ پکڑا دی، جن میں سے چار کا تعلق ذات سے ہے، تین کا تعلق سماج سے ہے، پہلے آپ پھر جگ۔
خود شناسی بڑا مشکل کام ہے۔ آدمی ستائش پسند ہوتا ہے، وہ اپنے حسن و قبح کو خوب جانتا ہے لیکن اس قدر جری نہیں ہوتا ہے کہ بغیر لاگ لپیٹ کے کھری کھوٹی اور تلخ شیریں سب کچھ قاری کے سامنے انڈیل دے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسی باتیں سامنے لائے جس سے معاشرہ میں اس کی عزت و توقیر بڑھے، اپنی خامیوں پر وہ چلمن ڈال دیتا ہے، اب یہ سائل کی ٹِرِک پر منحصر ہے کہ اس سے سچ کس طرح اگلوائے۔
(۱) آپ کے پہلے سوال کے بارے میں عرض ہے کہ خامیوں کے لفظ میں ذرا ابہام ہے، پڑھنے لکھنے سے متعلق خامیاں یا اخلاقی خامیاں یا شرعی خامیاں؟ بہر حال میں ہمیشہ مثبت پہلووں کا قائل رہا ہوں، میں ہر طالب علم میں ہمیشہ اس کی خوبیوں، صلاحیتوں اور ذہانت کو پرکھنے کی ضرور کوشش کرتا ہوں۔ خامیوں کی طرف اس لیے نظر نہیں جاتی کہ انسان تو خطاؤں کا پتلا ہے، اسی لیے میرے پینتیس سالہ تدریسی دور میں جب کسی طالب علم کے اخراج کی بات آئی، میں حتی الامکان اس کے دفاع میں اتر آتا۔ بچے شرارت کرتے ہیں، غلطیاں کرتے ہیں، ہر بچہ کی عادات و اطوار دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، انھیں سدھرنے کا موقع دینا چاہیے۔ اگر وہ طالب علمی میں نہ سدھرے تو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلہ میں وہ نہ صرف سدھرتے ہیں بلکہ معاشرہ اور قوم کو سدھار دیتے ہیں۔ وہی ادارے جن کے وہ معتوب تھے وہ سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔
خلاصۂ کلام کہ میری نظر طلبا کی خامیوں پر کبھی نہیں گئی، کٹیگریز اور درجات ہوتے ہیں۔ ہر لڑکے سے یکساں کامیابی کی توقع نہیں رکھنا چاہیے، غلطیاں نہ تلاش کیجیے، صلاحیتیں جانچیے۔
(۲) تلامذہ میں ہر ایک کے اپنے امتیازات ہیں، کوئی مکتب میں حروف شناسی کرارہا ہے تو وہ بھی صالح معاشرہ کی تعمیر میں مصروف ہے۔ کوئی دعوت و ارشاد میں لگا ہوا ہے تو وہ بہت بڑا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ کوئی تاجر ہے تو وہ بھی اپنے دائرے میں ملک و ملت کی ترقی میں مصروف ہے۔ آپ طلب دین میں لگے ہیں، یہ صرف آپ کی، آپ کے والدین کی ہی خوش قسمتی نہیں بلکہ ہماری بھی ہے۔
تلامذہ سے لگاؤ اور محبت کی نہ حد ہے نہ انتہا، میرے بچوں تک کو احساس ہے کہ میں اپنی صلبی اولاد سے زیادہ اپنے شاگردوں کے درمیان خوش رہتا ہوں۔
(۳) نام نہیں لوں گا، ہمارا ہر وہ شاگرد ممتاز ہے جو دین داری اور ایمان داری کے ساتھ شعبہ ہائے زندگی میں مصروف ہے کیوں کہ اس کے نیک اعمال میں سے کچھ نہ کچھ ہمیں بھی ضرور ملے گا۔
(۴) آپ جانتے ہیں کہ میں بندھے ٹکے معمولات کا کبھی پابند نہیں رہا، آج کل کورونا کی تالا بندی ہے، اس کے متعلق آرٹیکلز پڑھنا، چیٹ کرنا، دبستاں کی ہر پوسٹ کو چاٹنا، ٹی وی پر نیوز دیکھنا، بس یہی سب معمولات ہیں۔
(۵) ہوسکتا ہےمیری رائے سے آپ اتفاق نہ کریں۔ جس طرح علم اور دولت کا ملن کم ہوتا ہے، اسی طرح دینی سیادت اور سیاسی قیادت بھی دو الگ الگ چیزیں ہیں، متضاد نہیں ہیں بلکہ ان میں عموم خصوص من وجہ کی نسبت ہے۔ ممکن ہے کہ ایک شخص کے اندر قیادت کی بھر پور صلاحیت ہو لیکن اس کے پاس علم کی دولت بہت کم ہو، تاریخ کے مطالعہ سے ہر ملک میں اس کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔ ایسے ہی عالم ہے ممکن ہے وہ علم کا سمندر ہو لیکن قائدانہ صلاحیت اس کے اندر مفقود ہو، کبھی کبھی اللہ دونوں کو جمع بھی کردیتا ہے، اس لیے علما ہی سے قیادت کی توقع رکھنا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی کے اندر قیادت کا جوہر ہوگا تو یہ خود بخود ابھر کر آئے گا، جب ایسا ہو تو امت کے بیدار لوگوں کا فرض ہے کہ اس کی حمایت کریں، اسے آگے بڑھنے کا موقع دیں۔ مولانا آزاد جس ماحول کے پروردہ تھے ان سے ایک خاص قسم کی دینی قیادت کی لوگ امید لگائے بیٹھے تھے، لیکن وہ آئیڈیل سیاسی رہنما بنے، ہندوستانی مسلمان بدقسمت تھے کہ ایک بڑے طبقے نے ان کا ساتھ نہیں دیا، جس کا خمیازہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کب تک بھگتیں گے۔ ہنسی آتی ہے ان ناسمجھوں کی عقل پر جنھوں نے ان کی بات مانی بھی نہیں اور ان کو سب و شتم بھی کررہے ہیں۔
مدارس کے اپنے مقاصد ہیں ارباب مدارس کو ان مقاصد کی تکمیل میں تن من سے لگے رہنا چاہیے۔ اس کان میں کوئی کوہ نور ملے گا تو خود ہی اس کی آب و تاب سے نگاہیں خیرہ ہوجائیں گی۔
(۶) بنو امیہ سے آج تک ہر دور میں اسلام مخالف نظریات پیدا ہوتے رہے اور علما ان کا مقابلہ کرتے رہے۔ آپ قدیم تفاسیر، شروح حدیث اور اسلامی کتب کا مطالعہ کریں گے تو دیکھیں گے کہ اسلاف نے ان نظریات کی باقاعدہ پیمائش کی ہے، انھیں اچھی طرح سمجھا ہے پھر ان کی تردیدات کے لیے قلم اٹھایا ہے۔ ہر دور کا ٹرینڈ الگ الگ تھا، معاصر باطل نظریات کی تردید اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کا لٹریچر پڑھیں، کہاں کہاں زہر ہے اسے سمجھیں، منفی انداز میں نہیں بلکہ مثبت انداز میں ہم اپنے دین کی اس طرح تشریح کریں کہ بات ان کے پیرو کاروں کو ہضم ہوجائے۔ آپ تفسیر ثنائی کا مطالعہ کریں مولانا امرتسری نے اپنی اس تفسیر میں خصوصی طور سے آریہ سماجیت، نیچریت، قادیانیت اور تثلیث کو موضوع بحث بنایا۔ اس لیے کہ اس وقت انہی نظریات کی اسلام پر یلغار تھی۔
(۷) بیٹے ہماری چھچھلی نظر بھی آج کے حالات پر نہیں ہے، صرف اتنا جانتا ہوں کہ متشدد نظریہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتا ہے، خاص طور سے ایسا نظریہ جو غیر عقلی اور غیر منطقی ہو، جس کی بنیاد صرف اساطیر پر ہو۔ جبر سے انسانی جسم کو کچھ عرصہ کے لیے غلام تو بنایا جاسکتا ہے لیکن دلوں پر راج نہیں کیا جاسکتا۔ راجہ رام موہن رائے کے ہندو کالج کو انگریزوں نے دو سنسکرت پروفیسر دینے کا وعدہ کیا، انھوں نے انکار کردیا، کہا کہ ہم سنسکرت کا ٹیچر لے کر کیا کریں گے، ہمارے سماج کا بچہ بچہ سنسکرت جانتا ہے، دینا ہے تو سائنسی علوم کے لیے ٹیچرس دیجیے۔ راجہ رام موہن رائے نےاپنا کالج اس وقت کھولا تھا جب سرسید کی پیدائش ہوئی تھی، آج ہمیں اپنے تعلیمی سانچے کو بدلنا ہوگا، نہیں بدلے تو حکومتیں اپنی مرضی کے مطابق بدل دیں گی اور آپ کچھ نہیں کرپائیں گے۔ تعلیم ہی کے ذریعے آپ آگے بڑھ سکتے ہیں ہر قسم کے نظریات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ آپ علما ضرور بنائیے مگر اس کے ساتھ کثرت سے وکیل، آئی ایس، پی سی ایس اور سرکاری اہل کار پیدا کیجیے، اپنی شناخت قائم رکھنے کے لیے دنیاوی علوم میں بھی آگے بڑھیے، ابھی آپ برادران وطن سے سو سال پیچھے ہیں، اپنے کو بیدار کیجیے مستقبل کو اللہ کے بھروسے چھوڑ دیجیے۔
عبد القدیر: شیخ! فاروقی نسبت کے بارے میں بھی اگر مناسب ہو تو روشنی ڈالیں۔
فاروقی صاحب: مجھے معلوم تھا کہ عبد القدیر صاحب فاروقی نسبت کے متعلق ضرور سوال پوچھیں گے۔ در اصل وہ ان واقعات کی تفصیل معلوم کرنا چاہتے ہیں جو مجھے اس نسبت کی وجہ سے پیش آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نسبت میرے لیے پیر تسمہ پا بن گئی ہے، میں اسے چھوڑنا چاہوں تب بھی یہ مجھے نہیں چھوڑتی ہے، ایک تو میرا نام کافی لمبا ہے، اختصار کے لیے آپ بگاڑنا چاہیں تو اور طویل ہوجاتا ہے۔ اس خاندانی نسبت نے بہت آسانی پیدا کردی مگر افسوس کہ اس نسبت نے درد بھی اس قدر دیے کہ میں نے نام کے ساتھ کچھ عرصہ تک یہ نسبت ترک کردی تھی، مگر دوست احباب تھے کہ ان کی زبان پر فاروقی اور فروقیا ہی چڑھا رہا۔عبرت و موعظت کے لیے دو تین واقعے آپ کی بصارتوں کی نذر کرتا ہوں:
(۱) مدرسہ رحمانیہ کے کٹرے میں میری ایک کتابوں کی دکان تھی، عصر بعد سلفیہ سے کئی ایک دوست آجاتے، ہماری دکان کے سامنے ایک صاحب کی دکان تھی، جس میں باقاعدہ گدا اور مسند وغیرہ کا انتظام تھا، مختصر سی مجلس بھی جم جاتی۔ ایک دن ایک دوست آئے اور السلام علیکم فاروقی صاحب کہہ کر بیٹھ گئے، دوسرے اور پھر تیسرے آگئے، ہماری دکان پر ایک ہٹا کٹا ، قوی ہیکل ، چھ فٹا کسٹمر کھڑا تھامیں نے اس سے پوچھا بھائی کیا چاہیے؟ اس نے پہلے بلند آواز کے ساتھ سلام کیا، میں دکان کے اندر تھا، بیچ میں کاؤنٹر دوسری طرف وہ تھا، وہیں سے آدھا دھڑ اندر کیا اور مجھے یہ کہتے ہوئے بھینچ لیا کہ حضرت! مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہماری قوم میں اتنی بڑی بڑی مولانا ہیں کہ سب ان کو سلام کرتے ہیں، وہ بے چارہ خوشی کے آنسو پوچھتا ہوا واپس چلا گیا۔ ہمارے احباب ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے، اس شخص کا تعلق گدھے پر مٹی اینٹ ڈھونے والی ایک برادری سے تھا، جسے بنارس میں گدھیلا یعنی گدھا والا کہتے ہیں۔بجر ڈیہہ بنارس میں ان کا پورا محلہ ہے، جس کا نام فاروقی نگر ہے۔اس واقعے کے شاہد ہمارے دوست ماسٹر احمد حسین ابھی ماشاء اللہ حیات ہیں، کل بھی ان کا فون آیا تو پہلا جملہ ان کی زبان سے یہی نکلا، ابے گدھیلے فاروقی کہاں ہے؟
(۲) ایک خاتون میری اہلیہ سے اکثر و بیشتر ملنے آتی تھیں ۔ ایک دن وہ پوچھنے لگیں: باجی آپ کی برادری کیا ہے، پہلے تو انھوں نے ٹالنے کی کوشش کی، پھراس کے اصرار پر بتادیا کہ ہم لوگ شیخ فاروقی ہیں۔ فاروقی پر اس نے دھیان نہیں دیا، اہلیہ کو یہ کہتے ہوئے گلے لگا لیا کہ باجی ہماری برادری بھی یہی ہے، اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں اور کہا: باجی روئی دھننے کا سامان آپ کے یہاں نظر نہیں آرہا ہے۔وہ در اصل شیخ منصوری تھی۔
(۳) میں نئی سڑک لطیف لیب میں اپنی بلڈ رپورٹ لینے گیا، کاؤنٹر پر میرا نام ایم اے فاروقی پکارا گیا، ایک صاحب اور بیٹھے ہوئے تھے فورا میری طرف لپکے اور کہنے لگے معاف کیجیے کیا آپ فاروقی ہیں؟ میرے ہاں کہنے پر کہا: در اصل میں بھی فاروقی ہوں، خاندانی خون نے جوش مارا تو آپ کے پاس آگیا۔اسلام میں برادری وغیرہ تو نہیں ہوتی ہے لیکن حدیث شریف میں یہ بھی تو آیا ہے کہ فاروقی سب سے افضل ہوتے ہیں، میں نے ان کو سمجھا یا متاثر ہوئے، سلفیہ کے ریسٹ روم میں ملنے آتے رہے۔ وہ شمس الرحمان فاروقی کے رشتہ دار تھے، ایک دن میرا موڈ خراب تھا، سخت گرمی تھی، اسی میں اپنا شجرہ پوچھ بیٹھے میں نے جب ثابت کیا کہ آپ لوگ کنورٹڈ ہیں تو ناراض ہوکر واپس چلے گئے اور دوبارہ کبھی نہیں آئے۔
فاروق عبد اللہ نراین پوری: لیکن یہ نسبت ہے کس کی طرف؟ جگہ، قبیلہ، شخص؟
فاروقی صاحب: میری فاروقی نسبت ہندوستانی مسلم معاشرہ کی دین ہے، اسے صرف ایک سرنیم کی حیثیت سے استعمال کرتا ہوں، برادری کے بندھنوں کو ہم نے عرصہ ہوا توڑ دیا، ہاں اس بارے میں جو معلومات ہیں اسے ذکر کردیتا ہوں:
اس سلسلے میں زبانی روایات اور انساب کے موضوع پر جن کتا بوں کو میں نے پڑھا ان سے میں نے یہی نتیجہ نکالا کہ ہندوستانی مسلمانوں میں نسبتوں کا فروغ ہندوستانی تہذیب کے زیر اثر ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ مختلف ادوار میں عرب قبائل کے لوگ ہندوستان کو اپنا وطن بناتے رہے، تاتاریوں کے حملے کے بعد خاندان غلامان کے ملوک نے عرب کے لٹے پٹے خاندانوں کے لیے ہندوستان کے دروازے کھول دیے، اس سے قبل کیرالہ سے گجرات تک عرب مسلمان سواحلی علاقوں کو اپنا وطن بناتے رہے،جنھیں غالبا موپلاز کہا جاتا ہے۔ کرناٹک، مالوہ،خاندیش اور گجرات کی مسلم مملکتوں میں عربوں کی اچھی خاصی تعداد تھی، خاندیش میں فاروقیوں کی تین سو سال تک حکومت رہی (دھولیہ، ناسک اور مالیگاؤں ، منماڈ وغیرہ کے علاقے خاندیش میں شامل تھے )ان کی فوجوں میں نوائط کی بہت بڑی تعداد شامل تھی جو عراق سے آئے تھے۔ڈاکٹر حمید اللہ آف پیرس کا خاندان بھی شائد نوائط سے تھا، دھار کے قریب پیتم پور میں آج بھی سندھی مسلمانوں کا ایک بڑا علاقہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت کے بعد صحابۂ کرام اور ان کی نسلیں عرب تک محصور نہیں رہیں، عرب و ہند کے مابین تجارتی اور سیاسی تعلقات کی وجہ سے دونوں میں تہذیبی اور معاشرتی لین دین تاریخ کے ہر دور میں جاری رہی، حتی کہ ماضی قریب میں حیدر آباد یمنی اور سعودی قبائل کا ایک مرکز بن گیا۔گجرات میں بھڑوچ، بڑودہ، کھمبات، جمبو سر، سورت، نڈیاڈ ، گودھرا وغیرہ میں بہت سے خاندان ایسے ہیں، جن کا رہن سہن اور معاشرتی سسٹم عربوں سے ملتا جلتا ہے۔
مسلم فاتحین کے ساتھ عرب شیوخ بھی ہوتے، یہ لوگ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں دعوت کا کام کرتے، حکومت انھیں شریعت سے متعلق مناصب دیتی، زیادہ تر قضا سے متعلق عہدے انہی کے پاس ہوتے، اسی لیے بہت سے خاندان ایسے ہیں جن میں قاضی کا لقب آج بھی برقرار ہے۔ چنانچہ سید سالار مسعود غازی کے ساتھ جو لوگ آئے ان میں اچھے خاصے شیوخ تھے، ان کا ایک بڑا مرکز کڑا مانک پور تھا، سادات اور شیوخ کی زیادہ تر نسلیں یہیں سے ہندوستان کے بیشترعلاقوں میں پھیلیں، ہندوستانی سماج اور تہذیب میں وہ ایسی ضم ہوئیں کہ کچھ ہی خاندان ایسے تھے جو اپنے نسب نامے محفوظ رکھ سکے۔
اللہ نے قومیں اور قبائل تو صرف شناخت کے لیے بنائے، لیکن ہندوستانی مذہب اور معاشرہ میں اعلی اور ادنی کی پہچان اور ذات پات کافروغ ہندوستانی مسلم معاشرہ پر اس قدر اثر انداز ہوا کہ ہندو ورن کے متوازی اس نے ذات پات کا ایک مستحکم نظام بنا لیا۔ اس بارے میں انھیں اسلام سے کوئی مدد نہیں مل سکی تو خاندانی نسبتوں کی رسیاں بٹی گئیں، ذات پات کی یہ مضحکہ خیزی تھی کہ اس میں خاندانی نسبتیں، وطنی نسبتیں، شاہی نسبتیں، پیشہ سے متعلق نسبتیں سب کو ملا کر ہندو معاشرہ کی طرح اعلی اور ادنی کی تقسیم کی۔
حکمرانوں اور بادشاہوں اور ان کی نسلوں کو بھی مقدس نسبتوں میں شامل کیا گیا، ہندوستان میں مسلم فاتحین الگ الگ علاقوں سے آئے ان کے ساتھ ان کے قبیلوں کے لوگ بھی تھے، لہذا قبیلوں کی نسبت بھی اعلی قرار پائی۔ ایک مشکل مسئلہ یہ تھا کہ جن ہندوستانیوں نے اسلام قبول کیا، انھیں کس برادری میں شامل کیا جائے، ادنی ذات والی ہندو برادریوں کے لیے اسلام میں ایک بڑی کشش یہ تھی کہ اسلام قبول کرنے پر ہم ایک ایسی قوم کا حصہ بن جائیں گے جس میں طبقاتی تقسیم نہیں ہے۔ لیکن یہاں بھی اچھوت کی بیماری سے وہ نجات نہیں پاسکے، اتنا ضرور تھا کہ جیون مرن اور عبادت کے رسوم میں انھیں برابری کا حق دیا گیا۔ برہمن، ٹھاکر اور ویشیہ کے درجات اونچے تھے، وہ مسلمان ہوتے تو خود ہی اپنا خاندانی شرف قائم رکھنے کے لیےمسلم نسبتیں اختیار کر لیتے۔ مثال کے طور پر برہمن مسلمان ہوتے توشیخ کی نسبت لگا لیتے، راجپوت مسلمان کچھ علاقوں میں اپنے ہندوانہ نسبت کو نہیں چھوڑ سکے، کچھ علاقوں میں پیشے کے اعتبار سے نسبتیں بدل لیں چھتری خان کہلائے، شیخ اور خان بہت وسیع نسبتیں بن گئیں، ترکی النسل ہے وہ بھی خان ہے، افغانی قبائل میں سے ہے وہ بھی خان ہے، مسلم کھتری ہے وہ بھی خان ہے، اسی طرح شیخ صدیقی، عثمانی، فاروقی، منصوری، ادریسی، سلیمانی بن گئے۔
سیدکا لفظ حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی نسلوں سے خاص کرنا بھی مضحکہ خیز لگتا ہے۔ سید کا لفظ عربی میں بطور احترام رائج ہے، بڑی عجیب بات ہے جو کبھی توابین کبھی روافض کہلائے انھوں نے اس لفظ کو اپناحق سمجھا، باقی جو بچا وہ مبتدعین گھسیٹ لے گئے۔ وہ بھی تو شیعان حسین اور شہدائے کربلا پر ماتم کرنے والوں میں سے ہیں، بارہ اماموں کی نسبت نے اسے بھی وسعت بخشی فاطمی، جعفری ، نقوی، رضوی اور نہ جانے کتنی نسبتیں ہیں۔ بہر حال سید کا تقدیسی دبدبہ آج بھی قائم ہے، انہی میں سے جو اہل حدیث ہوئے وہ بھی صدیقی، فاروقی ، جعفری اور نقوی حسینی ، حسنی وغیرہ نسبتوں سے سرفراز ہوئے۔ الدر المنثور فی تذکرة علماء صادق فور میں پٹنہ اور بہار کے علما کی نسبتوں کی تفصیل دیکھ سکتے ہیں۔ محمد تنزیل صدیقی نے صدیقی علما، فاروقی علما وغیرہ پر باقاعدہ تحقیقی مضامین لکھے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ مسلم نسبتیں دو طرح کی ہیں، ایک تو وہ جو سچی اور درست ہیں، ان کی بھی دوقسمیں ہیں ایک وہ جن کےانساب اور شجرے محفوظ ہیں، دوسرے وہ لوگ جن کے پاس شجرے تو ہیں لیکن مشکوک ہیں یا نسلیں نالائق تھیں انھوں نے اپنا خاندانی سلسلہ کھودیا۔ انساب گم کرنے کی ایک وجہ حکمراں طبقہ کے ظلم و ستم سے بچاؤ تھا۔ تاریخ پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے، حکمراں طبقہ جس خاندان کو اپنے اقتدار کے لیے خطرناک سمجھتا اسے پہلی فرصت میں ختم کردیتا، اسی لیے شاہی خاندان کے بہت سے افراد خانہ بدوشوں میں شامل ہوجاتے اور ملکوں ملکوں مارے پھرتے۔ اس حوالے سے بنجاروں کی تاریخ کی تحقیق کی جا سکتی ہے۔
ہندوؤں میں ذات کے اعتبار سے کام بٹا ہوا تھا، مذہب سے متعلق برہمنوں کی ذمہ داری تھی، ٹھاکر کا کام مملکتی امور کو سنبھالنا تھا، تجارت ویشیہ کا حق تھا۔ مسلم سماج نے بھی ایسے ہی اپنا نظام بنایا۔آپ نے یوپی کے کچھ علاقوں میں دیکھا ہوگا کہ وہاں کی شیوخ برادری دوسری برادریوں کو عالم کا رتبہ دینے پر تیار ہی نہیں ہوتے پیشہ اور تجارت کو ادنی کا دائرۂ کارسمجھتے، اس نے جو جاگیر دارانہ نظام بنایا اس میں شیخ سید مغل اور پٹھان کو اعلی درجہ میں رکھا اور بقیہ تمام برادریوں کو ادنی قرار دیا۔ اعلی کو اشرافیہ کے لقب سے نوازا اور تجارتی برادریوں سے لےکر تمام پیشہ ورانہ طبقوں کو اراذل کہا گیا۔ اشرافیہ میں بھی شیخ اور سید ایک درجہ کے قرار پائے اور مغل خان کو ان سے نچلا مانا گیا۔
انگریزوں نے اس طبقاتی تقسیم کو اپنے مفادات کے لیے خوب استعمال کیا، نام نہاد اشرافیہ نے بھی اپنے تحفظ کے لیے قلعے بنائے، علما نے اس کام میں ان کی پوری طرح مدد کی۔ سرسید کی تعلیمی تحریک کے ابتدائی خدو خال اور مولانا اشرف علی تھانوی کی مذہبی مہم بہت حد تک اسی قبیل سے تھی ۔
اپنے تعلق سے میرے پاس بتانے کے لیے بس اتنا ہی ہے کہ رائے بریلی سے الہ آباد تک گنگا کے کنارے کنارے شیوخ و سادات کی آبادیاں ہیں جن میں فاروقی، صدیقی، عثمانی، حسنی، حسینی، جعفری نقوی وغیرہ آباد ہیں، ان سب کے شجرے ہیں ۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ شجرے سچے ہیں یا جھوٹے، ان سب کا اصل مرکز مانک پور ، کڑہ اور اس کے مضافات ہیں، شجرہ پانچ چھ پشتوں سے زیادہ شاید ہی کسی کو زبانی یاد ہو۔ لوگ کہتے ہیں کہ بریلی کے مال خانے میں شجرے محفوظ ہیں، میری کئی پشتوں سےزبانی روایت یہی بیان کی جاتی ہے کہ ہمارے جد امجد کا نام شیخ عطا فاروقی تھا جو اپنی بیوی ام سلمی کے ساتھ ہمارے علاقے میں کہیں آباد ہوئے تھے، ایک برہمن لڑکی سے بھی شادی کی لیکن اس سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، نسل ام سلمی سے چلی گاؤں سے متصل ایک اونچا ٹیلہ ہمارے بچپن تک تھا، اس کے چاروں طرف آبادی کے آثار تھے، اسی کو ان کا مورد بتایا جاتا ہے، اب پریوا کی آبادی وہاں تک پھیل گئی ہے اور اونچے اونچے مکانات بن چکے ہیں۔
فاروقی نسبت انہی شیخ عطا کی طرف ہے، بہت تلاش و جستجو کے بعد اتنا سراغ ملا کہ شیخ عطا اپنے بھائی شیخ رزاق کے ساتھ ۱۰۳۹ء میں یہاں آکر آباد ہوئے تھے، جن سے بارہ خاندان بنے جو بائیس گاؤں میں آباد ہیں اسی لیے انھیں بارہ بائیس کہتے ہیں۔ شیخ رزاق کے نام سے رزاق پور ایک گاؤں پریوا سے متصل ہے۔شجروں کی تفصیل اور راجاؤں کے خاندانوں کی تفصیل مولوی عبد اللہ قیس علوی کی کتاب تاریخ کڑہ مانک پور مطبوعہ ۱۹۱۶ اور گزیٹیئر پرتاپ گڈھ مطبوعہ ۱۹۰۴ میں مذکور ہے۔چوں کہ شیخ عطا سے نیچے کی پشتوں کی تفصیل نہیں مل سکی اس لیے زبانی روایات اور قدیم رشتہ داریوں سے ہی ظنی علم تک پہنچ سکا، یقین اور وثوق کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہوں۔ مسلمان برادریوں کے بارے میں جن صاحب کو دلچسپی ہو وہ ڈاکٹر محمد عمر سابق صدر شعبۂ تاریخ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کی کتاب ہندوستانی مسلمانوں پر ہندو تہذیب کے اثرات ضرور پڑھیں۔
کاشف شکیل: استاذ الاساتذہ ! آپ اپنی پان کھانے والی عادت کے بارے میں کچھ بتائیں۔ آپ نے پان کھانا کب اور کیسے شروع کیا؟
فاروقی صاحب: پان کھانے کی عادت بنارسی تہذیب کی دین ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میرے اندر اثر پذیری کا مادہ زیادہ ہے، دوسروں کو متاثر کرنے کے بجائے ان کا اثر قبول کر لیتا ہوں۔طالب علمی کے دور میں ہاسٹل کی زندگی ہوتی ہے، مقامی ماحول کا اثر کم ہوتا ہے، اسی لیے اس دور میں شوقیہ بھی کبھی پان نہیں کھایا کہ دانت خراب ہوجائیں گے۔ اس وقت مقامی ساتھیوں میں بھی کوئی پان نہیں کھاتا تھا۔ فراغت کے بعد کچھ دن گھر میں رہنے کا موقع ملا، خالائیں، ماموں چچا، خاندان کے بیشتر لوگ پان خور تھے، پرتاپ گڈھیوں کے پان کھانے کا اپنا الگ انداز ہے، کمال ہے کہ پان میں پان کا پتہ ندارد، سوکھا کتھا، بڑی نزاکت سے کتری ہوئی سپاری کی مٹھی بھر ڈلیاں، مکھن اور دودھ میں گھولا ہوا چونا، لونگ، الائچی دانے، لعل محمد کی تمباکو۔ بر سبیل تذکرہ بتادوں کہ لال گوپال گنج ضلع الہ آباد کے بازار میں لعل محمد کی تمباکو کی چھوٹی سی دکان تھی، سادہ تمباکو بناتے تھے، ایک آنہ کی دو پڑیا دیتے ان کو مرے ہوئے مدت گزر گئی، ان کی تمباکو کی دکان بھی ختم ہوگئی،لیکن ان کا نام زندہ ہے۔ دیسی سادہ تمباکو جو بھی ہو پان کھانے والی بوڑھیاں اور بڈھے اسے لعل محمد کی تمباکو کہتے ہیں۔میں اپنی بڑی خالہ کے پاس جب بھی بیٹھتا وہ لونگ الائچی والا پان کھلا دیتیں، اس وقت تک پان کھانے کی لت نہیں پڑی تھی، ہاں دوستوں کی صحبت میں سگریٹ کے چھلے اور مرغولے بنانے میں لطف آنے لگاتھا۔پہلے شوقیہ پیتا، پھر سگریٹ نوشی کا عادی ہوگیا، بھائی صاحب بھی سگریٹ پیتے تھے، ان کی پیکٹ سے پار کرنے لگا۔ پھر ایسا ہوا کہ سگریٹ پیتا اور رات بھر کھانستا، والد صاحب سخت ناراض ہوتے، یہ عادت چھوڑنے کی کوشش کی لیکن قوت ارادی اس قدر کمزور ہوتی گئی کہ بدبخت نشہ حاوی ہوتا چلا گیا۔بنارس آیا تو بڑی مشکل ہوئی مگر اللہ شکر خورے کو شکر دے ہی دیتا ہے۔ رحمانیہ میں میری، حافظ عبد الحکیم اور ماسٹر احمد حسین کی تقرری ایک ساتھ ہوئی، حافظ صاحب بھی سگریٹ نوش تھے، ہم دونوں کمرہ بند کر کے بیٹھتے اور سارے ھموم دھوؤں میں اڑاتے۔ یہ صورت حال زیادہ دنوں تک نہ چلی، رضاء اللہ مرحوم پرنسپل چشمۂ حیات رہٹی جون پور اس وقت رحمانیہ کے کلرک تھے، وہ حقہ اور اس کے لوازمات خرید کر لائے، عشا بعد حقے کا دور چلنے لگا، ایک دن مجھے نہ جانے کیا سوجھی کہ حقہ توڑ دیا وہ رات کو آئے تو اپنے حقے کا دلدوز حشر دیکھا، کمرے کی ایک کھونٹی پر سلفچی، دوسرے پر چلمچی، تیسرے پر نَے ٹنگی ہوئی تھی، تمباکو، صرفہ اور قوام کا اتہ پتہ نہ تھا، صبر کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہ تھا۔ اس کے بعد ماسٹر حمید اللہ مرحوم جو اس وقت رحمانیہ میں ہندی اور ریاضی کے استاد تھے، سن انیس سو اسی میں ان کی انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے سلفیہ کے ناظم نے جامعہ میں بلالیا اور تعمیرات اور مطبخ کا انتظام ان کے سپر کردیا۔ بڑے مخلص، عبادت گذار اور اللہ والے تھے، جون پور میں ان کی وجہ سے اہل حدیثیت کو کافی فروغ ملا، اساتذہ اور طلبا انھیں استاد کا درجہ دیتے، سن بانوے یا ترانوے میں ضعیفی کی وجہ سے اپنے گھر اونچنی کلاں جون پور رہنے لگے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر عزیز الرحمان کے والد تھے، ۲۰۰۵ میں انتقال ہوا۔ماسٹر صاحب پرانے پان خور تھے، ان کے پاندان پر حملے ہونے لگے تو چار آدمیوں کی ساجھے داری میں ہم نوخیزوں کے لیے پاندان بنادیا۔ایک دن یہ ساجھے کی ہنڈیا بھی ٹوٹ گئی ۔ پھر تنبولی سے رشتہ جوڑا اور یہ رشتہ بڑا مستحکم نکلا، سلفیہ میں منتظمین کی کئی بار سختیاں ہوئیں، بہار اور بنگال کے کافی لڑکے پان خور تھے،جو اکثر در و دیوار پر گل کاریاں کیا کرتے، انھیں یہی سمجھاتا بھیایہ عادت بہت بری ہے، مجھ کو دیکھو مجلسوں میں جانا ہو تو دس بار کلی کرو ، ناظم سامنے دکھائی دے تو غلیظ پیک غٹا غٹ اندر کرو، اسراف فضول خرچی الگ ہے، لہذا ابھی وقت ہے چھوڑ دو۔ نکوٹین تو میری نسوں میں ڈیرے جما چکی ہے، پھر بھی ہر گلوری کے بعد چھوڑنے کا ارادہ کرتا ہوں، لیکن منہ صاف کرنے کے بعد ارادہ مضمحل ہوجاتا ہے۔
ہاں ایک بار میرے پان کے چوکڑے چوری ہونے لگے تھے، گھنٹی ختم ہونے کے بعد ممتاز کے کمرے میں آتا وہیں پان رکھتا تھا، کم بخت کوئی چور سارے پان اٹھا لے جاتا۔ شبہ واچ مین اور چپراسیوں پر جاتا، کسمسا کر رہ جاتا۔ پھر چوری کا سلسلہ ختم ہوگیا، بڑے دنوں کے بعد کم بخت چور نے خود چوری کا اعتراف کیا، لیکن اس وقت تک میں اور میرا مجرم جامعہ چھوڑ چکے تھے، یہ چور رشید ودود تھا۔
شیر خان جمیل احمد عمری: شیخ محترم آپ نے شادی کب کی، اولاد کتنی ہے اور ان کا کچھ تعارف ہوجائے تو نوازش ہوگی۔
فاروقی صاحب: اللہ پورے کرۂ ارضی کو کورونا کی تباہیوں سے بچائے، آپ تو سات سمندر پار ہیں، یورپ میں کورونا کاقہر دل کو دہلائے دے رہا ہے، بے پناہ طبی وسائل کے باوجود وہاں کا یہ حال ہے تو ہم ہندوستان میں رہنے والوں کا اللہ بیلی، آپ لوگ کیسے ہیں، ڈاکٹر بہاء الدین کیسے ہیں۔ اپنی شادی کے بارے میں کیا لکھوں، اس فراموش شدہ داستان کا سرا کہاں سے پکڑوں، مولانا عبد الماجد دریا بادی نے اپنی بیوی کا ذکر خیر بڈھی معشوقہکے عنوان سے کیا تھا۔ بیوی سے رومان کے لطف بھی اٹھائے اور چٹخارے لے کر احوال بھی بیان کیے۔ میری تو عاشقی کی عمر آئی اور ابھی پر پرزے نکل بھی نہ پائے تھے کہ شادی کی بیڑیوں میں جکڑ دیا گیا۔ عمر بیس سال چند مہینوں کی تھی، طالب علمی کا دور ختم ہونے میں ڈیڑھ سال باقی تھے، گرمی کی چھٹیوں میں گھر آیا تو بہنوں نے بتایا کہ تمھاری شادی کی بات چل رہی ہے، دل میں گدگدی سی ہونے لگی، پھر خیال آیا، ابھی تو عشق کا کوئی مرحلہ سر ہی نہیں کیا، ابھی سے شادی۔ اس وقت معلوم ہوا کہ ہماری والدہ مرحومہ ہمارے بچپن ہی میں اپنی پسند ابا کو بتا کر دنیا سے گئیں تھیں ، اہلیہ خالہ زاد تھیں، ہماری والدہ اور ہماری ساس سگی چچازاد تھیں، دونوں کی پرورش ایک گھر میں ہوئی تھی اور ہم راز سہیلیاں تھیں، والدہ اور والد کی یہی خواہش تھی ۔میں منگیتر سے مولانا دریا بادی کی طرح رومان لڑانے کی راہیں تلاشتا رہا اور شادی کا وقت بھی آگیا۔۷/ جولائی ۱۹۷۳ کو ازدواجی بندھنوں میں بندھ گیا، ۳۷ سال ، آٹھ ماہ اور کچھ ایام گزار کر وہ جنت کو سدھاریں، ۲۸/ مارچ ۲۰۱۲ء کو کینسر جیسے مہلک مرض سے چھ سال بر سر پیکار رہنے کے بعد اللہ نے انھیں اپنے پاس بلا لیا۔ وہ ہماری زندگی کے ہر میدان میں شریک رہیں، ہم دونوں ایک ہی ادارہ جامعہ رحمانیہ میں پڑھاتے تھے، وہ بنات میں اردو اور دینیات کی استاذہ تھیں، خواتین کی سوسائٹی میں بے حد مقبول تھیں، جب تک صحت رہی عورتوں میں دعوت و ارشاد کا کام بھی کرتی رہیں۔ جوانی کب اور کیسے گزرگئی پتہ ہی نہیں چلا۔ شدت سے یہی احساس تھا کہ اب ہم بوڑھے ہیں اور اکیلے ہیں، شریک حیات نہیں ہے حیات بھی بے معنی ہوگئی ہے، میں تو ایک لا ابالی اور لا پرواہ قسم کا انسان تھا، کپڑے دھلے ملے تو پہن لیا، نہیں تو میلے کپڑے چڑھائے ہوئے ہیں، کھانا سامنے آگیا تو کھالیا نہیں تو یوں ہی سہی، حجامت بڑھی ہے تو بڑھی ہے، ایک بار تو حجام نے بیس روپئے مانگے حالانکہ اس وقت صرف دو روپئے ریٹ تھا، میں ناراض ہوا تو کم بخت کہنے لگا، چھ ماہ بعد حجامت بنوائیں گے تو اتنے ہی لگیں گے۔ بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت میں اللہ کا خاص فضل اور اہلیہ کا زیادہ کردار تھا، تعلیم یافتہ تھیں تعلیم کی اہمیت کو سمجھتی تھیں، ماشاء اللہ سب کو خوب پڑھایالکھایا، چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں:
