اقلیت کی کامیابی کا راز

محمد مظہر الاعظمی معاملات

دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ اکثریت کے زعم نے ہمیشہ اقلیت پر ظلم کو روا رکھا ہے اور اقلیت نے ہمیشہ اس زعم باطل کا جواب حکمت سے دیا ہے،طاقت سے نہیں۔کیوں کہ یہ دنیا دار الاسباب ہے،بغیر سبب اور ذریعہ کے کوئی چیز وجود میں نہیں آتی۔شق قمر کا معجزہ بھی اس وقت وجود پذیر ہوا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا ۔
ہندوستان میں ہم اقلیت میں ہیں، مگر سب سے بڑی اقلیت میں، جب چھوٹی چھوٹی اقلیتیں جی رہی ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں۔ہم پر تو ظلم صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ اکثریت کو ہم سے خوف ہے، انھیں اندر سے یہ احساس ستا رہا ہے کہ اگر یہ جاگ گئے اور اصل دین کی طرف پلٹ گئے تو ہمارا کیا ہوگا،ایسا نہ ہو کہ ہمارا حساب چکتا کر دیا جائے ۔ مختلف غیر مسلم دانشوروں نے تو اس حقیقت کو بہت کھل کر کہا کہ ’’ اگر مسلمان صحیح مسلمان بن جائیں تو کوئی مسلمانوں کا بال بیکا نہیں کر سکتا‘‘۔ اب تک یہ باتیں علماء اسلام قرآن کریم کی اس آیت کریمہ:یَاْاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا آمِنُوْا[سورہ نساء:۱۳۶] (اے ایمان والو!ایمان لے آؤ) کی روشنی میں کہتے رہے مگر اب غیروں کایہی بات کرنے کا مطلب ہے وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی صورت حال خود ان کی اسلامی تعلیمات سے دوری کا ثمرہ ہے، مگر افسوس کہ ہم اس حقیقت کو سمجھتے نہیں اور اپنی ناکامی اور ذلت و رسوائی کی وجہ مخالفین اسلام کی ریشہ دوانی قرار دیتے ہیں اور غیروں کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں، جو امر واقع کے خلاف اور غلط ہے۔
مکہ میں مسلمان بہت ہی اقلیت میں تھے،اور جوتھے وہ بھی منتشر تھے،ایسی حالت میں مکہ والوں کی زیادتی اور ظلم و بربریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا حکمت و دانائی کے منافی تھا، اس لیے مکہ والوں کا غیر انسانی رویہ برداشت کرتے رہے اور خون کے آنسو روتے رہے،مگر دنیا دار الاسباب ہے،جب مدینہ ہجرت کے بعد مسلمانوں کے پاس افرادی طاقت کے ساتھ وسائل و اسباب بھی مہیا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے جہاد کی اجازت دی،رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے موقع پر دعا اور گریہ وزاری اس طرح کی کہ مبارک شانہ سے چادر گر گئی، تب اللہ تعالیٰ کی مدد آئی اور مسلمان جنگ بدر میں فتحیاب ہوئے۔
مکہ میں مسلمانوں کی کسمپرسی کے عالم سے فتح جنگ بدر تک کا سنجیدگی سے جائزہ لیجیے تو یہ کہنا پڑے گا کہ ہندوستان کی موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کو اپنے استحکام تک حکمت عملی سے کام لینا پڑے گا جس طرح مکہ میں حکمت عملی سے کام لیا گیا تھا،اللہ تعالیٰ بھی ظاہری اسباب کے بعد ہی نصرت و مدد بھیجتا ہے اگرچہ ظاہری اسباب مختصر ہی کیوں نہ ہوں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ آج بھی ہندوستان کے حالات مکہ کے حالات سے زیادہ بدتر نہیں ہیں،پھر بھی ان حالات سے باہر نکلنے کے لیے حکمت عملی سے کام لینا ہوگا اور مد مقابل سے زیادہ محنت کرنی ہوگی ۔
ہم اکثر یہودیوں کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہیں اور اقلیت کے باوجود ہر میدان میں ان کے غلبہ کا تذکرہ کرتے ہیں مگر یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ان کی سوچ کیا ہے اور ہماری فکر کیا ہے؟ دونوں کے درمیان کس قدر فرق ہے۔
ایک شخص نے شکاگو کے ایک یہودی ادارے کے سربراہ سے پوچھا کہ یہودیوں کی تعلیمی برتری کا راز کیا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم اپنے بچوں کو شروع ہی سے یہ بات باور کراتے ہیں کہ تم اقلیت میں ہو اور عیسائی اکثریت میں،وہ تمھارے ساتھ نا انصافی کریں گے،تم اتنی محنت کرو کہ اکثریت کے مقابلے میں اپنے کو زیادہ با صلاحیت ثابت کرکے دکھاؤ،اگر کسی پوسٹ کے لیے سو امیدوار ہوں تو تمھارے لیے صرف پانچ فیصد کا موقع ہوگااور دوسرے فریق کے لیے پنچانوے فیصد،مگر جب تک پنچانوے والے سے زیادہ باصلاحیت نہ بن جاؤ،اس وقت تک کوئی آگے بڑھنے کا موقع نہیں دے گا۔
ایک یہودی کی سوچ اقلیت میں ہونے کی وجہ سے یہ ہے،کیوں کہ انھیں معلوم ہے اور بھرپور احساس بھی کہ اکثریت والے ہم پر ظلم کریں گے،اس لیے ان کا مقابلہ گلہ اور شکوہ سے نہیں بلکہ حکمت عملی اور محنت سے کیا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے وہ کامیاب ہیں اور ہم ان کی کامیابی کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ برخلاف اس کےہمارے پاس نہ کوئی حکمت عملی ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام،اگر ہمارے پاس کوئی چیز ہے تو صرف اقلیت میں ہونے کا گلہ شکوہ ، اس پر ہم امامت کا خواب دیکھتے ہیں،اس لیے پھر میں عرض کروں کہ دنیا دار الاسباب ہے یہاں شق القمر کے لیے بھی انگلی کا اشارہ چاہیے،اس لیے ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہوگا کہ ہم یہاں ضرور اقلیت میں ہیں مگر اقلیت میں ہونا کوئی معیوب بات نہیں،ہاں اقلیت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، جنھیں پورا کرکے ہم اقلیت کے باوجود غلبہ حاصل کر سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم کو اکثریت سے زیادہ ہر میدان میں محنت کرنی ہوگی۔

آپ کے تبصرے

3000