اطمینان و سکون کا راز

محمد مظہر الاعظمی سماجیات

یہ دنیا ہے جہاں ہر شخص کو مختلف حالات سے دوچار ہونا پڑے گا،دکھ درد، حزن و ملال اور غم سہنا پڑے گا۔ یہ صرف جنت کی خصوصیت ہے کہ وہاں جانے کے بعد نہ تو کسی قسم کا خوف اور دہشت ہوگی اور نہ ہی حزن و ملال ہوگا جیسا کہ قرآن کریم نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے کہا ہے:
مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْن
( سورہ بقرہ:۶۲)جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان لایا اور عمل صالح کیا ان کے لیے ان کے رب کے پاس اس کا اجر ہے،نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی کوئی حزن و غم۔
اگر کوئی شخص اس دنیا کے اندر بھی دوسروں کے مقابلہ میں پرسکون زندگی گزارنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہو اور دوسروں کے کام آئے،اللہ تعالی اس کے لیے بھی سکون کا راستہ ہموار کر دے گااور مصائب و آلام سے محفوظ رکھے گا۔اور ایسے حالات میں بھی جبکہ آدمی حد درجہ اضطراب کا شکار ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی سبیل پیدا کر دے گا،ایسا تصور تو قبل اسلام بھی تھا اور آج تو مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہی ہے۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہلی وحی کے نزول کے بعد واپس ہوئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي یعنی مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔اس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
كَلاَّ وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَق
(آپ کو اللہ تعالی کبھی رسوا نہیں کرے گا،آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں،بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں،مفلسوں کے لیے کماتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں اور مشکل وقت میں حق کا ساتھ دیتے ہیں)
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھارس بندھاتے ہوئے اور تسلی دیتے ہوئے جو باتیں کہی ہیں قابل غور بھی ہیں اور قابل عمل بھی،ایک شخص جو اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ حتی المقدور غریبوں،مسکینوں اور ضرورت مندوں کے ساتھ کھڑا رہتا ہے اور ان کے کام آتا ہے وہ شخص بہت ہی پر سکون اور اطمینان بخش زندگی گزارتا ہےاور کسی بھی ناگفتہ بہ حالت میں وہ سوچتا ہے اور سوچ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ چلو میں نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا ہے،اس لیے میرے ساتھ بھی ان شاء الله کچھ برا نہیں ہوگا۔اس وقت اس کے دلی سکون اور اطمینان کی جو کیفیت ہوتی ہے اسے نہ شیئر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی لفظوں میں تعبیر ممکن ہے،اگر کوئی شخص اس ذہنی تناؤ بھری دنیا میں کچھ اطمینان و سکون چاہتا ہے تو اسے ’’أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب‘‘ کی تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رکھنے کے ساتھ مخلوق خدا کو اپنے اعضاء و جوارح اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے تمام وسائل کے ذریعہ فائدہ پہنچانا ہوگا،اس دنیا میں ثمرہ اطمینان و سکون کی شکل میں ہوگااور آخرت میں تو اللہ تعالیٰ نے متعدد مقام پر یہ کہہ کر بتا دیا کہ:
ﻓَﻠَﮭُﻢْ أَﺟْﺮُھُﻢْ ﻋِﻨﺪَ رَﺑِّﮭِﻢْ وَﻻَ ﺧَﻮْفٌ ﻋَﻠَﯿْﮭِﻢْ وَﻻَ ھُﻢْ ﯾَﺤْﺰَﻧُﻮنَ

برخلاف اس کے جو لوگ ان صفات سے متصف نہیں ہوتے بلکہ ان کی زبان،ہاتھ اور اعضاء و جوارح سے کوئی محفوظ نہیں رہتا وہ سکون و اطمینان سے بالکل محروم رہتے ہیں،وہ اپنے کو دنیا کے جتنے بھی زیادہ محفوظ مقام پر محفوظ کرلیں مگر ذہنی طور پر خوف و دہشت کے سایہ میں زندگی گزارتے ہیں، کیوں کہ ان کا ضمیر اسے مسلسل قلق و اضطراب میں یہ کہہ کر رکھتا ہے کہ تم نے جن لوگوں پر ظلم کیا ہے وہ موقع ملنے پر تمھیں بخشیں گے نہیں۔
اس سچائی پر تاریخ بھی گواہ ہے اور تجربات بھی،مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ کچھ لوگوں نے مسلسل مجھ پر ظلم کیا مگر میں نے کبھی پلٹ کر جواب نہیں دیا،ایک موقع پر جب ان ظالموں کو احساس ہوا کہ اب ظلم کا بدلہ لیا جا سکتا ہے تو خود ہی حساب لگا کر کہنے لگے کہ اتنے سال کا بدلہ لینے کے لیے کہہ رہے،جبکہ ایسی کوئی بات خواب و خیال میں نہ تھی، مگر ایک بات تو کھل کر سامنے آگئی کہ ظالم کو اپنا پورا ظلم بھی یاد رہتا ہے اور ظلم کی بنیاد پر خوف زدہ بھی رہتا ہے کہ موقع ملنے پر ہم سے بدلہ بھی لیا جا سکتا ہے،اس لیے ظالم کو نہ اس دنیا میں سکون ملتا ہے اور نہ ہی آخرت میں ملے گا۔
آئیے ہم عہد و پیمان اور قصد کریں کہ اپنی ذات سے مخلوق خدا کو فائدہ تو پہنچائیں گے کبھی نقصان نہیں، عدل سے کام لیں گے ظلم سے نہیں تاکہ اس عارضی دنیا میں بھی سکون ملے اور آخرت میں بھی ’’لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون‘‘ کا مصداق ہوں۔

آپ کے تبصرے

3000