(۱) ڈاکٹر احمد سعید: سب سے بڑے بیٹے ہیں، جامعہ سلفیہ بنارس سے فارغ ہوئے، مسلم یونیورسٹی علی گڈھ طبیہ کالج سے بی یو ایم ایس اور ایم ڈی کی ڈگری لی، ڈیڑھ سال وہیں طبیہ کالج میں عارضی لیکچرار رہے، اس کے بعد سی یو آر آر ایم( منسٹری آف آیوش) میں ریسرچ آفیسر کی پوسٹ پر تقرری ہوگئی۔ ابھی الحمد للہ اسی پوسٹ پر دلی میں ہیں۔
(۲) ڈاکٹر فارقلیط ربانی: انٹر سائینس کے بعد فیزیو تھریپی کو میدان عمل بنایا، میڈیکل کالج مسلم یونیورسٹی علی گڈھ سے فیزیو تھریپی کا چار سالہ ڈپلوما کورس کیا، پھر ہمدرد یونیورسٹی نئی دہلی سے بیچلر آف فیزیو تھریپی اور یہیں سے نیورو فیزیو تھریپی میں ماسٹر کی ڈگری لی، میری ہاسپٹل سنگا پور میں تین ماہ کی ٹریننگ لی، ملیشیا میں تین سال رہے، گزشتہ تین سال سے ابہا سعودی عربیہ کے ایک پرائیوٹ فیزیو تھریپی مرکز میں سینیر نیورو فیزیو تھریپی اسپیسسلشٹ کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔
(۳) ڈاکٹر سعد احمد: جامعہ سلفیہ بنارس سے عالمیت کا کورس مکمل کرنے کے بعد جامعہ ملیہ نئی دہلی میں داخلہ لیے، یہاں سے بی اے کی تکمیل کے بعد ہیومن رائٹس میں ایم اے اور ایم فل کیے، اسکول آف ویسٹ ایشیا جے این یو سے پی ایچ ڈی کی، فی الحال جامعہ ملیہ میں ریسرچر ہیں۔
(۴) محمد فاروقی: انٹر تک کی تعلیم کیندریہ ودیالیہ سے مکمل کی، کیٹس غازی آباد میں انجینیرنگ کی پڑھائی کی، فی الحال اسپائس جیٹ ایر لائن کوچین، کیرالہ میں ہیں۔
تینوں لڑکیوں نے بنارس ہندو یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی، بڑی لڑکی فائن آرٹس سے گریجویٹ ہے، اس سے چھوٹی انگلش سے آنرز کیا ہے، سب سے چھوٹی ایم اے اردو میں گولڈ میڈلسٹ ہے۔ الحمد للہ تینوں اپنے اپنے گھر میں خوش ہیں چھوٹے داماد ڈاکٹر محمد اختر علیگ جامعہ سلفیہ کے فارغ اورمسلم علی گڈھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں، فی الحال وسنت کالج فار ویمن راج گھاٹ جو بنارس ہندو یونیورسٹی کی شاخ ہے اس میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، اردو افسانے کی عملی تنقید ان کا موضوع ہے اردو تنقید پر ان کی پانچ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، اردو بک ریویو کے حالیہ شمارے میں ان کی تین کتابوں پر تبصرہ شائع ہوا ہے۔
شیرخان جمیل احمد عمری: الله تعالى آپ کی اہلیہ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں انھیں جگہ عنایت فرمائے آمین۔ آپ کے جواب میں یہ سوال ابھر کر آرہا ہے کہ آپ نے اہلیہ محترمہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی کیوں نہیں کی ؟ عوارض و اسباب ؟
فاروقی صاحب: شیخ کہیں میں نے مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کا ایک واقعہ پڑھا تھا کہ دمام سعودی عربیہ گئے تھے۔ ایک بدو نے ان سے سوال کردیا کہ آپ کی کتنی بیویاں ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: صرف ایک۔وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر اس کے منہ سے نکلا: آپ کے پاس فلوس نہیں ہوں گے۔جواب ملا: الحمد للہ کافی پیسے ہیں۔اس نے کہا: اچھا تو آپ مریض ہوں گے؟ مولانا نے مسکرا کر کہا: اللہ کا شکر ہے صحت مند ہوں۔ اس بے چارے کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ جب سب کچھ ہے تو آدمی ایک بیوی پر کیسے قانع رہ سکتا ہے۔ اس نے اپنا حال بھی بتایا کہ میری چار بیویاں ہیں ،سب کو ایک ایک مکان اور سو سو اونٹ دے رکھا ہے۔
ممکن ہے آپ بھی سوچ رہے ہوں کہ ضرور کچھ نہ کچھ عوائق اور موانع ہوں گے ورنہ بغیر بیوی کے میں کیسے رہ رہا ہوں۔ لوگ تو دوسری اور تیسری کی تمنا ہی کرتے رہ جاتے ہیں اور الحمد للہ میرے پاس تو رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔ پچھلے ہفتے میرے بیٹے دکتور ربانی کہنے لگے ابو آپ تو ہمت ہی نہیں کرپارہے ہیں، آج میرے پاس ایک مریض آیا پچھتر سے اوپر ہی رہا ہوگا، اس کے ساتھ ایک ادھیڑ شخص اور ایک ڈھائی سال کا بچہ تھا، ادھیڑ سے میں نے پوچھا آپ کا بچہ ہے اس نے کہا نہیں میرا بھائی ہے۔ یہ بوڑھے ہم دونوں کےوالد ہیں ٹریٹمنٹ کے دوران بڈھے سے پوچھا کتنی بیویاں ہیں کہنے لگا کہ فی الحال دو ہیں، چھ شادیاں کیں، دو مرگئیں، ایک کو طلاق دیا، ایک نے طلاق لے لیا، دو ہی پر گزارہ کر رہا ہوں، اللہ نے ساری تمنائیں پوری کردیں، بس ایک ہی آرزو رہ گئی ہے اللہ سے دعا ہے کہ دنیاسے جانے سے قبل یہ تمنا بھی پوری کردے۔ سوری لڑکیاں بڑی خوب صورت ہوتی ہیں، بس کوئی سوری دلھن مل جائے۔ میں نے بیٹے سے کہا خوب سوچ لو تمھارے لیے نئی اماں لے آؤں اور بھائی بہنوں کی آمد شروع ہوجائے گی تو کیا کروگے۔ چھوٹے صاحب زادے کچھ دن قبل فون پر کہنے لگے ابو میں نے لڑکی تلاش کرلی ہے، خوب صورت، خوب سیرت ، تعلیم یافتہ اور کم سن ہے، میں نے آہ بھر کر کہا بیٹے چند سال پہلےدریافت کیا ہوتا، اب تو زیادہ بوڑھا ہو گیا کم سن لے کر کیا کروں گا، کہنے لگا ابو رال نہ گرائیے آپ کے لیے نہیں اپنے لیے تلاش کیا ہے۔
سرفراز فیضی: میرا ایک سوال ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے بچوں سے نسبتا بے تکلف ہیں۔ کیا ایسی بے تکلفی کبھی ان کی تربیت میں آڑے نہیں آئی؟ کیا بچوں کی تربیت کے لیے ان پر والد کا رعب ہونا ضروری نہیں؟ کیا رعب قائم کرنے یا رکھنے کے لیے کوشش کی کبھی؟
فاروقی صاحب: یہ اللہ کی مہربانی اور شایدتعلیم کا اثر ہے، بچوں سے میں نے ہمیشہ نارمل رویہ رکھا، باپ کی جو حد بندی ہے اسے بچوں نے ملحوظ رکھا، میں نے بھی لحاظ رکھا ، تعلقات ہمیشہ دوستانہ رکھے۔ دقت اس وقت آئی جب میں نے ان پر اپنی مرضی لادنی چاہی۔ شروع میں رعب جھاڑتا تھا، عمر میں پختگی آتی گئی تو اس میں بھی بہت کمی آئی، کیا پڑھیں گے ، کیا پڑھنا چاہتے ہیں، ان پر کبھی دباؤ نہیں ڈالا، بڑے صاحب زادے کو درجہ پنجم کے بعد میں عصری تعلیم دلانا چاہتا تھا، انھوں نے کہا میں سلفیہ میں پڑھوں گا، میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا، فراغت کے بعداپنے ساتھیوں کے ساتھ علی گڈھ جانا چاہا میں نے ان کا ساتھ دیا، اسی طرح سب اپنے من پسند شعبوں میں گئے۔ یہ ضرور تھا، ہم میاں بیوی نے سپورٹ میں کبھی کمی نہیں کی، سب سے بڑی بات کہ ان تمام میں اللہ کا فضل و کرم شامل حال رہا، سمجھ میں یہی آیا کہ معیاری اور مہنگے اسکول، دولت کی ریل پیل راستہ متعین نہیں کرتی، اللہ کی مشیت اور اس کا فضل نہ ہو تو کچھ نہیں ہوسکتا ، ان کو اظہار رائے کی آزادی دیجیے، نو دس سال کی ان کی عمر ہوجائے تو ان کا مزاج اور طبیعت کو سمجھنے کی کوشش کیجیے، ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ سے مکمل احتراز کریں ان کی نفسیات کو سمجھیں، ان سے ہر موضوع پر جن سے انھیں دل چسپی ہو بات کریں، بیس سال کے بعد وہ خود میچور ہوجاتے ہیں، یہ اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں کہہ رہا ہوں۔
ابو المرجان: نرمی اور بے تکلفی کے باوجود بچے راستے پر رہے۔ اس میں بچوں کی طبیعت کا کمال ہے۔ ورنہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ بچے صالح مزاج کے حامل ہیں۔ورنہ سختی نہ کرنے والے والدین کے بچے بگڑ جاتے ہیں، پورے نہیں تو ایک آدھ ہی سہی ایسا میرا ماننا ہے واللہ اعلم
فاروقی صاحب: آپ جزوی طور پر درست کہہ رہے ہیں ، بچوں کے مزاج کا بھی کردار ہوتا ہے، اگر ٹیڑھے مزاج کا لڑکا ہو تو لاٹھی ڈنڈا سے بھی اس پر کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ میں نے ایک لڑکے کو دیکھا اسے چوری کی لت تھی، باپ نے زبردست پٹائی کی، ہاتھ پیر باندھ کر کوٹھری میں بند کردیا، ایک دن بعد نکالا تو پاجامہ کے نیفہ میں ڈیڑھ کلو سرسوں بھر کر نکلا۔ کچھ بچے بچپن میں شریر ہوتے ہیں بڑے ہوکر بہت صالح مزاج کے ہوجاتے ہیں، نرمی اور سختی کا امتزاج ضرور ہونا چاہیے لیکن موقع و محل سے، ماحول بھی بچوں پر بہت اثر انداز ہوتا ہے، سب سے بڑی بات یہ کہ یہ سب اللہ کے فضل وکرم پر منحصر ہوتا ہے۔
سرفراز فیضی: آپ کی زوجہ محترمہ کا رویہ بچوں کے ساتھ کیسا تھا؟ مطلب کیا ایسا تھا کہ آپ کے بجائے ان کا رعب بچوں پر تھا جس سے معاملہ میں بیلنس بنا رہا؟
فاروقی صاحب: اہلیہ بہت نرم مزاج تھیں، بچے ان سے زیادہ مانوس تھے، کبھی ناراض ہوتیں تو کہہ دیتیں ابو کو آنے دو بتاتی ہوں۔ بڑے تین بچے چھوٹے تھے تو مجھ سے ڈرتے تھے، جب ذرا بڑے ہوئے تو ڈرنا بہت کم کردیے۔
سعید الرحمن سنابلی: لڑکیوں کی اعلی تعلیم کے حوالے سے ایک سوال کیا تھا۔ آپ کی بچیوں نے اعلی تعلیم یونیورسٹی میں حاصل کی وہ بھی بی ایچ یو میں۔ کیا تجربات رہے ہیں؟
فاروقی صاحب: بچیوں کی اعلی تعلیم خاص طور سے دین دار مسلمانوں کے گھرانوں میں ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ میرے نزدیک لڑکی اور لڑکا دونوں یکساں ہیں، دونوں کے جذبات، احساسات، عزائم اور آگے بڑھنے کی لگن ایک جیسی ہوتی ہے۔ اصل میں ہمارے یہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو ہم سوچتے ہیں سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ اس کی شادی کرکے رخصت کردیا جائے، اس کی تعلیمی دلچسپی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے، جو ہم پڑھنے کو کہیں وہی پڑھے، تعلیمی میدان میں ان کے رجحان اور دلچسپی کو اسی طرح دیکھنا چاہیے جیسے ہم لڑکوں کو دیکھتے ہیں، صرف صنف الگ ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ امتیازی برتاؤ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ کا شکر ہے کہ تقریبا ہر جگہ گریجویشن تک ان کی تعلیم کا الگ انتظام ہوتا ہے، یونیورسٹی کی سطح تک وہ کافی میچور ہوجاتی ہیں، اندیشے لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے ہوتے ہیں یہ کیاکہ ہم لڑکوں پر اعتماد کریں لڑکیوں پر نہ کریں غلطیاں دونوں کرسکتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے والدین خود کوئی غلطی کریں تو اسے چھپا لیتے ہیں لڑکے غلطی کریں تو چشم پوشی کی جائے اور لڑکی غلطی کرے تو اس کی شامت آجاتی ہے۔ ماڈرن ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں اس کی تعلیم بند کرادی جاتی ہے، آپ اس کی آرزووں اور تمناؤں کا گلا نہ گھوٹیے۔میڈیکل، انجینیرنگ، سائنس،ریاضی جو پڑھنا چاہے نہ روکیے، اعلی تعلیم دلانے میں ایک معاشرتی مسئلہ ضرور پیش آتا ہے کفو رشتہ میں دقت پیدا ہوسکتی ہے لیکن یہ صرف اندیشہ ہے، بنارس ہندو کے تین ڈگری کالجز ہیں جو صرف لڑکیوں کے لیے خاص ہیں، وسنت کالج راج گھاٹ ، بی کے ایم، مہلا ودیالیہ زیادہ تر مسلم لڑکیاں وسنت کالج میں داخلہ لیتی ہیں اور ایم اے میں یونیورسٹی کے شعبے میں چلی آتی ہیں۔ ان کے ہاسٹل الگ ہوتے ہیں ۔ مدن پورہ بنارس کے کئی گھرانوں کی لڑکیاں میرے پاس آئیں ان کی شکایت یہی رہی کہ ہم آگے پڑھنا چاہتے ہیں والدین پڑھانا نہیں چاہتے میں جا کر ان سے ملا ان کے اندیشے سنا اور ان کی غلط فہمیاں دور کیں تب ان کو اجازت ملی۔ ایک لڑکی کے باپ کو ہمارے ایک دوست پروفیسر یعقوب یاور نے کہا اگر نہیں پڑھاؤگے تو سرکار میں شکایت کردوں گا بندھ کر چلے جاؤگے، ابھی پچھلے سال اس نے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ہمارے ایک دوست کی لڑکی سائنس میں پی ایچ ڈی کررہی ہے، دوسرے شہروں کے سیمینار میں اسے پیپر پڑھنا ہوتا ہے ساتھ جاتے ہیں، قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں معاشرے میں جرات مندانہ قدم اٹھائیں گے تو دوسروں کو بھی ہمت ملے گی اور ایک نئی روایت بنے گی۔
عبد المنان سلفی: رفقاء درس کون کون اصحاب علم و فضل تھے ؟
فاروقی صاحب: الحمد للہ ہمارے بیشتر رفقاء درس جماعت کے نامور فضلا اور قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں، چند ہی ایسے تھے جنھوں نے عالمیت کے بعدراہ بدل دی لیکن زیادہ تر فضیلت کے بعد تصنیف و تالیف، تدریس اور دعوت و ارشاد کے میدان میں آج بھی سرگرم عمل ہیں۔ ذیل میں یادداشت کے سہارے ان کے بارے میں کچھ بتانے کی کوشش کروں گا۔
(۱) مولانا عبید اللہ طیب مکی: شیخ الجامعہ مولانا عبد الوحید رحمانی کے چھوٹے بھائی ہیں، شروع سے ہم دونوں ساتھ رہے، ہم ذوقی کی وجہ سے ہم دونوں ایک ساتھ ہی نظر آتے۔ ذہین و فطین تھے، رحمانیہ سے سلفیہ فراغت تک ساتھ رہے، ان کا انتخاب مدینہ یونیورسٹی کے لیے ہوگیا۔ وہاں سے کلیہ اور پھر ام القری سے ایم اے کیا، سعودیہ سے اٹھارہ سال کے بعد واپس لوٹے جامعہ سلفیہ میں تقرری غالبا ۱۹۹۸ میں ہوگئی۔ حدیث کے استاد ہیں، جامع مسجد مدن پور کے خطیب جمعہ بھی ہیں،نصف صدی کی ہماری دوستی ابھی بھی برقرار ہے۔ بڑے باصلاحیت ہیں۔
(۲) مولانا عبد اللہ زبیری: رحمانیہ سے ساتھ تھے اور فضیلت تک ساتھ رہے، تعلیم کے بعد اپنی تجارتی مشغولیات میں لگ گئے۔ ایک عرصہ گزر جانے کے بعد رحمانیہ سے جڑ گئے اٹھارہ سال تک بحسن وخوبی نظامت کی ذمہ داری نبھائی۔ زبیری صاحب کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے طالبات کے لیے عالمیت تک دینی تعلیم کا انتظام کیا، اب یہ شعبہ فضیلت تک ہوچکا ہے۔ جامعہ سلفیہ کے نائب ناظم بھی ہیں مخلص دوست ہیں۔
(۳) ڈاکٹر عبد الحنان: جامعہ سلفیہ میں عالمیت تک کے ساتھی رہے، پھر علی گڈھ سے بی یو ایم ایس کیا، سی سی یو آر ایم میں بحیثیت طبیب تقرری ہوئی، ڈپٹی ڈائرکٹر کی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے،دوران طالب علمی کلاسیکل عربی ادب کے بہت شائق تھے۔ مصباح اللغات تقریبا حفظ تھی، فی الحال شاہین باغ اوکھلا، نئی دہلی میں مقیم ہیں۔
(۴) ڈاکٹر عبد الرحمان: فضیلت تک کے ساتھی رہے، جامعہ اسلامیہ مدینہ منور ہ سے پی ایچ ڈی تک کی تعلیم حاصل کی، جامعہ سلفیہ میں ڈیڑھ دو سال استاد رہے، پھر ریاض سعودیہ کی یونیورسٹی میں استاد حدیث مقرر ہوئے۔ آج کل ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں، معروف عالم اور محقق ہیں۔ عرب کی علمی دنیا میں جانے جاتے ہیں، دار الدعوہ کے نام سے ہندوستان میں ایک بڑا ادارہ بھی قائم کیا۔
(۵) شیخ مجتبی مدنی: ندوہ سے عالمیت، سلفیہ سے فضیلت اور مدینہ یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری لی۔ سلفیہ میں عرصہ تک استاد رہے، پھر ڈاکٹر عبد الرحمان کے ادارہ دارالدعوۃ میں چلے آئے۔ فی الحال ادارہ مذکور میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، تعلیقات نسائی سے آپ کی علمیت کا اندازہ ہوتا ہے، میرے قریبی دوستوں میں ہیں۔
(۶) ڈاکٹر مفضل: عالمیت اور فضیلت کے ساتھی ہیں نہایت ذہین و فطین ہیں مدینہ سے اعلی ڈگریاں لیں۔ مدتوں سے سنابل دہلی کے طلبا میں علم کے موتیاں لٹا رہے ہیں، تنہائی پسند ہیں۔
(۷) اقبال احمد سلفی: محنتی اور بہت باصلاحیت تھے، عربی ادب سے بڑا لگا ؤ تھا، مدرسہ عالیہ مئو میں مدرس تھے، اللہ نے جوانی میں ہی اپنے پاس بلالیا۔ ان کے بیٹے بھی سلفیہ سے فارغ ہوئے۔
(۸) ڈاکٹر عزیز الرحمان جون پوری: سلفیہ سے فضیلت کی، بی ایچ یو سے بی اے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی، پوری زندگی رحمانیہ میں تدریس کرتے گزاردی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی رحمانیہ بنات کے عربی شعبہ میں عالمیت اور فضیلت کی کتابیں پڑھاتے ہیں۔
(۹) مولانا نیاز الدین بنگالی: سلفیہ میں عالمیت اور فضیلت کے ساتھی رہے، پرجوش عالم ہیں، سنا ہے کہ بنگال یا بہار کے کسی مدرسہ کے شیخ الحدیث ہیں۔
(۱۰) عبد اللہ دیناج پوری: فضیلت میں ساتھی بنے، سنجیدہ بزرگ ہیں، بنگال کے کسی مدرسہ میں حدیث کے استاد ہیں۔
(۱۱) عبد الرشید: عالمیت اور فضیلت کے ساتھی تھے، سنجیدہ کم سخن، پڑھنے میں بے حد محنتی تھے۔ سلفیہ سے فراغت کے بعد غالبا سعودیہ میں بھی پڑھے، سراج العلوم جھنڈا نگر میں مدتوں سے استاد ہیں، دوران طالب علمی لحیم شحیم تھے، بڑھاپے میں کافی دبلے ہوگئے۔
(۱۲) سہیل مئوی: فضیلت اور عالم کے ساتھی، گہرے دوست ، انتہائی خوش دل، کثیر الاولاد، مدینہ سے کلیہ کی تکمیل کے بعد دبئی میں زندگی گزاری، اب مئو میں رہتے ہیں۔وہاں جمعیہ اہل حدیث کے صدر تھے، پتہ نہیں مولانا اصغر کی بنائی ہوئی ایڈ ہا ک کمیٹی میں شامل ہیں یا نہیں۔ان کے علاوہ معین الدین، مقصود الحسن، عبد الحنان، ڈاکٹر محبوب الحق وغیرہ ہیں۔ عبد الحنان لکھنؤ مولوی گنج میں شاید رہتے ہیں۔ مقصود اور معین الدین اپنے اپنے علاقے میں دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ محبوب الحق رحمانیہ اور سلفیہ عالمیت تک کے ساتھی تھے، برگدھی اترولہ کے رہنے والے ہیں، ان کے والد دلی رحمانیہ میں میرے والد کے ساتھیوں میں تھے۔ محبوب شاید اپنے علاقے میں مطب کرتے ہیں۔ اگر کسی ساتھی کا نام چھوٹ گیا تو میری یادداشت کا قصور ہے۔
مولانا مختار، مولانا عیسی، مولانا صغیر، مولانا حسان، مولانا الیاس، مولانا ثناء اللہ نیپالی ڈاکٹر عبد الغنی القوفی کے والد ایک کلاس میں تھے۔
مولانا مختار احمد مدنی ہم لوگوں سے تین سال سینیر تھے ان کی فراغت ۱۹۷۰ کی تھی۔ خوشی ہوئی کہ مولانا عبد الرشید آپ کے قریبی اعزہ میں ہیں۔
دو عبد الحنان ہیں، اللہ دونوں کو سلامت رکھے۔حکیم عبد الحنان بے چارےکو آلۂ سماعت کے بغیر بہت کم سنائی دیتا ہے۔
شیخ رفیع، شیخ صلاح الدین، شیخ عزیر شمس، عبد اللہ سعود ساتھیوں میں تھے، کلاس میں پیچھے تھے مگر اوپر کے مثلث ذہانت، صلاحیت اور علم میں ہم سے بہت آگے تھے۔
مقصود بستی والی چٹنی اور تازہ روٹی پکا کر ناشتہ کراتے تھے۔میرے عزیز دوست ہیں، شیخ رفیع سے ان کی خیریت مل جاتی ہے۔ لکھنؤ ایک بار ان سے ملنے گیا تھا۔ سلفیہ میں تہری ( چاول، ہلدی آلو، نمک مرچا، دیسی گھی) بہت اچھا بناتے اور پلیٹ بھر کر کھلاتے۔
طارق اسعد: استادشمس الرحمن فاروقی کے برادر ابوالقاسم فاروقی والا واقعہ بھی ذکر کر دیں۔
فاروقی صاحب: طارق میاں کیا بتاؤں، نام اور نسبت میں ایسے اتفاقات کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔عربی و فارسی مدرسہ بورڈ کے جدید نصاب کی تیاری کا مسئلہ تھا، گھیر گھار کر مجھے بھی میرے دوست عبد الاول پرنسپل جامعہ رحمانیہ اور ماسٹر وحید اللہ خاں سکریٹری عربی مدارس یونین لکھنؤ لے گئے۔ میٹنگ سے فارغ ہوئے تو وحید اللہ نے کہاآؤ تمھیں اقلیتی فلاح و بہبود کےسچو( سکریٹری ) سے ملاؤں جو تمھارے ہم نام ہیں اور غالبا شمس الرحمان فاروقی کے بھائی ہیں، بڑے بد اخلاق اور عبوسا قمطریرا ہیں، کبھی کسی نے انھیں ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ کمیٹی کے ممبران میں بیگ تقسیم ہوا تھا، ایک ہمیں بھی ملا تھا، میں نے کہا ایک اور بیگ دلاؤ تو چلوں گا، بہر حال انھوں نے ایک بیگ اور حاصل کرلیا،میں نے وہ بیگ رحمانیہ کے کلرک عبد المتین کو دے دیا۔میں کسی چھوٹے بڑے کسی ادھیکاری سے کبھی نہیں ملا تھا، ڈر رہا تھا کہ بلا وجہ ملنے پر ڈانٹ کر بھگا نہ دے، وحید اللہ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا، اندر گئے تو ادھیکاری نے بڑی عزت سے بٹھایا تو جان میں جان آئی۔ لکھنوی انداز میں خیر خیریت لی، اسم گرامی پو چھا تو میں نے محمد ابوالقاسم بتایا، وہ چونک گیا اور کہا میں جناب سے اپنا نام نہیں پوچھ رہا ہوں، جواب دیا جی آپ کا نہیں بتایا اپنا بتا رہا ہوں۔اسے تجسس ہواکہنے لگاآپ کا سر نیم کیا ہے؟ میں نے ذرا بلند آواز میں فاروقی کہا، ادھیکاری نے دونوں ہاتھ کرسی کے ہتھوں پر اتنی مضبوطی سے رکھا کہ وہ لرز گئے۔
’’جناب کا دولت خانہ کہاں ہے؟‘‘
’’جی غریب خانہ الہ آباد ہے‘‘
وہ میز پر جھک کر کہنے لگا: ’’میں اپنا نہیں آپ کا پوچھ رہا ہوں‘‘
’’ حضور میرا گھر الہ آباد ہے، آپ کا کہاں ہے یہ مجھے نہیں معلوم‘‘
اس نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا کہ چپراسی اور کلرک سب اس کو ہنستے ہو ئے دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ واضح رہے کہ ہمارا گاؤں پرتاپ گڈھ میں ہے لیکن الہ آباد سے زیادہ تعلق ہے۔ پرتاپ گڈھ کی ہم لوگوں کی آمد و رفت بھی کم ہے، لوگ اپنا وطن الہ آباد ہی بتاتے ہیں، شاید پرتاپ گڈھ بتانے میں رعب کم پڑتا ہے، مخاطب الہ آبادی ہو تو اس سے الہ آبادی بتائیے وہ بڑی اپنائیت کا احساس کرتا ہے۔ الہ آبادی کہیے تو محسوس ہوتا ہے، الہ آباد کا للگجھیا امرود کھا رہے ہوں۔ الہ آباد کے امرود سے یاد آیا، مولانا صدیق سلفی الہ آبادی ہمیشہ امرود کی فصل میں جب وطن جاتے تو دس پانچ کلو للگجھیا امرود ضرور میرے لیے لاتے، اب تو انھوں نے بھیونڈی کو وطن ہی بنا لیا۔
عامر انصاری: استاذ محترم !سلامت رہیں ۔
(۱) جامعہ سلفیہ بنارس کے علاوہ بھی کہیں آپ نے تدریس کا فریضہ انجام دیا ہے؟
(۲) زیر تدریس کتابوں کے نوٹس یا کسی درسی کتاب کی شرح، حاشیہ، اختصار وغیرہ کے بارے میں کچھ آگاہ کریں؟
(۳) آپ کی تصنیفات کی تفصیل، کیا کچھ کتابیں نا مکمل یا غیر مطبوع ہیں؟
فاروقی صاحب: (۱) جی ہاں عامر صاحب،۱۹۷۵ اور مئی ۱۹۷۶ یعنی ڈیڑھ سال تک اپنے خاندانی مدرسہ مدینة العلوم محمديه پریوا نرائن پور میں پڑھایا۔ یہ ایک مکتب تھا جس میں درجہ پنجم تک تعلیم ہوتی تھی۔
(۲) نوٹس بنا کر پڑھانے میں مجھے کبھی دلچسپی نہیں تھی، اس کے باوجود دو کتابیں دروس البلاغہ کے نوٹس جس میں صنائع و بدائع، تشبیہ و استعارہ وغیرہ کی تفہیم کے لیے اردو اشعار کے ساتھ اہم مباحث کے نوٹس دو تین سال تک املا کرایا تھا۔ اسی طرح شرح شذور الذھب میں چوں کہ استطرادات بہت ہیں اس لیے اہم مباحث کے خلاصے لکھوا دیا کرتا۔ اسلامی تاریخ کو بھی سوال و جواب کی صورت میں ایک دو سال لکھوا دیا تھا۔ میرے کلاس میں شرح لانا بالکل ممنوع تھا عبد اللہ سعود کے حکم پر ھداية النحو کی صرف تہذیب کی تھی مسودہ ان کے حوالہ کردیاتھا۔ سنا ہے کہ وہ بھی گم ہوگیا، کتاب لکھنے کا ہمیشہ پلان ہی بناتا رہا، جو بھی لکھا زیادہ ضائع ہوگیامطبوع صرف تین کتابیں ہیں:
۱- کتاب ازھار العرب تحقیق و تشریح
۲- مولانا محمد ابوالقاسم سیف بنارسی حیات وخدمات، جس پر آپ کا وقیع تبصرہ ہے۔
۳- قبر سے حشر تک (الحمدللہ اس کتاب کے پانچ ایڈیشن اب تک شائع ہوچکے ہیں)
دو کتابیں امسال شائع کرنے کا ارادہ تھا۔ پہلی دام ہر موج میں ہے، کتابت مکمل ہوچکی ہے صرف نظر ثانی کرنا ہے۔ دوسری گہے گریاں گہے خنداں، یہ دونوں مضامین کے مجموعے ہیں۔ نامکمل اور ادھوری کئی کتابیں ہیں دعا کیجیے کہ مکمل ہو جائیں۔
عبد المبین ندوی: شیخ! تدریسی خدمات کو ریٹائرمنٹ کے بعد جاری کیوں نہیں رکھا؟
فاروقی صاحب: مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ علم و عمل کے اعلی منصب پر فائز ہونے کے باوجود اس ذرۂ بے نشان کے مہملات اور فضولیات کو آپ ملاحظہ فر ما رہے ہیں۔ شیخ کیا بتاؤں، میری تو شدید خواہش تھی کہ میری تدریسی زندگی کو بریک نہ لگے، عزیز طلبا سے جدائی مجھے کبھی گوارہ نہیں ہوئی، میں تو ہمیشہ ان کے جھرمٹ میں ہی خوش رہا۔ لیکن جب ہوا مخالف ہوجاتی ہے تو اپنی تدبیریں بھی جواب دینے لگتی ہیں، ہم نے تو اپنی سی کوشش کرلی، احباب سے بھی جو بن پڑا انھوں نے کیا، ہم تو کوئی حق المحنت بھی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن جب شہر یار کا فیصلہ ہوا کہ ہمارے حضور میں سر جھکا کر عرض گزاری کرو، ہم غور فرمائیں گے، عزت نفس کی تھوڑی بہت رمق باقی تھی، خاموشی کے ساتھ بچشم نم اپنی راہ الگ کرلی۔
عبد القدیر: شیخ! دوسری شادی کا خواب اور خواب میں جھاڑو کا قصہ بھی شامل ہونا چاہیے تھا۔
فاروقی صاحب: عبد القدیر صاحب آپ نے اس خواب کی یاد دلا دی جسے کئی سالوں سے فراموش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ مجھے اعتراف ہے، جن کے اندر شجاعت اور عزم کی پختگی ہے وہ پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری کر لیتے ہیں۔ اگر بیوی اللہ کو پیاری ہوجائے تو بڑی خوبصورتی سے اپنے بچوں کی ہمدردیاں بٹور تے ہیں اور دوسری شریک حیات گھر لاتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کی اہلیہ انتقال کرگئیں ، وہ صبر و قرار کھو بیٹھے ،کئی ماہ تک اس طرح روتے رہے کہ مجھے ڈر ہوا کہیں دوست کو کھو نہ بیٹھوں، اچانک ایک دن خود ہی کہنے لگے یار دوسری شادی کرلوں تو شاید بیوی کا غم غلط ہوجائے۔ بہرحال انھوں نے چٹ منگنی پٹ نکاح کرلیا، ماشاء اللہ صحت بھی اچھی ہوگئی ، پہلے میرے ہم عمر تھے اب پانچ سال چھوٹے ہوگئے۔
میرے ایک اور دوست ہیں ،رشتے دار بھی ہیں، اطلاع آئی کہ ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا، جی دھک سے ہوگیا، دو تین ہفتوں کے بعد اظہار تعزیت کے لیے ان کے پاس گیا، بے چارے کمزور ہوگئے تھے، میں نے دوسری شادی کا مشورہ دیا، بگڑگئے، کہنے لگے شرم نہیں آتی ایسے بیہودہ مشورہ دیتے ہو، میں اپنی بیوی کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ سال بھر نہیں گزرا کہ ایک موہنی صورت پسند آگئی،لیکن وہ پہلے دوسری شادی نہ کرنے کا اعلان کرچکے تھے۔ آخر ایک ترکیب سوجھی، ایک دن بیٹوں اور بیٹیوں کو بلایا، مرحومہ بیوی کا ذکر کیا، خود بھی روئے اور اولاد کو بھی رلایا، سسکیاں تھمیں تو روتے ہوئے بتایا کہ آج رات خواب میں تمھاری اماں آئی تھیں ، مجھ سے شکایت کی کہ آپ نے میری وصیت نہیں مانی، بچے چونک گئے، پوچھنے لگے: ابا کون سی وصیت؟ بڑے درد سے بتایا: مرتے وقت انھوں نے وصیت کی تھی کہ فلاں کی لڑکی سے نکاح کرلینا، خدمت گزار بچی ہے، تمھارا بڑھاپا کٹ جائے گا، بچے لائق مند تھے، ماں کی وصیت خوشی خوشی پوری کردی۔ ماشاء اللہ ان کی شیر خوار بچی کی پرورش ان کی پوتیاں کررہی ہیں، دمہ کی بیماری تھی وہ بھی ختم ہوگئی، ایسے فرماں بردار بچے میں نے کم دیکھے ہیں جو اپنے ہاتھوں سے اپنے ابا کو دولھا بناتے ہیں اور خوشی خوشی نئی اماں کی ڈولی گھر لاتے ہیں۔لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں اگر بڈھے باپ نے داڑھی میں خضاب بھی لگا لیا تو بیٹے اور ان کی بیویاں اس بے چارے پر پل پڑتی ہیں۔ افسوس میں بہت بزدل ہوں نہانا بھی ہوتا ہے تو ایک دن فیصلہ کرنے میں لگا دیتا ہوں، دوستوں کی کامیاب زندگی سے بھی کوئی سبق نہیں حاصل کرسکا، حالاں کہ الحمد للہ میرے بچے روشن خیال ہیں، تاہم احتیاطی طور پر میں نے خضاب لگانا ترک کردیا، تاکہ بچے سمجھ لیں میرا شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
