ایک شخص نے ایک مجلس میں تقریباً پندرہ لوگوں کو ہوا سے بھرا ہوا غبارہ دیا اور اس کے بعد یہ اعلان کر دیا کہ جس کا غبارہ محفوظ رہ جائے گا وہی فاتح اور انعام کا مستحق قرار پائے گا۔ اس اعلان کے بعد ہر ایک اپنا غبارہ بچا کر دوسرے کا غبارہ توڑنے لگا، نتیجہ یہ ہوا کہ چند لمحہ بعد غبارہ سے ہر ایک کا ہاتھ خالی تھا، کسی کا بھی غبارہ محفوظ نہیں تھا۔ اعلان کرنے والے نے کہا کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ ہر ایک کا غبارہ محفوظ رہ جاتا، ایسا ہو سکتا تھا، اگر کوئی کسی کا غبارہ نہ توڑتا تو سب غبارے محفوظ رہتے اور ہر ایک انعام کا مستحق ہوتا۔
یہ چھوٹی سی تمثیل ہے ہماری زندگی کی، یہ صرف غباروں کا معاملہ نہیں بلکہ ہم ہر میدان میں ایسا ہی کرنے کے عادی ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ترقی کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانا ضروری ہے، دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر ہم ترقی کا سفر نہیں طے کر سکتے۔ اس لیے خصوصاً مسلمان دوسروں کی ترقی اور مقبولیت کو برداشت نہیں کر پاتا، حالانکہ جس طرح کوئی بھی شخص دوسرے کے غبارے پر حملہ نہ کرتا تو ہر ایک کا غبارہ محفوظ رہ سکتا تھا اسی طرح ہر ایک شخص اگر اپنے اپنے میدان میں محنت کرے تو ترقی اس کی قدم بوسی کرے گی مگر ہم تو اپنے غبارے کے تحفظ کے متعلق کم سوچتے ہیں زیادہ صلاحیت اس فکر میں لگاتے ہیں کہ دوسروں کے غباروں کو کس طرح توڑا جا سکے۔
اس وقت عام طور پر مسلمان اسی منفی سوچ کا حامل ہے، اسے اپنی ترقی کی فکر نہیں ہے۔ وہ اس موضوع پر کم ہی سوچتا ہے اور اپنی فکری صلاحیت کا زیادہ حصہ اس بات پر صرف کرتا ہے کہ دوسروں کو ترقی یا مقبولیت سے کس طرح روکا جائے۔ وہ دوسروں کی ترقی روک کر خود ترقی کرنا چاہتا ہے، وہ دوسروں کو بدنام کر کے نیک نام بننا چاہتا ہے۔ مگر دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔ وقتی طور پر کچھ دقت اور پریشانی کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے مگر بعد میں مقبولیت اسی کو ملتی ہے جس کا حق ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انبیاء اور رسول اپنے دور کے ظالموں کے ظلم سے مٹ جاتے، ان کا صرف تاریخ میں نام ہوتا۔ مگر ظالم تاریخ کا حصہ بن گئے اور برگزیدہ بندے اپنی قیادت و سیادت اور مقبولیت کی تاریخ رقم کر گئے۔
ما شاء الله بہت خوب. ایسی ہی مختصر اور مفيد تحریروں کی ضرورت ہے. بارك الله فيكم.
ماشاء اللہ
بہت خوب
جزاک اللہ خیرا