کہا جاتا ہے کہ حادثات انسان کو ہیرو بنا دیتے ہیں یا زیرو بنا دیتے ہیں، ہیرو اور زیرو بننا حادثہ سے نبرد آزما ہونے والے شخص پر موقوف ہے کہ وہ کیا بنے گا۔ اگر وہ شخص حوصلہ مند ہے تو حادثہ اس کے اندر جوش و ولولہ بھر دیتا ہے، خون کی روانی اور گرمی دونوں بڑھ جاتی ہے اور پھر وہ کھوئی ہوئی چیز کو پانے کے لیے اپنی آنکھوں میں ایک خواب سجا لیتا ہے جو خواب اسے سونے نہیں دیتا کیونکہ خواب تو وہی ہے جو آدمی کو سونے نہ دے، خواب وہ نہیں ہے جو آدمی نیند کے عالم میں دیکھتا ہے۔ آدمی جب اپنی آنکھوں میں خواب سجا لیتا ہے تو اسے پانے کے لیے کوئی بھی قیمت چکا سکتا ہے کیوں نہ اسے اپنی عزیز جان ہی داؤ پر لگانی پڑے، یہاں تک کہ وہ شخص حصول مقصد میں کامیاب ہو کر ہیرو بن جاتا ہے۔ بر خلاف اس کے حادثہ سے نبرد آزما ہونے والا شخص اگر حوصلہ مند نہیں ہے تو ایک چھوٹا سا حادثہ بھی اس کے ذہن و دماغ پر ایسی ضرب لگاتا ہے جس سے وہ اندر باہر ٹوٹ کر اس قدر پاش پاش ہو جاتا ہے کہ اس کی حیثیت سماج و معاشرہ میں ہمیشہ کے لیے زیرو بن جاتی ہے۔
مسلمان چونکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان رکھتا ہے اور اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ موت و حیات اور زندگی میں پیش آنے والے حادثات سب اللہ تعالی کی مرضی و مشیت سے ہوتے ہیں نیز اللہ تعالی اپنے اصول کے اعتبار سے کسی بھی شخص پر اتنا بوجھ نہیں ڈالے گا جسے وہ برداشت نہ کرسکے کیونکہ اس نے واضح لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (سورہ بقرہ: 286)
اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
اس ایمان و یقین کے بعد کوئی بھی مسلمان کبھی بھی حوصلہ شکنی کا شکار ہو کر زیرو نہیں بنتا بلکہ حادثہ اس کے اندر اور طاقت و توانائی پیدا کر دیتا ہے، حوصلہ بلند ہوتا ہے اور اپنی سابقہ خامیوں کا جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھنے اور ہدف کو پالینے کا عزم مصمم کر لیتا ہے یہاں تک کہ دنیا اسے تاریخ میں وقت کا ہیرو لکھتی ہے۔
بابری مسجد کا انہدام ایک بہت بڑا حادثہ تو تھا ہی مگر اس کا فیصلہ اس سے بھی بڑا حادثہ ثابت ہوا، اس فیصلہ سے پوری دنیا عموماً اور ہندوستانی مسلمان خصوصاً سکتہ میں آ گئے۔ اور کیوں نہ آتے جس مسجد کو پوری دنیا نے اپنے سر کی آنکھوں سے بلا عینک دیکھا تھا اور اب بھی آنکھ بند کرنے کے بعد تینوں گنبد صاف دکھلائی دے رہے ہیں اس مسجد کو تمام آئین و قوانین اور شواہد کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف آستھا کی بنیاد پر مندر کے حوالے کر دیا گیا اور اسے “آستھا کا مندر” کے نام سے موسوم کیا گیا ۔
فیصلہ سے سکتے میں آنا فطری بات ہے اور آج مورخہ 5/ اگست 2020 کو رام مندر کی بھومی پوجا اور سنگ بنیاد کا منظر دیکھ کر جھٹکا لگنا بھی یقینی ہے، مگر یہ وقت ہے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کا، حوصلہ اور عزم مستحکم کرنے کا، پست ہمت نہ ہونے کا اور اس بات پر یقین کرنے کا کہ کل اس عظیم سیکولر ملک میں ضرور کوئی انصاف پسند پیدا ہوگا جو فیصلہ میں تسلیم شدہ امور کو بنیاد بنا کر اس فیصلہ کو رد کر دے گا پھر اسی طرح نقشہ بدل جائے گا جس طرح قسطنطنیہ میں آیا صوفیا مسجد کا نقشہ بدلا۔
ابن انشا نے لکھا ہے کہ لاٹھی سب سے مضبوط دلیل ہمیشہ رہی ہے، کل بھی تھی آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی، سپریم کورٹ کے فیصلہ کا ایک ایک لفظ بول رہا ہے کہ اس فیصلے میں ابن انشا کی دلیل سے ہی فیصلہ دیا گیا ہے، جو ہماری ہار نہیں جیت ہے، نیز ہمارا دعوی یہ تھا کہ کسی مندر یا ہندو عبادت گاہ کو توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی گئی ہے، جبکہ فریق مخالف کا دعوی یہ تھا کہ مندر توڑ کر مسجد تعمیر ہوئی ہے، سپریم کورٹ نے صراحت کے ساتھ تسلیم کیا کہ مسجد کے نیچے کھدائی میں جو آثار ملے وہ بارہویں صدی کی کسی عمارت کے تھے بابری مسجد کی تعمیر سے چار سو سال قبل لہذا کسی مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی ہے۔ کیا سپریم کورٹ کا یہ تسلیم کرنا ہماری جیت نہیں؟ اور ان جھوٹے دعویداروں کی شکست فاش نہیں جو دنیا کی آنکھ میں دھول جھونک کر مندر توڑنے کا پروپیگنڈا کر رہے تھے، بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ 22/ دسمبر 1949 کی رات تک نماز ہوتی رہی ہے جو ہماری جیت ہے اور سپریم کورٹ کا یہ تسلیم کرنا کہ 22/ دسمبر 1949 میں مورتیوں کا رکھا جانا ایک غیر قانونی اور غیر دستوری عمل تھا یہ فریق مخالف کی شکست فاش ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں میں یہ عرض کروں کہ حوصلہ شکنی اور پست ہمتی کی نہ کوئی وجہ ہے اور نہ ہی کوئی ضرورت، بلکہ ایسے ہی حالات میں جب زندہ دل قومیں ایمانداری کے ساتھ اپنا جائزہ لیتی ہیں اور عزم محکم کے ساتھ میدان عمل میں اترتی ہیں تو ایک نئی تاریخ رقم کرتی ہیں، جس تاریخ میں جوش و ولولہ ہوتا ہے، عزم و استحکام ہوتا ہے، طاقت و توانائی ہوتی ہے، فتح و نصرت ہوتی ہے، دنیا پر چھا جانے کا مضبوط حوصلہ ہوتا ہے، بجلی کی طرح کڑکتی ہیں اور طوفان کی طرح بڑھ کر ناموافق حالات کو بھی اپنے موافق بنا لیتی ہیں، اور دنیا میں ہیرو بن جاتی ہیں کیونکہ ہمیشہ حادثات اور ناموافق حالات کے ہی بطن سے ہیرو پیدا ہوتے ہیں۔ مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید نہیں یقین ہے کہ ان حادثات و واقعات سے آپ ولا تھنوا و لا تحزنواکی تصویر نہیں بنیں گے، بلکہ و انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین کی تاریخ رقم کریں گے۔ ان شاء الله
آپ کے تبصرے