دوسری شادی نہ کرنے کی ایک نفسیاتی وجہ بھی ہے، عبد القدیر کے اصرار پر یہ راز ظاہر کرنے پر آج مجبور ہوگیا۔ دوسری بیوی کا خواب کون نہیں دیکھتا ہے ،ممکن ہے لاشعور میں یہ باتیں رہی ہوں۔ پچیس چھبیس سال قبل اہلیہ کی زندگی میں خواب دیکھا کہ میں نے دوسری شادی کرلی، ایک دھان پان اور سبک سی دلھن لے کر گھر آگیا، جیسے ہی گھر میں داخل ہوا، میری بیٹیاں اور بیٹے جھاڑو لے کردلھن پر پل پڑے، ہر ایک کے ہاتھ میں جھاڑو تھا، میں چیختا رہا کہ مت مارو تمھاری نئی امی ہیں، لیکن ان کے ہاتھ رک نہیں رہے تھے، بڑی بیٹی کہتی جارہی تھی کہ اور ماروں گی، اور ماروں گی، میں خوب زور لگاکر چیخا، آنکھ کھل گئی پسینے میں تر بتر تھا، بیگم پوچھنے لگیں کیا ہوا؟ کوئی برا خواب دیکھ لیا کیا، میں نے سر ہلا دیا، دوسرے دن جب ان کو بتایا تو پہلے تو خوب ہنسیں، پھر وارننگ دی کہ کبھی دوسری کے لیے سوچا بھی تو جان لو ہمارے بچوں کے جھاڑو برسیں گے، اس کے بعد خواب میں بھی ہمت نہ کرسکا۔ اب دوسری کے لیے کبھی تصور بھی آتا ہے توبچوں کےلہراتے ہوئے جھاڑو فورا نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں ، سوچتا ہوں بچے لاکھ روشن خیال سہی لیکن سامنے نئی اماں کو دیکھ کر ہاتھوں میں جھاڑو تھام لیاتو۔
طارق اسعد: استاد گرامی! دوران درس آپ اکثر اس کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ لائبریری کے محل وقوع، بانی، ذمہ داران، کتب، طریقہ استفادہ وغیرہ پر انتہائی ادب و احترام کے ساتھ روشنی ڈالنے کی گذارش ہے۔
فاروقی صاحب: بر صغیر کے قیمتی اور نادر کتب خانوں کی بربادی کی الم خیز داستانیں خون کے آنسو رلاتی ہیں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ہر رئیس، امیر، جاگیردار، وزیر اور عالم کی اپنی لائبریری ہوتی تھی، منصب اور وجاہت کے اعتبار سے ان میں بیش بہا اور نادر کتابیں ہوتی تھیں، گردش زمانہ نے سب کو تباہ کردیا، جو کچھ موجود ہیں وہ باقیات میں سے ہیں۔ رضا علی عابدی نے اس موضوع پر پوری ایک کتاب لکھ دی پڑھیے تو آنسووں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں۔ انہی میں سے ایک لائبریری سعیدیہ لائبریری تھی، بڑی قیمتی تھی، مدن پورہ میں دو مشہور لائبریریاں تھیں، اسلامیہ لائبریری جس کی آج بھی اپنی بلڈنگ ہے اس وقت یہ لائبریری چشمہ فئیر والی دکان کے اوپر ہے، اس میں قدیم عربی کتب خصوصا تفاسیر کا ذخیرہ تھا، جاسوسی ناولوں کا بہت بڑا سرمایہ ہے، منشی تیرتھ رام فیروز پوری، ظفر عمر سے لے کر ابن صفی، اکرم الہ آبادی، عارف مارہروری، اظہار اثر تک سارے ناول تھے۔ ابن صفی کے دلیر مجرم(۱۹۵۲) سے شوگر بینک تک سینکڑوں ناول اس میں موجود تھے، ابن صفی کا چسکہ مجھے اسی کتب خانے سے لگا۔ مجھے یہاں پر کتابیں پڑھنے اور لے جانے کی پوری آزادی تھی ،میرے دوست عبید اللہ طیب کے ایک قریبی رشتہ دار اس کے سکریٹری تھے، لائبریرین سے بھی میری بہت بنتی تھی، صرف ایک کتاب میں نے اسلامیہ لائبریری سے چوری کی تھی، وہ انگلش کے مشہور شاعر ورڈز ورتھ کی نظموں کا مجموعہ تھا، لائبریری کا قدیم سرمایہ مدرسہ اسلامیہ میں منتقل ہوچکا ہے، اس کتب خانے کے کرتا دھرتا دیوبندی ہیں، اب تو کتابیں پڑھنے والے بھی نہیں ہیں۔
دوسری لائبریری سعیدیہ تھی، مولانا سعید میسور کے خاندان والے اس کے انتظام کارتھے۔ اردو ادب، اسلامیات اور علمائے اہل حدیث کی بیشتر تصنیفات یہاں موجود تھیں، نقوش کے تمام نمبرات تھے، ایک قدیم قرآن بھی تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اورنگ زیب کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے، یہ ایک منقش اور بہت ہی خوب صورت لکڑی کے بکس میں مقفل تھا۔ دریائے لطافت ( انشا ء اللہ خاں انشا) کا پہلا مطبوعہ نسخہ، نواب صاحب، مولانا شمس محمدی، گستاؤ لیبان کی تمدن عرب تمدن ہند، مطبع منشی نول کشور کی کافی مطبوعات ، شاہنامہ فردوسی کا مصور نسخہ، طلسم ہوش ربا کی جلدیں، دار المصنفین کی تصنیفات، اخبار اہل حدیث امرتسر، اخبار محمدی، ترجمان دہلی، الہدی دربھنگہ،تجلی دیوبند، نگار، ساقی، بیسویں صدی، معارف ، برہان ،ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد، زمانہ کانپور اور نجانے کتنے مرحوم و زندہ اخبارات و رسائل کی یہاں فائلیں تھیں، ادبی ناول کا شاید اس سے بڑا ذخیرہ بنارس میں کہیں اور نہیں تھا۔ لائبریرین منشی خلیل صاحب للہ پورہ کے رہنے والے تھے جامعہ رحمانیہ کے استاد تھے، جامعہ سلفیہ کے کئی طلبہ ان کے معاون بھی رہے، جن میں مجھے مولوی مظفر ( نام شاید یہی تھا) اور سراج کوکنی کا نام یاد رہ گیا۔میں مولوی ثالث میں پڑھ رہا تھا، اس لائبریری میں آتا منشی جی سے ایک ناول نکلواتا، بھائی صاحب کے نام ایشو کراتا، دوسرے دن جمع کرادیتا، لائبریری کی چابی میرے دوست عبید اللہ مکی کے گھر میں رکھی جاتی تھی، لائبریری کا ایک دروازہ ان کے گھر میں کھلتابعد میں منشی جی کا احسان لینا بند کردیا۔ دوپہر میں میں اور عبید اللہ لائبریری کھولتے، من چاہی کتابیں نکالتے اور دروازہ مقفل کردیتے، پڑھ کر واپس رکھ دیتے، اس وقت لائیبریری کا ممبر بننے کی عمر نہیں تھی۔ رحمانیہ میں ایک اور صاحب پڑھتے تھے مقامی تھے اور پڑھاکو تھےان کے والد بھی لائبریری کے عہدیدار تھے۔ ایک بار ان سے کہا تھاکہ لائبریری سے میرے لیے بھی کتابیں نکال دیا کرو۔ یہ پہلے کا واقعہ تھا، ایک دن عشاء بعد بڑی محویت سے قیسی رام پوری کا ناول ’’حور‘‘ پڑھ رہا تھا، اچانک مولانا عبد السلام (فیجی والے) آگئے، ہاتھ سے کتاب لے لی، جلد کھول کر دیکھا، صرف اتنا کہا: اچھا تو ابھی سے حور کی ضرورت پڑگئی اور کتاب لے کر چلے گئے، میں نے الماری کھولی اور منشی فیاض علی کا ناول شمیم نکال کر پڑھنے لگا، دوسرے دن پیشی ہوئی، مولانا نے پوچھا تم تو ممبر نہیں ہو کون تمھیں ناول لاکر دیتا ہے، عبید اللہ کا نام نہیں لے سکتا تھا، وہ میرے جگری دوست تھے، میں نے دوسرے صاحب کا نام لےلیا، ان کو بلایا گیا اور مولانا نے ان کی دونوں ہتھیلیاں لال کردیں۔ باہر نکلے تو مجھے برا بھلا کہنے لگے کہ کب میں نے تم کو کتاب ایشو کرا کے دیا، میں نے مسکرا کر جواب دیا یہی تو تمھاری غلطی تھی، اگر تم دیتے تو کاہے کو تمھارا نام لیتا۔
یہ سب بچپن کی شرارتیں تھیں، آج سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے۔ سعیدیہ لائبریری کی کچھ کتابیں پڑھ لیں تو زعم ہوگیا کہ میں نے کافی مطالعہ کر لیا، گھر گیا تو والد صاحب سے پوچھا کہ ابا آپ نے فلاں کتاب پڑھی ہے، فلاں پڑھی ہے، مسکرا کر کہنے لگے بیٹے میں نے پوری سعیدیہ لائبریری کھنگالی ہے، میرا منہ بن گیا۔ جب لائبریری کی ذمہ داری مولانا سعید میسور کے ہاتھوں میں آئی تو دھیرے دھیرے اس پر زوال طاری ہوگیا، منشی خلیل صاحب کا انتقال ہوچکا تھا، جس کا بڑا اثر لائبریری پر پڑا، لوگ کتابیں نکالتے گھروں میں رکھ لیتے یا ضائع کردیتے، نظام بڑا خراب ہوگیا، سارے رجسٹر خستہ ہوگئے تھے یا پھٹ گئے تھے۔ ایک بار مولانا سے کہہ سن کر سلفیہ کے کچھ لڑکوں کو لیا، کتابوں کی ترتیب اور نئے سرے سے اندراج اور فہرست سازی کا کام شروع کرایا۔ لڑکوں کو للک تھی کہ اسی بہانے زیادہ سے زیادہ کتابیں نظر سے گزریں گی،افسوس کہ یہ کام ایک ہفتہ سے زیادہ نہیں چل سکا، کچھ دن بعد کتب خانے کی چھت کا کچھ حصہ گر پڑا،برسات کے پانی سے بھی کافی خرابی پیدا ہوئی، منتظمین کو ہوش دیر سے آیا بچی کھچی کتابیں سلفیہ پہنچ چکی ہیں، امید ہے کہ حافظ محفوظ الرحمان لائبریرین کتابوں کی کیٹلاگنگ کرچکے ہوں گے۔
خالد اشرف: استاذ محترم! ہم نے آپ سے دروس البلاغہ کے علاوہ متوسطہ اولی میں فارسی بھی پڑھی ہے۔ایک ہی سال میں آمدنامہ،گلزاردبستاں اور گلستاں کے منتخب ابواب آپ نے بڑی ہی رفتار سے ان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کورس مکمل کردیا تھا۔خاص بات یہ تھی کہ فارسی پڑھانے کا آپ کا انداز اور لہجہ بڑا دلنشیں ہوتا تھا۔اب فارسی کا دیس نکالا ہو چکا ہے۔اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
دوسری بات جس کا جواب اگر مناسب سمجھیں تو دیں وہ یہ ہے کہ آپ غالباً سلفیہ بلڈنگ میں رہا کرتے تھے جس کی عمارت بڑی جرجر حالت میں تھی پھر بھی آپ نے ایک اچھا خاصا وقت وہیں گذارا۔اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے اور پھر بعد میں جو آپ نے مکان بنوایا تھا اس کے لیے غیر مسلم علاقہ کیوں چنا؟؟
فاروقی صاحب: متوسطہ اولی کے کورس میں براہ راست گلستان اور بوستاں مقرر کی گئی تھی، پرائمری میں زیادہ تر مدارس میں فارسی نکال دی گئی تھی، ہمیں بڑی حیرانی تھی کہ جب ابتدائی کتابیں بچہ نہیں پڑھے گا تو گلستان بوستاں کیسے پڑھ سکتا ہے۔جب مقرر کی جارہی تھی تو ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کے سامنے میں نے خود یہ بات رکھی، ڈاکٹر صاحب فارسی داں تھے کہنے لگے میں پڑھاؤں گا، سال بھر پڑھائے تو لیکن کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلا، اگلے سال فارسی مجھے دے دی گئی، میں نے اپنی مرضی سے آمد نامہ اور گلزار دبستاں کا اضافہ کیا، پہلے بنیاد ی کتابیں پڑھاتا پھر گلستاں تاکہ بچوں کے پلے کچھ تو پڑے، تیز رفتاری اس لیے دکھانی پڑتی کہ کہیں ناظم نے پوچھ لیا تم نے اصل کتاب کم کیوں پڑھائی۔
اب تو اسے یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ فارسی کا کوئی فائدہ نہیں ہے، پتہ نہیں کہ اردو ابھی نصاب میں شامل ہے کہ نہیں ،ہونا تو بہت کچھ چاہیے مدارس میں فارسی کو شامل نصاب کرنے کے کئی اسباب تھے، عربی نحو و صرف کی ابتدائی کتابیں پہلے فارسی ہی میں تھیں، جیسے پنج گنج، نحو میر، میزان منشعب، فصول اکبری وغیرہ دوسری بات کہ علوم وفنون، فتاوے، تفاسیر، شروح حدیث، فلسفہ، منطق کا ایک بڑا حصہ فارسی زبان میں ہے اسی لیے فارسی زبان سیکھنا بہت ضروری تھا۔ آج بھی بہت سی کتابوں پر کام کرنے کے لیے فارسی زبان نہ جاننے کی وجہ سے دقتیں آجاتی ہیں، ابھی ہمارے عزیز شیخ راشد سلمہ اللہ تعالی مولانا فاخر زائر الہ آبادی پر عربی زبان میں ایک تحقیقی کام کررہے تھے، فارسی زبان کی دقت آئی، بے حد ذہین اور با صلاحیت ہیں، چند ہفتوں میں فارسی میں مہارت پیدا کی، اس میں ڈپلوما بھی کیا، ماشاء اللہ ان کی کتاب منظر عام پر آچکی ہے اور عرب کے علمی حلقوں میں پذیرائی بھی حاصل کرچکی ہے۔ یہ ایک باز یافت ہے، اس کتاب نے تاریخی غلط فہمی دور کردی کہ اہلحدیثیت کی ابتدا شاہ ولی اللہ کے بعد ہوئی ہے، مولانا فاخر شاہ ولی اللہ کے معاصر تھے، شاہ صاحب عملا اہل حدیث نہیں تھے لیکن مولانا فاخر اعتقادا اور عملا کٹر اہل حدیث تھے، راشد صاحب نے ان کے رسالہ نجاتیہ کو بھی شامل کتاب کیا جس سےاندازہ ہوتا ہے کہ عقیدہ کے باب میں جو منہج اور مسلک شیخ محمد بن عبد الوہاب کا تھا، وہی ہمارے اسلاف کا تھا۔
بات کہیں اور نکل گئی، اچھی اردو کے لیے ابتدائی فارسی کا سیکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ فارسی کے ہزاروں محاورات، ضرب الامثال، الفاظ آج بھی اردو کا حصہ بنے ہوئے ہیں، اردو کا رسم الخط تک فارسی ہے، طلبا کو موقع ملے تو فارسی ضرور سیکھیں۔
جمعیة بلڈنگ میں رہنا میری مجبوری تھی، رحمانیہ کے مدرسین کے لیے سلفیہ میں فیملی کوارٹر الاؤ نہیں تھا، ہم تو صرف سلفیہ کی ماتحتی میں تھے، یہ رہائش بھی شیخ الجامعہ مرحوم اور حافظ عباس مرحوم کی بڑی سفارشوں سے ملی تھی، عبد اللہ سعود کی مہربانی تھی کہ انھوں نے المنار بنوانا شروع کیا، ہمیں بھی مجبوراً اپنے لیے مکان تلاش کرنا پڑا۔ میرا محلہ صرف غیر مسلموں کا محلہ نہیں ہے، یہاں مخلوط آبادی ہے، شہر میں ایک مولوی کے لیے مکان کا مالک ہوجانا ہی بڑی بات ہے، مکان کی تعمیر کے قصے میں دلچسپی ہو تو ہمارا مضمون ’’ چوتھا مکان‘‘ پڑھیں۔
عبد الحسیب مدنی: آپ اپنے تجربہ کی روشنی میں فارسی میں بنیادی استعداد پیدا کرنے کے لیے کن کتابوں کی سفارش کریں گے تاکہ مدرسہ میں محروم رہ جانے والے تدارک کرلیں۔
فاروقی صاحب: فارسی بہت آسان زبان ہے، صرف آمد نامہ اور انجمن حمایت اسلام کی فارسی کی پہلی اور دوسری کتاب پڑھ لے اس کے بعد گلستاں بوستاں پڑھ لے کوئی دقت نہیں ہوگی۔ اگر فارسی سیکھ لی تو فارسی زبان جاننے والا بڑی آسانی سے سنسکرت سیکھ سکتا ہے دونوں میں بڑی مشابہت ہے۔
عبد الحسیب مدنی: شیخ یہ میرے لیے نئی بات ہے۔ فارسی گلستاں بوستاں تک کی استعداد ہے۔ مگر سنسکرت تک رسائی کی کوئی راہ ؟؟
فاروقی صاحب: کسی بھی کتاب کی دکان پر جو ہندی و سنسکرت کی کتابیں بیچتا ہو اس سے ابتدائی سنسکرت سکھانے والی کتاب خرید لیں آپ جیسے لوگ جرجیس سے اچھی سنسکرت جان جائیں گے، اشلوک اور منتر کا اچّار کرنے میں پنڈت بھی پیچھے ہوجائے گا، ساؤتھ کا معاملہ ہے شادی بیاہ میں پنڈتوں کی جگہ لے سکتے ہیں۔
خالد اشرف: شیخ! فارسی اور سنسکرت کے ربط کو واضح فرما دیں۔
فاروقی صاحب: ڈاکٹر امرت لال عشرت کی کتاب ہے ایران صدیوں کے آئینے میں اس میں دونوں زبانوں کے ربط کو تفصیل سے واضح کیا ہے۔ مختصر یہ کہ دونوں کے چھ صیغے ہیں اور ایک طرح ہیں، دونوں کی گنتیاں ایک طرح ہیں ہزاروں الفاظ کی جڑیں ایک ہیں۔
یاسر اسعد: آپ کے والد مرحوم اور شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مرحوم کے درمیان تعلقات پر روشنی ڈالیں۔
تدریس میں کس فن میں سب سے زیادہ دلچسپی تھی، آپ سے ہم نے حدیث، عقیدہ، تاریخ، نحو اور بلاغت وغیرہ پڑھا ہے، آپ کے نزدیک سب سے پرلطف کیا تھا؟
ہندوستان سے باہر کے اپنے اسفار پر تفصیل سے روشنی ڈالیں۔
علاوہ ازیں علما وادبا میں کن بڑی شخصیات سے آپ کی ملاقاتیں رہی ہیں، ان کے تعلق سے آپ کے تاثرات ؟
ذکر جب سعیدیہ لائبریری کا چھڑے تو جامعہ رحمانیہ کی مرحوم لائبریری کا بھی تذکرہ ہونا چاہیے، جو اپنی جامعیت کے لحاظ سے سلفیہ کے طلبہ کی لائبریری پر فوقیت رکھتی تھی۔ اور اس کا کریڈٹ بھی آپ ہی کو جاتا ہے۔
ازہار العرب کی تحقیق سے متعلق برادرم طارق کا سوال بدستور باقی ہے۔
فاروقی صاحب: والد صاحب نے دارالحدیث رحمانیہ جماعت ششم تک تعلیم حاصل کی تھی، شیخ الحدیث رحمہ اللہ اور مولانا نذیر احمد املوی سے نہ صرف استاد شاگرد کا رشتہ تھا، بلکہ دونوں سے خاصی قربت تھی۔والد صاحب بنارس میں رہنے لگے تو یہ رشتہ اور مستحکم ہوگیا، والد صاحب کے سب سے قریبی دوست حافظ محمد عباس صاحب سے بھی شیخ صاحب کا گہرا تعلق تھا، والد صاحب کے نام شیخ صاحب کے تقریبا انتالیس خطوط مجھے ملے تھے افسوس میری ذرا سی غفلت سے ان خطوط کی تحریریں بارش کی نمی پی گئیں، چند خطوط کے مضامین کے دھندلے سے نقوش اب بھی ذہن میں رہ گئے، جن سے تعلقات کی نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں کہ آپ خط لکھا کریں تو جوابی پوسٹ کارڈ نہ بھیجا کریں، آپ سے ہمارا تعلق رسمی نہیں ہے، جوابی کارڈ بھیجتے ہیں تو مجھے بے حد شرم آتی ہے۔ کچھ خطوط کسی دینی مسئلے کی وضاحت کے سلسلے میں تھے،بہت سے خطوط ذاتی نوعیت کے تھے اور خصوصی دعا کرنے کے لیے لکھے گئے تھے۔ ایک خط میرے تعلق سے بھی تھا، بمبئی دیکھنے کی بڑی تمنا تھی، اس کے بارے میں پڑھتا تو معلوم ہوتا کہ خوابوں کی نگری یہی ہے، بمبئی رات کی بانہوں میں کے نام سے ایک ناول بھی پڑھا تھا، خاندان کے ہم عمر بمبئیا لڑکے جب بمبئی کا حال سناتے تو جی چاہتا اڑ کر پہنچ جاؤں، بقرہ عید کی چھٹی میں گھر آیا، واپسی میں الہ آباد تک تو ارادہ بنارس جانے کا تھا، پھر ارادہ بدل گیا اور بمبئی پہنچ گیا، پہلی اور آخری بار پورا شہر گھوما۔ جامعہ کے ساتھیوں کو پتہ چل گیا تھا، اسباق کے دوران جب بھی اساتذہ میرے بارے میں پوچھتے وہ کہتے کہ وہ آرہا ہے۔ ایک بار ازہری صاحب نے کہا بیل گاڑی سے آرہا ہے یا پیدل آرہا ہے۔ رفقاء درس کی مہربانیوں اور خلوص کا آج بھی مقروض ہوں ہمارے مخلص دوست ڈاکٹر حافظ عبد العزیز نے اپنے ابا یعنی شیخ صاحب کو خط لکھ کر اطلاع دے دی کہ ابوالقاسم بمبئی بھاگ گیا ہے۔ شیخ صاحب نے ابا کو تفصیلی خط لکھا کہ ابوالقاسم کے بارے میں پتہ چلا آپ اس کو کسی طرح سمجھا بجھا کر جامعہ بھیجیں، عبد العزیز سے اس کی ذہانت ، صلاحیت کے بارے میں خبریں ملتی رہتی ہیں، اس سے بڑی امیدیں ہیں، بہر حال پندرہ روز کے بعد واپس آیا، کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی اور خاموشی کے ساتھ کلاس جوائن کر لیا۔ الحمدللہ محبت کی یہ میراث تیسری نسل تک پہنچ گئی ہے شیخ صاحب کے خاندان سے آج بھی محبت کے رشتے برقرار ہیں، مولانا عبد الرحمان صاحب، حافظ عبد العزیز صاحب ، ڈاکٹر فواز، راشد میاں، خبیب حسن، حمود حسن، حمید سب سے تعلق بنا ہوا ہے، جسے مستحکم کرنے میں عزیزی فواز، عزیزی راشد، عزیزی خبیب، عزیزی احمد سعید، عزیزی سعد احمد کے اہم کردار ہیں۔
میں نے زیادہ تر متوسطہ ثالثہ سے عالم اول تک خصوصا ادب اور نحو کی کتابیں پڑھا ئیں۔ صرف ایک سال فضیلت ثالث کی کتابیں ملیں، کبھی خواہش ظاہر نہیں کی فلاں فن کی اور فلاں کتاب ملے، جو کتابیں کم ملیں یا ملی ہی نہیں اس کے بارے میں اپنی دلچسپی بتانے سے قاصر ہوں، ویسے بلاغت ، عقیدہ اور تاریخ کی کتابیں پڑھانے میں بہت لطف آیا۔ کبھی کبھار دل میں خواہش جاگتی کہ کاش اونچے درجات کی کتابیں مجھے بھی ملتیں، شایدمیں رحمانیہ کا مدرس تھا، یا اس لائق نہیں تھا کئی باریہ کسک بڑھی ، ایک بار انگلش ماسٹر کی کمی تھی، شیخ الجامعہ مرحوم نے مجھے عالم کے درجات کو انگریزی پڑھانے کا حکم دیا، میں نے انکار کردیا، مسکرا کر کہنے لگے: ماشاء اللہ تم انگریزی اچھی جانتے ہو، میں نے بھی ہنس کر جواب دیا: مولانا میری عربی خراب ہے کیا؟ آپ نے کبھی عالمیت و فضیلت میں عربی پڑھانے کو نہیں کہا، وہ خاموش رہے۔ ریٹائر منٹ سے دو سال پہلے میں نے مولانا یونس صاحب سے کہا: یار جاتے جاتے تو حدیث کی کتاب دے دیجیے، کہنے کو تو ہوجائے کہ ہم نے بھی حدیث پڑھائی ہے، وہ مشکوة پڑھاتے تھے،کہنے لگے ٹھیک ہے استاد آپ میری مشکوة لے لیجیے، جب میرے نام لکھنے لگے تو کسی صاحب منصب نے کہا: کیا فاروقی صاحب حدیث جانتے ہیں؟ احباب اساتذہ کو اللہ سلامت رکھے، ان میں سے کسی نے ان کو سخت جواب دیا مگر یہ سن کر میرے قلب و جگر چھلنی ہو گئے۔
ہندوستان سے باہر سفر کا بہت کم اتفاق ہوا، ۱۹۸۴ میں رحمانیہ کی ملازمت سے چھٹی لےکر جدہ چلاگیا تھا، ایک میڈیکل میں اکاؤنٹنٹ کی پوسٹ تھی، سعودی کفیل کا تلخ تجربہ ہوا، ٹک نہیں سکا، اس وقت میرے دوست شیخ مجتبی اور عبد الرحمان مدینہ میں تھے، طبیعت گھبراتی تو فون پر ان دونوں سے باتیں کرتا، مدینہ گیا تو احباب ملے جان میں جان آئی، ان دونوں کی معیت میں دکتور ضیاء الرحمان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، ان کا ایک جملہ آج بھی یاد ہے”کس گدھے نے تمھیں مشورہ دیا تھا کہ تدریس کی زندگی چھوڑ کر یہاں چلے آؤ بڑی مشکل سے چار ماہ دس دن گزار سکا، واپس آیا ، خوش قسمتی تھی کہ میری کتابیں کسی اور مدرس کو نہیں دی گئیں تھیں، اپنی تدریسی زندگی میں واپس لوٹ آیا۔فائدہ صرف اتنا ہوا فریضۂ حج کی ادائیگی ہوگئی ۔ اس سفر کی داستان پڑھنا ہو تو میرے مضمون’’بڑبھس‘‘ میں پڑ سکتے ہیں۔ زیب داستاں کے لیے نمک مرچ اور پودینہ کا اس میں اضافہ ہے، لیکن واقعات سچے ہیں۔
اس کے بعد ۲۰۱۰، ۲۰۱۱ میں اہلیہ کو لے کر عمرہ کرنے گیا، وہ کینسر کی مریضہ تھیں، انھیں ہڈیوں کا کینسر تھا، دونوں سفر بے حد مشکل تھے بیٹی ساتھ میں تھی، جس سے تھوڑی بہت آسانی ہوگئی تھی۔پہلی بارجدہ پہنچتے پہنچتے اہلیہ کا شوگر پانچ سو سے اوپر چلا گیا، میرے ایک سالے مستقل طور سے جدہ میں مقیم ہیں، پانچ دن احرام باندھے ہوئے ان کے گھر میں رہے، اللہ اللہ کر کے کچھ افاقہ ہواتو مکہ عمرہ کے لیے آئے،وہاں ہم مولانا صدیق سلفی اور مولانا محفوظ الرحمان ( مولانا عبد الحمید رحمانی کےخاندان سے ہیں، محفوظ ان کے بھائی محبوب الرحمان دونوں سلفی مدنی ہیں تیسرے بھائی عبدالحفیظ بھی سلفی ہیں) کے دوست اسحاق نے مکہ میں ہم تینوں کو سنبھال لیا، ان دونوں نے اہلیہ کو وہیل چیئر پر طواف کرانے کی ذمہ داری لے لی، دونوں میں طواف کرانے کے لیے تکرار بھی ہوتی، اسحاق ناراض ہوگئے کہ سارا ثواب صدیق بھائی لوٹے لے رہے ہیں، اللہ دونوں کو اس کاصلہ آخرت میں ضرور عطاکرے گا ان شاء اللہ۔
۲۰۱۹ میں وزٹ ویزہ پر سعودیہ میں تین مہینہ رہا، اس سفر کے کچھ تجربات آپ لوگوں سے شئیر بھی کیا۔
میرے تعلقات کا دائرہ بہت تنگ ہے، ملا کی دوڑ مسجد، سلفیہ اور رحمانیہ کے اساتذہ،بہت ہی مخصوص احباب، کچھ مقامی شعرا تک روابط رہے۔ بڑے لوگوں سے ملنے کی کبھی خواہش نہیں ہوئی، ہمارے تلامذہ ہمیں جانتے اور مانتے ہیں یہی میرے لیے کافی ہے۔
جامعہ رحمانیہ میں دو لائبریریاں تھیں۔ ایک تو مدرسہ کی لائبریری تھی، جس میں مولوی اوّل سے فضیلت تک کی درسی کتب، تفاسیر، شروح حدیث اور دیگر موضوعات پر عربی میں کتابیں تھیں۔ مولانا منیر خاں رحمہ اللہ کے فتاووں اور مولانا نذیر احمد رحمانی کے فتاووں کے رجسٹر تھے، ہم نے کچھ فتاوے مولانا عبد اللہ غازی پوری کے لکھے ہوئے بھی دیکھے ہیں۔ مشہور روسی رہنما موسی جار اللہ کا اتقان کا ذاتی نسخہ بھی تھا، جس میں تین چار جگہ ان کے حواشی تھے۔فتاوے کا زیادہ تر اسٹاک کوئی صاحب اٹھا لے گئے، جن کے اہل خاندان کے پاس شاید اب بھی ہو۔ جب سلفیہ قائم ہوا اور رحمانیہ صرف ثانویہ تک محدود ہوگیا تو یہاں کی کتابیں سلفیہ سنٹرل لائبریری میں منتقل کردی گئیں، دو چار سال اور رہ جاتیں تو شاید کتابوں کا سارا سرمایہ ادھر ادھر ہوجاتا، کچھ کتابیں ابھی بھی رحمانیہ آفس کی الماریوں یا ان گٹھروں میں ہوں جو رحمانیہ کے ایک کمرے میں رکھے ہوئے ہیں۔
دوسری لائبریری بچوں کی انجمن حفلة الخطابة کی تھی۔ شروع میں اس لائبریری کے لیے لکڑی کی دو الماریاں تھیں، ان میں ہمارے اسلاف کی کتب و رسائل کا نادر ذخیرہ تھا، آج ہم جن کو تلاش کرتے پھرتے ہیں وہ یہاں تھیں۔مولانا نذیر احمد املوی نے اہلحدیث اور سیاست لکھی تو سعیدیہ لائیبریری اور حفلة الخطابة میں ہی زیادہ تر مواد مل گیا، مناظرہ کے موضوع پر زیادہ تر کتابیں یہاں تھیں، کچھ کتابوں کے نام تو مجھے ابھی یاد ہیں، معیار الحق، حسن البیان، مولانا امرتسری کی سبھی مطبوعات، مطبع سعید المطابع کی مطبوعات، سوط اللہ الجبار، جامع الشواھد ، تواریخ عجیبہ، مولانا وحید الزماں حیدر آبادی کی مطبوعات، آثار السنن کے شمارے، علامہ ابن تیمیہ شخصیت اور کارنامے( مولانا یوسف کوکن عمری) مشیر الہ آباد کی فائل، ندائے مدینہ کان پور کے شمارے، المصباح کی فائل، رحمانیہ دلی کا ماہنامہ محدث کی فائل، مناظر ۂ دیوریا، مناظرہ نگینہ،مولانا سیف بنارسی کی تصنیفات، طویل فہرست ہے۔ جن لوگوں نے کتابیں ہدیہ کی تھیں ان کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں، زیادہ تر کتابوں پر قاری احمد سعید( مولانا سیف بنارسی کے چھوٹے بھائی) اور حاجی مولوی ممتاز علی سوداگر دلی مقیم گوبند پور بنارس، مولوی حیات محمد بنارسی ، مولوی عبد المتین بنارسی وغیرہ کے نام ان پر لکھے ہوئے ہیں۔۱۹۶۴ میں قاری احمد سعید کا انتقال ہوا، آپ نے پوری زندگی رحمانیہ میں بسر کی، ان کے ورثا نے سامان تقسیم کیا، ایک الارم گھڑی اور کچھ سامان میری نانی کے حصے میں بھی آیا، نانی ان کی بہن تھیں، کتابیں اور کچھ فائلیں جن میں ان کے نام آئے ہوئے خطوط تھے یہ رحمانیہ کی لائبریری میں گئے، خطوط کی فائل بعد میں غائب ہوگئی،حاجی ممتاز علی مولانا محمد سعید کے شاگرد اور محب تھے۔ تخمینا۱۹۱۱ میں انتقال ہوا۔ جب میں رحمانیہ کے عربی شعبہ میں آیا تو غالبا ۱۹۸۰ ،۸۱ میں حفلہ کی نگرانی کی ذمہ داری میرے سپرد کی گئی، مجھے معلوم تھا کہ گذشتہ دس پندرہ سالوں میں آدھی سے زیادہ کتابیں نکل چکی ہیں تاہم جو تھیں ان کو محفوظ کرنا میں نے اپنی ذمہ داری سمجھا۔ ممکن ہے پہلے اندراج رجسٹر رہا ہو لیکن جب میں نے دیکھا کہ کوئی رجسٹر نہیں ہے، تو پہلے میں نے اندراج رجسٹر اور موضوعات کے اعتبار سے فہرست سازی کا کام شروع کیا، جن لڑکوں کی رائٹنگ اچھی تھی ان کو پکڑا، دو لڑکے ابھی بھی یاد ہیں ظفر الدین گورکھپوری دوسرا لڑکا مئو کا تھا نام نصر الباری یا نصر اللہ تھا۔نئی کتابیں اور بچوں کے لائق رسائل و جرائد منگانے کا سلسلہ شروع کیا، مکتبوں کے سلسلے میں زیادہ معلومات نہیں تھی، میرے ایک بزرگ اور والد صاحب کے دوست تھے، وہ جماعت اسلامی کی مجلس شوری کے رکن اور انگریزی ہفت روزہ ’’ریڈینس‘‘ کے منیجر تھے، ان کے پاس ایک خط اور کتابوں کی فہرست بھیج دی، انھوں نے مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی کے ذریعہ ساری کتابیں بھیج دیں، غالبا ڈھائی ہزار کی کتابیں تھیں، کمال یہ تھاکہ نہ انھوں نے کوئی بل بھیجی نہ رقم طلب کی، اس وقت انجمن کے فنڈ میں اتنا پیسہ بھی نہیں تھا، سال بھر بعد انھیں پیسے بھجوایا، پھر تو کتابیں آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لڑکوں کو مکتبوں کی فہرست دے دیتا، وہ کتابوں کا انتخاب کرتے، کتابیں اسلامی اور ادبی موضوعات پر ہوتیں، نگراں مولانا احسان اللہ بنائے گئے تو ہر کام میں مجھ سے مشورہ لیتے، کتابیں منگانے کی بات ہوتی تو مجھ پر چھوڑ دیتے،اس طرح تقریبا تیس سال تک حفلہ کی لائبریری کی دیکھ بھال کرتا رہا، ریک پر ریک خریدی جاتی رہیں، سلفیہ کی دوسری منزل میں پورے ایک کمرے میں یہ لائبریری ہے، ایک کمرہ بھی کم پڑنے لگا تھا، میں نے پرانی کتابوں کو دو الماریوں میں محفوظ کردیاتھا، ناظم انجمن کو ہمیشہ تاکید کردیتا کہ یہ کتابیں لڑکوں کو ایشو نہ کریں، یہ ایک شان دار لائبریری بن گئی تھی، جس میں طلبا کو اپنے مقالوں کے لیے پورا مواد مل جاتا۔ افسوس ہر کمالے را زوال، عبد اللہ سعود صاحب نے مدرسہ زید بن ثابت بنوایا، کچھ کتابیں ادھر منتقل کردیں کچھ سلفیہ کے اسی کمرے میں ہیں، ان کی دیکھ بھال کرنے والا کون ہے کچھ پتہ نہیں، دو سال قبل ان سے کہا تھا، یہ بہت قیمتی کتابیں ہیں انھیں سلفیہ ہی میں منتقل کرا دیجیے ، کہنے لگے حافظ محفوظ سے کہہ دیجیے، وہ بے چارہ اکیلے کیا کیا کرے۔
ایک مضحکہ خیز واقعہ کاذکر کرتا چلوں، جس سال مجھے ریٹائر ہونا تھا اس سال یا اس سے ایک سال قبل لڑکے بائیس پچیس ہزار کی کتابیں مئو اور دلی سے لائے، کچھ کتابیں عمار یاسر کے ذریعے منگوائیں۔ ناظم عبد اللہ سعود نے میرے اور مولانا احسان اللہ کے اوپر الزام رکھ دیا کہ کمیشن کے چکر میں آپ دونوں نے جامعہ کے مکتبہ سے کتابیں نہیں منگوائیں، حالاں کہ لڑکوں نے پہلے ہی مکتبہ کے انچارج مولوی سہیل سے کہا تھا، انھوں نے جواب دیا تھا کہ یہ کتابیں منگوانا میرے بس میں نہیں ہے، کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
ازھارالعرب کی تحقیق سے متعلق بہت سی کڑیاں ذہن میں گڈ مڈ ہوگئی تھیں، اسی لیے طارق کے سوال کا بروقت جواب نہ دے سکا تھا۔بات ۱۹۸۵ کے بعد کی ہے،ڈاکٹر ازہری صاحب مرحوم نے درسی کتابوں کی اشاعت کی ایک مہم چھیڑ رکھی تھی، مجھے طلب کیا اور حکم دیا کہ تمھیں ازھار العرب کی تحقیق اور شرح لکھنا ہے، صرف ایک گھنٹی پڑھاؤگے ، ہمارے آفس میں تمھاری تپائی رکھ دی گئی ہے، میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔تحقیق کانام صرف ساتھیوں کی زبانی سنا تھا، شرح کس کو کہتے ہیں یہ بھی خبر نہیں تھی، ان خشک چیزوں سے ادنی سی نسبت نہیں تھی، نہ کسی نے کبھی کوئی رہنمائی کی تھی، مجھے یقین نہیں ہوا کئی بار ڈاکٹر صاحب سے پوچھا مجھے یہ کام کرنا ہے؟ کہنے لگے ہاں بھئی تمھیں ہی کرنا ہے، کیسے اور کیا کرنا ہے، یہ پوچھنے کی ہمت نہیں پڑی، سیدھے شیخ الجامعہ کے پاس پہنچا، انھوں نے ہمت بندھائی، پھر ڈاکٹر صاحب کے پہنچا، ان سے گزارش کی کہ لائبریرین سے کہہ دیں کہ اپنی مرضی سے جتنی کتابیں چاہوں نکالوں۔ دوسری بات یہ کہ دن میں مجھ سے زیادہ کام نہیں ہوتا ہے، میں گھر پر کام کرنا چاہتا ہوں، وہ راضی ہوگئے انھوں نے کہا کام ایسا ہونا چاہیے کہ لڑکے بھی استفادہ کریں اور استاد بھی ، میں نے ترجمہ کی بھی اجازت چاہی آپ نے روک دیا، میں نے کام کا خاکہ کچھ اس طرح بنایا:(۱)شعرا کا مختصر تعارف (۲)نا معلوم شعرا کی تحقیق (۳)اشعار کے مصادر (۴)عبارتوں کی تحقیق (۵)اشعار میں اختلافات کی نشان دہی (۶)حل اللغات:(۷)ضرورت کے مطابق نحوی اور صرفی تشریح ۔
میرے لیے مشکل یہ تھی کہ سلفیہ لائبریری میں عہد عباسی، عہد اموی اور عہد جاہلی کے شعری لٹریچر اور ان کے مجموعے بہت کم تھے۔ دوسری بات یہ کہ حدیث کی تحقیق کی طرح ایسی کتابیں ادب کی نہیں ہیں کہ ایک ٹکڑا کے سہارے سارے مصادر مل جائیں،اس وقت نیٹ کا زمانہ بھی نہیں تھا کہ ایک مصرعہ سرچ میں ڈال دیا سب آپ کے سامنے ہے۔ جو کتابیں سلفیہ میں تھیں انہی سے کام چلانا تھا۔ ازھار العرب کئی سالوں سے پڑھاتا تھا، اس کے تمام اشعار میرے ذہن میں تھے، پہلا حصہ ابو حیان اندلسی کے شعر”عدای لھم فضل علی و منت۔ فلا اذھب الرحمان عنی الاعادیا‘‘تک مجھے تیسری جماعت سے یاد تھا، بقیہ اشعار دوران تدریس یاد ہوگئے تھے، میں ایک کتاب لیتا اس کے ہر صفحہ میں اشعار چیک کرتا، ازھار کا کوئی شعر ملتا تو صفحہ نمبر کے ساتھ نوٹ کرلیتا کہ یہ شعر یا نظم فلاں کتاب کے اتنے صفحہ نمبر پر ہے، شعر کے کسی لفظ میں کوئی تبدیلی ہوتی تو اسے بھی نوٹ کرلیتا ۔ میری خوش قسمتی تھی کہ جامعہ کی لائبریری میں ازھار کے پہلے ایڈیشن کا ایک نسخہ مجھے مل گیا، کاغذ کے جستوں کی کمی نہیں تھی جس قدر ضرورت ہوتی ازہری صاحب دے دیتے۔ ہر کاغذ میں چار پانچ اشعار لکھ لیا، اشعار پر نمبر ڈال دیا جیسے کتاب میں تھے، جن اشعار کے متعلق کچھ ملتا، اس کو شعر کے نیچے حاشیہ میں لکھ دیتا، اس طرح ترتیب کے بغیر پوری کتاب کا کام ایک ساتھ چل رہاتھا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ایک ماخذ آج ملتا تو دوسرا ماخذ پندرہ دن بعد ملتا، جب بھی ملتا، اشعار کے نمبرات دیکھ کر اسی جگہ دوسرے ماخذ کا حوالہ دے دیتا، یہ ایک مشکل کام تھا، ذہن پر بہت زور دینا پڑتا تھا تاہم میں نے ہار نہیں مانی۔ ایک ڈائری میں کتابیں اور ان کے صفحات نوٹ کرلیے تھے، کام ختم کرنے کے بعد میں نے صفحات کا حساب لگایا تقریبا پچپن ہزار صفحات میری نظر سے گزرے تھے۔ جہاں مجھے زیاد ہ پسند آیا، میں نے اسے پڑھ ڈالا، فائدہ یہ ہوا کہ عربی کلاسیکل ادب کا جو بھی ذخیرہ سلفیہ میں تھا وہ نظر سے گزار لیا، اب تو ان کتابوں کے نام بھی یاد نہیں رہ گئے تاہم کچھ کتابیں ذہن میں اب بھی ہیں جو یہ ہیں: کتاب الاغانی لابی الفرج الاصبہانی چوبیس جلدیں تھیں یا چھتیس یہ یاد نہیں ، خزانة الأدب اٹھارہ جلدیں، الشعر والشعرانقد الشعر لابن قدامہ، کتاب العمدہ ،العقد الفرید لابن عبد ربہ آٹھ جلدیں، امالی بو علی قالی، امالی لمرتضی، الف لیلة و لیلة،مغنی لابن ھشام، نہایة الارب في فنون الأدب ، الکامل للمبرد، دیوان ابی العتاھیہ، دیوان حسان بن ثابت، حماسہ لابی تمام، حماسہ للبحتری، دیوان علی بن ابی طالب، المعلقات السبع للزوزنی، دیوان المتنبی،سیرة ابن هشام ، الروض الانف للسھیلی و غیرھا تراجم شعرا الاعلام للزرکلی سے لیا۔ سات مہینوں میں یہ کام مکمل کرلیا ، لیکن اس بات کا مجھے اعتراف ہے کہ اتنی محنت کے باوجود مجھے کچھ جچا نہیں، یہ نہ مکمل تحقیق ہے، نہ مکمل شرح ہے بس دونوں کا ملغوبہ ہے، سال بھی پورا ہوچکا تھا، میں نے اسے فائل میں رکھ کر الماری پر رکھ دیا۔ ازہری صاحب سال میں چار پانچ بار پوچھتے کہ کام ہوگیا، میں یہی کہتا بس ڈاکٹر صاحب تھوڑا سا باقی ہے، مجھے تو فئیر کرنے کی ہمت نہیں تھی، تین سال کے بعد ایک دن دروازے پر مولانا علی حسین اور ان کے ساتھ میں امتیاز مئوی تھے یا مولوی اجمل لائبریرین موجود تھے، میں نے پوچھا کیسے آنا ہوا کہنے لگے آپ کے گھر چھاپہ ڈالنے، ازہری صاحب نے کہا ہے ازھار جس حالت میں ہے لے کر آؤ، میں نے لاکھ بہانے کیے، لیکن وہ لوگ نہیں مانے فائل اٹھا کر لے گئے اور اسی طرح آدھی ادھوری ازہری صاحب نےچھاپ دیا۔ غلطیاں اور کمیاں بہت زیادہ ہیں، ابھی مکہ میں عزیر سے اس کے متعلق کافی لمبی باتیں ہوئیں، کہنے لگے حل لغات اردو والا حصہ نکال دو، میں نے کہا کوئی نہ کوئی یہ کام کرلے گا، اب تو عربی بھی بھول بھال گیا۔
عامر انصاری: (۴) ازھار العرب رحمانیہ میں داخل نصاب تھی، سلفیہ میں آپ سے مجموعہ من النظم والنشر پڑھنے کا شرف رہا، مجموعہ پر کوئی کام؟
(۵) ابوالقاسم سیف بنارسی رحمہ اللہ نے حافظ غازی پوری سے استفادہ یا تلمذ کیا ہے یا نہیں؟ ان کے والد محترم سعید بنارسی رحمہ اللہ کا تلمذ تو اظہر من الشمس ہے، قمر بنارسی کے سند اجازہ کا بھی تذکرہ ہے ، لیکن سیف بنارسی کے تلمذ کے بارے میں مجھے کچھ نہیں ملا ۔
(۶) کیا آپ بیتی لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟
فاروقی صاحب: شیخ عامر صاحب! میرا کام ازھار العرب پر تھا، سلفیہ کا نصاب نافذ ہوا تو سب سے پہلے مجموعة من النظم والنثر کے پڑھنے والے ڈاکٹر حافظ عبد العزیز مبارک پوری کی جماعت تھی، ان کی جماعت میں ڈاکٹر جاوید اعظم، ڈاکٹر اختر جمال مقیم مکہ مکرمہ، مولانا شاہد جنید صدر جامعہ سلفیہ،ڈاکٹر ابو حاتم بن مولانا سیف بنارسی اور مولانا عبد اللہ تھے۔ استاد مولانا عزیز احمد ندوی تھے، طلبا اپنی کاپیوں میں نقل کر کے پڑھتے تھے، یہ ۱۹۶۶ کی بات ہے۔ اگلے سال ہم لوگوں نےبھی اسی طرح پڑھا، سلفیہ میں پریس آگیا تو مجموعہ کو چھاپ دیا گیا، لیکن اس میں کافی غلطیاں تھیں ازہری صاحب نے مجموعہ کی تصحیح کی ذمہ داری میرے سپرد کی، تاکید کی حل اللغات کی ٹائپ میں جو غلطیاں ہیں انھیں خاص طور سے دھیان دینا۔ میری خواہش تھی کہ اس میں ہر قرن کے شعری میزات کا اضافہ ہوجائے، لیکن نسخے ختم ہورہے تھے، جلد کر کے دیناتھا، میں نے تصحیح اور پروف ریڈنگ کردی، کتاب چھپی توازہری صاحب نے بیس نسخے بطور حق المحنت دیے، میں مگن ہوگیا، کچھ غلطیاں ابھی بھی ہیں، میں نے دوتین نسخے اپنے پاس رکھے بقیہ لڑکوں میں بانٹ دیا۔
مولانا سیف بنارسی کا مولانا عبد اللہ غازی پوری سے تلمذ کا کہیں ذکر مجھے بھی نہیں ملا، جن لوگوں سے تلمذ تھا یا جن سے سند اجازہ لی ان سب کا ذکر اپنی کتاب الزھر الباسم میں اور مولانا عبد الحنان ( مولانا کے بھتیجے) نے نور توحید کے خاص نمبر میں کردیا۔ حافظ شاہد رفیق نے اپنی کتاب ’’یادگار سلف‘‘میں بھی کہیں ذکر نہیں کیا، جہاں تک استفادہ کی بات ہے قیاس ہے کہ استفادہ ضرور کیا ہوگا، مولانا سیف بنارسی کے گھر میں مولانا عبد اللہ غازی پوری کی کافی آمد و رفت تھی، اسی لیے مولانا محمد سعید نے اپنی وصیت میں ذکر کیا کہ تعلیم کے لیے مولانا قمر کو مولانا غازی پوری کے پاس بھیجا جائے، جس وقت مولانا سیف بنارسی تعلیمی مراحل میں تھے مولانا غازی پوری مدرسہ آرہ جاچکے تھے، وہ غالبا آرہ ۱۳۰۵ میں گئے تھے، جب وہاں سے مستعفی ہونا چاہا تو انھیں منانے کے لیے مولانا امرتسری مولانا سیف کو لے کر گئے تھے، اہل حدیث کے کسی شمارے میں اس کا ذکر ہے، مولانا محمد سعید کا انتقال ۱۳۲۲ میں ہوا تو تعزیت کے لیےسب سے پہلے غازی پوری آئے، ۱۹۰۶ میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کی تشکیل ہوئی تو مولانا غازی پوری علما کو لے کر مولانا سیف بنارسی کے گھر آئے اور میٹنگ کی۔ ان سب تعلقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا سیف نے ان سے استفادہ ضرور کیا ہوگا۔
میری زندگی بالکل سادہ گزری ہے، ایک عام آدمی ہوں، جس کا امتیاز صرف اتنا ہے کہ چالیس سال اس نے پڑھا یا ہے، نہ میرے پاس رنگین واقعات ہیں، نہ زندگی کےکسی شعبے میں میری کوئی خدمت ہے، نہ میں ادیب اور شاعرہوں، نہ سیاسی آدمی ہوں، نہ کسی مذہبی تنظیم سے کبھی منسلک رہا، میں کیا آپ بیتی لکھوں گا، آپ بیتی لکھنے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ۔
خبیب حسن: استاذ محترم! آپ کسی زمانے میں صحافت سے بھی منسلک تھے اور بقول شاد عباسی بنارسی صاحب کے کہ آپ مسلم رابطہ نامی اخبار کے سب ایڈیٹر ہونے کے ساتھ اخبار کی اور بھی کئی ایک ذمہ داریاں نبھاتے تھے مزید اس اخبار میں آپ کے مختلف زبانوں کے ترجمہ شدہ اور اس کے علاوہ کئی ایک مضامین بھی شائع ہوئے تھے۔اس زمانے میں صحافت میں کافی کچھ پریشانیاں تھیں جیسا کہ شاد صاحب نے بتلایا۔خیر اس دور میں آپ کا صحافتی تجربہ کیسا رہا نیز صحافت سے متعلق جدید لوگوں کو جو بنیادی رہنمائیاں ہوسکتی ہیں، اپنے تجربات کی روشنی میں کچھ ہم سب کے لیے اجمالا گفتگو فرما دیں۔ پیشگی شکریہ(دراصل اس کی کچھ فائلیں شاد صاحب کے وہاں موجود تھیں لیکن مکان کی مرمت کرتے وقت ضائع ہوگئیں)
فاروقی صاحب: عزیزی خبیب! آپ نے بہت اہم سوال کیا ہے، آپ نے اس غنچے کی یاد دلادی جو پھول بننے سے پہلے مرجھا گیا ۔ بنارس سے اردو کے متعدد روزنامے اپنی جلوہ سامانیاں دکھا کر رخصت ہوگئے، مقیم گنج سے روزنامہ آزاد نکلتا تھا، اس کے ایڈیٹر ننھے خاں یا منے خاں تھے اس نے خوب دھوم مچائی۔
بنارس کے مشہور کانگریسی رہنما صفی اللہ انصاری نے علی پورہ سے قومی مورچہ نکالنا شروع کیا، مولانا امام الدین رام نگری کے صاحب زادے مشہور شاعر تاج الدین اشعر رام نگری ایڈیٹر کیا بنے اخبار آسمانوں میں پرواز کرنے لگا، بنارس کا ہر پڑھا لکھا سویرے اٹھتا تو آنکھ ملتے ہوئے پہلے قومی مورچہ ڈھونڈھتا، انھیں میں آج بھی فارقلیط ثانی کہتا ہوں۔ الحمدللہ ابھی باحیات ہیں پچاسی کے پیٹے میں ہیں، فیس بک پر خوب سرگرم ہیں، مسلسل اپنی نظمیں بھیجتے رہتے ہیں، ان کے والد میرے والد کے گہرے دوستوں میں تھے، دونوں جماعت اسلامی سے وابستہ تھے، اشعر صاحب بھی اسی فکر کے ہیں، ان کے اداریے شعلہ ریز اور بے حد معلوماتی ہوتے، کاش کہ کوئی اللہ کا بندہ ان اداریوں کو جمع کردیتا۔
اس کے بعد ایک اور مقبول اخبار آواز ملک کے نام سےنکلا ، شاہین صاحب اس کے ایڈیٹر تھے ان کے بعد اس کی روشنی مدھم ہوگئی۔
سلام اللہ صدیقی مرحوم ہفت روزہ تنویر نکالتے تھے، اس میں دکتور ضیا کا ایک انٹرویو بھی شائع ہوا تھا۔
شاد عباسی اور ان کے احباب خالد شفاء اللہ، ماسٹر سعیدی، ندیم وغیرھم نےمسلم رابطہ کے نام سے ایک ہفت روزہ کا ڈیکلیریشن حاصل کیا، کچھ دن نکالے پھر بند ہوگیا، اس سے قبل کہ رجسٹریشن کی مدت ختم ہوجاتی دوبارہ نکالنا چاہا، بھائی صاحب( خالد شفاء اللہ رحمانی) کو ایڈیٹری کی ذمہ داری سپرد کی گئی، یہ کسی مسلک کا ترجمان نہیں تھا، اس کی کمیٹی میں اہلحدیث، دیوبندی، بریلوی اور شیعہ سب شامل تھے اور سب دوست تھے، بھائی صاحب اور میں رحمانیہ کے مدرس تھے، اخبار شائع ہونا شروع ہوا تو بھائی صاحب نے مجھے حکم دیا کہ میرے اکیلے کے بس کا نہیں ہے، تم سیاسی مضامین اور عالم اسلام کا کالم لے لو، میں نے بھی سوچا حرج کیا ہے، لکھنا آجائے گا، کبھی سیاسی مبصر کے نام سے کبھی فاروقی بی اے کےنام سے لکھتا، سلفیہ میں کچھ عربی اخبارات آتے ان سے عالم اسلام سے متعلق اہم خبروں کا ترجمہ کر کے دے دیتا، کچھ دنوں کے بعد مجھے نائب ایڈیٹر بنادیا گیا۔ مشکل یہ تھی کہ پڑھانا، ٹیوشن کرنا اور رات کو لکھنا بہت بھاری پڑتا تھا، مگر جوانی تھی اور لکھنے کا جنون تھا، ایک شمارہ نکالتا دوسرا سر پر آجاتا، میں نے آسان طریقہ یہ نکالا العربی کویت کے شمارے لاتا، اس سے ترجمہ کر کے قسط وار مضامین لکھنے لگا، دو طویل مقالے آج بھی یاد ہیں، ایک بیت المقدس کی تاریخ تھی، دوسرا ایک عربی سیاح کا سفرنامہ تھا، جس نے ۱۹۴۸ میں پورے چین کا سفر کیا تھا۔ اخبار کو کافی مقبولیت مل رہی تھی، ٹانڈہ، مئو اور اعظم گڈھ تک جانے لگا تھا، ۱۹۸۰ میں سلفیہ کی کانفرنس ہوئی تو اس کاایک مختصر نمبر بھی نکلا تھا، جس کے سر ورق کی تصویر کا ایک گوشہ صوت الجامعہ کے اوپر ہے، ایک مضمون شعبان کی بدعات پر لکھا تو کمیٹی نے کہا ابوالقاسم اس کی انتظامیہ میں سب مسلکوں کے لوگ شامل ہیں ذرا احتیاط برتنی پڑے گی۔ اداریے اعظمی صاحب لکھتے تھے وہ پہلے دعوت اخبار میں تھے، پھر بی ایچ یو کے شعبۂ صحافت میں لکچرر ہوگئے، صدر شعبۂ صحافت کے منصب سے ریٹائر ہوئے، ابھی حیات ہیں اور ڈی ایل ڈبلیو کے پاس مکان بنواکر رہتے ہیں، ان کے لڑکوں کی حنا میڈیکل کے نام سے دواؤں کی دکان ہے جو بہت چلتی ہے۔ غالبا آٹھ ماہ اس اخبار کی زندگی تھی، اہل مدرسہ نے بھائی صاحب سے کہا آپ دونوں بھائی مدرسہ میں پڑھائیں یا اخبار چلائیں، کل کلاں کو کوئی بات ہوئی تو اس کی ذمہ داری کون لے گا، کیا کرتے روٹی روزی زیادہ عزیز تھی، نوکری چھوڑ دیتے تو بچوں کو کیا کھلاتے ، خاموشی کے ساتھ اخبار سے الگ ہوگئے پھر وہ اخبار بھی بند ہوگیا۔ اس اخبار سے مجھے بہت فائدہ ہوا، سیاسی مضامین کیسے لکھے جاتے ہیں تھوڑا بہت ڈھنگ آگیا، مواد کے لیے میں انگریزی اخبارات اور انگریزی رسائل و جرائد پر بھروسہ کرتا، انڈیا ٹوڈے، السٹریٹڈ ویکلی، بلٹز، ہندوستان ٹائمز وغیرہ اخبارات اپنے پیسے کا خرید کر لاتا، میں نے مسلم رابطہ میں لکھے گئے کچھ مضامین کی ایک نقل محفو ظ کر لی تھی، اس بار گھر گیا تو میں اور مولانا اسرار ندوی نے بہت تلاش کیا، اللہ جانے فائل کہاں گم ہوگئی۔
منظور عالم: حفلة الخطابہ کی لائبریری میں بہت نایاب کتابیں تھیں ۔اللہ رب العالمین آپ اور استاد محترم احسان اللہ صاحب کو جزائے خیر دے۔آپ کی نگرانی میں 2006 میں اس لائبریری کی ترتیب نو میں کروائی تھی ۔بہت سی ادبی کتابیں خریدی گئی تھیں ۔
فاروقی صاحب: آپ نے یاد دلایا تو یاد آگیا، یہ سب آپ جیسے کتابوں کے جنونی کی وجہ سے ممکن ہوسکا، احسان اللہ سے بہت سپورٹ ملا اسی لیے میری ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ انجمن کی نگرانی وہ اپنے ذمہ لیں۔
عاصم افضال: (۱) جیسا کہ ہم جانتے ہیں طالب علمی کے دور سے آپ کو لکھنے پڑھنے کا شوق رہا ہے، اس حساب سے آپ کے علمی کام کم منظر عام پر آئے، آپ لکھتے کم ہیں یا لکھ کر منظر عام پر لانے کی خواہش نہیں ہوتی؟
(۲) آپ کی شائع شدہ تصانیف کے علاوہ بھی کچھ تراجم یا تصنیفات ہیں جو زیور طبع سے آراستہ ہونے سے رہ گئی ہوں؟
(۳) رعایت اللہ فاروقی نے کہیں لکھا تھا کہ غور و فکر والا انسان موروثی عقیدے پر قانع نہیں رہ سکتا، کیا یہ بات صحیح ہے، کیا آپ کو کبھی اپنے مذہب اور عقیدے کے بارے میں خلجان پیدا ہوا ہے؟
فاروقی صاحب: (۱) مزاج میں لاابالی پن اور لاپروائی بہت تھی، استقلال بھی نہیں تھا، پڑھنے کی ضرور عادت تھی، گاؤں میں جب بجلی نہیں تھی، گھر میں ایک ہی لالٹین تھی، میں شیشی کے ڈھکن میں چھری سے سوراخ کرلیتا، بنیا کے یہاں سے دس پیسے کا مٹی کا تیل اس میں بھروالیتا، والد صاحب کے پاس کتابیں تھیں، مولانا اسماعیل خاں کی ایک الماری بھر کر کتابیں تھیں اس میں سے نکال کر لاتا اور بارہ ایک بجے تک پڑھتا، والد صاحب ڈانٹتے کہ کم بخت کچھ لکھا کر ورنہ حریری صاحب کی طرح مطالعہ ہی کرتا رہ جائے گا۔جب بھی موڈ بنتا ضرور لکھتا، کوئی بھی موضوع پسند آجاتا تو کچھ نہ کچھ لکھتا، پھر اس موضوع سے متعلق کتابوں کی تلاش و جستجو شروع ہوجاتی، زیادہ تر ایسا ہوتا کہ اس قدر گہرائی میں چلا جاتا کہ لکھنے سے دل اچاٹ ہوتا، جو بھی لکھتا اسے کسی کتاب میں یا فائل میں رکھ دیتا، چھپوانے کا کبھی جی ہی نہیں چاہا، کتابوں کی تصنیف سے کم رغبت تھی، بس مضامین لکھتا اور لکھ کر رکھ دیتا، یہ تو ہمارے لائق مند شاگرد تھے جو زبردستی شائع کروانے پر زور دیتے اسی لیے قریبی احباب اور ساتھی اساتذہ کو صرف پتہ تھا کہ میں لکھتا بھی ہوں۔ ۱۹۷۷ سے ۱۹۸۵ تک تقریبا ساٹھ ادبی مقالے لکھے، ادب کے ہر پہلو پر لکھا، لیکن ان میں سے چند ہی باقی بچے جنھیں لڑکے المنار میں شائع کرنے کے لیے لے گئے، جب کسی کا دباؤ ہوتا تو ضرور لکھتا، کوئی فرمائش کرتا کہ میرے لیے مضمون لکھ دو، مقالہ لکھنے میں میری مدد کردو تو اس میں مجھے بڑا لطف آتا۔
(۲) ترجمہ نگاری کو لوگ آسان سمجھتے ہیں، مترجم کو لوگ اہمیت بھی کم دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام تخلیق سے کسی طرح کم تر نہیں ہے، اور نہ مترجم کا درجہ مصنف سے کم ہے، دو زبانوں میں مہارت، متعلقہ موضوع پر گرفت، مصنف کے نظریات اور موقف سے آگاہی اور پھر تخلیق کی روح ترجمہ میں پھونکنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ مجھے ترجمہ کرنے کا شوق ازہری صاحب کے مضامین اور تراجم دیکھ کر ہوا۔
فکشن سے مجھے بڑی دلچسپی تھی، غالبا ۱۹۷۶ یا ۷۷ کی بات ہے، سلفیہ لائبریری سے لطفی منفلوطی کی العبرات نکال کر لایا، پڑھا تو جی چاہا کہ اسے اردو دنیا سے متعارف کر اؤں، بس پھر کیا تھاآنا فانا اس کے افسانوں کو اردو جامہ پہنچادیا ، عزیر مدینہ سے آئے یا اس وقت تک گئے نہیں تھے، یہ یاد نہیں بہرحال ملاقات ہوئی تو پوچھنے لگے کہ کیا کررہے ہو میں نے بتایا کہ منفلوطی کے افسانوں کا ترجمہ کر رہا ہوں چند باقی رہ گئے ہیں، کہنے لگے تمھیں افسانوں کے علاوہ کچھ اور نہیں ملا، بس صاحب اسے فائل میں بند کرکے رکھ دیا، فائل تو کافی عرصہ تک موجود تھی، لیکن افسانے ضائع ہوگئے ایک دن اس میں سے دو صفحات مل گئے تو کہانی بھی یاد آگئی۔
مولانا عبد الوہاب خلجی کی فرمائش پر دو کتابوں کو اردو کا جامہ پہنایا تھا، پہلی محمد بن عبد الوھاب کی مختصر سیرة الرسول،اس کتاب کا ترجمہ تقریبا ڈھائی مہینے میں صرف دو ہزار حق المحنت پر کیا تھا۔ دوسرا علامہ ابن باز کا ایک رسالہ تھا جو حج میں عورتوں کے مسائل سے متعلق تھا، دونوں ان کو بھجوادیا تھا، کیا حشر ہوا تھا معلوم نہیں۔
رابطہ عالم اسلامی کا حقوق الانسان فی الاسلام سے متعلق ایک خاص نمبر شائع ہوا تھا، جس کے مقالات کافی تحقیقی اور معیاری تھے، میں نے بیشتر کا اردو میں ترجمہ کر ڈالا، صرف اس کا ایک مقالہ کئی قسطوں میں آثار مئو میں کافی عرصہ پہلے چھپا تھا، اسی میں خطبۂ حجة الوداع پر ایک مقالہ جسے اردو کے ساتھ انگلش میں بھی کیا تھا۔
مولانا عبد المعید مدنی جب سلفیہ میں تھے تو ایک پروجیکٹ بنایا تھا جس میں کئی کتابوں کے تراجم شامل تھے، ان میں سے کچھ پر کام شروع بھی ہوا، ابو بکر جزائری کی منہاج المسلم، کئی لوگوں کو انھوں نے الگ الگ ابواب دیے ، صرف عقیدہ کا باب عبید اللہ ناصر نے مکمل کر کے دیاتھا، مولانا بھی فیجی چلے گئے، سب نے چھوڑدیا تھا، میں نے آہستہ آہستہ ڈھائی سال میں تمام ضروری ابواب کے تراجم مع نوٹس کیے، مکمل ہونے کے بعد ایک صاحب تخریج کے لیے لے گئے، تقریبا تیس سال سے زیادہ ہوگئے، ابھی تک تو نہیں معلوم ہوسکا کہ کتنا تخریج کیے۔
پروجیکٹ کی دوسری کتاب سید قطب کی ’’خصائص التصور الاسلامی و مقوماتہ‘‘ تھی، اس کے نصف حصہ کا ترجمہ مولانا عبد المعید نے کیا تھا، نصف آخر کا میں نے کیا تھا، فیجی سے واپس آنے کےبعد وہ علی گڈھ مسودہ طباعت اور نظر ثانی کے لے گئے، کافی سالوں کے بعد میں نے ان سے اس وقت پوچھا جب وہ اخوانیوں سے بیزار ہوچکے تھے، پہلے تو مجھے ایک لیکچر پلایا، پھر کہنے لگے اس کا اب کیا کروں گا،کہیں ردی میں پڑا ہوگا میں نے بھی سوچا چلو اچھا ہوا خس کم جہاں پاک ۔
شیخ غضبان کی کتاب معاویہ بن ابی سفیان کا اردو ترجمہ ازہری صاحب نے سلفیہ کے پانچ اساتذہ سے کروایا تھا، حضرت عثمان سے متعلق باب کا ترجمہ مجھے ملا تھا، مجھے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی تھی کہ نظر ثانی میں ازہری صاحب نے ایک لفظ کی کہیں اصلاح نہیں کی، یہ کتاب جامعہ سلفیہ سے شائع ہوئی اور اسے مقبولیت بھی ملی۔ سنا ہے کہ دوبارہ دارالعلم ممبئی سے شائع ہوچکی ہے۔
اس موضوع پر میرا ایک مضمون بھی ترجمہ نگاری اور اس کے مسائل کے عنوان سے ہےجو المنار میں غالبا ۲۰۰۷ میں شائع ہوا تھا۔
(۳) یہ ذرا مشکل سوال ہے، میرا خیال ہے کہ باخبری اور آگاہی نعمت بھی ہے اور مصیبت بھی ہے۔ زیادہ سے زیادہ جانکاری کی کوشش اور اس کی خارزار راہیں بڑی پر خطر ہوتی ہیں، میں اپنی ذات کامکمل تحلیل و تجزیہ سے قاصر ہوں۔ بس یہ یاد ہے کہ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں تقریبا ڈیڑھ دو سال تک میں بھٹکتا رہا ، میں اپنا راستہ کھو چکا تھا، روشنی کی کہیں کوئی کرن نظر نہیں آتی تھی، اپنی ذات کے حصار میں قید تھا، کسی سے یہ نہیں بتاسکتا تھا کہ دماغ میں کس نوعیت کے زلزلے آرہے ہیں، نہ احوال و کوائف سے باخبر کرسکتا، محرکات اور عوامل مختلف اور متعدد تھے،سالہا سال سے میں نے خوابوں کا جو محل بنایا تھا وہ مسمار ہوچکا تھا، طلائی تاروں سے تمناؤں کا جال بنا تھاوہ دریدہ ہوچکا تھا، سنہری مستقبل سراب ثابت ہوا۔ وقت کے ایک ہی اسٹروک نے دل کی دھڑکن بند کردی، کامیابیوں کے ریکارڈ قائم کرتا رہا، اپنی قسمت پر مجھے ناز تھا، ایک ہی ناکامی نے ثریا سے زمین پر دے مارا، زندگی کی راہ از خود بدل گئی۔ یہ کیسے اور کیوں کر ہوا،خامیاں اور غلطیاں کہاں ہوئیں کوئی اندازہ نہیں ہو سکا۔ رد عمل تو ہونا تھا، مطالعہ کا کچا پن بھی کافی اثر انداز ہوا اچانک راہ خود بخود بدلنے لگی، عقائد متزلزل ہونے لگے، غورو فکر اور سوچ حد بصیرت سے تجاوز کرنے لگیں، معاد، آخرت، جنت و جہنم ڈھکوسلے لگنے لگے، ہر تاویل مضحکہ خیز لگنے لگی، اس دنیا کے بنانے کا مقصد نظروں سے اوجھل ہوگیا، تقدیر کے مسئلے اور الجھنیں پیدا کرتے۔ اس کشمکش نےزندگی تلخ کردی، پھر میرے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا، نماز صرف دکھاوے کو پڑھتا، کوئی مجھے مولوی کہتا تو کاٹ کھانے دوڑتا، کبھی کبھی بہن یا بیوی سے کوئی بات شئیر کرتا، وہ تفھیم القرآن پڑھنے کو کہتی میں نے وہ بھی پڑھا، مولانا مودودی کے رسائل و مسائل اور تنقیحات پڑھی، بس یوں سمجھ لیں کہ میں اللہ سے روٹھ گیا تھا اور چاہتا تھا کہ اللہ مجھے خود منائے، میرے درد کا مداواکرے ، ٹھوکروں پر ٹھوکریں لگتی رہیں ہر ٹھوکر پہلے سے زور دار ہوتی۔ میں نے طے کرلیا تھا میں کسی مدرسے کا کبھی مدرس نہیں بنوں گا، اللہ نے میرے سارے راستے بند کردیے، میرے سر داڑھی اور مونچھ کے بال سادھووں کی طرح ہوگئے۔
اس سے متعلق ایک واقعہ کا ذکر کرتا چلوں، ممبئی میں میں مارا مارا پھر رہا تھا، ایک صاحب کی وساطت سے فلموں کے اشتہار کی ایک کمپنی میں ملازمت ملی، آفس گرانٹ روڈ پر ایک فلمی اسٹوڈیو میں تھا، نام شاید لکشمی اسٹوڈیو یا ایسا ہی کچھ تھا، انٹرویو میں پاس ہوگیا، ڈیڑھ سو تنخواہ مقرر ہوئی، اسی دن سے کام شروع کردیا، اشتہار کچھ ایسے تھے’’آپ کے شہر میں منچلی حسینہ آگئی ہے‘‘۔ میری معاون ایک مراٹھی مرگھلی کالی کلوٹی لڑکی تھی، سیدھی تھی، لیکن مجھے سخت کوفت ہوتی، آفس انچارج کا نام شاہین صاحب تھا، جن کا کام اخبارات سے اشتہار لانا تھا، فارغ اوقات میں فلمی کہانیاں لکھنے کی کوشش کرتے ، دو تین دن کے بعد میں بھاگ نکلا۔ اچانک ایک دن الہام سا ہوا، میرے ابا مجھے کیا بنانا چاہتے تھے میں کیا بن گیا، ان کی امیدیں ٹوٹی ہوں گی تو ان کے دل پر کیا گزرا ہوگا، اس وقت میں ممبئی کی ایک دکان میں بیگ کی سلائی کرتا تھا، میں سیدھے بہن اور بہنوئی کے گھرپہنچا اور ان سے کہا کہ میں گھر جانا چاہتا ہوں، اس وقت میرے پاس صرف وہی لباس تھا جسے میں پہنے ہوئے تھا، قمیص گھس کر بنیائین بن چکی تھی، پائجامے کا پائنچہ پھٹ کر ساتھ چھوڑ چکاتھا، بہن بہنوئی نے کسی طور سے ایک جوڑا کپڑا بنوا دیا اور ٹکٹ کا انتظام کردیا، میں واپس گاؤں پہنچ گیا، اکڑ نکل چکی تھی، لیکن دماغ کے کیڑے مرے نہیں تھے، والد صاحب نے کوئی باز پرس نہیں کی، صرف اتنا کہا کہ کل صبح سے مدرسہ جوائن کرلینا، میں نے خاموشی کے ساتھ اپنے مدرسے میں پڑھانا شروع کردیا، تنخواہ اسی روپئے تھی، ہمارے سالے اس وقت گھر ہی پر اور لال گوپال گنج میں پریکٹس کرتے تھے، عصر بعد سے شام تک ان کے ساتھ رہتا، کمپاؤنڈری کرتا اور میڈیکل کی کتابیں پڑھتا۔
سال بھر بعد بنارس آگیا، مجھے یاد پڑتا ہے کہ مولانا آزاد کی کوئی کتاب تھی ، انھوں نے لکھا تھا غیبیات کی دنیا بہت وسیع ہے، عقل و بصیرت اس میں جھانکنے کی چاہے جتنی کوشش کرلے، کچھ حاصل نہیں ہوتا اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ آنکھ بند کر کے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔ اس ایک جملے نے مجھے بہت متاثر کیا، پیچیں کھلنے لگیں، مولانا عبد الماجد دریابادی کی آپ بیتی نظر سے گزری، بہت متاثر ہوا، ان کی تحریریں آج بھی بہت پسند ہیں، جب بھی ان کی کوئی کتاب ملتی ہے بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔ انھوں نے مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی کا ذکر کیا تھا، اتفاق سے وہ بھی قاضی سجاد حسین کے ترجمے کے ساتھ مل گئی، غضب کی چیز ہے، تقدیر اور اس سے متعلق مسائل کو انھوں نے کئی کہانیوں کے ذریعہ سلجھایا ہے، پڑھتا تھا اور سر دھنتا تھا۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی کی بیشتر تصانیف پڑھ ڈالیں، ان کی عقلی توجیہات اور اسلوب دل میں اتر جاتا، لیکن جہاں وہ حنفی فقہ کا دفاع کرتے ان کی سحرکاری بچکانہ روپ اختیار کر لیتی، بہرحال الحمد للہ ایک ڈیڑھ سال کے اندر ہی ان امراض خبیثہ سے نجات مل گئی۔ ( ہمارے ایک دبستانی بھائی نے میرے تعلق سےمتعدد احباب اور اساتذہ کے تحریری تاثرات حاصل کیے ہیں، میرے ساتھ جو کچھ پیش آیا تھا، ان کی تحریروں میں نمایاں اشارے موجود ہیں)
ابو المرجان: استاد کیا آپ کے خون کا گروپ B پلس یا مائنس ہے؟
فاروقی صاحب: لاک ڈاؤن کھلے تو ان شاء اللہ بلڈ گروپ کی جانچ ضرور کراؤں گا، ایک بارمدرسہ میں کروایا تھا کون سا گروپ ہے یاد نہیں رہ گیا۔
یاسر اسعد: غالبا 2014 میں دلی سی ایم اروند کیجریوال اور آپ نے ٹرین میں ساتھ سفر کیا تھا، اس حوالے سے کچھ تاثرات…..اروند کیجریوال سے ملاقات کیسی رہی؟ ہندوستانی سیاست میں آپ کیجریوال کو کیا اہمیت دیتے ہیں؟ مسلمان ایک عرصے تک اسے مسیحا مانتے رہے، اب متنفر ہورہے ہیں۔ اس بابت آپ کے خیالات کیا ہیں؟
فاروقی صاحب: کہا جاتا ہے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ یہ شخص جب ملازمت چھوڑ کر اناہزارے کی تحریک میں شامل ہوا تو محسوس ہواکہ ہندوستان کی تاریخ بدلے نہ بدلے، کچھ نہ کچھ بڑا کام ضرور کرے گا۔ ویسے انا ہزارے کی تحریک بھی سیاسی کھلاڑیوں کی بازیگری تھی۔۲۰۱۴ کے الیکشن میں اروند کیجری وال بنارس سے لوک سبھا کی امیدواری کے لیے مودی کے مقابلے میں کھڑے تھے، اتفاق سے کاشی وشوناتھ کے اے سی تھری کوچ میں میرے سامنے ہی ان کی سیٹ تھی، ٹرین موو کی تو میں کچھ سوالات ان سے پوچھنا چاہتا تھا جیسے دلی کی سیاست سے یکبارگی آپ نے ملکی سیاست میں کیوں چھلانگ لگائی، کرپشن ختم کرنے کے علاوہ آپ کی اور کیا ترجیحات ہیں، وغیرہ۔ اس وقت سیاست میں ان کا بے حد عقیدت مند تھا، ابھی اس میدان میں نوخیز تھے امید تھی کہ سیاست کی آلائشوں کا وہ حصہ نہیں بنیں گے، انھوں نے کوئی جواب دینے سے معذرت کرلی، کہا کہ میں بہت تھکا ہوا ہوں، آرام کرنا چاہتا ہوں۔ صبح سے الیکشن کی تیاری میں لگنا ہے، یوگندر جی بھی دو برتھ چھوڑ کر بیٹھے تھے، جب بھی کوئی نئی پارٹی بنتی ہے تو شبہ ہوتا ہے کہ کہیں کسی بڑی پارٹی کا یہ انڈہ بچہ تو نہیں ہے، بڑی پارٹیاں اپنی پرو اور اینٹی دونوں قسم کی میدان میں اتارتی ہیں۔ پہلی اننگ انھوں نے اچھی کھیلی ، دلی واسیوں میں مقبول ہوئے، کام بھی اچھا کیا، دوسری اننگ میں کیسے ثابت ہوں گے یہ تو وقت بتائے گا۔ اس وقت کی سیاست ایسی ہے کہ ہندتو کی ذرا سی مخالفت اسے گم نامی کے غار میں ڈھکیل سکتی ہے، بہت محتاط ہو کر سیاست داں کو سیاست کرنی پڑ رہی ہے، ہم کسی سے یہ امید نہیں رکھتے ہیں کہ وہ مسلم مفادات کے لیے اپنا کیریر تباہ کر لے گا، ایسے ماحول میں غیر جانب دارانہ سیاست کی معمولی سی پہل بھی بہت ہے، سب کی رضامندی حاصل کرنا ناممکن ہے۔
ابو المرجان: پہلے کے ہندوستانی علماء علمی کاموں کے ساتھ یا تو اخبار نکالتے یا طب و حکمت سے جڑ کر دوا بیچتے تھے۔علمی کام بھی ہوتا رہتا اور روزی روٹی بھی چلتی رہتی۔اس طرح اگر آپ مدرسے کی نوکری چھوڑ کر صرف اخبار نکالتے تو امکانات یا اندیشے کیا کیا تھے؟
فاروقی صاحب: شیخ ہم معمولی لوگ ہیں، بہت بزدل ہیں خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ پڑھانے کے علاوہ کسی اور ہنر سے واقف بھی نہیں تھے، ان علما کی جرأت اور ہمت کہاں سے لاتے، کونے کھدرے میں رہنے والے ہیں ، بڑی بڑی جماعتیں جن کے پاس وسائل ہیں ایک پندرہ روزہ ٹھیک سے نہیں نکال پارہی ہیں، تو ہماری کیا اوقات،ہمارے پاس تو ایک قلم کے علاوہ کچھ نہیں تھانہ وسائل تھے اور نہ تیزی و طراری تھی۔
یاسراسعد: ایک سوال نوک زبان پر آگیا، کیا پان کھاکر تحریر میں کچھ نشاط پیدا ہوتا ہے؟ اگر ایسا ہو تو آزمایا جائے۔
فاروقی صاحب: بیٹے یاسر!یہ سب نفس امارہ کی شرارتیں ہیں، وہ کبھی پان ، کبھی سگریٹ، کبھی کسی اور نشہ کو نشاطی بنا کر پیش کردیتا ہے۔ غالب کو بھی مے سے غرض نشاط نہیں تھی ؎
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
عبد الرزاق سلفی: شیخ ! معذرت، پان خوری عادت ہے یا نشہ؟ اگر عادت ہے تو فوائد پر روشنی ڈالیے۔
فاروقی صاحب: کیا بتاؤں شیخ! پان خوری کی تعریف میں کسی حالت میں نہیں کرسکتا، یہ ایک مجبوری بن کر رہ گئی ہے، روزانہ کئی بار چھوڑنے کا ارادہ کرتا ہوں، خاص طور سے جب پان منہ میں جمالیتا ہوں ، قوت ارادی اس قدر کمزور ہے کہ تھوڑی دیر کے بعد ارادہ ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ افسوس کہ میں اس پان خوری کی وجہ سے ایک مثالی استاد کبھی نہیں بن سکا۔
ابو المرجان: کچھ نہیں شیخ،ہندوستان میں بڑے بڑے مثالی اساتذہ گزرے ہیں جو پان کھاتے تھے۔میرے خیال سے یہ اتنا سیریس معاملہ نہیں ہے۔
فاروقی صاحب: مولانا سیف بنارسی کا ایک مضمون تمباکو کی حرمت پر ۱۹۱۳ میں اخبار اہل حدیث امرتسر میں شائع ہوا، غالبا ۱۹۳۰ میں تمباکو کی حلت میں دوسرا مضمون شائع ہوا مرزا پور کےکسی مراسلہ نگار نے ان کے پہلے مضمون کی یاد دلائی، آپ نے بات کو آگے نہیں بڑھایا، خاندان کے پان خور بزرگوں کی روایت ہے کہ مولانا کہتے تھے جو شخص پان اور تمباکو کی حرمت کا فتوی دیتا ہے اس کو میرے سامنے لاؤ مجھ سے مناظرہ کرے، اللہ جانے سچ ہے کہ جھوٹ بہر حال میں اسے دلیل نہیں بنا سکتا۔ جو چیز بری ہے وہ بہر حال بری ہے۔
نصیر الحق: (۱) کچھ اپنے استاد مرحوم پروفیسر حنیف نقوی کے بارے میں بھی بتائیں۔سہسوان گھرانے اور ابن احمد نقوی سے تعلقات وغیرہ؟
(۲) سنا ہےآپ کے والد محترم رحمہ اللہ صحیح مسلم کے حافظ تھے۔
(۳) فتح الباری آپ نے کتنے دن میں مکمل پڑھ لی تھی؟
(۴) آپ کے بڑے بھیاخالد شفاء اللہ صاحب نے کس فن/زبان/موضوع سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی تھی؟
فاروقی صاحب: (۱) استاد مرحوم پروفیسر محمد حنیف نقوی تحقیق و تنقید کے آدمی تھے،کٹر اہلحدیث تھے، سلفیہ کے علما میں مولانا عبد الوحید رحمانی کے بڑے عقیدت مند تھے، جمعہ کی نماز ہمیشہ جامع مسجد اہل حدیث مدن پورہ میں ان کا خطبہ سننے کے لیے پڑھتے، شروع میں جامعہ آتے تھے۔ نقوی صاحب سے میرا رابطہ ۱۹۷۷ کے بعد ہوا، غالبا وہ ۱۹۷۲ میں بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں آچکے تھے، میں نے فیکلٹی آف سوشل سائنس میں داخلہ لیا تھا، بی اے میں اردومیرا مضمون نہیں تھا، پھر بھی ساتھیوں کے ساتھ شعبہ میں جانا ہوتا، میرے بھائی سے ان کا دوستانہ تھا، ایم اے میں ان سے روابط بڑھے، ان کی بھتیجی درد انہ رحمانیہ میں میری اہلیہ کے ساتھ پڑھاتی تھیں اور میرے ہی ساتھ ایم اے کررہی تھیں، دو تین سال کے بعد پاکستان میں ان کی شادی ہوگئی ،ہم تین ساتھی حافظ نصراللہ مرحوم، عزیزالرحمن کا ان کے گھر بھی جانا ہوتا،علمی آدمی تھے، ارد گرد کتابیں پھیلی ہوتیں، اپنے علم کا زعم نہیں تھا۔
ایک بار مولانا محمد بشیر سہسوانی کی کتاب صیانة الانسان عن وسوسة الدحلان کے بارے میں بحث چلی، انھوں نے کہا پہلے یہ کتاب اردو میں لکھی گئی، میں نے انکار کیا اور کہا نہیں سر مولانا نے عربی ہی میں لکھی۔ کہنے لگے میرے خاندان کے تھے مجھ سے زیادہ تم جانوگے، میں خاموش ہوگیا، ایک ہفتہ کے بعد سلفیہ مجھے یہ بتلانے کے لیے آئے کہ تم صحیح کہہ رہے تھے۔
دوسرا واقعہ امتحان کے دوران پیش آیا، پرچے میں فارسی کا ایک اقتباس تھا غالبا گلستاں کا تھا، اس میں ایک جگہ مس پرنٹنگ تھی، استاد لڑکوں کو نقطہ دارم بنوارہے تھے، میرے منہ میں پان تھا، تھوک کر آیا اور سر کو بلایا، ان سے کہا سر نفقہ دارم یعنی میں نے خرچ کیا نہ کہ نقطہ دارم فورا مان گئے اور میرا شکریہ ادا کیا۔صحیح علم کے جستجو کرنے والے سے بڑے خوش ہوتے، مولانا سید عبد الباقی کا تذکرہ حیات العلماسلفیہ میں نہیں تھا، ڈاکٹر بدر الزماں نیپالی کو اس کتاب کی تلاش تھی، اس وقت نقوی صاحب سہسوان گئے ہوئے تھے، کتاب کی تلاش میں وہ سہسوان پہنچ گئے، سر بہت خوش ہوئے کتاب بنارس میں تھی، واپس آکر انھیں دیا بڑے خوش ہوئے، کتاب نایاب تھی اس کا ایک نسخہ جامعہ کو ہدیہ کیا۔ اس کے بعد خود آپ نے کتاب کی نئے سرے سے تحقیق و تدوین کی اور اردو کونسل سے شائع کرائی۔ شائع کرانے میں شمس الرحمان فاروقی کا بڑا کردار رہا، کتاب میں نقوی صاحب نے بد رالزماں والے واقعے کا ذکر کیا، یہ اہلحدیثوں کا پہلا تذکرہ ہے جو تحقیق و تدوین کے مرحلے سے گزرا۔ آپ نے تعلیم بھوپال اور اجین سے حاصل کی، سہسوانی خاندان کا بھوپال سے گہرا تعلق ہے، نواب صاحب نےیہاں کے زیادہ تر علما کو بھوپال بلالیا تھا، مولانا محمد بشیر سہسوانی، مولانا جمیل احمد سہسوانی، مولانا شاکر حسین نکہت سہسوانی جو نقوی صاحب کے نانا تھے اور مولانا محمد بشیر سہسوانی، شیخ حسین عرب یمنی کے شاگرد تھےیہ لوگ بھوپال کے باسی بن گئے تھے۔ جماعت کے تعلق سے سلفیہ بھی آتے اکھڑ اورحق گو آدمی تھے، ایک بار جامعہ میں مولانا مستقیم کی کتاب علماء اہل حدیث کی تصنیفی خدمات دیکھی، اس میں ان کی اور غالبا ان کے اہل خاندان کی تصانیف کا ذکر نہیں ہے مولانا سے شکایت کی کہ کیا آپ مجھے اہل حدیث نہیں سمجھتے ہیں، مجھے یاد آیا کہ مولانا ابو یحی امام خاں نوشہروی نے سید سلیمان ندوی سے تذکرہ علمائے حدیث کا مقدمہ لکھایا، لیکن کتاب میں ان کا ذکر نہیں تھا جس کی شکایت انھوں نے مقدمہ میں کی۔ ایک بار سلفیہ کے حسابات کو لے کر اخباروں میں کچھ مراسلے لکھے گئے، نقوی صاحب کا بھی ایک مراسلہ تھا، جس کی وجہ سے کافی دوریاں ہوگئیں اور نقوی صاحب دوبارہ سلفیہ کبھی نہیں گئے، اردو ادب میں ان کی بہت اہم خدمات تھیں، رشید حسن خاں کے بعد وہ تحقیق کے بادشاہ سمجھے جاتے تھے، جو کچھ وہ لکھتے سند ہوتی، ان کی پی ایچ ڈی اردو تذکروں کے موضوع پر تھی دو بار ساہتیہ اکیڈمی سے شائع ہوچکی ہے، اردو تذکروں پر وہ اتھارٹی تھے، ۲۰۱۰ میں ان کی خدمات پر ڈاکٹر حسن عباس نے تقریبا سات سو صفحات کی کتاب ترتیب دی، جس میں شمس الرحمان فاروقی سے لے کر سارے بڑے ادیبوں کے ان پر لکھے گئے مضامین اور مقالے ہیں۔ یہ کتاب مرکز تحقیقات اردو و فارسی گوپال پور سیوان بہار سے ۲۰۱۰ میں شائع ہوئی تھی۔ پروفیسر محمد حنیف نقوی دالمنڈی میں لسی والی دکان سے ذرا پہلے سامنے والے مکان میں کرایہ پر رہتے تھے، بعد میں نوید کمپلکس میں ایک فلیٹ لے لیا تھا۔ ان سے میری آخری ملاقات پروفیسر یعقوب یاور کے گھر ایک تقریب میں ہوئی تھی، ٹیرس پر بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کرتے رہے، انتقال سے قبل اپنے نوادرات اور کتابیں علی گڈھ لائبریری کو دے دی۔ ۲۰۱۲ میں ان کا انتقال ہوا۔
ابن احمد نقوی سے میرا کوئی خاص تعلق نہیں تھا، محمد حنیف نقوی اور ابن احمدنقوی دونوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا، ایک دوبار سلفیہ میں ملاقات ہوئی تھی، پچھلے سال عاصم ساجد کوثر وغیرہ ان سے ملاقات کرانے لے گئے تھے بے چارے بڑے کمزور ہوگئے تھے، بڑی خاطر داریاں کیں، شاکی تھے کہ میں ترجمان سے ہٹ چکا ہوں پھر بھی لوگ میرانام چلائے ہوئے ہیں، وہ سرکاری ملازمت میں تھے، اس کے باوجود جماعت کی انھوں نے بے پناہ خدمت کی ، انگلش اور اردو دونوں میں لکھتے، جامعہ کا پہلا انگلش میں تعارف آپ ہی کا لکھا، انگلش میں علماء اہل حدیث کا تذکرہ آپ کا قابل قدر کارنامہ ہے، افسوس کہ جس طرح آپ سے لوگوں نے کام لیا اس طرح قدر دانی نہیں کی۔
(۲) نہیں، غلط بات ہے۔ والد صاحب پہلے لکھتے تھے ان کے مضامین آج بھی بکھرے ہوئے ہیں بعد میں وہ خطابت کی طرف پوری طرح متوجہ ہوگئے، مضامین کے اعتبار سے قرآن کا بیشتر حصہ یاد تھا، احادیث کثرت سے یاد تھیں، لیکن یہ کہنا کہ صحیح مسلم مکمل یاد تھی بالکل لغو بات ہے۔
(۳) عربی میں شیخ محمد عبدہ حیات و خدمات پر بھائی صاحب کی پی ایچ ڈی تھی۔
(۴) آٹھ راتیں اور سات دن مسلسل جاگ کر فتح الباری کی پانچ جلدیں پڑھی تھیں اور باقاعدہ نوٹ بنایا۔
حماد اکرم مختار: یہ ایک جملے والا جواب جچا نہیں شیخ محترم۔ بالتفصیل اپنے خاص انداز میں بتائیے۔
فاروقی صاحب: میں سوچتا تھا کہ دوہی جملوں میں کام ہوجائے تو بہتر ہے، آپ نے کہہ دیا تو پورا بتائے دیتا ہوں۔ قصہ در اصل یہ ہے کہ میں اور عبید اللہ طیب ہر گھنٹی میں کلاس میں جانا ضروری نہیں سمجھتے تھے، ایک بار شیخ ہادی کی گھنٹی میں ایک مہینہ تک مسلسل نہیں گیا، ایک دن کلاس میں گیا تو انھوں نے نام پوچھا ،بتادیا پھر پوچھا کیا اسی درجہ میں پڑھتے ہو؟ یہ بھی بتا دیا، آگے سوال تھا :اب تک کہاں تھے؟ہم سے پہلے ہی کسی لڑکے نے جواب دے دیا شیخ ان کو ٹی بی ہوگئی تھی، نینی تال کے سینی ٹوریم میں داخل تھے، شیخ نے دوبار مسکرا کر شفاک اللہ کہا۔ حالاں کہ وہ خوب جانتے تھے کم بخت جان بوجھ کر نہیں آتا ہے۔ بخاری شریف مولانا شمس الحق صاحب ( عزیر شمس کے والد) پڑھاتے تھے، ناشتہ کے بعد گھنٹی تھی، میں اور عبید اللہ ناشتہ کرنے جاتے، زیادہ لیٹ ہوجاتے تو گھنٹی گول کردیتے، طلبا کے حق میں وہ بے حد سیدھے تھے حالاں کہ ہم لوگوں نے سنا تھا فیض عام میں بڑی پٹائی کرتے تھے، لیکن یہاں کبھی کسی کو کچھ نہیں کہتے تھے۔ ایک بار ساتھیوں سے پوچھا کیا عبید اللہ اور ابوالقاسم ہم سے ناراض ہیں ؟ساتھیوں نے کہا مولانا آپ ایسے نہ سوچیں، انھیں ناشتہ میں دیر ہوجاتی ہے ،دوسرے دن ہم دونوں نے بہت معذرت کی۔امتحان کے زمانہ میں سوچا کہ جو اسباق چھوٹ گئے ہیں ان کی تلافی کیسے ہو، بس صاحب فتح الباری کی جلدیں لے کر بیٹھ گئے سات دن اور آٹھ راتیں مسلسل جاگ کر تیاری کرلی، بقیہ کمی مذاکرہ میں پوری ہوگئی ، ہم لوگ امتحان کے زمانہ میں ہمیشہ اجتماعی مذاکرہ کرتے ، جو لڑکا پڑھاتا اس کی تیاری یوں ہی ہوجاتی پڑھانے والوں میں تین چار لڑکے تھے، میں، عبید اللہ، سہیل مئوی اور مفضل یہ تھا حماد صاحب اس واقعے کا شان ورود۔
عامر انصاری: یاد آرہا ہے کہ نقوی صاحب پر آپ نے سیف بنارسی حیات وخدمات میں بھی کہیں کچھ لکھا ہے ۔ انگلش میں علماء اہل حدیث کا تذکرہ، اس کی تھوڑی تفصیل مطلوب ہے ۔ جزاکم اللہ خیرا
فاروقی صاحب: ’’دی سلفیز ‘‘ تاریخ اہل حدیث انگلش میں ہے، ان کی تصنیفات کی فہرست میں ہے، کتاب میں دیکھ نہیں سکا ہوں اس لیے اس سے زیادہ بتانے سے قاصر ہوں۔
نصیر الحق: استاد گرامی!وہ کون تھے، اور علامہ بنارسی کے رشتے میں شاید کچھ لگتے بھی تھے،ان کا نام معلوم نہیں۔بس وہ ناظم صاحب کے پی اے ہوا کرتے تھے؟؟
فاروقی صاحب: ان کا نام حافظ مسعود خاں تھا، مولانا قمر بنارسی کے چھوٹے صاحب زادے اور مولانا سیف بنارسی کے بھتیجے تھے، سعودیہ میں ڈیفنس کے کسی شعبہ میں ملازم تھے، سعودیہ چھوڑنے کے بعد کچھ دن بے کار رہے، ناظم عبد اللہ سعود کے پی اے بن گئے۔ ان کا انتقال ہوچکا ہے۔
نصیرالحق: استاد! کیا یہ لوگ آپ کے رشتے میں بھی آتے تھے؟:
(۱) افسانہ نگار حماد فاروقی( دون کالج،اتراکھنڈ)
(۲) ایک صاحب جو زمبابوے میں انڈین ایمبیسڈر رہ چکے ہیں۔
(۳) قیصر الجعفری
فاروقی صاحب: (۱)حماد فاروقی میرے خالہ زاد بھائی ہیں، حکیم مولانا محمد اکبر فاروقی کے صاحب زادے اور ہمارے دوست ہیں، اسٹیج ڈراما سے زیادہ دلچسپی ہے، اردو میں کبھی کبھی مضمون لکھتے ہیں۔ دون کالج میں ہندی کے لکچرر ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے ڈاکٹر عدنان پولیٹکل سائنس جامعہ ملیہ میں پروفیسر ہیں۔
(۲)ان کا نام سعید احمد ہے آئی اے ایس آفیسر تھے، دنیا کے مختلف ممالک میں فرسٹ سکریٹری کے عہدے پر فائز رہے، ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی لڑکیوں کے پاس امریکہ میں بس گئے، سعید صاحب مشہور عالم اور مناظر مولانا ابوالمسعود قمر بنارسی کے صاحب زادے ہیں، میری والدہ کے سگے ماموں زاد ہیں۔
(۳)مشہور شاعر قیصر الجعفری موضع موئی کلاں تحصیل کنڈہ کے تھے میرے والد کے نانھیال کے ہیں، ان کی بہن میری بھابھی اور میرے سالے کی بیوی ہیں۔
قیصر الجعفری کا نام محمد زبیر ہے، ۱۹۲۶ میں پیدا ہوئے الہ آباد میں تعلیم حاصل کی، ممبئی ریلوے میں ملازمت کرتے تھے، ممبرا میں گھر بنالیا تھا، ان کے بیٹے عرفان جعفری بھی شاعر ہیں ممبرا میں رہتے ہیں۔ قیصر الجعفری کے ایک بھائی بھی بڑے شاعر اور ادیب ہیں۔ بھوپال میں رہتے ہیں کوثر صدیقی کے نام سےشاعری کرتے ہیں۔ ان کا ایک لڑکا رومی جعفری فلمی دنیا میں ہے۔ پہلے سائڈ رول میں آتا تھا۔ ساجن چلے سسرال اسی کی فلم ہے۔ اب اسکرپٹ لکھتا ہے۔
قیصر الجعفری کا انتقال ۲۰۰۵ میں غالبا ہوا۔دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہےاورتمھارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے انہی کی غزلیں ہیں۔
نصیرالحق: آپ نے سب سے کم وقت میں ڈاکٹریٹ کی تھیسس لکھی، دنوں کی گنتی بتادیں۔
فاروقی صاحب: ہمارے دوست کی تھی، میں نے لکھنے کا وعدہ کر لیا تھا، وقت بہت کم تھا، مدت پوری ہورہی تھی، انیس دنوں میں تین سو ستائیس صفحات کا مقالہ مکمل کردیا۔ یہ نہ پوچھنا کہ موضوع کیا تھا اور کس کا تھا، بات نکلی ہے تو یہ بھی بتادوں کہ ایک غریب بچی کی شادی اس کی پی ایچ ڈی نہ مکمل ہونے کی وجہ سے رکی ہوئی تھی، اردو میں اتنی تیز تھی کہ جو بھی لکھتی ہندی میں لکھتی، عصمت چغتائی موضوع تھا، ہندی کی کتابوں سے کچھ نقل کیا تھا، معاملہ ایک غریب لڑکی کا تھا، میں نے اس کے گھر جاکر پہلے اسے اردو لکھنا سکھایا بہت مشق کے بعد علی کو الف سے یعنی الی لکھنے لگی، جیسے تیسے کر کے اس کا مقالہ ہوگیا، ڈگری بھی مل گئی اور حیدر آباد میں اس کی شادی بھی ہوگئی بچے بڑے ہوگئے تھے سب نے مل کر پابندی لگادی تھی کہ اب جو کچھ لکھیں گے اپنا لکھیں گے دوسرے کا نہیں لکھیں گے، لڑکے لڑکیوں کوابھی تک خبر نہیں ہے، دیکھو تم بھی نہ بتانا۔
عبد الرزاق: اسی بچی کی طرح میرے ایک دوست اردو کے پروفیسر ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی ریٹائرڈ لکھنو یونیورسٹی کہتے ہیں کہ شروع میں ایک بار “عثمان” الف سے لکھ دیا تو ان کے استاذ ڈاکٹر ملک زادہ منظور بطور مذاق آواز دیتے تھے کہ الف سے “عثمان” لکھنے والے عصمت کیا حال ہے؟
فاروقی صاحب: کیا یہ وہی عصمت ملیح آبادی ہیں جو جوش ملیح آبادی کے نواسے ہوتے ہیں اور اپنے نانا پر پی ایچ ڈی کی ہے؟ ان کی کتاب کے کچھ حصے قومی آواز میں بالاقساط شائع ہوئے تھے۔مجھے ایک واقعہ یاد رہ گیا، وہ اپنے مقالہ کے سلسلے میں راولپنڈی اپنے نانا سے ملنے گئے ان سے پوچھا نانا جان! یادوں کی بارات میں اپنے رومان کے جو قصے آپ نے بیان کیے، کیا آپ کو احساس نہیں تھا کہ آپ کی جوان نواسیاں پوتیاں انھیں پڑھیں گی۔ جوش نے جواب دیا بیٹے میں نے انتخاب کر کے صرف مہذب قصے بیان کیے۔
عبد المبین ندوی: شيخ! دارالمصنفين کس مقالہ کے تعلق سے تشریف لائے تھے جب مجھ سے پہلی ملاقات ہوئی تھی ،اس وقت صباح الدین عبدالرحمن صاحب ناظم تھے؟
فاروقی صاحب: جی ہاں اسی مقالہ کے تعلق سے دارا لمصنفین آیا تھا، یہاں آنےکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے ایک مخلص اور پیارا سا دوست مل گیا، جس کو اہل علم دوست مل جائے اس کی خوش قسمتی کا کیا کہنا۔
نصیر الحق: حضرت!دیو ناگری اور فارسی فونٹ لکھنے کا مشہور اور تاریخی واقعہ بتائیں جو خود آپ اور عصمت چغتائی کے درمیان بنارسی ہندو یونیورسٹی میں ہوا تھا۔
فاروقی صاحب: محترمہ غالبا ۱۹۸۲ میں بی ایچ یو آئی تھیں، ان کے ساتھ ایک گروپ فوٹو بھی ہے، فیس بک پر بھی ڈال رکھا ہے، اردو ڈپارٹمنٹ میں وہ فوٹو ٹنگا ہوا ہے۔عصمت بہت بولڈ خاتون تھیں، آواز میں بھی زنانہ پن کم تھا، میری پسندیدہ مصنفہ تھیں ، ان کے تمام افسانے اور ناول نو عمری ہی میں پڑھ چکا تھا، ان کا ناول’’ٹیڑھی لکیر‘‘ مجھے بہت پسند تھا، کئی بار پڑھا، عورتوں کی نفسیات پر ان کی بہت مستحکم گرفت ہے، ٹیڑھی لکیر میں دشمن کا کردار بہت زبردست ہے، ضدی اور معصومہ تو یوں ہی سے ہیں، افسانوں میں چوتھی کا جوڑا لا جواب ہے، ان کے لحاف میں مجھے تو کچھ نہیں ملا آج کے زمانے میں تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ عصمت نے لاکھ صفائی دی ہے کہ ہمارے معاشرے کی ایک خاتون کا کردار اس میں پیش کیا گیا ہے جن سے وہ مل چکی تھیں، لیکن ہاسٹل میں رہائش کے دوران کی جو آپ بیتی انھوں نے بیان کی اس سے لگتا ہے یہ خود ان کا ذاتی تجربہ تھا۔ بہر حال وہ یونیورسٹی آئیں ان کے کئی پروگرام ہوئے، فیکلٹی کے ہال میں اپنا نیا افسانہ بھی سنایا، گرلس کالج میں لڑکیوں کو خود حفاظتی تدابیر بتائیں اور کہا کہ آپ لوگوں کو جوڈو کراتے سیکھنا چاہیے۔ڈپارٹمنٹ میں اردو رسم الخط کے خلاف شعلہ ریز تقریر کی، اس میں یہ کہہ دیا کہ اردو رسم الخط کو تیزی سے نہیں لکھا جاسکتا ہے، دیو ناگری رسم الخط اس سے کہیں زیاد ہ تیزی سے لکھا جاسکتا ہے، نیر صاحب اور نقوی صاحب سے اشارے سے اجازت لی میں نے ان سےسوال کیا: میڈم آپ اردو رسم الخط کی مخالفت اس وجہ سے تو نہیں کررہی ہیں کہ آپ کا اردو املا بہت غلط ہے، آپ ہمیشہ ظالم کو جالم لکھتی ہیں۔ کہیں انھوں نے لکھا تھا کہ میری تحریریں میرا ایک رشتہ دار نقل کرتا ہے، میرا اردو املا بہت غلط ہے میں ہمیشہ جالم ہی لکھتی ہوں۔جہاں تک تیز لکھنے کی بات ہے تو آپ کسی ہندی والے کو بلالیں، مقابلہ ہوجائے ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، پروفیسرنیر صاحب کی لڑکی ہندی میں ایم اے کررہی تھی ، اسے بلایا گیا، املا غالبا عصمت چغتائی نے بولا، انھوں نے صفحہ کا آخری لفظ کہااورمیں نے انھیں کا غذ پکڑادیا، شاید یہ بھی کہا کہ رائٹنگ بھی دیکھ لیجیے گا۔ نیر صاحب کی بیٹی بے چاری آدھا صفحہ بھی نہیں لکھ پائی تھی، کاغذ قلم چھوڑ کر چلی گئی۔
اسی موضوع پر پھر مضمون بھی لکھا، اتفاق سے امتحان میں جن موضوعات پر مضمون لکھنے کو پرچہ میں آیا تھا اس میں اردو رسم الخط بھی تھا، میں نے اسی کو لکھا، نیر صاحب نے ترانوے نمبر دیا ۔
نصیر الحق: حضرت!شاید آپ نے اہلحدیث مدارس کا ایک جامع نصاب بھی تیار کیا تھا؟؟
فاروقی صاحب: نصاب کے موضوع سے مجھے کافی دلچسپی تھی، اتفاق سے تین بار اس پرکام کرنے کا موقع ملا۔ہندوستان کے دینی مدارس کا ابتدائی نصاب بھی ہمیشہ لکیر کا فقیر رہا، اللہ اللہ کرکے کچھ بیداری آئی تو یوپی میں دینی تعلیمی کونسل لکھنؤ نے پرائمری کا ایک اچھا نصاب بنایا، اس کونسل میں اہل حدیث علما بھی شامل تھے، جماعت اسلامی والوں نے اپنا پرائمری کا نصاب تیار کیا، جو بہت سے اہل حدیث مدارس میں رائج تھا۔ اس وقت کا مجھے معلوم نہیں، ہندی کی کتاب ہماری پوتھی عام طور سے پڑھائی جاتی ہے، آج کل تعلیم کے طریقے بالکل بدل چکے ہیں۔ بچوں کی نفسیات، ذہنی سطح اور کم وقت میں زیادہ مضامین سمیٹنا، بچوں میں غور وفکر اور نتائج کے لیے زیادہ مشق کرانا، آبجیکٹیو سوالات، آدھا صفحے کا سبق ہے تو پانچ صفحات کی مشق، وغیرہ۔ پرائیوٹ اسکولوں نے تجارتی انداز کو خوب فروغ دیا، اٹریکشن کے نت نئے طریقے نکالے، مکاتب اس مسابقے میں کافی پچھڑ چکے ہیں، بہرحال انھیں بھی اپڈیٹ ہونے کی شدید ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مرکزی جمعیت اہل حدیث نے بھی کچھ کام کیا تھا، ڈاکٹر ابو الحیات اشرف نے بھی پرائمری کلاسز کا ایک تفصیلی خاکہ تیار کیا تھا، شاید اس کے مطابق کتابیں تیار نہیں کی جا سکیں ۔ میرے دوست عبد اللہ زبیری نے گرمیوں کی چھٹی میں ایک مفصل پرائمری نصاب بنانے کی فرمائش کی، میں نے کہا خاکہ تو بنادوں گا، کتابوں کی تیاری کیسے ہوگی، یہ بات اہم تھی، اس کے لیے ماہرین کی پوری ٹیم چاہیے تھی، سر دست یہ طے پایا کہ خاکہ تیار کردیا جائے، دینیات میں چمن اسلام سے بہتر ابھی تک اہل حدیثوں میں کوئی سیریز نہیں تیار کی گئی، اس میں صرف موجودہ ٹرینڈ کے حساب سے تمرینات کے اضافے کی ضرورت ہے، تقریبا ڈیڑھ سو فل اسکیپ صفحات پر مشتمل پرائمری کا ایک مفصل خاکہ تیار کر کے ان کو دے دیا، ان سے کہہ بھی دیا مجھے یقین ہے کہ آپ کی کمیٹی ان خشک بحثوں کو پڑھے گی نہ اس کے مطابق کتابوں کی تیاری کراسکتی ہے۔ممکن ہے چند دنوں کے بعد آپ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں، یہ بھی احساس تھا کہ ایک ماہ کی چھٹی میں اس سے زیادہ نہیں کرسکتا تھا، اس کے لیے ماہرین کی ایک بڑی ٹیم کی ضرورت ہے جسے کم ازکم تین سال کا وقت دیا جائے وقتا فوقتا اس کا جائزہ لیا جائے، جیسے مولانا ابو محمد ابراہیم آروی نے کیا تھا، پہلے ایک سال کا نصاب تیار کیا، اسے آزمایا، پھر اگلے سال کا نصاب تیار کیا، خود درسی کتابیں لکھیں اور اپنے اساتذہ سے ہدایات کے مطابق لکھوائیں، بہر حال اس نصاب کا قضیہ وہیں پر رہ گیا۔ رحمانیہ کے عربی شعبہ کے لیے میرے دوست عبد اللہ زبیری نے ایک نصاب بنانے کی فرمائش کی، بنات کے عربی شعبہ کے قیام کے لیے میں بھی بڑا پرجوش تھا، عبد اللہ کو تیار کیا، وہ راضی ہوگئے عاملہ سے بھی منظوری مل گئی، میں نے اس کے لیے چھ سالہ ہلکا پھلکا نصاب تیار کیا، احادیث کی کتابوں کے ابواب منتخب کرنے میں مولانا عبد السلام مدنی( محترم) نے بڑی مدد کی، یہ نصاب ماشاء اللہ ابھی بھی کامیابی سے چل رہا ہے، مولانا عبد المتین وارثی کی نگرانی میں فضیلت کے درجات بھی قائم کردیے گئے ، میں انھیں برابر تاکید کرتا رہتا ہوں کہ نصاب کو کبھی جامد مت رکھنا، وقت اور حالات کے اعتبار سے اس میں رد وبدل کرتے رہنا۔عربی و فارسی بورڈ یوپی کے نصاب کی تجدید کاری کا واقعہ تفصیل سے شاید دبستاں میں لکھ چکا ہوں۔
نصیر الحق: عربی فارسی بورڈ،یوپی کے نصاب کی تجدید کاری۔۔۔۔۔یہ شیئر کردیں۔
فاروقی صاحب: عربی و فارسی بورڈ کا نصاب کافی پرانا تھا، اس کی ڈگریوں کو کس طرح انگریزی ڈگریوں کے مساوی کیاجائے یہ بھی پرانا مسئلہ تھا، منشی فارسی کا نصاب بہت لندی تھا، عالم، مولوی،منشی میں ہندی اور انگلش بطور اختیاری بھی نہیں تھی۔۱۹۷۳ یا ۱۹۷۴ میں اختیاری مضامین میں ہندی انگلش کا اضافہ کیا گیا، اس کے بعد مدرسہ بورڈ کے ماڈرنائز کرنے کا دباؤ برابر بڑھتا رہا، مئو کے فیض الرحمن رجسٹرار ہوئے تو انھوں نے خواجہ یونس کے ارم گرلس ڈگری کالج لکھنؤ کی اوپری منزل میں اس کام کا آغاز کیا، اس وقت مدرسہ بورڈ کے چیر مین خواجہ یونس تھے، پورے یوپی کے مدارس سےمنتخب نمائندے بلائے گئے، مولوی عبد الاول پرنسپل مدرسہ رحمانیہ اور میں مدرسہ رحمانیہ کے نمائندے تھے۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ فارسی کے صرف دو مرحلے تھے منشی اور منشی کامل اور عربی کےتین مراحل تھے مولوی، عالم، فاضل ۔کیا دونوں کو مرج کردیا جائے یا دونوں کے تین مراحل کر دیے جائیں۔ بہر حال تین مراحل کی تجویز پاس ہوئی، اس کے بعد سائنس انگلش ہندی ریاضی و غیرہ کی شمولیت کا مسئلہ تھا،یاد پڑتا ہے کہ دو تین میٹنگیں ہوئیں، اس کے بعد ٹائیں ٹائیں فش۔ کئی سالوں کے بعد دوبارہ نصاب کا مسئلہ اٹھا، سراج صاحب اس وقت رجسٹرار تھے، یوپی حکومت نے نصاب کی تیاری کا کام ہمدرد یونیورسٹی کے سپرد کردیا، وہاں کے وائس چانسلر سراج الحسن نے عربی و دینیات کے شعبہ کو دے دیا، مولوی غلام یحی انجم ہیڈ تھے، وہ بریلوی تھے، لکھنؤ میں انھوں نے مدارس کی میٹنگ کی، وہ نصاب کسی سے تیار کرا کے لائے اور اسٹیج پر بیٹھ کر اس کا ایک اجمالی خاکہ پڑھ کر سنانے لگے۔ دو منزلہ، تین منزلہ ٹوپیاں پہنے بریلوی مدارس کے جغادری آگے بیٹھے ہوئے تھے، ان کے ہر جملہ پر سبحان اللہ اور الحمد للہ کے نعرۂ تحسین بلند کرتے رہے، دیو بندی اور اہل حدیث حاشیے پر چلے گئے، دیوبندیوں کے بڑے علما میں مفتی شکیل سیتا پوری، مفتی ابوالقاسم نعمانی اور احمد اللہ قاسمی تھے، ہم لوگ متوحش تھے کہ ایسا نصاب اگر بنا تو بڑی مشکل ہوگی، انجم صاحب نے اپنی بات کہہ لی تو مفتی شکیل کھڑے ہوئے اور ان کی دھجیاں اڑادیں، پہلا سوال یہی تھا کہ اگر آپ نے نصاب کے خاکے بنا لیے اور اپنا فیصلہ سنانا تھا تو ہمیں کیوں بلایا گیا ، اطلاعی نوٹس ہمارے مدرسوں میں ڈاک سے بھیج دی جاتی، اسی درمیان ہمدرد کے وی سی بھی آگئے، لوگوں نے ان سے بات کی وہ معاملہ کی تہ تک پہنچے گئےکہ یہ معاملہ مسلکوں کا تھا، مدارس میں شیعہ ، سنی اور سنیوں میں اہل حدیث، دیوبندی اور بریلوی سب تھے، اگلی تین روزہ میٹنگ انھوں نے ہمدرد یونیورسٹی میں رکھی جس میں یونیورسٹیوں کے عربی شعبہ کے اسکالرس کو بھی بلایا گیا تھا، انھوں نے باقاعدہ اپنے اپنے مسلک کے نمائندے مانگے، وحید اللہ خاں اور عبد الاول نے اہل حدیثوں کی طرف سے میرا نام پیش کردیا، مفتی ابوالقاسم اور مفتی شکیل کے من میں نہ جانے کیا آیا کہ دیوبندیوں کی نمائندگی بھی میرے سپرد کردی، وی سی سراج الحسن نے کہا بھی کہ یہ تو اہل حدیث ہیں، مفتی صاحب نے کہا ہمیں فاروقی صاحب پر پورا اعتماد ہے، رات کو قاری صدیق کے مدرسے میں قیام تھا، ان کی پرتکلف دعوت کھائی، اس میں مئوکے دیوبندی مدرسے کے استاد احمد اللہ قاسمی اور دو تین اورلوگ تھے،نیزہم بنارس سے آئے ہوئے لوگ تھے، قاری صدیق اس وقت مدارس بورڈ کے چیئرمین تھے۔ اگلے ماہ ہمدرد یونیورسٹی دلی میں جا کر کام کرنا تھا، احمد اللہ نے مئو کے مدارس کی تجاویز لفافہ میں بند کر کے بنارس بھجوادی، ہم لوگ دلی آئے، میں نے پہلا کام یہ کیا کہ اس میں سے دیو بندیوں کو چھانٹ کر ایک الگ گروہ بنایا، جس میں کچھ لکھنؤ، کان پور اور ملیہ کے حضرات تھے، اس میں جماعت اسلامی اور این سی آرٹی کے لوگ بھی تھے، ان کو بھی شامل کرلیا اور معاملے کی تفصیل بتادی کہ انجم صاحب اپنے نظریات کے مطابق کام کرنا چاہتے ہیں ہمیں صرف یہ کرنا ہے، کتاب کی ایک شخص نشان دہی کرے گا آپ سب لوگ تائید کریں گے، میں بنارس سے کچھ تیاری کر کے گیا تھا، میری خواہش تھی کہ دینیات کے خصوصی مطالعہ میں علامہ ابن تیمیہ اور نواب صاحب کو شامل کرادوں،لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ندویوں میں علی میاں اور دیوبندیوں میں اشرف علی تھانوی کو لے لیا تھے، آخر شاہ ولی اللہ پر اتفاق ہوا بریلیوں میں کوئی اہم آدمی نہیں دکھائی دیا، انجم کا سارا انحصار اشرفیہ کے پرنسپل محمد احمد مصباحی پر تھا، جنھیں عربی ادب سے ذوق تھا، سیدھے آدمی تھے، مسلک کے جھگڑوں میں نہیں پڑتے تھے، کوئی بات آئے بھی تو کہہ دیتے یہ چیز انجم صاحب جانیں، بہر حال تین دن تک بڑی محنت ہوئی، مجھے اور مصباحی کو اس کام میں لگا دیا گیا، مجھے یہ خوشی ہے کہ شرح عقیدہ طحاویہ کو نصاب میں داخل کرانے میں کامیاب ہوگیا، بخاری و مسلم کا صرف ایک ایک پارہ رکھنا چاہتے تھے اسے پانچ پارہ کروایا، فارسی والا کا م کرنے والے دوسرے لوگ تھے، انجم کو سلفیہ بلایا، وہاں کی لائبریری سے ادب کی کتابیں نوٹ کرائیں، شوقی ضیف کی کتاب کو شامل نصاب کیا۔ دو سال بعد نصاب شائع ہوکر آیا، ترتیب اور تیاری میں غلام یحی انجم کا نام اور نگراں سراج الحسن کا نام تھا۔
ریاض مبارک: آپ کو عربی اور اردو دونوں زبانوں سے خاصی دلچسپی رہی ہے، اپنی پسند کے شعراء کا نام بتائیں؟اور یہ ضرور بتائیں کہ کیوں پسند ہیں؟
فاروقی صاحب: عمر کے مراحل کے ساتھ پسندیدہ شعرا کی فہرست بھی بدلتی رہی۔ نوعمری میں اختر شیرانی اور جوش کا دل دادہ تھا، استقلال کے ساتھ غالب پسند آئے، وجوہ پر روشنی ڈالوں گا تو پورا دفتر ہوجائے گا، شروع میں اشعار سمجھ میں نہیں آتے تھے، سعیدیہ سے دو شرحیں نکال کر لایاغالبا ایک طبا طبائی کی تھی دوسری عرش ملسیانی کی، ان کے دیوان کے بیشتر اشعار یاد تھے اب یاد داشت جواب دینے لگی۔ غالب اردو کا تنہا شاعر ہے جس کی ہر غزل کے دوچار اشعار ضرب المثل بنے،اس کے شعروں میں بہت سی رنگین دنیائیں آباد ہیں، معنویت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے، اس کی شاعری کو زندگی کے کسی ایک خاص پہلو تک محدود نہیں کیا جاسکتا ہے۔ میں شاعر سے زیادہ اشعار پر توجہ دیتا تھا، ان سب کے باوجود کچھ شعرا ایسے ضرور تھے جن کو خاص طور سے پڑھا تھا ان کی شاعری نے مجھے بہت متاثر کیا ہےاور آج بھی ان کو پڑھنا اچھا لگتا ہے۔ ان میں فیض ، مجاز، مخدوم، ساحر، مجروح ، احمد ندیم ، فراز، ناصر کاظمی ، جالب کی نظمیں، نون میم راشد کی نظمیں اور جدید میں، بشیر بدر، احمد مشتاق، جون ایلیا،عرفان صدیقی، عرفان ستار اور قیصر الجعفری کی شاعری مجھے بے حد پسند ہے۔ ان سب کا اپنا منفرد لب و لہجہ اور خصوصی آہنگ ہے ان میں ایک رچاؤ ہے، درون بینی ہے، زندگی کی کسک اور درد ہے، غم جاناں بھی ہے اور غم دوراں بھی، تغزل کی روح بھی ہے اور نغمگی بھی، اثر انگیزی ایسی کہ سحر طاری ہوجائے، ان میں زندہ رہنے کی صلاحیت ہے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے شعرا کو ان سے کم تر سمجھتا ہوں کسی بھی شاعر کی اچھی غزل یا نظم نظر سے گزرتی ہے تو ضرور ان سے متاثر ہوتا ہوں۔ عربی میں جدید شعرا کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں، کلاسیکل شعرا کو تھوڑا بہت پڑھنے کا موقع ملا جن میں ابو العلا المعری، ابو العتاھیہ، ابن الفارض، فرزدق، زھیر بن ابی سلمی، عمرو بن کلثوم ،کعب بن زھیر کا قصیدہ بانت سعاد نے کافی متاثر کیا، ہر ایک کی اپنی خصوصیات اور تجربات ہیں، جو کسی نہ کسی پہلو سے متاثر کرتے ہیں۔ فارسی شاعری پڑھنے میں بھی بہت لطف آتا ہے، فارسی کے اشعار میں تصورات اور تخیل کی بلندی اور ندرت کے سامنے اردو کی کلاسیکل غزلوں کا سرمایہ بونا نظر آتا ہے، اب تو کسی بھی زبان کی شاعری پڑھنے سے دوری ہوگئی ہے، مواقع بھی کم ملتے ہیں۔
عبد الرزاق: شیخ ! فراق کی شاعری کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
فاروقی صاحب: ان کی کچھ غزلیں غضب کی ہیں، حسن عسکری کا دعوی تھا کہ میر کی روایت کو زندگی بخشنے والے وہ تنہا شاعر تھے، ان کی رباعیات کا مجموعہ روپ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ انھوں نے ہندوی تہذیب کو زندہ کرنے کی شعوری یا لا شعوری کوشش کی ہے۔
ممتاز سلفی: شیخ! ہندی زبان سے آپ کا لگاؤ کس قدر ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ کہیں ٹرین میں کسی سے ہندی زبان سے متعلق آپ سے بحث ہوئی تھی۔ ذرا اس پر بھی روشنی ڈالیں۔
فاروقی صاحب: ہندی کام بھر جانتا ہوں، ہندی کے بہت سے الفاظ میں مجھے گالیوں کی بدبو آتی ہے جیسے گھونسڑا، گنڑ تنتر، شدھ ہندی سے بڑی وحشت ہوتی ہے۔مگر کیا کریں یہ بھی ایک زبان ہے ، اسے سمجھنا، بولنا اور لکھنا ہماری قومی مجبوری ہے۔ ٹرین والا قصہ تفصیل سے فیس بک پر لکھ چکا ہوں، اسے تلاش کرنا پڑے گا۔ خلاصہ یہ تھا کہ الہ آباد کے کچھ مہذب وکلا ٹرین پر مل گئے تھے، وہ آپس ہی میں ہندی زبان کے فضائل پر بکھان کررہے تھے، درمیان میں اردو کی بات آئی اسے ہندی کی وہ بیٹی ثابت کررہے تھے، جو تہی دست اور فقیرن تھی ، جس کے پاس اپنا کچھ نہیں تھا۔ میں دوران سفر بہت خاموش رہتا ہوں اس دن ان کی بحث میں شامل ہونا پڑا ۔میں نے ان سے دخل در معقولات کے لیے معذرت چاہی اور پوچھا کہ آپ لوگ پیشے سے کیا ہیں؟ کہنے لگے وکیل، میں نے کہا جناب وکیل کس زبان کا لفظ ہے، پھران میں سے ایک سے مزید وضاحت چاہی تو اس نے بتایا ہم میں دو فوج داری کے وکیل ہیں ایک دیوانی کے، آج ہم سب کے موکلوں کی پیشیاں تھیں، آگے کی تاریخ لگ گئی، اب واپس گھر جارہے ہیں۔گفتگو کے دوران وکیل، موکل، پیشی، مقدمہ،عدالت، قمیص، قلم، دستاویز اور ایسے دسیوں الفاظ آئے۔ میں نے ان سے کہا جناب وکالت سے متعلق یہ تمام الفاظ اردو کے ہیں، جو ہندی میں رائج ہیں ایسے ہی ہندی کے الفاظ اردو میں رائج ہیں، زبانوں میں الفاظ کا لین دین چلتا رہتا ہے، زبانیں تنگ نظر اور متعصب نہیں ہوتی ہیں، زبان بولنے والوں میں تعصب ہوتا ہے۔
عبد القدیر: شیخ! لکھنے والے تو بہت کچھ لکھتے اور کہتے ہیں، لیکن اس شعبے کے تعلق سے آپ کا کیا خیال ہے کہ زبان و ادب پر اس کے کیا اثرات ہوئے۔ اس سے زبان و ادب کو کوئی فائدہ ہوا یا اس نے فائدہ حاصل کیا؟
فاروقی صاحب: شرعی نقطہ نظر سے ہٹ کر صرف زبان و ادب کے حوالے سے گفتگو کریں تو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ اسی کی دہائی تک بالی ووڈ پر اردو کی حکمرانی رہی، جس کے اثرات ہندوستانی سماج پر بھی گہرے پڑے۔ فلموں کے ٹائٹل پر زبان کے کالم میں ہندی لکھا ہوتا، لیکن پوری فلم ہندی میں ہوتی کچھ ہدایت کار اس بارے میں کافی حساس تھے، وہ اپنی فلموں کو اردو ہی کی سند دلواتے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ نغمہ نگار، کہانی کار، مکالمہ نویس، اسکرپٹ رائٹر سب پر اردو والوں کی اجارہ داری تھی، ممبئی اور پونہ افسانہ نویسوں اور شعرا کا مرکز بن چکا تھا، قلاش شعرا اور فاقہ مست ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کو فلمی دنیا نے ایک اور کام پر لگا دیا، جس سے ان کی جیب میں دو پیسے رہنے لگے، جو دوسروں کے پیسوں سے ادھا اور پوّا پیتے تھے، وہ دوستوں کو رم، برانڈی اور شمپیئن میں نہلانے لگے، یہ دوسری بات ہے کہ ان کا ادبی معیار متاثر ہونے لگا۔ فلمی اور ادبی دونوں معیار کو ایک ساتھ برقرار رکھنا بڑا مشکل کام تھا، کچھ نے دہری شخصیت بنالی اور زیادہ تر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مجروح ، ساحر، اختر الایمان اور جاں نثار اختر جمے رہے، ادب اور فلم کے دو الگ معیار بنائے، شکیل بدایونی نے ادب سے پیچھا چھڑالیا، فلمی شاعری کو ترجیح دی، ایک زمانے میں جوش بھی قسمت آزمانے پونہ پہنچ گئے تھے، ایسا جنسی اشتعال انگیز گیت لکھا کہ ہدایت کار اور پروڈیوسر بھی پسینے پسینے ہوگئے، آخر وہ ناکام ہو کر واپس چلے گئے، آرزو لکھنوی نے صبر سے کام لیا اور کامیاب رہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں شعرا تلاش رزق میں سیدھے بمبئی کا رخ کرتے تھے، بڑے افسانہ نگار خصوصا ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادبا اور شعرا کو فلم نگری نے خوب نوازا، جس کے بل بوتے وہ محنت کشوں کے غم میں آنسو بہاتے اور وڈکا پیتے۔
فلم نگری کا احسان تھا کہ اس نے ایسی اردو تہذیب کو زندگی بخشی جس کا تعلق عوام سے تھا، ادب اور فلم نگری میں زیادہ تال میل بیٹھنا مشکل ہے، ادب خلوص اور صداقت چاہتا ہے، فلمی دنیا میں مصنوعیت اور نقالی کا بول بالا ہے۔ فلمی دنیا ایک مارکیٹ ہے جہاں صرف وہی مال چلتا ہے جس میں نفع ہو، یہ نفع عوامی مارکیٹ ہی د ے سکتی ہے نہ کہ ادب کا مخصوص حلقہ۔ اسی لیے فلم سازوں نے ادبی فلمیں بہت کم بنانے کی کوشش کی جو بنی بھی ان کا حشر برا ہوا، مقبول بھی ہوئیں تو ایک مخصوص حلقے میں، سہراب مودی نے مرزا غالب پر فلم بنائی، بہت تحقیق و جستجو کے بعد بنائی تھی، عام لوگوں کو اس میں کیا ملے گا، مظفر علی نے ضرور کچھ ادبی رنگ کی فلمیں بنائیں، اس میں امراؤ جان کافی مقبول ہوئی، مقبول ہونے کی وجہ ریکھا کا حسن ، اداکاری اور شہر یار کے خوب صورت نغمے تھے۔ ابھی نواز الدین صدیقی نے منٹو کے کردار کو جذب کرنے کی کوشش کی، معلوم نہیں اس کا کیا حشر ہوا، اردو شاعری کے زوال پر اروندھتی رائے یا اس کی ماں کے ناول پر مبنی اوم پوری، ششی کپور اور شبانہ اعظمی کی فلم کافی عرصہ پہلے آئی تھی، مقامات کو بدل کر کہانی دو کوڑی کی کردی گئی تھی، بس فیض کی غزلوں اور جگجیت کی آواز ہی اس کی جان ہے۔
۱۹۸۰ تک اداکاروں کی وہ نسل سر گرم تھی، جنھوں نے اردو تہذیب کے زیر اثر پرورش پائی تھی، پنجابیوں کی گرفت تھی جو ہندی سے زیادہ اردو سے مانوس تھے، کپور خاندان، دلیپ کمار، منوج کمار، دھر میندر، پریم چوپڑہ ان سب کا تعلق پشاور ، پنجاب کے اضلاع سے تھا، اردو کے لب و لہجہ کی نزاکت سے واقف تھے۔
آٹھویں دہائی کے بعد ایسی تہذیب پروان چڑھی جس میں کھردرا پن اکھڑ پن اور جنگلی پن نمایاں تھا، جسے ہم rudeness سے تعبیر کر سکتے ہیں، فلمی دنیا پر بھی اس کا بہت اثر پڑا، وہ تو وہی چیز پروس کر دیتی ہے جس کی پبلک میں طلب ہوتی ہے، فلمی شاعروں کا الگ انداز ہوگیا، متشاعروں کی بھیڑ ہوگئی جن کے گیتوں میں افریقہ کے قبائل کی جھلک تھی موسیقی بھی اسی قبیل سے ہوگئی، بالی ووڈ کا اردو پن مرحوم ہوگیا، اب تو سب کچھ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
نصیر الحق: حضرت!فلم انڈسٹری میں آنے والے ایسے گھرانوں/افراد کا بھی نام بتائیں جن کا تعلق نام ہی تک سہی لیکن اہلحدیث جماعت سے رہا ہو؟
دلیپ کمار اور سید حامد کی اردو دانی کا بھی ذکر کریں؟
فاروقی صاحب: کیا مسلکی اعتبار سے فلم اداکاروں پر مقالہ لکھ رہے ہیں؟
ابو المیزان آپ کے سامنے ہیں ، کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک اداکارہ کے بارے میں شایداسی گروپ میں کوئی ثابت کر رہا تھا کہ وہ سلفی ہے، سعودیہ کے کسی سلفی عالم کے قول سے استدلال کررہی تھی۔
نصیر الحق: نام کی حد تک ہی سہی/گھرانے سے تعلق ہی سہی، کوئی سرا؟
فاروقی صاحب: نہیں نصیر الحق، اس ناحیے سے کبھی پڑھا ہی نہیں۔اتنا سنا ہے کہ کئی سال قبل مجروح کے بیٹے پرجوش اہل حدیث ہوگئے، نام شاید عندلیب ہے مقری کٹر جماعتی تھا، اچھا ہوا انتقال ہوگیا ورنہ کورونا ۔
ریاض مبارک: بالی ووڈ کی فلمیں بیشتر بکواس ہوتی ہیں، ناول تک کی روح کو مخدوش کردیتی ہیں جبکہ سنا جاتا ہے کہ ہالی ووڈمیں ایسا نہیں ہوتا! کیا آپ اس بات سے متفق ہیں؟
فاروقی صاحب: ہالی ووڈ کا مجھے تو معلوم نہیں۔
غلام عباس کے افسانہ آنندی پر بنی ہوئی فلم منڈی مجھے بہت پسند آئی تھی۔
چیتن بھگت کے ناول پر بنی ہوئی فلم تھری ایڈیٹ بھی ٹھیک ٹھاک تھی۔’’تھینکس ماں‘‘کے بارے میں علم نہیں کہ کسی ناول پر بنی ہے کہ نہیں۔ایک چادر میلی سی پرخود بیدی نے دستک بنائی فلاپ ہوئی لیکن اچھی تھی، غلام عباس کے اوور کوٹ پر شارٹ فلم ہے ٹھیک ہی ہے۔
خان ضمیر: میرا ایک سوال جب شاخ کے بچے صرف سالانہ امتحان دینے جامعہ آتے تھے پورے 100 مارکس کا، تب شاخ والوں کے لیے پیپر بنانے میں خاص تکنیک استعمال کرتے تھے یا جس طرح جامعہ کا پرچہ بناتے ہیں اسی طرح؟
فاروقی صاحب: کافی عرصہ تک میں سلفیہ کی امتحانی کمیٹی میں رہا، جہاں تک مجھے یاد ہے، شاخ کے طلبا کے امتحانی پرچوں کے لیےاوپر سے کوئی خاص ہدایت نہیں جاری ہوتی تھی، بس دو پرچے بنانے پڑتے تھے، ایک سو نمبر کا جس میں شاید کچھ سوالات کا اضافہ ہوتاتھا، دوسرا جامعہ کے طلبا کا جس کا پرچہ ساٹھ نمبر کا یا چالیس کا ہوتا بیس نمبر اخلاق کے ہوتے، یہ یاد نہیں کہ اخلاق والے نمبرات شروع سے تھے یا بعد میں لاگو کیے گئے۔
خان ضمیر: جزاکم اللہ خیرا۔ شیخ اسعد اعظمی صاحب ایک مرتبہ طلباء کی جوابی کاپیاں چیک کرنے کے بعد کہہ رہے تھے کہ طلباء کے جوابی لطائف پر اگر لکھنا ہو تو ایک کتاب تیار ہوجائے گی، اس بارے میں آپ اپنے تجربات اگر شیئر کریں تو بہت اچھا لگے گا، کیونکہ آپ لوگوں کو زیادہ چیک کرنا پڑتا تھا شاخ کے بچوں کی وجہ سے۔
فاروقی صاحب: پر لطف سوال آپ نے کیا۔مولانا اعظمی صاحب کا تجزیہ سو فی صد درست ہے، لڑکے ایسی پر درد کہانیاں لکھتے تھے کہ آنکھوں میں آنسو آجائے، زیادہ تر دو قسم کے قصے رہتے تھے۔
میں ایسے علاقے کا رہنے والا ہوں جہاں صرف میرا گھر اہلحدیث ہے، میں صرف اکیلا اہل حدیث طالب علم ہوں حنفی لوگ بہت تنگ کرتے ہیں، شیخ مجھے پاس کردیں گے تو پورے گاؤں کو اہل حدیث بنانے کی کوشش کروں گا۔ شیخ میری ماں بہت بوڑھی ہیں، ابا فوت ہوگئے، اماں کی دلی خواہش ہے کہ میرا بچہ سلفیہ میں پڑھے، وہ محنت مزدوری کرکے مجھے پڑھا رہی ہیں، آپ مجھے پاس کردیں گے تو میری اور میری ماں کی دعائیں لیں گے۔
جو لڑکے تپے ہوئے رہتے ہیں ان کا لب و لہجہ اور رہتا ہے، ایک لڑکا اپنے استادوں پر ہی سارا نزلہ انڈیل بیٹھا، کم بخت حرام کا کھاتے ہیں، کچھ پڑھاتے نہیں ، آپ کے سوالوں کا کیا جواب دوں، لیجیے کاپی خالی چھوڑ جاتا ہوں، آپ کا جی چاہے تو پاس کیجیے، جی چاہے تو فیل کیجیے۔بعض بچے خطبہ جمعہ اور خطبہ نکاح ہی پر اکتفا کرتے ہیں، کچھ ممتحن کی رحم دلی کا قصیدہ لکھتے رہے شاید کہ ان کا دل پگھل جائے۔
طارق اسعد: استاد گرامی!آپ کے وسعت مطالعہ کا ایک زمانہ گواہ ہے، میرا سوال یہ ہے کہ برقی کتابوں سے استفادہ کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ پی ڈی ایف کتابوں کا مطالعہ آپ کرتے ہیں؟ خاص کر جب کہ پبلشرز کے لیے یہ انتہائی گھاٹے کا سودا ہے اور بعض افراد کی جانب سے اکثر و بیشتر برقی کتب کی قرات پر سوالیہ نشان اٹھایا جاتا ہے، مطالعے کا یہ طریقہ کس حد تک مفید ہے؟ اس کے نقصانات کیا ہیں؟
فاروقی صاحب: بر قی کتابوں کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی، نقصان ناشرین کا زیادہ ہے وہ اپنی گاڑھی کمائی لگا کر کتابیں شائع کرتے ہیں، دو پیسہ کمانا چاہتے ہیں، ثواب کے لیے بھی شائع کرتے ہیں تب ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لاگت نکل آئے تو اسی پیسے سے دوسری کتاب چھاپ دیں، فائدہ مصنف اور قاری کا ہوتا ہے، مصنف کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ قاری مل جائیں، پی ڈی ایف پلک جھپکتے وائرل ہوجاتا ہے ، اسے سینکڑوں قاری مل جاتے ہیں، برصغیر میں کتابیں خرید کر پڑھنے کا چلن کم ہے، مطالعہ کے شوقین حضرات بھی مفت کی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں، انٹر نیٹ یہ سہولت انھیں بآسانی مہیا کردیتا ہے۔برقی کتابوں کا یہ فائدہ ہوا کہ وہ کتابیں جو کتب خانوں میں پڑی دم توڑ رہی ہیں، پرانی کتب جن تک ہماری رسائی مشکل بلکہ ناممکن تھی ان کا پورا ذخیرہ ہماری نظروں کے سامنے آگیا، دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں کو انٹر نیٹ سے جوڑ دیا گیا اور گھر بیٹھے ہم ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ میرا موقف یہ ہے کہ نئی کتابوں کو کم ازکم پانچ سال بعد نیٹ پر ڈالا جائے تاکہ ناشرین کا کام بھی چلتا رہے، علمی کام کرنے والوں کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ انھیں ہارڈ کاپی مل جائے، نہیں ملتی ہے تو وہ سافٹ کاپی کا رخ کرتے ہیں، میرے پاس کتابوں کا بہت تھوڑا سا ذخیرہ ہے، کتابیں میں نے بہت کم خریدیں، چوں کہ سلفیہ کی لائبریری موجود تھی، جب ضرورت پڑی اس سے کام چلا لیا، پرانی کتابیں پڑھنے کا زیادہ شوق ہے اس لیے برقی کتابیں میرے لیے نعمت غیر مترقبہ ہیں، تا ہم میری کوشش یہی رہتی ہے کہ اہم کتابوں کو پرنٹ آؤٹ کرکے ان کی جلد بندی کرالوں، برقی کتابوں سے ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ بے چارے محققین کی مارکیٹ گرا دی ، ایک زمانہ تھا کہ عربی کتابوں کی تحقیق کا بڑا کریز تھا، اس میں کمائی بھی کافی تھی، اب تو موبائل چلانے والا بھی شاملہ اور دوسری سائیٹس سے تحقیقات کا ڈھیر لگا دیتا ہے، چاہے وہ اصل متن کو سمجھ بھی نہ پائے۔ برقی کتب کے کمال کی ایک مثال دینا چاہتا ہوں، شاید ٹورنٹو کی لائبریری تھی یا کہیں اور کی اتنا یاد نہیں ۲۰۱۴ میں اس نے اپنا لنک فری کر دیا، اس میں ہندوستانی علما کی کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ تھا، ۲۰۱۶ میں لنک ڈسکنیکٹ کردیا، جس سے اپلیکیشن میں محفوظ کی ہوئی کتابیں بھی ڈیلیٹ ہوگئیں ، یہ ضرور دھیان دیں کہ جب بھی کوئی کتاب ڈاؤن لوڈ کریں اسے آف لائن اپلیکیشن یا پن ڈرائیو میں ضرور سیو کریں۔مکاتیب نذیریہ کے نسخے ہندوستان میں کمیاب تھے، ریختہ پر ضرور تھا، وہاں سے ڈاؤن لوڈ ہونا مشکل ہے، اسکرین شاٹ لینا، پھر اسے ایڈٹ کرکے پی ڈی ایف بنانا بڑی جد وجہد کا کام تھا، مجھ سے مولانا عبد المعید مدنی نے کہا یار کہیں سے مکاتیب نذیریہ حاصل کرو، غالبا میاں صاحب پر وہ سیمینار کرارہے تھے، میں نے کچھ لڑکوں کو پی ڈی ایف بھیج دی، ماشاء اللہ اس وقت میاں صاحب پر کام کرنے والے تقریبا ہر شخص کے پاس یہ کتاب موجود ہے، امید ہے کہ جلد ہی صحت کے ساتھ اس کی جدید طباعت بھی بابو رشید کے مرشدمنظر عام پر لائیں گے، بس ذرا کورونا کے بادل چھٹ جائیں۔
خبیب حسن: آپ کو شعر و شاعری سے بھی کافی شغف رہا ہے، آپ کی دس پندرہ کے قریب نظمیں دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں، نیز آپ کی خاص کاپی جس میں اہلیہ محترمہ رحمہا اللہ کی وفات پر لکھے گیے درد انگیز اشعار کے علاوہ بھی کافی کچھ اشعار موجود تھے۔ غالبا اس کاپی میں موجود سارے اشعار آپ ہی کے تھے۔سوال یہ ہے کہ:
(۱) آپ نے شعر و شاعری کب شروع کی؟ پہلی تخلیق کے منظر وپس منظر پر کچھ روشنی ڈالیں۔
(۲) آپ کا گھرانہ خالص دینی و مذہبی تھا، پھر شعر وشاعری میں دلچسپی کیسے ہوگئی؟نیز پسندیدہ شاعروں کے نام اور کیوں پسندیدہ ہیں؟
(۳) کیا 10 پندرہ تخلیقات کے علاوہ (جو ناچیز کے پاس موجود ہیں) اور بھی تخلیقات ہیں جو ضائع ہوگئیں؟ کیونکہ جامعہ سلفیہ کے بعض اساتذہ سے اس بات کا اشارہ ملا کہ آپ کی کافی کچھ تخلیقات ضائع ہوگئیں یا کسی اور کے نام سے…. الخ
فاروقی صاحب: عزیزی خبیب!شعری ادب سے مجھے دل چسپی ضرور ہے، اچھے اشعارپسند آتے ہیں، اردو شعر کی ہر صنف کا مطالعہ کیا ہے، ایک زمانے میں مشاعرہ سننے کا بھی بہت شوق تھا، مغل سرائے اور بھدوہی تک کا مشاعرہ نہیں چھوڑتا تھا۔ لیکن جہاں تک شاعری کی بات ہے ، میرے والد صاحب نےبھی نوجوانی میں اپنے نام کے ساتھ بدر کا تخلص لگایا، لیکن کبھی ایک شعر نہیں کہا، بھائی صاحب کو بھی شعر وادب سے دلچسپی ہے، ان کے زیادہ تر احباب بنارس کے اچھے شاعر ہیں، شاد عباسی، شورش بنارسی، جوہر بنارسی، لئیق عالم، مدھر جی نقوی صاحب ان کے بہت ہی قریبی دوستوں میں تھے۔ شاد صاحب ماشاء اللہ حیات ہیں، ان شاعروں کی صحبت میں بھی رہ کر کبھی وہ ایک شعر نہ کہہ سکے، میں کہاں سے شاعری کرتا ۔ میں نے کبھی قاعدے کا ایک شعر بھی نہیں کہا، ہوا یہ کہ اہلیہ کے انتقال کے بعد ذہن بالکل المیاتی بن گیا تھا، منہ سے جو بھی جملہ نکلتا یا قلم اٹھاتا تو مایوسی اور درد بھرے جذبات باہر آنے کے لیے بے تاب ہوجاتے، میں انھیں الفاظ کی شکل دے دیتا، کسی کاغذ یا کسی کاپی میں نوٹ کر لیتا، کبھی کبھی لوگوں کو سنا بھی دیتا، لڑکے تو اپنے استاد کی واہ واہی کرتے ہی ہیں اور خبیب جیسا چاہنے والا محبت کرنے والا شاگر د مل جائے تو میر غالب داغ سے ملا دے ۔ جو تمھارے پاس ہے وہ صرف جذبات ہیں، خیالات ہیں، وہ آزاد شاعری کے زمرے میں بھی نہیں آسکتے، شاعری فطرت میں ودیعت ہوتی ہے، مزاج میں رچی بسی ہوتی ہے، شاعری چیزے دیگر است۔ میرے اندر ایک شعر کہنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے، کبھی کبھی اپنے دوستوں کو بھی یہ تک بندیاں سناتا تھا، ایک بار مجھے پکڑ کر توبہ کرائی کہ آئندہ سے تم شاعری کی توہین نہیں کروگے، جن کاموں کے لیے تم بنائے گئے ہو وہی کرتے رہو۔
خبیب حسن: کانفرنس غالبا 1980 یا 87 میں شیخ صفی الرحمن صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ کے ساتھ آپ کو بھی کافی کچھ ذمہ داریاں دی گئیں تھیں اس کانفرنس کی مختصر روداد؟ غالبا آپ کی ذمہ داری کچھ خطابت سے متعلق تھی، جس سے بعد کے دور میں آپ کافی دور ہو گئے، تو وہ ذمہ داری کیسے انجام کو پہنچی؟ کچھ تفصیل۔۔۔پیشگی شکریہ۔
فاروقی صاحب: میں اور فن خطابت پڑھ لو، اس میں تائید والا واقعہ ذکر ہے، صدارت کی تجویز مولانا صفی الرحمان نے پیش کی تھی اور تائید میری تھی۔
عاصم افضال: (۱) نثری ادب کے تقریبا ہر صنف میں آپ کا مطالعہ ہے، سوال یہ ہے کہ کس صنف میں آپ کی دلچسپی زیادہ ہے اور دلچسپی کے اسباب کیا ہیں؟
(۲) نثری ادب میں آپ نے خاکے، انشائیے، افسانے اور تاریخی مضامین لکھے۔کس صنف کو لکھنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں اور وقت کی ضرورت کیا ہے؟
(۳) ترقی پسند ادبی تحریک نے اردو دنیا پر کیا اثرات مرتب کیے، صالح اور غیر صالح ادب کی تقسیم کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں، معاصر ادبی منظرنامہ پر آپ کی کیا رائے ہے؟
(۴) ہم طلبہ کے لیے ادب میں کس صنف کا مطالعہ زیادہ مفید اور کارگر ہوگا؟
فاروقی صاحب: (۱) میں یہ کبھی نہیں کہہ سکتا کہ نثری ادب کی ہر صنف کا میں نے مطالعہ کیا ہے، میں نے درجہ بندی کے ساتھ کبھی نہیں پڑھا، بس جو بھی کتاب ہاتھ لگی پڑھ ڈالا، اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ ادبی کتابوں کے مطالعہ کا آغاز رومانی ناولوں سے کیا، میں غالبا درجہ تین میں تھا، بھائی بنارس سے آتے تو اپنے پڑھنے کے لیے رومانی دنیا اور جاسوسی دنیا کے شمارے لاتے، یہ رسالے علی عباس حسینی الہ آباد سے نکالتے، رومانی دنیا میں ابن سعید یا شکیل جمالی کا ایک مختصر لیکن مکمل ناول ہوتا، جاسوسی دنیا میں ابن صفی کا ناول ہوتا، وہ چھپا کر رکھتے، ایک دن ان کے تکیہ کے نیچے سےرومانی دنیا نکال لایا ناول کا نام آنکھ مچولی تھا مصنف ابن سعید تھے اصلی نام شاید پروفیسر سید مجاور حسین تھا ظہر سے لے کر عصر تک ختم کردیا، یہ میری زندگی کا پہلا ناول تھا۔ اسی درمیان اپنے ایک دوست کے کوٹھے پر کباڑ میں ایک پتلی سی کتاب ملی، اندر چھوٹے چھوٹے افسانے تھے، کتاب کا نام تھا ’’کچے انار‘‘اس وقت بہت چھوٹے تھے عمر آٹھ سال رہی ہوگی یہ اندازہ نہیں ہوسکا کہ یہ شجر ممنوعہ ہے، ہم دونوں دوست بآواز بلند پڑھ رہے تھے، میری بہن نے دیکھ لیا، کتاب چھین لی سیدھے لے جاکر چولھے میں جھونک دی، واپس آکر ہم دونوں کی اچھی کُٹائی کی، اٹھا بیٹھک کروائی، کان پکڑ توبہ کروایا، درجہ پانچ میں تھے تو راشد الخیری کے ناول صبح زندگی، شام زندگی، ڈپٹی نذیر احمد کا توبة النصوح، عبد الحلیم شرر کا منصور موہنا، فردوس بریں اور داستان میں حاتم طائی اور سات سوال، بیربل کی کہانیاں ، شیخ چلی کے حالات پڑھ ڈالیں، یہ سب گھر ہی میں مل گئی تھیں۔ بنارس پہنچے تو دارانگر میں صادق سردھنوی کا آفتاب عالم مکمل پڑھ ڈالا، یہ ناول مولانا یونس صاحب شنکر نگری لے کر آئے تھے بعد میں وہ سلفیہ کے سفیر بنے، لمبے چوڑے اور بھاری بھرکم تھے، سلفیہ کے طلبا انھیں مولوی آسٹریلیا کہتے تھے۔
رحمانیہ سے سلفیہ تک کے سفر میں رومانی ناولوں کا ایک بڑاذخیرہ چاٹ ڈالا، ان میں منشی فیاض علی کے ناول انور، شمیم چار چار بار پڑھا، ناولوں کے نام لکھوں گا تو فہرست بہت طویل ہو جائے گی چند اہم ناول نگاروں کے نام یاد رہ گئے ہیں، نسیم انہونوی، قیسی رام پوری، ابن حیات، رئیس احمد جعفری، منشی فیاض علی، کرشن چندر، عطیہ پروین، عفت موہانی، ہاجرہ مسرور، اے آر خاتون، نادرہ خاتون، رابعہ خاتون، قرة العين حيدر، صالحہ عابد حسین ،منشی پریم چند، عبد العلیم مسرور، میکسم گورکی( اردو ترجمہ گورا اور ماں) رویند ناتھ ٹیگور( اردو ترجمہ بنام تھپیڑے) سجاد ظہیر (لندن کی ایک رات) شوکت تھانوی( مزاحیہ ناول)،بشری رحمان، واجدہ تبسم (افسانے) عبد اللہ حسین، حیات اللہ انصاری( لہو کے پھول چار جلدیں مکمل )وغیرہ۔
اس کے بعد رومانی ناولوں سے دل اچاٹ ہوگیا سری ادب پر توجہ دی، ابن صفی کا عاشق زار بن گیا، ان کے تمام ناول جن کی گنتی دو سو سے زیادہ ہوگی، کئی کئی بار پڑھ ڈالا، اب بھی میسر آجائے تو پڑھ لیتا ہوں۔ ان کے علاوہ اکرم الہ آبادی کی خان بالے سیریز، عارف مارہروی کی قیصر سیریز جو عمران کی نقل ہے، ماہنامہ مجرم میں اظہار اثر کا ناول جس کا کلیدی کردار کیپٹن زاہد ہے ان سب کامستقل قاری تھا۔
تدریسی زندگی تک آتے آتے ناولوں سے بیزاری پیدا ہوگئی، ہم نے بہت غور کیا ان سے ہم نے کیا پایا، کیا ہماری اردو بہتری ہوگئی، تخلیقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آگئیں، ہم نے جو نتیجہ نکالا وہ ناول خوانی کے حق میں نہیں ہے، صرف ابن صفی کے ناولوں سے تھوڑا بہت ضرور سیکھا ہے۔ ادب کے طالبوں کو یہی مشورہ دوں گا کہ وہ ناولوں کا مطالعہ ضرور کریں لیکن جو ادبی اور فنی اعتبار سے معیاری ہوں، کچھ سال قبل آفاقی صاحب کا ایک ناول مکان شائع ہوا تھا، بہت بصیرت افروز ہے، خشک اس قدر ہے کہ عام قاری کے بس کا نہیں ہے، وہ دریاباد دلی کے ڈی آئی جی تھے، بڑے زندہ دل آدمی تھے، کینسر ہوگیا انتقال کرگئے۔ فیس بک پر ان کا گروپ اکیسویں صدی کا فکشن ابھی موجود ہے۔
آپ نے پوچھا کہ کس صنف میں میری زیادہ دلچسپی ہے، کیا جواب دوں ، سطور بالا سے آپ یہ نتیجہ ہرگز نہ نکالیں کہ میں ناولوں ہی کا ہوکر رہ گیا تھا، یہ میری زندگی کا ایک پہلو تھا۔
اب تو دلچسپیوں کی تلاش میں ہوں، تھوڑی دیر کسی دلچسپی کے آغوش میں بیٹھ کرخود کو پرسکون بنانے کی کوشش کرتا ہوں، زندگی آگے بڑھ جاتی ہے پھر دوڑ کر اس کا پیچھا کرتا ہوں۔۲۰۱۲ کے بعد انشائیوں اور افسانے میں تھوڑی بہت دلچسپی لی، محض وقت گزاری اور دل بہلاوے کے لیے۔ مجھے احساس ہے ہمارے افسانے یا انشائیے نہ اردو ادب میں کوئی اضافہ ہیں نہ ان کی کوئی ادبی حیثیت ہے، ان سےاردو کے کوڑے دان کی سطح ضرور کچھ اونچی ہوجائے گی، ہمیں یہی لکھنا آسان لگتا ہے، کوئی محنت نہیں پڑتی بس ذرا یادوں کو کھنگالنا پڑتا ہے، کچھ گر ہیں کھولنی پڑتی ہیں، ماضی کی دنیا میں جیتا ہوں۔ خواہش ہوتی ہے کہ اس دنیا کی محفلوں میں آپ لوگوں کو بھی شریک کرلوں اس لیے جو کچھ لکھتا ہوں آپ لوگوں سے بھی شئیر کردیتاہوں۔
(۲)ہر شخص کا دماغ خیالات کا آماج گاہ ہوتا ہے، اسے تخلیقیت کی راہ سےگزارنا، مربوط شکل میں حیطۂ تحریر میں لانا آسان نہیں ہوتا ہے۔پھر اس جسم میں اس طرح روح پھونکنا کہ قاری کے دل و دماغ کو متاثر کرے بہت مشکل ہوتا ہے، افسانہ ہو یا خاکہ یا کوئی اور صنف اگر اس میں سحر کاری نہ ہو، اثر آفرینی نہ ہو تو وہ صرف بے جان لا شہ ہے، میں کسی بھی موضوع پر اسی وقت لکھتا ہوں جب وہ دماغ میں لاوے کی طرح ابلنے لگتا ہے، ما تھے کی رگیں تنّا جاتی ہیں، لکھنے کے بعد سکون مل جا تا ہے، قاری کو اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے یہ میرے سوچنے کی بات نہیں ہے،سنجیدہ تنقید سے خوشی ملتی ہے۔
وہ لوگ بہت عظیم تھے جو راہ چلتے، ماچس کی ڈبیہ پر، اخبار کے تراشوں پر لکھ دیتے تھے، میرے لیے تو بھائی لکھنے کا عمل بہت مشکل ہوتا ہے۔
آپ نے وقت کی ضرورت کی بات کس تعلق سے کی ہے یہ واضح نہیں ہوسکا،شاید آپ نے ادب کے حوالے سے پوچھا ہے؟
سماج کی تعمیر اور اصلاح میں لکھنے والوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے، لکھنے والوں کا اپنا الگ انداز اور سماج پر اپنی چھاپ چھوڑنے نیز اس کی اچھی قدروں کو ابھارنے کا اپنا الگ طریقہ ہوتا ہے، جسے وہ اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں انجام دیتا ہے، میں نہ ادیب ہوں نہ رائٹر ہوں کہ وقت کی ضرورت کے مطابق کیا لکھنا چاہیے کیا نہ لکھنا چاہیے اس موضوع پر بحث کرسکوں، صرف اتنا جانتا ہوں کہ ادیب بڑا حساس اور نازک ہوتا ہے، اس کی تحریریں وقت کے اہم مسائل کی عکاس ہوتی ہیں، ہر شخص کا میدان عمل الگ ہوتا ہے، جس طرح علما میں کٹیگریز ہوتی ہیں، کچھ لوگ مدارس میں معلم ہوتے ہیں، کچھ لوگ تصنیف و تالیف کے کام کے لیے بنائے جاتے ہیں، کچھ علما خطیب ہوتے ہیں، کچھ لوگ اپنا فریضہ یہی سمجھتے ہیں کسی کی ٹانگ گھسیٹیں، کسی کی پگڑی اچھالیں۔ آپ خطیب سے یہ توقع نہیں رکھتے ہیں کہ اس نے کتابیں کیوں نہیں لکھیں۔
بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ دائرہ مکمل کرنے کے لیے اپنے حساب سے سب لکھ رہے ہیں، انھیں وقت کی ڈیمانڈ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ہاں کسی نے اپنے حصے کا کام نہیں کیا تو یقینا اس سے باز پرس ہونی چاہیے، ایسے ادب کی تخلیق جاری رہنا چاہیے جس سے اچھے معاشرہ کی تعمیر ہوسکے، وہ قوم بدقسمت ہے جس کے پاس اچھا ادب نہ ہو۔
نصیر الحق: حضرت! عبد العلیم مسرور کے بارے میں بتائیں۔
فاروقی صاحب: ڈاکٹر علیم مسرور پانڈے حویلی وارانسی میں رہتے تھے، اچھے ہومیو پیتھ تھے، ان کی دوا کی قیمت بارہ آنے تھی۔
تعلیم یافتہ اور اچھے شاعر تھے، ان کا ایک افسانہ بیسیویں صدی میں ’’اماں‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا، جو کئی زبانوں میں شائع ہوا،۱۹۷۸ یا ۷۹ میں ان کا ناول بہت دیر کردی منظر عام پر آیا تھا، فنی اعتبار سے فن ناول نگاری میں ایک عظیم اضافہ قرار دیا گیا، بمبئی میں کئی سال رہے تھے، وہاں کی زبان لکھنے پر قادر تھے، انھوں نے طوائف کا ایک دل چسپ پہلو پیش کیا، ناول کی ہیروئین سلطانہ کا کردار بہت خوب صورت تھا، اس کے مقابلے میں ہیرو داؤد کا کردار دب سا گیا تھا، کائنات جو پراسٹیوٹ پر ریسرچ کررہی تھی، اس کا کردار کچھ خاص متاثر نہیں کرسکا، اس ناول پر طوائف کے نام سے فلم بنی ہیرو رشی کپور تھا، فلم میں وہ بات نہیں آسکی جو ناول میں ہے۔
نصیر الحق: حضرت!حفیظ بنارسی کے بارے میں بتائیں۔خاص طور سے کنگ سعود کے بنارس آ گمن کے پس منظر میں (ان کی بہت مشہور نظم تھی کوئی،اس پر بھی تاریخی اور تفصیلی روشنی ڈالیں۔کیا پردے وغیرہ کا انتظام کیا گیا تھا؟
فاروقی صاحب: حفیظ بنارسی بنارس کے مشہور شاعر تھے، رحمانیہ میں اردو کی تعلیم میرے والد صاحب سے حاصل کی اسی لیے بے چارے میری بڑی قدر کرتے تھے، عبد المتین وارثی کے بڑے ابا عبد الاول وارثی کے داماد تھے ، بی ایچ یو سے انگلش میں ایم اے کیا اور آرہ کے ایک کالج میں شاید مہاراجہ کالج نام تھا اس میں ریٹائرمنٹ تک پروفیسری کی، سبک دوشی کے بعد اپنے وطن بنارس چلے آئے، انتقال کا سن یاد نہیں، غزلیں اور نعتیں خوب کہتے تھے، مجموعہ کلام شائع ہوچکا ہے ان کے استاد مسلم حریری شاید تھے، حفیظ تومکمل اہل حدیث نہیں تھے لیکن ان کے لڑکے کٹر اہل حدیث ہیں۔
شاہ سعود ۱۹۵۵ میں انڈیا آئے تھے، یہ دعوت مولانا عبد الوھاب آروی نے جواہر لال کی وساطت سے دی تھی، یہ صحیح ہے کہ جس راستے سے گزرے تھے ان کے مندروں پر کالا کپڑا ڈال دیا گیا تھا پوری تفصیل ترجمان میں ہوگی، میں نے اس بارے میں ایک پوسٹ لکھی تھی فوٹوز بھی فیس بک پر ڈالا تھا۔
نظم لکھنے والے حفیظ بنارسی نہیں نذیر بنارسی تھے۔
نور خان: استاد محترم سے ایک سوال ہے، کیا آپ صرف تدریس کے پیشہ سے جڑے رہے؟یا کوئی اور پیشہ بھی آزمائے؟اگر ہاں تو پھر اس کی تفصیل اور تجربات؟ جزاکم اللہ خیرا
فاروقی صاحب: تدریس کے پیشے سے جو شخص وابستہ ہو جاتا ہے، اسے جلدی کوئی دوسرا پیشہ پسند ہی نہیں آتا ہے۔ تدریس کے ساتھ پارٹ ٹائم میں مختصر پیمانے پر کتابوں کی تجارت کی اور کامیابی بھی ملی، اس سے معیشت بھی بہتر ہوئی۔ کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان تھی جسے ہمارے دوسرے نمبر کے بیٹے اسکول سے چھٹی کے بعد چلاتے تھے، آگے کی تعلیم کے لیے وہ علی گڈھ چلے گئے تو بند کردینی پڑی۔
اس کے علاوہ دوبار چھوٹی موٹی تجارت کی کوشش کی، ناکامی ہاتھ آئی، کسی دوست نے کہا رہنے دے یار جانے دے یہ تیرے بس کی نہیں ہے ۔ ہم نے اس کے مشورے پر عمل کیا اور دوبارہ تجارت کی ہمت نہیں کی۔
راشد حسن: شيخنا! الہ آباد کی جماعتی تاریخ پر ممکن ہو اور مناسب لگے تو گفتگو فرمائیں۔
فاروقی صاحب: یہ حقیقت ہے کہ جماعتی تاریخ کی تدوین اور ترتیب میں اہل حدیث علما نے بہت کم توجہ دی، اللہ مغفرت فرمائے مولانا غلام رسول مہرکی جن کی وجہ سے الہ باد کے اہل حدیثوں کی تاریخ کو نئی زندگی ملی اور آنے والی نسلوں کا کام آسان ہوگیا ہے۔ الہ آباد میں اہل حدیثوں کی تعداد بہت کم ہے اور جو ہیں بکھرے ہوئے ہیں، پرتاپ گڈھ اور الہ آباد بنارس جون پور کی طرح گھر آنگن ہیں، اس لیے جب بھی الہ آباد کا ذکر آئے گا پرتاپ گڈھ کا بھی آئے گا، در اصل پرتاپ گڈھ نیا ضلع ہے جو ۱۸۵۸ء میں بنا، اس سے قبل مانک پور اور الہ آباد ضلع تھے، مانک پور بے چارہ ہمیشہ گردش زمانہ کا شکار رہا، سید سالار مسعود غازی نے اپنے مشن کا آغاز یہیں سے کیا، خلجیوں کے زمانہ میں صوبہ بنا، مغلیہ عہد میں ضلع ہوگیا، انگریزوں کے زمانے میں تحصیل بھی نہ بن سکا محض ایک چھوٹا سا قصبہ بن کر رہ گیا، جس کی تحصیل کنڈہ ہے۔
تاریخ میں اس کی اس قدر اہمیت ہے کہ سادات ہوں یا شیوخ کی برادریاں سب اپنی جڑیں یہیں آکر تلاش کرتی ہیں، بڑا مردم خیز قصبہ ہے ، مبارک پور اور اعظم گڈھ کے مضافات کا بھی یہاں سے گہرا رشتہ ہے،ہمارے خاندان کے قدیم رشتے اور مصاہرت مانک پور اور اس کے آس پاس کے مواضع سے ہیں۔
شاہ ولی اللہ کے معاصر مولانا فاخر زائر نے یہاں اہل حدیثیت کا پودا لگایا، جن کی دعوتی خدمات کو نوجوان محقق اور عربی زبان کے مصنف مولانا راشد مبارک پوری منظر عام پر لا چکے ہیں۔
ان کے بیٹے مولانا قطب الدین بھی عامل بالحدیث تھے، الہ آباد میں توحید کا یہ پودا کافی عرصہ تک بہت زیادہ شاداب نہیں ہو سکا، مولانا شاہ اجمل الہ آبادی م ۱۲۳۶ھ کا تعلق اسی خانوادہ سے تھا، جن کے نام کی طرف منسوب دائرۂ شاہ اجمل ہے۔ شاہ اجمل شاہ عبد العزیز دہلوی کے معاصر تھے، فارسی کے مشہور شاعر علی حزین نے جب ہندوستانیوں کی مذمت میں اشعار کہے تو شاہ اجمل نے ترکی بترکی جواب دیا، علی حزین بہت پریشان ہوئے تو اپنے احباب سے کہا یہ کون لڑکا ہے مجھے اس سے بچاؤ۔
۱۸۱۷کے بعد سید احمد شہید نے الہ آباد اور بنارس کے دو تبلیغی دورے کیے اس وقت الہ آباد اور مانک پور میں شاہ عبد العزیز دہلوی کے شاگردوں کا دبدبہ تھا، جو اہلحدیث تو نہیں تھے، لیکن شرک و بدعات سے دور تھے، جب سید صاحب کا قافلہ گزرا تو مولانا فاخر الہ آبادی کے لگائے پودے کو بھی سیرابی ملی، شاہ اسماعیل شہید کی تقریروں سے کئی لوگ متبعین سنت ہوگئے، شہیدین کے عقیدت مندوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مانک پور سے الہ آباد تک تین ہزار سے زیادہ زمین داروں نے بیعت کی، الحمد للہ اس میں میرا خاندان بھی شامل تھا، تحریک شہیدین میں پٹنہ کے بعد الہ آباد ہیڈ کوارٹر تھا، جس کا تذکرہ ڈاکٹر قیام الدین نے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے، پہلے یہ مرکز مہرونڈہ میں تھا، جو مئو آئمہ کے قریب ایک گاؤں ہے، شیخ غلام علی رئیس الہ آباد کا یہ گاؤں تھا، ان کی حویلی کے کھنڈرات آج بھی ہیں، سید احمد شہید کے بڑے عقیدتمندوں میں تھے، ان کا پورا قصہ سیرت سید احمد شہید مولانا غلام رسول مہر اور علی میاں ندوی کتاب میں ہے، مولانا جعفر نقوی گورکھپوری جب سرحد جانے لگے پہلے یہیں آکر رکے، ۱۸۳۴ میں غلام علی ایک لڑائی میں مارے گئےپھر یہ مرکز لب گنگا الہ آباد کے مضافات میں منتقل ہوگیا، تعین کے ساتھ گاؤں کا نام معلوم نہیں ہے، مولوی لیاقت علی۱۸۵۷ میں مہنگاؤں الہ آباد سے نکلے اور خسرو باغ الہ آباد سے کمان سنبھالی، بڑے پختہ اہل حدیث تھے، ان پرانے علما میں مولانا عبد اللہ جھاؤ تھے جو غالبا شاہ محمد اسحاق کے شاگر دتھے، ان کی بہت سی تصانیف تھیں اور ان کی ذات سے املو، مئو اور راج شاہی بنگال میں سلفیت پھیلی، ان کی تصنیفات اب مفقود ہیں،حضرت میاں صاحب کا زمانہ آیا، الہ آباد سے آپ کا خاص تعلق تھے، مئو آئمہ میں آپ کے دو تین شاگرد تھے، الہ آباد میں ایک مولانا عبد الباسط تھے، میاں صاحب کے قریبی شاگرد مولانا عبد العزیز صمدانی بھی الہ آباد کے علاقہ میں کافی عرصہ سرگرم رہے،مولانا سید محمد امین نصیر آبادی میاں صاحب کے شاگرد تھے، جو تحریک کو پرتاپ گڈھ اور الہ آباد کے گوجروں میں زندہ کرنے کی کوشش میں مصروف تھے، مولانا احمد اللہ پرتاپ گڈھی کے استاد تھے، مولانا احمد اللہ کا خاندان بھی وہابی تحریک کا حصہ تھا، قدیم اہل حدیث خاندانوں میں حکیم احمد حسین الہ آبادی بانی طبیہ کالج الہ آباد کا خاندان تھا۔
۱۸۵۷کے بعد وہابی تحریک کے ممبران اپنی شناخت کو خفیہ رکھتے تھے، کچھ افراد کا نام معلوم ہوسکا، شیخ حسن اور ان کے برادران جو سید احمد شہید کے گھر کے نگراں تھے ان کا تعلق موضع کیمہ الہ آباد سے تھا، جو سید صاحب کی شہادت کے بعد ٹونک میں بس گیا تھا، اللہ داد خاں ساکن گتنی مانک پور جو اجمل خاں پرائیوٹ سکریٹری مولانا آزاد کے دادا تھے اور ۱۸۵۷ میں مولوی لیاقت علی کے ساتھ تھے، محی الدین پورہ کے ایک صاحب تھے جو بالا کوٹ میں شہید ہوگئے تھے۔
آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس قائم ہوئی تو مولانا سیف بنارسی اور مولانا ابراہیم سیالکوٹی کی الہ آباد میں تبلیغی کو ششوں سے ان بکھرے ہوئے اہل حدیثوں کے بارے میں معلوم ہوا، ان میں ایک خاندان ڈومنی مئو تحصیل سراؤں کا متشدد اہلحدیث تھا، جن سے ہمارے خاندان کی رشتہ داری تھی، ڈپٹی عبد الغفور ساکن موضع اودھن پور، ڈاکٹر عبد الرحمان الہ آبادی (مولانا سیف بنارسی کے دوست)، پریوا نرائن پور ضلع پرتاپ گڈھ میں شیخ عظیم اللہ ان کے صاحبزادگان اور داماد مولوی اسماعیل ، خان جہاں پور ضلع الہ آباد میں مولوی نور محمد م ۱۹۱۳ تلمیذ شیخ حسین یمنی ہٹوہ، اجھنی، سید سرا واں، مہنگاؤں، لوہرا، بگھیلا پور وغیرہ الہ آباد کے مواضع میں پرانے اہل حدیث تھے۔
۱۹۱۱میں الہ آباد شہر میں مولانا سیف بنارسی اور مولانا ابراہیم سیالکوٹی نے شان دار جلسہ کرایا، جس کی تفاصیل اخبار اہلحدیث امرتسر میں مذکور ہے۔
اس موضوع پر شیخ صدیق احمد سلفی نے مقالہ بھی لکھا ہے جس کی کچھ قسطیں محدث میں شائع ہوچکی ہیں۔
خبیب حسن: مولانا عبداللہ جھاؤ پر عمیر کمال الدین الہ آبادی بھائی کا فضیلت کا مقالہ تھا۔
فاروقی صاحب: مولانا عبد اللہ جھاؤ کو مولانا نوشہروی نے نو مسلم لکھا تھا، عمیر کمال نے یہ کمال کیا کہ ان کے خاندان میں جا کر ان کا شجرہ حاصل کیا، جو حضرت ابوبکر صدیق تک پہنچتا ہے، مقالہ لکھتےہوئے وہ مسلسل میرے رابطے میں رہے، ان کے مقالے کی ایک کاپی بھی میرے پاس بنارس میں ہے۔
نصیر الحق: حضرت!کیاعبد المجید الحریری سعودی عرب میں بھارت کے سفیر ریاض/کونسلر کونسلیٹ جده تھےیا پھر کلچرل سفیرتھےیا پھر کنگ پلیس کی لائبریری کے لیے وہ نہرو کی طرف سے ریاض بھیجے گئے تھے؟؟
فاروقی صاحب: کونسلر جدہ تھے،زیادہ دنوں تک نہیں رہے۔ اس کے بعد شاہ سعود نے اپنے مکتبے کی ترتیب کے لیے ریاض بلا لیا،علمی حلقوں میں کافی متعارف تھے۔
طارق اسعد: حریری صاحب پر کوئی مفصل کتاب موجود ہے؟
فاروقی صاحب: نہیں ان پر کوئی کتاب نہیں ہےصرف مولانا یونس کی کتاب میں ان کا طویل مضمون ہے۔
عبد اللہ: شیخ! آپ کا بچپن یا بچپن کا کچھ حصہ غالباً دارالاقامہ جامعہ رحمانیہ واقع مدنپورہ میں گزرا ہے۔کچھ اس کے بارے میں بھی بتائیں،اس دور میں وہاں اقامت پذیر اساتذہ کے بارے میں،اس دور کے طلباء یا بعض نمائندہ طلبہ کے بارے میں،اہل مدنپورہ کے ان سے تعلق کے بارے میں۔
فاروقی صاحب: جامعہ رحمانیہ کا دارالاقامہ اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے، اس جگہ پر چار منزلہ خوب صورت عمارت ہے جس میں امہات المومنین گرلس انٹر کالج قائم ہے جو جامعہ سلفیہ کی نگرانی میں چلتا ہے۔
کبھی اس جگہ پر ایک تین منزلہ عمارت تھی، جس میں رحمانیہ کے اساتذہ اور طلبہ رہتے تھے، اسی عمارت میں میرا بچپن اور جوانی کا کچھ حصہ گزرا، دارالاقامہ کی ایک اہم تاریخ ہے جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکی، رحمانیہ کی تاریخ دارالاقامہ کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے، اس کا پتہ مجھے آج بھی یاد ہے، دارالاقامہ ۱۶/۷۵ پانڈے حویلی وارانسی۔
شنید ہے کہ دارالاقامہ کی عمارت مولانا سیف بنارسی کے خسر بسم اللہ خاں کا مکان تھا، اسی میں ان کا پریس بھی تھا، مکان فروخت کرکے وہ لوگ کمچھا منتقل ہوگئے، ۱۹۳۳ میں رحمانیہ کی بلڈنگ خریدی گئی تھی، دارالاقامہ کی وجہ سے بیرونی طلبہ کا داخلہ بھی ممکن ہوگیا، دارالاقامہ کی اوپری منزل میں مولانا منیر خاں شاگرد حضرت میاں صاحب رہتے تھے، درمیانی منزل میں دیگراساتذہ رہتے ، نچلی منزل میں پانچ کمرے تھے، پچھم کی سمت میں دالان کی شکل میں لمبا کمرہ تھا، جس میں مطبخ تھا، باورچی بھی اسی میں رہتا، بقیہ میں طلبہ رہتے، بعد میں دکھن کے کمرے کے باہر جو برآمدہ تھا اسے بھی کمرے کی شکل دے دی گئی تھی۔
دارالاقامہ کو فخر حاصل تھا کہ یہاں نامی گرامی شخصیتیں رہتی تھیں، مولانا عبد الغفار حسن ۱۹۳۵ میں رحمانیہ میں بحیثیت مدرس آئے، وہ جاگمباڑی کے پاس کرایہ کا مکان لے کر رہتے تھے، ۱۹۳۹ میں ماسٹر عبد الحمید صاحب آئے، ۱۹۴۲ میں والد صاحب آئے، کچھ دنوں کے لیےمولانا عبد المعید صاحب آگئے، قاری احمد سعید صاحب پرانے مدرس تھے وہ ۱۹۲۲ میں رحمانیہ میں آئے، دارالاقامہ بنا تو دوسری منزل کے جنوبی مغربی کمرہ میں انھوں نے پوری زندگی گزاردی، شاہی ٹھاٹھ سے رہتے تھے، ایک ملازم ساتھ رہتا۔
سن انیس سو پچاس کے آس پاس دارالاقامہ کی رونق شباب پر آگئی، مولانا نذیر احمد املوی صدر المدرسین تھے، مولانا عبید اللہ پیغمبر پوری، مولانا فضل الرحمان مئوی، مولانا عبد العزیز مئوی، مولانا ابراہیم بستوی، مولانا بشیر مبارک پوری، مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی ، مولانا عابد رحمانی ، مولانا عبد الحمید رحمانی اورمولانا یوسف رحمانی نے دارالاقامہ کو زینت بخشی، اس وقت طلبا کی تعداد بیس پچیس ہوا کرتی۔ مغرب بعد قاری صاحب کے کمرے میں مجلس جمتی، جس کے خاص ارکان قاری صاحب، مولانا ابوالخیر ( والد محترم) حافظ محمد عباس اور ماسٹر عبد الحمید ہوتے۔
۱۹۶۶میں جامعہ سلفیہ میں تعلیمی افتتاح ہوا تو رحمانیہ کے اونچے درجات کے طلبہ اور عربی کے مدرسین سلفیہ میں منتقل ہوگئے، دارالاقامہ میں صرف مولوی رابع تک کے طلبہ رہنے لگے، نئے مدرسین اور پرائمری درجات کے اساتذہ دارالاقامہ میں رہنے لگے، ان میں مولانا عزیز احمد ندوی، مولانا عبد السلام رحمانی، مولانا قرة العين املوي، مولانا صغیر احمد، مولانا مختار احمد، ماسٹر فیروزعربی درجات کے تھےمولانا خالد شفاء اللہ رحمانی، حافظ نصر اللہ، مولوی حفیظ اللہ، ماسٹر حمید اللہ، ماسٹر عبد الحمید، منشی خلیل، مولوی سعید اللہ، ڈاکٹر عزیز الرحمان، ماسٹر خورشید عالم ماسٹر مصطفی وغیرہ پرائمری کے معلمین تھے اوردارالاقامہ میں رہتے تھے۔
دارالاقامہ سے میرا رشتہ بہت گہرا ہے، والدہ علاج کے لیے آتیں تو اوپری منزل پر ایک کمرے میں رہتیں ، والدہ اور بہن کے بیان کے مطابق پہلی بار دارالاقامہ آئیں تو میں ڈیڑھ دو سال کا تھا، بڑے مولوی صاحب (مولانا نذیر احمد صاحب) میری آپا کو بلاتے اور کہتے ابوالقاسم کو لے کر آؤ ، اپنے تخت پر بٹھادیتے، آدھ ایک گھنٹہ کھلاتے، پھر واپس بھیج دیتے، کچھ دن کے بعد حاجی الیاس دا( سلفیہ کے بانیان میں سے ایک) نے اپنا گھر رہنے کے لیے دے دیا، ۱۹۶۲ تک اسی طرح والدہ کے ساتھ متعدد بار آنا ہوا، جب تک بنارس میں رہتا، رحمانیہ میں پڑھتا اور دارالاقامہ میں رہتا، میرے ہم عمر کئی بچے تھے ، خوب ہنگامہ کرتے، ان بچوں میں شعیب خاں( مولانا منیر خاں کے پوتے) مولانا بشیر مبارک پوری کے لڑکے انوار، مولوی سعید اللہ خاں کے لڑکے وحید اللہ اور ماسٹر عبد الحمید کے لڑکے شفاء اللہ کا نام ابھی بھی یاد ہے۔
۱۹۶۶میں رحمانیہ میں داخلہ لیا تو دو سال تک دارالاقامہ میں رہا، ۱۹۷۶ میں بحیثیت مدرس آیا تو ۱۹۸۳ تک دارالاقامہ میں رہا، غالبا ۱۹۸۸ میں وہ گرلس کالج میں تبدیل ہوگیا تھا۔
دارلاقامہ میں رہنے والے طلبا کی تعداد بڑی محدود رہتی، لیکن یہاں کے طلبا نے علمی اور دعوتی میدان میں خوب شہرت حاصل کی، مولانا عبد الصمد رحمانی، مولانا عبد الرحمان مبارک پوری، مولانا عبد السلام رحمانی، خالد شفاء اللہ ، مولانا عبد الحمید رحمانی، مولانا امر اللہ رحمانی، مولانا ابراھیم رحمانی، مولانا اشرف الحق وغیرہم ایک طویل فہرست ہے۔
ابو ارسلان: مجھے بھی الحمد للہ شاگردی کا شرف حاصل ہے۔اگر میری یادداشت دھوکہ نہیں دے رہی ہے تو ایک بار آپ نے کلاس میں ذکر کیا کہ آپ کو نام یاد رکھنے میں پریشانی ہوتی ہے، البتہ تاریخیں بآسانی یاد رہ جاتی ہیں، جبکہ یہ پہلے کے مقابلے میں انتہائی مشکل کام ہے۔شیخ محترم اس پر کچھ روشنی ڈالیں۔
فاروقی صاحب: جی میں نےکلاس میں بارہا بچوں کو اپنے اس نقص کے بارے بتایا ہے، اس کی وجہ سے طلبہ کے سامنے کئی بار شرمندگی اٹھانا پڑی، بیچارے فراغت کے سالہا سال کے بعد بڑی پر جوشی سے ملتے، جب میں کہتا کہ آپ کا نام بھول گیا تو ان کے سارے جوش پر برف کی ٹھنڈی سل پڑ جاتی، بعد میں اس کی ترکیب میں نے یہ نکالی کہ جوبھی نام زبان سے نکلا وہ لے لیا، مخاطب فورا اپنا صحیح نام بتادیتا۔
ہمارے ایک روم میٹ کئی سالوں کے بعد ممبئی مدن پورہ مسجد میں ملے، سخت ناراض ہوئے کہ سالوں ساتھ رہے اور میرا نام تک تم کو یاد نہیں رہا۔ میں نے ان سے منت سماجت کی کہ خود ہی بتادیں، مگر انھوں نے نہیں بتایا، خیر اللہ کا شکر ہے کہ نماز میں ان کا نام یاد آگیا۔
تاریخ اور سن آسانی سے یاد ہوجاتا ہے، لیکن اب بھولنے لگا ہوں، سن تو ذہن پر زور دینے سے یاد آجاتا ہے، لیکن مہینہ اور دن بھول جاتا ہوں۔
نصیر الحق: حضرت! پیغمبر پور میں بھی میاں صاحب کے شاگرد تھے؟کچھ تاریخ پر بھی اپنی روشنی ڈالیں۔
فاروقی صاحب: پیغمبر پور دربھنگہ میں ہے، یہ تین بھائی تھے تینوں شاعر اور بڑے عالم تھے۔ مولانا عبد الحلیم ناظم جو دار الحدیث رحمانیہ کے مشہور استاد، عربی و اردو شاعر ماہنامہ محدث کے ایڈیٹر تھے جوانی ہی میں غالبا ۱۹۳۴ میں ان کا انتقال ہوا۔ مولانا عبید اللہ عنبر پیغمبر پوری رحمانیہ اور عمر آباد میں بھی شاید مدرس تھے۱۹۵۶ میں انتقال ہوا۔ مولانا عبید الرحمان عاقل احمدیہ سلفیہ کے مشہور مدرس تھے، ابھی منظور عالم کے بھائی کی تدوین کے ساتھ مولانا عاقل کی اپنے بھائی مولانا ناظم پر لکھی ہوئی کتاب چٹاگانگ سے شائع ہوئی ہے۔
نصیر الحق: استاد محترم! شاید، پیغمبر پورضلع بریلی میں بھی ہے۔وہ بھی اہلحدیث/وہابیت کا مرکز تھا۔کچھ بتائیں؟
فاروقی صاحب: بریلی والے پیغمبر پور سے واقف نہیں ہوں۔
دربھنگہ والے پیغمبر پور سے واقف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مولانا عنبر صاحب والد صاحب کے خاص دوستوں میں تھے، ان کے بیٹے عبد السمیع سے بھائی صاحب کا ابھی بھی دوستانہ ہے، وہیں کا ایک لڑکا فرہاد سلفیہ کا فارغ ہے آج کل مولانا وحید الدین خاں کا دست راست ہے۔
عبد الحسیب مدنی: شیخ!فرہاد کے خان صاحب کا مرید بننے کے پیچھے کوئی خاندانی پس منظر بھی ہے؟
فاروقی صاحب: حافظ صاحب!بچہ بڑامتدین، ذہین اور نیک ہے۔ عنبر صاحب کے صاحب زادے عبد السمیع صاحب سلفیہ میں داخلہ کے لیے لائے تھے، محنتی اور ذہین طالب علم تھا، مضمون نویسی کا شوقین تھا، فراغت کے بعد دعوت کا کورس کرنے کے لیے بنگلور گیا، غیر مسلمین میں دعوت کا کورس مکمل کیا، وہیں رزق کا بھی انتظام ہوگیا۔۲۰۰۸ تک مجھ سےبرابر ملتا رہا، اس کے بعد مجھے معلوم ہوا خان صاحب کی شاگردی اپنالی، کچھ دنوں قبل شاہین باغ میں ملاقات ہوئی تھی، میں نے اس سے کہا بھائی سلفی بھائیوں سے ملا جلا کرو اگر کسی کو کچھ غلط فہمی ہو تو دور کردیا کرو۔
ابن کلیم: فاروقی صاحب!آپ کی مطبوعہ و غیرمطبوعہ تخلیقات و تحقیقات کی تعداد کتنی ہے؟ان کی فہرست،موضوع کیا ہے،تمام کا تفصیلی تعارف ضرور کروائیں۔
آپ کے پسندیدہ قلمکار اور پسندیدہ کتابیں کون کون سی ہیں؟
اس عرصے میں بے شمار بزرگ اور ہم عمر اساتذہ جامعہ کے ساتھ آپ نے وقت گزارا ان کی صلاحیتوں اور خدمات کے حوالے سے ایک سوال یہ ہے کہ کن کن اساتذہ جامعہ نے جامعہ کے طلباء کو زیادہ متاثر کیا؟
فاروقی صاحب: ابن کلیم صاحب!تصنیفات و تراجم کا ذکر میں نے کردیا ہے، مضامین کی کوئی فہرست میرے پاس نہیں ہے، نہ میں نے تحریروں کو محفوظ رکھنے کی طرف کبھی دھیان دیا، موضوعات مختلف النوع رہے، رطب و یابس سب کو شمار کروں تو ڈیڑھ سو سے زیادہ نہیں ہوں گے، اس میں بھی زیادہ تر ضائع ہوگئے جن کا ذکر بے سود ہے، ۲۰۰۷ کے بعد جو کچھ لکھا وہ محفوظ ہے۔
مضامین کا پہلے مجموعے کا کام مکمل ہوچکا ہے پہلے اس کا نام ’’کرم شب تاب‘‘رکھا تھا، اب بدل کر ’’دام ہر موج میں ہے‘‘ کردیا، یہ تاریخی اور ادبی مضامین کا مجموعہ ہے،کورونائی فضا صاف ہوتو کام آگے بڑھے۔
تاریخی گوشوں پر مضامین لکھنا زیادہ پسند ہے، تخلیقی صلاحیت سے محروم ہوں اس لیے فکری مضامین میرے بس کے نہیں ہوتے۔
مختلف ادوار میں پسندیدہ کتابیں اور پسندیدہ قلم کار بدلتے رہے، تاہم جن کی چھاپ ذہن پر گہری پڑی اور آج بھی وہ ذہن میں تازہ ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
سیرت میں رحمة للعلمين اور محسن انسانیت بہت پسند ہیں، رحمة للعالمين کی پہلی جلد مولوی ثالث میں حفظ کرلی تھی۔
مولانا عبد الماجد دریابادی کی آپ بیتی، مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن، پردہ، مولانا اسماعیل گوجرانوالہ کی جماعت اسلامی کانظریۂ حدیث، مولانا آزاد کا تذکرہ، ترجمان القرآن اور غبار خاطر، مولانا ثناء اللہ امرتسری کے مناظروں کی رودادیں۔
فکشن میں عصمت چغتائی کا ناول ٹیڑھی لکیر، کچھ منتخب افسانے، غلام عباس کے کچھ منتخب افسانے،منشی پریم چند کا گئودان اور میدان عمل، شوکت صدیقی کا خدا کی بستی، یعقوب یاور کا دل من، حیات اللہ انصاری کا لہو کے پھول، کرشن چندر کا چنار کے سائے میں، بیدی کے افسانے۔
طنز و مزاح میں رشید احمد صدیقی، شوکت تھانوی، کرنل محمد خاں، مشتاق یوسفی اور خواجہ مشفق کی تحریریں۔تحقیق میں ڈاکٹر سلمان شاہجہاں پوری، عزیر شمس، شیخ رفیع احمد،محمد تنزیل صدیقی۔
سوشل میڈیا پر لکھنے والوں میں مجھے ریاض مبارک، رشید ودود، عبد الحسیب اور سرفراز فیضی کی نگارشا ت پسند ہیں۔
ذہن میں فی الحال یہی چند نام آئے، کبھی موقع ملا تو تفصیل سے لکھوں گا۔ ان شاء اللہ
میں تو صرف اپنے اساتذہ کے بارے میں بتا سکتا ہوں اور اس کا جواب بھی دے چکا ہوں، بقیہ طلبا میں لکھنے پڑھنے والے حضرات بتاسکتے ہیں کہ وہ اپنے کن اساتذہ سے زیادہ متاثر ہوئے اور کیوں ہوئے ، در اصل اثر پذیری کے الگ الگ پہلو ہو تے ہیں اسی حساب سے نقطۂ نظر بھی بنتا ہے، مثال کے طور پر جب مولانا عبد المعید مدنی جامعہ سلفیہ آئے تو عربی لکھنے والے لڑکوں کی وہ پہلی پسند تھے، عمومی طور پر طلبہ مولانا عزیز الرحمان کے طرز تدریس سے متاثر تھے، مولانا نعیم الدین ، مولانا محمد بنارسی، مولانا اسعد اعظمی اور مولانا عبد المتین وارثی سے لڑکے ہمیشہ محبت کرتے رہے۔
عبدالرحمن عبداللہ محمدی: استاد محترم! آپ لمبے عرصہ تک جامعہ سلفیہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔تقبل الله جهودكم و جعله في ميزان حسناتكم
(۱)میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ جامعہ سلفیہ کو آپ ماضی حال اور مستقبل میں کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
(۲)جامعہ سلفیہ سے مستقبل میں کیا کیا امیدیں وابستہ ہیں؟
(۳)جامعہ میں کن امور میں اصلاح کی سخت ضرورت ہے؟
فاروقی صاحب: عزیزم!جامعہ کا ماضی انتہائی شاندار ہے، اس نے نصف صدی میں علمی اور دعوتی میدان میں جو خدمات انجام دیں ان کی تاریخ کئی جلدوں میں ہوگی، کسی بھی تعلیمی ادارہ کا سب سے بڑا سرمایہ اس کے فارغین ہوتے ہیں، جامعہ کا امتیاز یہ ہے کہ اس کے ابنا ہر ناحیہ سے جامعہ کے لیے باعث افتخار ہیں، دنیا کےتمام اسلامی جامعات میں جامعہ کے چرچے ہیں، یہ بزرگوں کی کوششوں اور مخلصانہ دعاؤں کا ثمرہ ہے۔
حال میں کیا بتاؤں آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، جس طرح انسانی قد کی لمبائی ایک عمر کے بعد رک جاتی ہے، اسی طرح جامعہ کی نشوونما بھی رک سی گئی ہے، وسائل بہت محدود ہوگئے ہیں ،عزائم اور مشاریع سمٹ سے گئے ہیں، لیکن اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ پھلتا پھولتا رہے گا۔
مستقبل کا علم صرف اللہ کو ہے۔
امید کے دیے روشن ہیں، بس ابنائے جامعہ کی نگاہ التفات چاہیے۔ارباب جامعہ صاحب بصیرت اور اہل دانش و بینش ہیں، موجودہ حالات اور جامعہ کی کیفیات پر پوری طرح نظر رکھتے ہیں ، ان کے پاس پوری ٹیم ہے، ان شاء اللہ وہ اصلاح طلب مسائل کو پہلے ہی حل کرلیں گے۔
ابن کلیم: آپ نے تقریبا چالیس پینتالیس سال کا وقت جامعہ سلفیہ میں گزارا ہے۔ اس طویل عرصے میں سلفیہ کئی ادوار سے گزرا ہوگا جس کے آپ عینی شاہد ہوں گے۔ مناسب ہو تو جامعہ کی اس پینتالیس سالہ تاریخ اور اس کے خصوصی واقعات کا ذکر ضرور کریں۔ ایسے واقعات جن کے جامعہ کے انتظامی یا تدریسی امور پر دور رس منفی یا مثبت اثرات مرتب ہوئے ہوں۔
فاروقی صاحب: الحمد للہ میں ان خوش قسمت طالب علموں میں تھا جنھیں تعلیم کے آغاز سے ۲۰۱۶تک جامعہ سے قربت کا شرف حاصل رہا، مجھے اس عظیم دینی درس گاہ کا حصہ بننے اور اس کی خدمت کرنے کا طویل عرصہ تک موقع ملا۔ ۱۹۶۸ سے ۲۰۱۶ تک جامعہ کی چھاؤں میں زندگی بسر ہوئی، اسی چمنستان کی سیر کرتے جوان ہوا اور یہیں ضعیفی کی سرحد میں داخل ہوا، یادوں کے اجالے اتنی دور تک پھیلے ہوئے ہیں کہ انھیں سمیٹنے میں زندگی کی شام ہوجائے۔
جامعہ میں گزارے ہوئے ایام، اس زمانے کے واقعات کچھ تو یاد رہے اور زیادہ تر بھول گئے، میرا مشاہدہ بھی گہرا نہیں ہے، نہ میں ان کا تجزیہ ہی کرسکتا ہوں۔ میں نے جامعہ کو جس طرح دیکھا، اس کی تلخ و شیریں یادوں کے دھندھلے نقوش جو میرے ذہن کے پردے پر باقی رہ گئے ہیں، ان کی جھلکیاں سچائی کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش ضرور کروں گا، اس میں تاریخی غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں، نقطۂ نظر سے اختلاف بھی کیاجا سکتا ہے، ممکن ہے اپنی کج فہمی اور کم علمی کی وجہ سے کسی واقعہ کی گرہیں کھولنے میں ناکام رہوں یا جامعہ کی اہم شخصیات کی خوبیوں پر روشنی ڈالنے سے قاصر رہوں یا انجانے میں کسی کو میری تحریر سے تکلیف پہنچے تو اسے میری بدنیتی نہ تصور کی جائے، میں اس کے لے پیشگی معافی کا خواستگار ہوں۔
میں اس بات کی وضاحت کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ میری زندگی جامعہ میں ضرور گزری ہے، لیکن تکنیکی اعتبار سے میں جامعہ کا مدرس کبھی نہیں رہا، میں جامعہ رحمانیہ کا مدرس تھا۔
مولانا عبد اللہ شائق رحمہ اللہ کی ایک نظم جامعہ سلفیہ کی تعریف میں کبھی شائع ہوئی تھی، جس کا ایک مصرعہ تھا: جامعہ رحمانیہ شد مرکزی دارالعلوم، اس مصرعے پر اس وقت شدید نکتہ چینی ہوئی تھی، مولانا بڑے دور رس تھے ،آج جامعہ جس شکل میں موجود ہے، اس تناظر میں مصرعے کی معنوی وسعت کا کچھ نہ کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
دونوں اداروں کی مجلس منتظمہ ایک تھی، رحمانیہ کو چلانے کے لیے انجمن جامعہ رحمانیہ قائم ہوئی، یہی انجمن سلفیہ کو بھی چلاتی تھی، دونوں کے نظما الگ تھے، دونوں ادارے ایک دوسرے میں اس طرح پیوست تھے کہ ایک دوسرے کو الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا تھا یعنی دوئی میں یکجائی تھی۔ رحمانیہ کے طلبا اور اساتذہ پہلےدارالاقامہ پانڈے حویلی میں رہتے تھے رہائش اور کھانے کا انتظام رحمانیہ کے ذمے تھا، سلفیہ میں وافر تعداد میں کمرے تیار ہوگئے تو شعبۂ عالیہ رحمانیہ کے طلبا اور اساتذہ کو سلفیہ کے احاطے میں منتقل کردیا گیا ، پانچ کمرے رحمانیہ کے شعبۂ عالیہ کے لیے مخصوص کردیے گیے۔ ہم رحمانیہ کے مدرسین اسی میں پڑھاتے تھے۔
اب رحمانیہ کا شعبۂ عالیہ اس کی پرانی بلڈنگ میں منتقل ہوچکا ہے، اس کے جو اسا تذہ پڑھاتے تھے ان کو واپس رحمانیہ میں بھیج دیا گیا ہے، یہاں لڑکیوں اور لڑکوں کی عصری تعلیم کے ساتھ لڑکیوں کے لیے عالمیت کا شعبہ پہلے ہی قائم تھا اسے فضیلت تک کردیا گیا، اب شعبۂ عالیہ کے اساتذہ اسے خوش اسلوبی سے سنبھال رہے ہیں۔
جامعہ سلفیہ کی تاریخ کو ہم دو ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں، پہلا دور ۱۹۶۶ سے ۱۹۸۹ تک اور دوسرا دور ۱۹۹۰ سے تا حال۔
پہلے دور میں نظامت کی باگ ڈور مولانا عبد الوحید عبد الحق کے ہاتھ میں تھی، جنھیں عام طور سے ناظم اعلی کہا جاتا تھا۔ آپ دور بین، معاملہ فہم، نظم و نسق کی زبردست صلاحیت والے تھے، اس دور کو ہم جامعہ کا پیک آور بھی کہہ سکتے ہیں، اس عہد میں ہر جہت سے جامعہ کی اٹھان اور ترقی کو دیکھ کر عقل ششدر رہ جاتی ہے۔
جامعہ میں اسا تذہ کا انتخاب عمریں دیکھ کر نہیں کیا جاتا تھا، جماعت کے بڑے اور اہل علم کے مشوروں سے چن چن کر نگینے جمع کیے گئے، ان میں بوڑھے اور جوان دونوں تھے،مگر سب کے سب علم کے سمندر اور تدریسی میدان کے منجھے ہوئے اور تجربہ کار لوگ تھے۔ جامعہ کی خوش قسمتی تھی کہ ہر سال سعودیہ کے دو استاد پڑھانے کے لیے آتے، مبعوثین کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کا آنا بند ہوگیا۔
الحمد للہ جامعہ میں بہت سے اساتذہ ایسے تھے جن کی شاگردی کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر تدریسی زندگی میں بھی ان کی رفاقت اور رہنمائی سے فیض یاب ہوا۔
مولانا عبد الوحید رحمانی جامعہ کے پہلے شیخ الجامعہ تھے، خوش دل ، خوش مزاج ، نفاست پسند، اساتذہ و طلبا میں یکساں ہر دل عزیز، صلح جو ۔تقریبا تیس سال تک جامعہ کے طلبا کی کمان آپ کے ہاتھ میں تھی۔
مولا نا ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری کاجامعہ کی ترقی اور بیرون ملک میں اس کی شہرت میں نمایاں کردار تھا، ازہری صاحب اور جامعہ لازم ملزوم تھے،وہ وکیل الجامعہ تھے، چند سالوں کو چھوڑ کر ( اس مدت میں آپ ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کے لیے علی گڈھ چلے گئے تھے) تقریبااڑتیس سال تک اپنے خون جگر سے جامعہ کو سیراب کرتے رہے، بلا شبہ ان کی کوششوں سے ملک و بیرون ملک کے جامعات اور علمی دنیا میں جامعہ کی شناخت قائم ہوئی، تدریس کے ساتھ دارالتالیف والترجمہ ( جس کا نام بعد میں إدارة البحوث الإسلامية للتأليف والترجمة رکھ دیا گیا) اور صوت الامہ کی ذمہ داری آپ کےاوپر تھی، اس کے علاوہ شئون الطلاب کے بہت سے اہم مسائل میں شیخ الجامعہ کے ممد اور معاون تھے، آغاز میں ناظم اعلی نے تدریسی امور، طلبا کے مسائل، ندوة الطلبة ، اساتذہ اور طلبا کی چھٹیاں وغیرہ کے سارے اختیارات اپنے پاس رکھا تھا، تعلیمی سر گرمیوں میں توسیع ہوئی تو آپ نے اندرونی اختیارات ان دونوں ہستیوں کے سپرد کردیا، آپ دونوں ہمیشہ ناظم صاحب کے رابطہ میں رہتے اور ضروری امور میں ہدایات اور مشورے لیتے رہتے۔
ڈاکٹر ازہری صاحب کاذکر چل رہا ہے تو جامعہ کے فروغ و ترقی میں ان کے کردار پر بھی ہلکی سی روشنی ڈال دوں۔ ایک چھوٹے سے رقبے پر قائم جا معہ کو یونیورسٹی کی ڈگر پر گامزن کرنے والے ازہری صاحب تھے، جامعہ کے قیام کا ایک اہم مقصد ایک علمی و تحقیقی ادارہ کا قیام بھی تھا، تعلیمی آغاز کے چند سالوں بعد ہی یہ ادارہ قائم ہوگیا، قیام میں سب سے اہم کردار شیخ عبد الصمد بھیونڈی والے نے ادا کیا، انھوں نے کانٹے کے حروف کا پور ا سٹ اپ لگوادیا، پریس آگیا،یہ ہندوستان میں اہل حدیثوں کا پہلا تحقیقی ادارہ تھا۔ ناظم اعلی نے اس کا نہ صرف سربراہ ازہری صاحب کو بنایا، بلکہ سارے اختیارات دے دیے۔ ازہری صاحب نے کتابوں کی تصنیف، تحقیق، نصابی کتابوں کی طباعت کا کام بڑی منصوبہ بندی سے کیا، ادارة البحوث چند سالوں ہی میں عربی واردو مطبوعات کا منفرد ادارہ بن گیا، اس کی شہرت عرب ممالک میں بھی پھیل گئی، آپ کی نگرانی میں ساڑھے تین سو سے زائد کتابیں اس ادارے سے شائع ہوئیں۔ آپ کی پوری کوشش تھی کہ اسلاف کا سرمایہ یہاں سے شائع ہو، تاریخ اہل حدیث مرتب ہوکر چھاپی جائے،باصلاحیت اور ذہین طلبا سے کام لیا جائے، ان کی تصنیفات یہاں سے چھپیں۔یہ صرف خواب نہیں تھا بلکہ انھیں عملی جامہ پہنانے میں ہمیشہ کوشاں رہے، یہاں سےمرعاة المفاتيح، اللمحات، تاریخ اہل حدیث( مولانا محمد رئیس ندوی) اہل حدیث اور سیاست، حیات المحدث شمس الحق ڈیانوی حیاتہ و آثارہ، العقیدة الواسطيه انگلش ترجمہ، عروہ بن اذینہ، معاویہ بن ابی سفیان، کتاب الاباطیل، نواب صاحب کی متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔
اہل حدیث اور سیاست کا انگریزی ترجمہ نظر ثانی کے لیے ڈاکٹر بہاء الدین کو آپ نے دیا، بہاؤالدین صاحب نے نظر ثانی کرکے پوری کتاب فیس بک پر اپلوڈ کردی ہے کہ شاید کوئی اللہ کا نیک بندہ اسے مرحلۂ طباعت تک پہنچادے۔
قرآن پاک کے ترجمہ و حاشیہ کے لیے مولانا محمد رئیس ندوی اور مولانا حجازی کو متعین کیا، اجرت پیشگی دے دی، ترجمہ کے لیے فنڈ ریاض میں مقیم سلفیہ کے فارغین نے جمع کیا تھا، ترجمہ کا کام غالبا مکمل ہوگیا تھا، حواشی والا حصہ رہ گیا تھا، افسوس کہ یہ کام ادھورا رہ گیا، التاریخ الاسلامی( محمو شاکر) کی چار جلدیں مختلف اساتذہ کو ترجمہ کے لیے دیں، صرف ڈاکٹر رضاء اللہ مرحوم نے اپنے حصے کا کام مکمل کردیا تھا، مولانا مستقیم صاحب سے علماء اہلحدیث کی تصنیفی خدمات لکھوائی، مولانا عزیز الرحمان اور مولانا عبد السلام سے اہل حدیثوں کی تدریسی خدمات پر کام کروایا۔ تفصیل میں جاؤں تو پوری کتاب ہوجائے۔
۱۹۹۳ تک ڈاکٹر صاحب نے ادارة البحوث الاسلامية کو ایک باوقار ادارہ بنادیا۔یہ ادارہ کوئی تجارتی ادارہ نہیں تھا کہ نفع و نقصان کا حساب کتاب لگایا جاتا، توزیع اور سپلائی میں کوتاہیاں اور خامیاں تھیں، جس کی پوری ذمہ داری ڈکٹر صاحب پر نہیں ڈالی جاسکتی تھی۔یہ حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں سلفیہ کے متخرجین نے اپنا سکہ جمایا تو دوسری طرف جامعہ سلفیہ کی مطبوعات نے اسے دنیا بھر کے علمی حلقوں میں متعارف کرایا۔
جامعہ سلفیہ کا دوسرا دور آیاتو پہلے ازہری صاحب کے اختیارات میں دخل اندازی ہونے لگی، کتابوں کی چھپائی کم ہونے لگی، بہت سی اہم کتابیں چاہ کر بھی وہ نہیں چھاپ سکے۔ ازہری صاحب کی خواہش تھی کہ ڈاکٹر بہاء الدین کی تاریخ اہل حدیث سلفیہ سے شائع ہو، بہاء الدین کے نام خطوط میں ازہری صاحب کا یہ درد چھلک اٹھا، یہ خطوط ڈاکٹر بہاء الدین نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر شئیر کردیا ہے، جسے دیکھنا ہے دیکھ لے۔
دوسرے دور میں آہستہ آہستہ یہ ادارہ ڈاکٹر صاحب سے چھین لیا گیا، ان کے دل پر کیا گزری ہوگی، جس پودےکو انھوں نے خون جگر سے سینچا، جب وہ تناور درخت بن گیا تو اسے کاٹ دیا گیا، اب تو إدارة البحوث کا پریس بھی ختم ہوگیا، اس کے اسٹاف کو رخصت کردیا گیا، کاغذ پر تویہ نام ہے لیکن عملی طور پر یہ ادارہ صرف رسمی رہ گیا ہے۔
جامعہ سلفیہ اپنی عظیم الشان کانفرنسوں اور تاریخی و علمی سیمیناروں کے لیے کافی مشہور ہے۔ مگر اب یہ ماضی کی صرف یادیں بن چکی ہیں، ان سب کی کامیابی میں ڈاکٹر ازہری صاحب کا اہم کردار رہا ہے، وہ ان کے روح رواں بھی تھے اور محرک بھی۔یقیناناظم اعلی صاحب کا آپ کے اوپر اعتماد تھا،منتظمہ اور اساتذہ کا تعاون حاصل تھا۔ آپ کی کوشش تھی کہ عصری جامعات اور علما میں جو گیپ ہے اسے ختم کیا جائے، یونیورسٹیوں کے علمی لوگوں سے جامعہ کے اساتذہ میں صرف انہی کے روابط تھے، افہام و تفہیم کے لیے،سیمیناروں میں مقالہ خوانی کے لیے انھیں بلاتے، جوہر شناس تھے، کانفرنسوں اور سیمیناروں کے لیے خاکے بناتے مناسب لوگوں کو ذمہ داریاں سپرد کرتے، سیرت کانفرنس ، موسم ثقافی،۱۹۸۰ کی کانفرنس، شیخ الاسلام کانفرنس وغیرہ کی تفصیلات محدث اور صوت الجامعہ کے خاص نمبروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ شیخ الاسلام کانفرنس میں اس کم علم کو آپ نے موقع دیا، دعوت نامہ ، اشتہار، جامعہ کا انگلش اور اردو میں تعارف نامہ حتی کہ شیخ ابن باز کے پیغام کا ترجمہ، برنامج اور نامہ نگاری کا کام بھی مجھ سے لیا، ازہری صاحب جامعہ میں نہ ہوتے تو شاید ان عظیم سرگرمیوں کے رنگ اتنے شوخ اور گہرے نہ ہوتے۔
مقامی طور پر بین ا لمذاھب جلسوں اور اجتماعات میں خیر سگالی شرکت اور ان میں سلفیہ کی نمائندگی کے لیے آپ کی کوششوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سارناتھ میں بدھسٹوں کی عالمی کانفرنس ہوئی تو اسلام کی نمائندگی کے لیے جامعہ سے رابطہ کیا گیا، ڈاکٹر صاحب نے حافظ عبد الحکیم اور ان کے ساتھ چند اساتذہ کو بھیجا، کرائسٹ نگر بھوجو بیر وارانسی میں بین المذاھب انٹر نیشنل کانفرنس تھی، دنیا بھر سے مختلف مذاہب کی بڑی ہستیاں آئی تھیں، اسلام کی نمائندگی کے لیے ازہری صاحب مدعو تھے، مجھے اور چند رفقا کو لے کر اس میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ اسلام کے تعارف میں اپنا مقالہ بھی پیش کیا، مقالے کا انگلش ورژن میں نے کیا تھا، متعدد بار مجھے ماسٹر احمد حسین کے ساتھ عیسائیوں کے کالج اور ان کے سینٹر میتری بھون بھیجا، مجھے اسلام کا تعارف پیش کرنا اور ان کے طلبا اور اساتذہ کا جواب دینا ہوتا، اس ناحیے سے غیر مسلمین میں ڈاکٹر صاحب نے جامعہ کو جس طرح متعارف کرایا وہ بے نظیر ہے۔
جامعہ کے لیے ڈاکٹر صاحب ہمہ وقت کوئی نہ کوئی منصوبہ بناتے رہتے۔ ایک بار مجھے بلایا اور عربی کےمراسلاتی کورس کے بارے میں بحث کی، کچھ خاکہ انھوں نے پہلے ہی تیار کر لیا تھا، وہ میرے حوالہ کردیا، حکم ہوا کہ ابتدائی چیزوں اور گر امر پر کام شروع کرو، کچھ کتابیں بھی دیں، میں نے ایک ڈیڑھ ماہ یہ کام کیا، میڈیم انگلش تھا، مقصد عصری جامعات کے لوگوں میں عربی کو متعارف کرانا تھا، ہم نے یونیورسٹی کے اپنے ایک استاد پروفیسر محمد طہ سے ذکر کردیا، انھوں نے سمجھایا کہ اس کے لیےباقاعدہ اسٹاف بنانا پڑے گا، تم ڈاکٹر صاحب کو بتادو، ان کو تفصیل سے بتایا بات ان کی سمجھ میں آگئی، اس منصوبے سے دست بردار ہوگئے، میرے پاس اس کے اوراق محفوظ ہیں پھر کہنے لگے لڑکوں کی ایسے ٹیکنکل کاموں کی تربیت کا انتظام ہونا چاہیے کہ فراغت کے بعد لڑکے بے روزگار نہ رہیں۔
باتیں بہت ہیں، جامعہ سلفیہ کے لیےڈاکٹر ازہری صاحب نے جو کچھ کیا، خلوص دل سے کیا، ہر شخص کے اندر خامیاں اور کچھ کمیاں رہتی ہیں ان میں بھی رہی ہوں گی، ہمیں ان سے غرض نہیں ہے ہم تو صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جامعہ کے فروغ کے لیے انھوں نےاس طرح زندگی وقف کردی کہ جامعہ اور وہ لازم ملزوم بن گئے، جامعہ کے لیے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ، ان کے جانے کے بعد جامعہ میں کو ئی ایساشخص نہیں آسکا جو ان کے خلا کو پر کرسکے۔
یہ اللہ کا خصوصی کرم اور بزرگوں کی مخلصانہ کوششوں اور دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ جامعہ کا تعلیمی معیار دوسرے مدارس کے مقابلے میں ہمیشہ بہتر رہا، مرکزیت کے ٹھپہ کی وجہ سے اس میں ایسی کشش تھی کہ اہل حدیث طلبا کی پہلی ترجیح جامعہ تھا، آغاز میں طلبہ کم تھے، ۱۹۷۵ سے ۱۹۸۰ تک طلبا کی اس قدر کثرت ہونے لگی کہ جگہ تنگ پڑگئی،یہ زمانہ جامعہ کی شاندار اٹھان اور پھبن کا تھا، اس دور کے جو طلبا یہاں سے نکلے آفتاب بن کر چمکے۔
۱۹۸۱ میں اچانک اسٹرائک کا واقعہ پیش آیا،یہ ایک نوخیز ادارے کے لیے بڑا نازک موقع تھا، جسے سنبھالنا بڑا مشکل ثابت ہوا۔ چالیس برس بعد اس حادثہ کے محرکات اور نتائج کو حیطہ تحریر میں لانا میرے لیے ناممکن ہے، میں اس وقت دارالاقامہ پانڈے حویلی میں رہتا تھا، سلفیہ کے گیٹ میں تالا لگا ہوا تھا، کسی لڑکے نے تالا کھولا اندر داخل ہوا، معلوم ہوا اسٹرائک ہوگئی ہے، کچھ طلبہ بڑے غصے میں ہیں، اندر کا کنٹرول انھوں نے سنبھالا ہوا ہے، عجیب سا منظر تھا اساتذہ کنارے کنارے تھے، کوئی کچھ بتانے کے لیے تیار نہیں تھا، ناظم اعلی اور انتظامیہ کے کچھ لوگ بھی آگئے، کوئی متشدد انہ واردات نہیں ہوئی ، ارباب جامعہ نے جامعہ بند کرنے اور طلبا کو اپنے اپنے گھر جانے کا حکم دیا۔
اس کے بعد اخراج کی کارروائی شروع ہوئی، واضح رہے کہ اس وقت شیخ الجامعہ اور ازہری صاحب سعودیہ گئے ہوئے تھے، ادارتی ذمہ داری شیخ انیس کے سپرد تھی۔
بہت ساری چیزیں ذہن سے نکل گئیں ، مسئلہ کوئی بڑا نہیں تھا، غالبا تعمیری کام چل رہا تھا، اس میں پانی زیادہ لگ جاتا تھا، لڑکوں کے نہانے دھونے کے لیے پانی کی قلت ہوجاتی تھی، لڑکوں نے کئی بار شیخ انیس سے شکایت کی، انھوں نے ان سنی کردی، ایک بارلڑکوں اور مزدوروں کے درمیان تو تو میں میں ہوگئی، لڑکوں نے شیخ صاحب کو بلایا، وہ لڑکوں کو ہی پھٹکار نے لگے، کچھ لڑکے جوش میں حد اعتدال سے آگے بڑھ گئے اور اسٹرائیک کا آغاز ہوگیا۔یہ تفصیل ہمیں کچھ لڑکوں نے بتائی تھی شیخ انیس ذرا بھی دور اندیشی اور ڈپلومیسی سے کام لیتے تو یہ حادثہ نہ ہوتا۔
کتنے لڑکوں کا اخراج ہوا یہ مجھے یاد نہیں، اتنا ضرور معلوم ہے کہ بہت سے بچے جامعہ کے کریم تھے، آج بھی ان کے علم کی شہرت ہے۔
شیخ الجامعہ اور ازہری صاحب کے آنے کے بعد مخرجین میں بہت سے بچوں کو بلانے کے لیے خطوط گئے، کچھ واپس آگئے زیادہ تر نے اپنا راستہ تلاش کر لیا تھا۔
عام طور پر بڑے مدارس اس قسم کے حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ ندوہ کی عمر بھی جب تیرہ چودہ سال کی ہوئی وہ بھی اسٹرائیک کی زد میں آگیا تھا، ممکن تھا اس کا وجود ہی ختم ہوجاتا لیکن مولاناآزاد اور مولانا ثناء اللہ امرتسری آگے آگئے اور اضطراب کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔ اسٹرائیکیں مدارس کی رفتار ترقی پر بہت اثر انداز ہوتی ہیں،جامعہ جس تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، اس میں ٹھہراؤ سا آگیا۔ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ساتویں سے آٹھویں دہائی تک سلفیہ کے بزرگ اور بڑے مدرسین جامعہ سے رخصت ہوچکے تھے،۱۹۷۸ میں مولانا محمد ادریس آزاد املوی انتقال کرگئے، ۱۹۸۰ میں مولانا عبد المعید بنارسی بھی اللہ کو پیارے ہوگئے، ۱۹۸۲ میں مولانا شمس الحق بیماری کی وجہ سے اپنے وطن چلے گئے،مولانا عظیم اللہ مئوی، مولانا احمد اللہ بنگالی اور مولانا مصلح الدین اعظمی آب و ہوا راس نہ آنے کی وجہ سے مستعفی ہوکر چلے گئے۔ نوجوان عالموں میں مولانا عبد الحمید رحمانی ، مولانا عبد الرحمن لیثی ،مولانا عبد السلام مدنی اورمولانا صفی الرحمان کا اضافہ ہوا۔مولا نا رحمانی اور مولانا لیثی بہت جلد جامعہ سے الگ ہوگئے۔ کئی مقامی علما مدینہ سے بی اے کرکے آئے تو اپنا تعاقد سلفیہ میں کرالیا۔ اس طرح نوجوان علما کی اکثریت ہوگئی داخلوں میں کٹوتی کردی گئی لیکن الحمد للہ جلد ہی اس کی تلخیوں کے نقوش دھندھلے پڑگئے، یہ سب ناظم اعلی، شیخ الجامعہ اور ازہری صاحب کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔
تعلیمی آغاز سے آٹھویں دہائی تک جماعت کے سرکردہ لوگوں اور جامعہ کے منتظمین میں جامعہ سلفیہ کی توسیع کے لیے شدید جذبہ اور جنون تھا، انھیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ جامعہ کے محل وقوع میں توسیع کی گنجائش قطعا نہیں ہے، جامعہ کے پڑوس میں جے نرائن انٹر کالج ہے جس کا مالک کرسچین ٹرسٹ ہےاس کا رقبہ بہت بڑا ہے، اس کے غیر آباد ہوسٹل کو خریدنے کی بات چلی، اس ہوسٹل کا رقبہ تخمینا دو ڈھائی بیگھہ ہوگا، شاید بیعانہ کے طور پر کچھ رقم بھی دی گئی تھی بات بن نہیں سکی، ارباب جامعہ کے دماغ میں یہ بات یقینا تھی کہ جس عظیم جامعہ کا ہم نے خواب دیکھا ہے، آج نہیں تو کل اسے شہر سے باہر منتقل کرنا پڑے گا، اسی مقصد سے مرزا مراد یا روہنیا میں تقریبا سات آٹھ بیگھہ کا ایک بڑا پلاٹ خرایدا گیا،۱۹۸۰ کی کانفرنس میں تشریف لانے والے مہمانوں کو یہ پلاٹ دکھایا گیا، ان میں امام حرم سبیل رحمہ اللہ بھی تھے۔ کچھ دنوں کے بعد ہندوؤں نے روڑے اٹکائے اس میں ایک چھوٹا سا مندر بھی تھا اسی کو بنیاد بناکر ہندوؤں نے رام بنام اللہ کے نام سے مقدمہ قائم کردیا، لڑائی جھگڑے کی اس زمین کو لےکر کیا کرتے بالآخر سلفیہ والے اس زمین سے دست بردار ہوگئے۔
جامعہ کو مکمل یونیورسٹی بنانے کی جد جہد اتنی تیز تھی کہ جامعہ ہی میں ایک طبیہ کالج کے قیام کی طرف جامعہ نے قدم بڑھادیا، سن ٹھیک سے یاد نہیں ہے ۱۹۷۸یا ۱۹۷۹ میں طبیہ کالج کا افتتاح کردیا گیا۔ حکیم عبد الحمید، حکیم حماد عثمانی، حکیم ضیا ، حکیم ابوبکر اور فن طب کی مشہور ہستیاں تشریف لائیں، شاندار طریقے سے طبیہ کالج کا افتتاح ہوا، پہلے پری طب یعنی سائنس کی تعلیم شروع ہوئی، جمعیت بلڈنگ کو طلبہ کا ہاسٹل بنادیا گیا،یہ پروگرام دو سال سے زیادہ نہیں چل سکا، لڑکے ادارہ کے رجسٹریشن کے لیے ہنگامہ کرنے لگے، عاجز آکر انتظامیہ نے ان کا سامان چھین لیا اور انھیں بھگا دیا، طبیہ کالج ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔ اب یہ نہیں معلوم کہ جامعہ کے طلبہ کو طبیہ کے لڑکوں سے کچھ تحریک ملی تھی کہ نہیں۔
جمعیت بلڈنگ کو انتظامیہ نے شاندار بلڈنگ میں تبدیل کردیا، بارہ چودہ سال قبل اس میں المنار بوائز کے نام سے کانونٹ اسکول کھول دیا گیا ہے، اس کی تعلیمی پیش رفت بھی کافی مشکوک ہے، اسی طرح دارالاقامہ کی جگہ ایک شاندار بلڈنگ بنادی گئی جس میں امہات المومنین گرلس کالج کے نام سے لڑکیوں کا ایک اسکول بنادیا گیا ہے، دونوں اسکول سلفیہ کے ہیں اور سلفیہ کی نگرانی میں چلتے ہیں۔ مقامی طور پر مسلم معاشرہ میں یہ ادارےتعلیم کےحوالے سےضرور فائدے مند ہیں لیکن جامعہ کے اہداف و مقاصد سے میل نہیں کھاتےاور نہ اس سے عام جماعت کا کوئی فائدہ ہے۔ جماعتی کاز کو ایک خاص مقام تک محدود نہیں کرنا چاہیے، مجھے یاد ہے کہ ایک بار نجدی علما کا ایک وفد آیا تھا امہات میں غیر مسلم عورتو ں کو پڑھاتے دیکھ کر ان لوگوں نے کہا واللہ یہ کالج جامعہ کے لیے ایک کلنک ہے۔
بیلینس بلڈنگ کی تعمیر نو کا صحیح استعمال ہوا کہ اس میں متوسطہ اور ثانویہ کے شعبے منتقل کردیے گئے۔
۱۹۸۹ میں بڑے ناظم کا انتقال ہوگیا ان کی جگہ کو کوئی پر کرنے والا نہیں تھا، تین چار سال نظما بدلتے رہے، تعلیم کے مراحل اور نصاب تعلیم میں کئی تجربے کیے گئے، جس سے فائدہ کم نقصان زیادہ ہوا۔ فضیلت اور عالمیت کے کلاسز میں تبدیلی سے بہت سے بچوں کوفضیلت کا کور س پورا کرنے کے باوجود عالمیت کی سند پر اکتفا کرنا پڑا کچھ بچوں کا فائدہ ہوا وہ عالمیت کے بعد فضیلت آخر میں جمپ کرگئے۔ کویت اور عراق کی جنگ کے بعد ایمرجنسی میں نصاب میں رد وبدل کیا گیا، جس سے تعلیمی معیار میں فرق آگیا۔ غالبا ۱۹۹۵ میں جامعہ میں ایک اور المناک حادثہ ہوا، گرمیوں کے دن تھےجامعہ کے ایک استاد کمرے سے باہر سورہے تھے، چھت سے کسی نے چودہ کلو کا سمنٹ کا جما ہوا ایک تودہ پھینک دیا، جو ان کے کولھے پر گرا، الحمدللہ ان کی نہ صرف جان بچ گئی بلکہ کولھے کا گوشت اور ہڈی محفوظ رہی، اللہ جانے پتھر گرانے والا کون تھا۔یہ تو یاد نہیں کہ اس بارے میں کیا تحقیق ہوئی اور اس کا کوئی نتیجہ نکلا بھی یا نہیں؟ بہر حال اس پاداش میں چھپن لڑکے نکال دیے گئے، مجھے بے حد افسوس ہوا، والدین نے کتنی تمناؤں سے انھیں دینی تعلیم کے لیے بھیجا ہوگا، ظاہر ہے قصور ایک دو کا رہا ہوگا خمیازہ بے قصوروں نے بھگتا، ان کے مستقبل کا کیا ہوا ہوگا، پڑھنے کا موقع ملا ہوتا تو کتنے دینی کام کرتے، بہر حال رموز مملکت خویش خسرواں دانند۔
غالبا ۱۹۹۴یا ۹۵ میں مولانا عبد اللہ سعود جامعہ کے مستقل ناظم بنے، وہ تیز طرار ہیں، ذہین ہیں، ان کے اندر غضب کا اعتماد ہے، غلط ہو یا صحیح فوری فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، نظم ونسق میں اپنے والد کا آئینہ ہیں، اپنی صلاحیتوں کو وہ مثبت اور تعمیری انداز سے استعمال کرتے تو بزرگوں کے دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکتے تھے، جامعہ کو حقیقت میں مرکزی ادارہ بناسکتے تھے۔
انھوں نےجامعہ کی جہت ہی بدل دی، تو سیع کے بجائے وہ تخفیف کے راستے پر چل پڑے ، مرکزی ادارے کو عملا شخصی ادارہ بنادیا، جس میں چھوٹے بڑے ہر معاملہ کا کلی اختیار صرف ایک شخص کوہوتا ہے، منتظمہ بے حد کمزور ہے، اصحاب مناصب کے منہ پر تالے ہیں، ایک دو بولنے والے ہیں تو انھیں جا معہ کا مخلص نہیں سمجھا جاتا ہے، تعلیم کا معیار تجربات کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ اساتذہ بے چارے دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کیسے کرسکتے ہیں؟اللہ سے دعا ہے کہ جامعہ کی پرانی رونقیں لوٹ آئیں۔ آمین
نصیرالحق: حضرت استاد صاحب! اب چلتے چلتے آپ ہم تمام چیلوں کو نصیحت کرتے جائیے۔
فاروقی صاحب: میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ دنیا حقیقی اور مادی سے زیادہ پرچھائیوں کی دنیا بنتی جارہی ہے، تہذیبیں بنتی اور بگڑتی ہیں، نظریات آتے اور جاتے ہیں، اسلام کے علاوہ کسی کے پاس جینے کا مکمل نظام نہیں ہے۔ موجودہ دنیا میں ہم اس نظام کی خوبیوں کو کن اسالیب میں آشکارا کریں،یہ ذمہ داری ہمارے نوجوان علما پر ہے، ہم خود کو بے چہرگی اور لاسمتی سے کیسے بچائیں، ہندوستان میں امت مسلمہ کے وجود،اس کے تشخصات اورتراث کی حفاظت آپ کے شانوں پر ہے، یہ امانت آپ کو اگلی نسلوں تک ہر حال میں پہنچانا ہے۔
كوئس جدا